مذہبی اجتماعات کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے ۔۔۔ شیخو کی ایک پرانی تحریر

پردیسی

محفلین
یہ تحریر میرے دوست شیخو کی ہے ۔۔ مگر میں اس سے سو فیصد متفق ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذہبی اجتماعات کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے

جہاں دیکھو میلاد ، جہاں دیکھو مجلس ، جہاں دیکھو کوئی نہ کوئی محفل ۔۔۔
اگر آپ کو اپنے مذہب سے اتنی ہی عقیدت ہے اور آپ اس کو مانتے بھی ہیں تو ایک جگہ مقرر کرلیں ۔ پھر جو جی چاہے کریں ۔۔لوگوں کو تو قربانی کا بکرا نہ بنائیں اور نہ ہی کوئی ایسا سیکورٹی رسک پیدا کریں جس سے عام معصوم انسانوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو۔

کیا آپ لوگوں کے اس طرح سر عام اجتماعات کرنے سے لوگ آپ کے مذہب کی طرف راغب ہو جائیں گے ؟
میرے خیال میں اگر ہم لوگوں نے تفرقہ بازی ، ایک دوسرے سے نفرت ، شدت پسندی اور دہشت گردی جیسے عنفریت کا خاتمہ کرنا ہے تو جلد یا بدیر ہمیں ایسے اقدام کرنا ہوں گے کہ جس سے خصوصا پاکستان میں رہنے والے انسان سکھ اور آزادی کا سانس لے سکیں ۔
اہل تشیع ہوں ، بریلوی ہوں ، دیوبندی ہوں یا کہ اہلحدیث ۔۔سب کو اپنے مذہبی اجتماعات اپنی قائم کردہ یا گورنمنٹ کی مخصوص کردہ جگہوں پر کرنے چاہئے۔سڑکوں ، گلیوں یا بازاروں میں ہر قسم کے اجتماعات پر مکمل پابندی لگا دینی چاہئے ۔
ہم تمام لوگوں کو سر عام مذہبی اجتماعات کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے تاکہ پاکستان کا عام مسلمان سکھ کا سانس لے سکے۔اگر پاکستان میں مذہبی اجتماعات مخصوص کردہ جگہوں پر ہونے لگے تو آپ دیکھئے گا کہ اور کچھ ہو نہ ہو پاکستان میں تفرقہ بازی ضرور ختم ہو جائے گی
 

پردیسی

محفلین
برادر شمشاد میرا خیال ہے میری یہ تحریر ویٹنگ فا موڈریشن چل رہی ہے۔۔۔۔ اگر اس تحریر میں کوئی برائی نہیں ہے برائے مہربانی اسے فورم میں اوپن کر دیا جائے
 

پردیسی

محفلین
برادر عسکری عربوں روپے سالانہ ان اجتماعت کی سیکورٹی پر خرچ ہوتے ہیں،چلیں پیسوں کو ایک طرف رکھ کر آپ یہ بھی دیکھیں کہ عام آدمی جن کی تعداد پچانوے پرسنٹ ہے وہ ان اجتماعات سے کتنا پریشان ہوتا ہے۔
میرا یہ موقف نہیں ہے کہ مذہبی اجتماعات نہیں ہونے چاہئے یا ان پر پابندی لگا دینی چاہئے۔۔۔۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ہر ایک کو آزادی ہونی چاہئے مگر ایک لمٹ میں رہ کر ۔۔۔
اب ایسا نہیں کہ کوئی اٹھ کر سڑکوں پر آ کر اپنی مذہبی عبادات کر کے عام لوگوں میں دخل اندازی کا سبب بنے۔۔۔ یا کہ پوری سڑکیں بند کر دی جائیں
پہلے حالات مختلف ہوا کرتے تھے،لوگوں میں برداشت کا مادہ ہوتا تھا۔ اب حالات کے ساتھ ساتھ ماحول میں ، برداشت میں بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔۔۔
ہمیں آج نہیں تو کل سوچنا ہوگا کہ چاہے کوئی بھی ہو،کسی بھی مذہب ،فرقے سے تعلق رکھتا ہو ۔۔۔اس کو اپنی مذہبی عبادات، رسومات اپنی جگہ یا گورنمنٹ کی مخصوص کردہ جگہ پر کرنے چاہئے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بے شک۔ سنی اکثریتی ملک ترکی اور شیعہ اکثریتی ملک آذربائجان کی طرح یہاں بھی عوامی جگہوں پر ہر قسم کے مذہبی اجتماعات پر پابندی ہونی چاہیے۔ جس کو جو کرنا ہے وہ شوق سے اپنی عبادت گاہوں میں دل بھر کر کرے۔

لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پابندی کو بھی فرقہ واریت پر محمول کیا جائے گا، شیعہ اپنے جلوسوں پر پابندی قبول نہیں کریں گے اور اسے سنی اکثریت کی کی دھونس سمجھیں گے۔ بریلوی اپنے جلوسوں پر پابندی کا مطلب ذکرِ رسول پر پابندی سے لیں گے اور سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل آئیں گے۔ اسی طرح اہلِ حدیث یا دیوبندیوں کے جلسے جلوسوں پر بھی پابندی لگانا آسان نہیں۔ پابندی ضرور لگنی چاہیے، لیکن حکومت کے لیے پابندی لگانا بھی بہت مشکل کام ہے۔
 

ساجد

محفلین
پردیسی بھائی ، اللہ آپ کا اور آپ کے دوست شیخو کا بھلا کرے جنہوں نے اتنی جرات رندانہ دکھائی۔ اب کیا کہا جائے اور کیا لکھا جائے کہ علماء کرام ہم سے زیادہ اس بات کا ادراک رکھنے کے باوجود ایسے کاموں کا جزو لاینفک ہیں۔
بات صرف مذہبی اجتماعات تک ہی موقوف نہیں رہنی چاہیے ، سیاسی جلسے ، شادی ، منگنی ، قل خوانی ، چہلم ، کاروباری کمپنیوں کے عوامی اجتماعات اور دیگر اقسام کے اجتماعات جو راستوں کو بند کر کے منعقد کئے جاتے ہیں عوام کے لئے شدید تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔
مجھے ابھی تک وہ تکلیف دہ لمحات یاد آتے ہیں تو اذیت ہوتی ہے جب پچھلے سال ہماری پوری فیملی ڈینگی کا شکار ہو گئی تھی اور میرے بیٹے کا مرض شدت اختیار کر گیا ۔ جب اسے بلیڈنگ شروع ہو گئی تو ڈاکٹروں نے اسے کسی دوسرے ہسپتال کے لئے ریفر کیا۔ خدا کی پناہ کہ جب پورا لاہور ڈینگی کی آفت میں جکڑا ہوا تھا جنرل ہسپتال کو جانے والی سڑک پر میلاد کروایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے سڑک مکمل بند تھی اور ٹریفک کا بہاؤ الٹی طرف کر دینے کی وجہ سے آمنے سامنے کی گاڑیوں کی وجہ سے باقی راستہ بھی بند ہو گیا۔ اب بچے کے بہتے خون اور مرض کی خطرناکی کے عالم میں گاڑی کے ٹریفک میں پھنسے دوران ہی پنڈال سے مولوی صاحب کے انسانیت پر جاری بھاشن پر جتنی گالیاں میرے منہ سے اس میلاد کے منتظمین کے لئے نکلیں شاید ہی کبھی کسی کے لئے نکلی ہوں۔ اور اس ”نیکی کے کام“ کی ایک تشہیر اگلے دن یوں بھی ہوئی کہ اس محفل پر اسراف کی حد تک کی گئی لائٹنگ چوری کی بجلی سے کی گئی تھی جس پر واپڈا والوں نے دوران محفل ہی چھاپہ مار لیا تھا لیکن تقریب کے ختم ہونے تک کارروائی نہ کی۔
اللہ بچائے ہمیں ایسی منافقت سے جس میں دین کے نام پر ہی دین کی تعلیمات کے خلاف کام کئے جائیں۔
میرا ووٹ آپ کے ساتھ ہے کہ ہرقسم کے مذہبی ، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی اجتماعات اور جلوسوں کو سڑکوں پر منعقد کرنے کی ممانعت ہونی چاہئیے۔
 
میری ذاتی رائے سے شاید آپ لوگ متفق نہ ہوں۔
میرے حساب سے لوگوں کے لیے مذہبی تہواراور خاص دن تفریح کے زمرے میں آتے ہیں۔
آپ کو ان تہوار اور خاص دنوں میں لوگ زیادہ ایکٹیو دکھائی دیں گے۔
1۔ عیدالاضحی
2۔ شب برات
3۔ 12 ربیع الاول
4۔ 9 اور 10 محرم الحرام
جب کہ ان ‎‎تہوار اور خاص دنوں میں لوگ زیادہ ایکٹیو دکھائی نہیں دیں گے۔
1۔ عیدالفطر
2۔ شب معراج
 

انتہا

محفلین
میری ذاتی رائے سے شاید آپ لوگ متفق نہ ہوں۔
میرے حساب سے لوگوں کے لیے مذہبی تہواراور خاص دن تفریح کے زمرے میں آتے ہیں۔
آپ کو ان تہوار اور خاص دنوں میں لوگ زیادہ ایکٹیو دکھائی دیں گے۔
1۔ عیدالاضحی
2۔ شب برات
3۔ 12 ربیع الاول
4۔ 9 اور 10 محرم الحرام
جب کہ ان ‎‎تہوار اور خاص دنوں میں لوگ زیادہ ایکٹیو دکھائی نہیں دیں گے۔
1۔ عیدالفطر
2۔ شب معراج
انیس بھائی، گیارہویں اور کونڈوں کو کہاں بھول گئے؟
 

عسکری

معطل
برادر عسکری عربوں روپے سالانہ ان اجتماعت کی سیکورٹی پر خرچ ہوتے ہیں،چلیں پیسوں کو ایک طرف رکھ کر آپ یہ بھی دیکھیں کہ عام آدمی جن کی تعداد پچانوے پرسنٹ ہے وہ ان اجتماعات سے کتنا پریشان ہوتا ہے۔
میرا یہ موقف نہیں ہے کہ مذہبی اجتماعات نہیں ہونے چاہئے یا ان پر پابندی لگا دینی چاہئے۔۔۔ ۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ہر ایک کو آزادی ہونی چاہئے مگر ایک لمٹ میں رہ کر ۔۔۔
اب ایسا نہیں کہ کوئی اٹھ کر سڑکوں پر آ کر اپنی مذہبی عبادات کر کے عام لوگوں میں دخل اندازی کا سبب بنے۔۔۔ یا کہ پوری سڑکیں بند کر دی جائیں
پہلے حالات مختلف ہوا کرتے تھے،لوگوں میں برداشت کا مادہ ہوتا تھا۔ اب حالات کے ساتھ ساتھ ماحول میں ، برداشت میں بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔۔۔
ہمیں آج نہیں تو کل سوچنا ہوگا کہ چاہے کوئی بھی ہو،کسی بھی مذہب ،فرقے سے تعلق رکھتا ہو ۔۔۔ اس کو اپنی مذہبی عبادات، رسومات اپنی جگہ یا گورنمنٹ کی مخصوص کردہ جگہ پر کرنے چاہئے۔
میں نے کب روکا ہے میرے لیے مذہب پر پابندی لگا دیں:biggrin: میں کچھ بولوں تو سولی پر لٹکا دیں ساری لڑائی اور خؤن خرابے جو ہو رہے ہیں اسی وجہ سے تو ہو رہے ہین اور کیا پاکستان میںگڑھوں کی کمی تھی جو ہر جگہ بم پٹھا پھٹا کر پاکستان کھود مارا ہے انہوں نے :laughing:
 

ساجد

محفلین
انیس بھائی، گیارہویں اور کونڈوں کو کہاں بھول گئے؟
دیکھیں جی کوئی کچھ بھی منانا چاہتا ہے ہمیں اس پر اعتراض نہیں ۔ لیکن جب اس کے عمل سے پبلک ڈسٹرب ہو رہی تو اسے پابند کیا جائے کہ وہ اپنی celebrationکو چار دیواری تک محدود رکھے۔
اسی طرح سے شور کا معاملہ ہے ۔ میوزک کی بلندآواز ہو یا مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر قرآن کی تلاوت ، نعت خوانی اور علماء کا بیان ، نہیں ہونا چاہئیے۔
 

یوسف-2

محفلین
جزاک اللہ پردیسی برادر !ایک بہت اہم تحریرجو آج کی شدید ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس بات کا کھلے عام مطالبہ (غالباََ) سب سے پہلے ایک معروف صحافی محمد صلاح الدین شہید نے آج سے کوئی دو ڈھائی عشرہ قبل اخبارات کے ذریعہ کیا تھا۔ انہوں نے کئی بار لکھا تھا کہ پاکستان میں ہرقسم کے سیاسی، سماجی اور مذہبی جلوسوں پر پابندی ہونی چاہئے۔ اور اس قسم کے اجتماعات صرف اور صرف مقررہ اور منظور شدہ ”چہار دیواری“ کے اندر منعقد کی جاسکتی ہیں۔
سنیوں نے اپنے ”مذہبی جلسے جلوس“ شیعہ برادری کے ”مقابلہ“ میں شروع کئے ہیں۔ جبکہ شیعہ اکثریتی ملک ایران میں آج بھی سڑکوں پر کوئی جلوس نہیں نکلتا۔ بلکہ ایک ایرانی شیعہ آیت اللہ (نام اس وقت بھول رہا ہوں) نے تو محرم الحرام کے جلوسوں کے خلاف فتویٰ بھی دیا تھا۔ حال ہی میں پاکستان آئے ہوئے ایرانی صدر نے واضح طور پر کہا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ شیعہ تھے اور نہ ہی سنی۔ تو کیا ہم شیعہ سنی سے بالا تر ہوکر ”مسلمان“ بننے کے لئے تیار نہیں ہیں؟ اگر ہم سب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے مطابق ”مسلمان“ بننے کا فیصلہ کرلیں تو پھر ہمیں کسی بھی مسلک کے نام سے سڑکوں پر جلوس نکالنے کی ضرورت نہیں ہوا کرے گی۔ کہ دین اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام مین صرف اور صرف عیدین کے موقع پر نماز عید کے لئے بڑے اجتماع کی گنجائش ہے۔
آج ایک ایک شہر میں کروڑوں افراد رہتے ہیں۔ جہاں چند گھنٹوں کے ئے بھی راستہ کو بلاک کردینے سے لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں چہ جائیکہ تین تین دن کے لئے سڑکیں اور شاہراہیں مکمل طور پر بند کردی جائیں اور وہ بھی اُس دین کے ماننے والوں کی طرف سے، جو ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ راستوں کو صاف رکھو۔ راستے پر پڑے کانٹوں اور پتھروں کو دور کردیا کرو۔ اور راہ میں بیٹھ کر راستہ بند نہ کرو۔
 

حسان خان

لائبریرین
جبکہ شیعہ اکثریتی ملک ایران میں آج بھی سڑکوں پر کوئی جلوس نہیں نکلتا۔

ایران میں تو سڑکوں پر جلوس نکلتے ہیں، لیکن شیعہ اکثریتی ملک آذربائجان میں عوامی جگہوں پر ہر طرح کے مذہبی اجتماعات پر پابندی ہے۔
 
پردیسی بھائی ، اللہ آپ کا اور آپ کے دوست شیخو کا بھلا کرے جنہوں نے اتنی جرات رندانہ دکھائی۔ اب کیا کہا جائے اور کیا لکھا جائے کہ علماء کرام ہم سے زیادہ اس بات کا ادراک رکھنے کے باوجود ایسے کاموں کا جزو لاینفک ہیں۔
بات صرف مذہبی اجتماعات تک ہی موقوف نہیں رہنی چاہیے ، سیاسی جلسے ، شادی ، منگنی ، قل خوانی ، چہلم ، کاروباری کمپنیوں کے عوامی اجتماعات اور دیگر اقسام کے اجتماعات جو راستوں کو بند کر کے منعقد کئے جاتے ہیں عوام کے لئے شدید تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔
مجھے ابھی تک وہ تکلیف دہ لمحات یاد آتے ہیں تو اذیت ہوتی ہے جب پچھلے سال ہماری پوری فیملی ڈینگی کا شکار ہو گئی تھی اور میرے بیٹے کا مرض شدت اختیار کر گیا ۔ جب اسے بلیڈنگ شروع ہو گئی تو ڈاکٹروں نے اسے کسی دوسرے ہسپتال کے لئے ریفر کیا۔ خدا کی پناہ کہ جب پورا لاہور ڈینگی کی آفت میں جکڑا ہوا تھا جنرل ہسپتال کو جانے والی سڑک پر میلاد کروایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے سڑک مکمل بند تھی اور ٹریفک کا بہاؤ الٹی طرف کر دینے کی وجہ سے آمنے سامنے کی گاڑیوں کی وجہ سے باقی راستہ بھی بند ہو گیا۔ اب بچے کے بہتے خون اور مرض کی خطرناکی کے عالم میں گاڑی کے ٹریفک میں پھنسے دوران ہی پنڈال سے مولوی صاحب کے انسانیت پر جاری بھاشن پر جتنی گالیاں میرے منہ سے اس میلاد کے منتظمین کے لئے نکلیں شاید ہی کبھی کسی کے لئے نکلی ہوں۔ اور اس ”نیکی کے کام“ کی ایک تشہیر اگلے دن یوں بھی ہوئی کہ اس محفل پر اصراف کی حد تک کی گئی لائٹنگ چوری کی بجلی سے کی گئی تھی جس پر واپڈا والوں نے دوران محفل ہی چھاپہ مار لیا تھا لیکن تقریب کے ختم ہونے تک کارروائی نہ کی۔
اللہ بچائے ہمیں ایسی منافقت سے جس میں دین کے نام پر ہی دین کی تعلیمات کے خلاف کام کئے جائیں۔
میرا ووٹ آپ کے ساتھ ہے کہ ہرقسم کے مذہبی ، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی اجتماعات اور جلوسوں کو سڑکوں پر منعقد کرنے کی ممانعت ہونی چاہئیے۔
سو فیصد متفق۔۔
کچھ اسی قسم کا واقعہ میرے ساتھ بھی 8 سال قبل پیش آیا۔ میں رات کے تقریباّ گیارہ بجے آفس سے واپس گھرموٹر بائیک پر جا رہا تھا جب اپنے علاقے میں داخل ہوا تو دور سے ہی لاؤڈسپیکرز کی بلند آہنگ آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ جوں جوں گھر نزدیک آرہا تھا آوازیں بلند سے بلند تر ہوتی جارہی تھیں۔ مجھے انتہائی کوفت ہونا شروع ہوگئی کیونکہ میری والدہ سخت بیمار تھیں اور کسی قسم کا بھی شور انکے اعصاب کیلئے سخت نقصان دہ تھا۔ بہرحال جب گھر کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ ہماری گلی سے پچھلی گلی میں ایک شامیانہ نصب تھا اور قدِّ آدم چار عدد سپیکرز دور سے ہی نظر آرہے تھے۔ زمین پر کچھ دریاں بچھی ہوئی تھیں اور نوعمر لڑکے اور بچے جنکی تعداد کوئی 15 یا بمشکل 20 ہوگی ، فرش پر براجمان تھے۔ایک لڑکا مائیک پر مشقِ سخن کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ آواز کا ایکو یعنی گونج ایڈجسٹ کر کے بڑھائی جارہی تھی ۔آواز اس قدر بلند تھی کہ برداشت سے باہر۔ جب میں قریب پہنچا تو گلی میں ہی مجھے میرا چھوٹا بھائی مل گیا جو غصّے سے ٹہل رہا تھا۔میرے ساتھ ہی پولیس کی موبائل وین بھی گلی میں داخل ہوئی۔ پولیس والے نے مجھے قریب کھڑا دیکھ کر بریک لگائی اور ہمارے گھر کا نمبر بتا کر پوچھا کہ یہ گھر کس گلی میں ہے اور میرے چھوٹے بھائی کا نام بھی لیا کہ اس آدمی سے ملنا ہے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ ہمیں ون فائیو پر کال آئی ہے کہ اس گلی میں کچھ لوگ لاؤڈسپیکر کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں اسی لئے ہمیں ون فائیو والوں نے بھیجا ہے۔ آپ پلیز اس بندے سے ملوا دیں۔ اتنی دیر میں میرا بھائی بھی قریب آگیا اور وہ شخص جس نے اس محفل کا انعقاد کیا تھا وہ بھی ہمارے پاس آگیا۔ جب پولیس والے نے یہ بات کی تو وہ شخص بھی سن رہا تھا۔ میں نے پولیس والے سے کہا کہ یہ میرا بھائی ہے اسے آپ کو فون نہیں کرنا چاہئیے تھا لیکن اگر اس نے کر ہی دیا ہے تو سارا معاملہ آپکے سامنے چل رہا ہے دیکھ لیجئے کہ یہ سب نوعمر لڑکے ہیں اور انکا پروگرام سحری تک اس محفل کا ہے اور آواز کس قدر بلند ہے کہ ہمیں آپ سے بات کرتے ہوئے بھی دشواری محسوس ہورہی ہے۔۔۔کم از کم آواز ہی کم کروادیجئے۔ پولیس والے نے میری بات سے اتفاق کیا۔ اسی دوران وہ شخص جس نے یہ محفل منعقد کروائی تھی کہنے لگا:
"تُسی تے مینوں کوئی کافر لگدے اوہ"
میں نے تحمل سے اسکی بات سن کر یہ کہا کہ بھائی بچے سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ اس نے پولیس کو فون کردیا، لیکن آپ بھی تو سوچیں کہ کس قدر ناقابلَ برداشت حد تک اونچی آواز ہے، اس محلّے میں بیمار اور ضعیف لوگ بھی رہتے ہیں، چھوٹے چحوٹے بچّے بھی ہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں جو سارا دن کی محنت کے بعد کچھ دیر آرام سے سونا چاہتے ہیں، میری والدہ بھی شدید بیمار ہیں، کچھ ان باتوں کی طرف بھی دھیان دیجئے۔ ہم بھی سنّی ہیں، ہم بھی اولیاء کرام اور بزرگانِ دین سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، ہم بھی میلاد وغیرہ کے منکر نہیں ہیں ۔۔لیکن ادھر سے یہی بات کہ "تسی تے مینوں کوئی کافر لگدے اوہ"۔
پولیس والا بھی معاملے کا یہ رنگ بنتا دیکھ کر اس معاملے سے جان چھڑانے کی تدبیریں سوچنے لگا ، میں نے پولیس والے کی لاتعلقی اور اس آدمی کی اس بات سے کسی قدر دکھی ہوکر اور چڑ کر اپنے بھائی کا بازو تھاما اور پولیس والے سے کہا:
"تسی جاؤ جناب، ایس بندے نوں جنّت وچ جان دیو، ایہدا رستہ نہ روکو۔"
اور اس آدمی سے کہا"
" جا آواز نوں ہور ُاچّی کر، رج کے نیکیاں کما "
چنانچہ یہ محفلِ ہا ؤ ھو رات کے تین بجے تک جاری رہی، او ر ناقابلِ بیان بے ہنگم انداز سے ایک صاحب نے مائیک پر آکر لگا تار اللہ ھُو کی ضربوں کے ساتھ لوگوں کے دل و دماغ کی چُولیں ہلا کر رکھ دیں، اور وہ ہنگامہ بپا کیا کہ خدا کی پناہ۔۔۔ایسا لگتا تھا کہ موصوف غیظ و غضب کے انداز میں مائیک پر "اللہ ھُو" کی ضرب لگاتے ہوئے گویا بار بار مائیک سے پوچھ رہے ہوں کہ "الل ھُو۔۔دسّ اللہ کتھے ایہہ۔ آناں ایں کہ نئیں۔میری سُن۔۔۔اللہ ھُو"
میں اپنی والدہ کی طرف دیکھتا تھا اور انکے چہرے پر تکلیف دہ تاثرات دیکھ کر یقین کیجئے کہ ان لوگوں کیلئے بددعا ہی نکلتی تھی۔ آخر خدا خدا کرکے رات کٹی اور صبح تقریباّ نو بجے محلے کی مسجد سے اعلان نشر ہونے لگا کہ "فلاں صاحب کی والدہ قضائے الٰہی سے انتقال کرگئیں۔ جنازہ فلاں وقت پر اٹھایا جائے گا"۔۔۔اور وہ گھر جس میں یہ وفات کا واقعہ پیش آیا وہ وہی گھر تھا جسکے دروازے کے آگے یہ محفل چل رہی تھی۔ اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ محفل اسی گھر کے لوگوں نے منعقد کروائی تھی یا انکے پڑوسی نے ۔۔۔
 

باباجی

محفلین
سو فیصد متفق آپکی بات سے نجیب بھائی
ایسے نیم حکیم خطرہ جاں قسم کے مذہبی لوگ
انسانیت سے میلوں دور ہوتے ہیں
نا ادب ناتمیز
یہ کیسا عشق ہے
جس میں ا حترام نہیں
 

پردیسی

محفلین
اصل میں، میں اس موضوع پر کچھ اور کھل کر اور بار بار لکھنا چاہتا ہوں جو کہ یہاں میرے خیال میں ممکن نہیں ہو سکے گا۔آپ کے یہ تبصرے بھی میں اپنے نئے بلاگ لاہوری پر موضوع کے ساتھ ہی چسپاں کر رہا ہوں۔
محترم دوستو ! میں آپ سب سے یہ درخواست بھی کرتا ہوں کہ آپ سب بھی اپنے اپنے انداز میں گاہے بگاہے اس پر لکھتے رہئے اور عام زندگی میں بھی لوگوں کو اس بارے آگاہی دیں ۔آپ دیکھئے گا کہ آنے والے وقت میں پاکستان میں اس پر عمل درآمد ضرور ہوگا۔
 

عسکری

معطل
اس سب کا حل تعلیم میں ہے جاھل ملاء جو نفرت اور مار کھا کھا کر گھر سے دور پلا بڑھا ہو مدرسے کی روٹیاں کھا کر اس سے نفاست کی توقع رکھنا یا کسی کا خیال رکھنے کی امید کرنا بے وقوفی ہے ۔ اسی طرح مذہبی جنونی چاہے وہ کسی فرقے سے ہوں ان کو کوئی کیسے کنٹرول کرے گا؟ اسلام نے خؤد ایک ایساجن بوتل سے نکال دیا ہے جو اب اسلام کے قابو سے باہر ہو چکا ہے ۔ :laugh:
 
Top