محمداحمد بھائی ، یہ موضوع تو انتہائی تفصیل طلب ہے ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جس طرح زندگی میں دوستوں کے چناؤ اور مجلسوں/صحبتوں کے انتخاب پر موافق اور مخالف دلائل سے بھرپور مضمون لکھے جاسکتے ہیں اسی طرح مطالعے کے لیے مواد منتخب کرنے پر بھی وہی دلائل لاگو کیے جاسکتے ہیں ۔ چونکہ خیالات کو منظم کرنے اور ایک باقاعدہ مضمون لکھنے کا وقت کم ہے اس لیے چند باتیں غیر مربوط طریقے پر ہی لکھ ڈالتا ہوں ۔
انگریزی میں کہتے ہیں کہ You-are-what-you-eat یعنی جو چیز بھی داخلِ بدن ہوگی وہ اپنا اثر ضرور دکھائے گی۔ اسی طرح جو افکار وخیالات ہم مسلسل اپنے ذہنوں میں داخل کریں گے وہ بھی اپنا رنگ ضرور لائیں گے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے چانچہ اسے دیکھنا چاہیے کہ وہ کسے دوست بنا رہا ہے۔ اسی طرح ایک اور دفعہ فرمایا کہ تم عطار کے پاس بیٹھو گے تو خواہ کچھ بھی نہ خریدو لیکن وہاں سے خوشبو لے کر اٹھو گے۔ اس کے برعکس لوہار کے پاس بیٹھو گے تو خواہ اپنے آپ کو بھٹی سے نکلتی چنگاریوں سے محفوظ کر بھی لو لیکن دھواں تو ضرور لے کے اٹھو گے۔
ہر آدمی ایک خالی صفحہ کی مانند اس دنیا میں آتا ہے ۔ ابتدائی عمر میں بہت ساری باتیں تو ہمارا ماحول اور ہمارے تجربات غیر اختیاری اور ٍغیر ارادی طور پر اس سادہ صفحے پر لکھ دیتے ہیں ۔ لیکن شعور آنے کے بعد اس صفحے سے کیا مٹانا ہے اور اس پر کیا لکھنا ہے یہ ہمارا کام ہے۔
اس بات سے کسی بھی ذی عقل کو انکار ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان کی سوچ اور اس کا رویہ اس کے exposureسے متاثر ہوتا ہے۔ ٹارزن کو بچپن سےبن مانسو ں نے پالا تو وہ ٹارزن بنا ۔ ورنہ وہ مرزا چھکن بھی بن سکتا تھا۔
ہمارے معاشروں میں قحط الرجال کا عالم ہے۔ اچھے انسانوں کی صحبت نصیب والوں ہی کو ملتی ہے۔ آج لوگ زیادہ تر اپنا وقت انٹرنیٹ اور رسالوں کتابوں کے ساتھ گزارتے ہیں ۔ اب صحبت یا کمپنی انہی چیزوں کا نام ہے۔ چنانچہ کتابوں اور ویبگاہوں کے انتخاب پر بھی وہی اصول لاگو ہوں گے کہ جو انسانی صحبت کے انتخاب پر ہوتے ہیں ۔ آپ جس جگہ جتناوقت گزاریں گے اتنا ہی امکان ہے کہ وہ آپ کی شخصیت پر اثر انداز ہوگا۔عطر اور دھویں والی مثال اوپر لکھ چکا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتابوں کا انتخاب کیسے کیا جائے ۔ اس میں سب سے پہلا سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ آپ مطالعے سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اگر تو تفریح ، ذہنی آسودگی اور وقت گزاری کا خیال ہے تو پھر لوگ کہانیاں ، افسانے ، ناول ، شاعری وغیرہ پڑھتے ہیں ۔ اب ان تفریحی کتب کے انتخاب میں بھی کے کچھ باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا۔ وہ آگے لکھتا ہوں ۔
اور اگر مطالعے کا مقصد زندگی کے سفر میں فکری رہنمائی حاصل کرنا ہے تو یہاں آکر اصل مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ بحیثیت مسلمان میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اس سلسلے میں کوئی کتاب پڑھنے اور اپنے اوپر تجربات کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ۔
منشورِ حق کے ہوتے مجھے کیا غرض بھلا
لکھا ہے کیا فلاں نے فلانی کتاب میں
میں اس باب میں مختلف انسانوں کی لکھی ہوئی اور مختلف سوچ اور فکر پر مبنی متضاد کتابیں پڑھنے کے بجائے آسمان سے اتری ہوئی رہنمائی کو ترجیح دوں گا کہ وہ اس خالق نے بھیجی ہے کہ جس نے مجھے تخلیق کیا اور جو میری حدود اور اختیارت سے پوری طرح واقف ہے۔میں اسی رہنمائی کی روشنی میں اپنی ذات کے لیے جائز او ناجائز کی حدود مقرر کروں گا۔ تقابل کی غرض سے دیگر مذاہب و ادیان کی کتب پڑھنا بذاتِ خود بری بات نہیں لیکن اس کے لیے جو علمی بلوغت اور دقتِ نظر چاہیے پہلے اس کا پیدا کرنا ضروری ہے ۔ آپ کو یاد ہی ہوگا کہ ایک بار جب عمر رضی اللہ عنہ انجیل یا توارات کے کچھ صفحات پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پسند نہیں کیا تھا اور کچھ اس طرح کی بات کی تھی کہ ہدایت کے لیے کیا قرآن کافی نہیں۔
جہاں تک بات تفریحی کتب کے انتخاب کی ہے تو ہر لکھی ہوئی چیز تو نہیں پڑھی جاسکتی۔ چونکہ مصنفین کے افکار اور نظریات ان کی تحریروں میں در آتے ہیں اس لیے کتاب کا انتخاب کرنے سے پہلے مصنف سے واقفیت بھی ضروری ہے۔
بعض تصویروں میں سامانِ زیاں ہوتا ہے
ہر کسی عکس کو نظروں سے گزارا نہ کریں
بہت سارے ناول اور افسانے پروپگنڈے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہاں اختصار کی خاطر صرف ایک مثال دوں گا۔ آج کل پاکستان کے لکھاریوں میں ایک ٹرینڈ یہ چل گیا ہے کہ اپنی تحریروں اور کہانیوں میں ایسے کردار تخلیق کرتے ہیں کہ جو بنیادی مذہبی فرائض سے دور ہیں ، جوا ، شراب اور دیگر بری باتوں میں ملوث ہیں لیکن سماجی اور رفاہی کاموں میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔ایسے کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی درس یہ دیا جاتا ہے کہ جو جی چاہے وہ کرتے رہو لیکن کسی غریب کی مدد کرنا یا خدمتِ خلق کا کوئی اور کام کرنا تمام برائیوں کو صاف کردیتا ہے ۔ اب ایسی تحریروں کو تنقیدی نظر سے دیکھنا عام قاری کے لیے ممکن نہیں ہے۔ قارئین کو تو زورِ بیان اور مسحور کن اسلوب سے کسی بھی بات پر قائل کیا جاسکتا ہے۔ اردو شاعری میں جا بجا شراب اور میخانے کی اچھائی اور فوقیت اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑانا اس کی واضح مثال ہے۔
کتابوں کا انسانی زندگی پر کتنا اثر ہوتا ہے اس کی مثال اپنی ذاتی زندگی سے دوں تو میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں کہ جو شروع سے ڈیل کارنیگی کی کتابیں پڑھ پڑھ ایک انتہائی خوبصورت ، متوازن و معتدل ، سمجھ دار اور قابلِ تقلید مثالیے میں ڈھل گیا ۔
احمد بھائی ، یہ کچھ غیر مربوط سطور جلدی میں لکھ سکا ہوں ۔ امید ہے کہ کتب بینی کے بارے میں کچھ حد تک میرا نکتۂ نظر واضح ہوگیا ہوگا۔