محفل چائے خانہ

یوسف-2

محفلین
دروازہ تکتی ھے اب تک
میز پہ رکھی ٹھنڈی چائے
۔
چائے ذرا اچھی بن جائے
باھر اک مہمان بھی ھے
۔
چائے کا پانی رکھا تھا
بھول گئی ھوں باتوں میں
۔
ساتھ پئے گا چائے کون
پیالی ایک بنائے کون
 
محمد وارث آج پہلی بار نظر پڑی اس دھاگے پر۔ آپ کے ابتدائی مراسلے نے دل کے ھر تار کو یوں جھٹکا ہے کہ مت پوچھئے ۔ ارے جناب آپ نے تو اگلی صدی میں ہی لیجا کرکے کھڑا کردیا ہمیں۔ اللہ آپ کو بہت ہی لمبی، با صحت اور خوشیوں والی زندگی عطا فرمائے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
محمد وارث آج پہلی بار نظر پڑی اس دھاگے پر۔ آپ کے ابتدائی مراسلے نے دل کے ھر تار کو یوں جھٹکا ہے کہ مت پوچھئے ۔ ارے جناب آپ نے تو اگلی صدی میں ہی لیجا کرکے کھڑا کردیا ہمیں۔ اللہ آپ کو بہت ہی لمبی، با صحت اور خوشیوں والی زندگی عطا فرمائے۔

نوازش آپ کی مزمل شیخ صاحب
 

شمشاد

لائبریرین
یہ لیجیے ابھی حاضر کیے دیتے ہیں۔

images
 
ہمم لگتا ہے ادھار بند ہے دام لیجئے اور ایک کپ کم دودھ چینی کی چائے بھجوائیں پتی ذرا تیز ہو


ٹی ہاؤس کی فضا میں کیپسٹن سگریٹ اور سگار کا بل کھاتا ہوا دھواں گردش کرتا تھا ٹی ہاؤس کی سنہری چائے، قہوہ اور فروٹ کیک کی خوشبو بھی دل کو لبھاتی تھی
ہجرت کر کے آنے والوں کو پاک ٹی ہاؤس نے اپنی گود میں پناہ دی
کسی نے کہا میں انبالے سے آیا ہوں میرا نام ناصر کاظمی ہےکسی نے کہا میں گڑھ مکستر سے آیا ہوں میرا نام اشفاق احمد ہےکسی نے کہا میرا نام ابن انشاء ہے اور میرا تعلق لاہور سے ہےوہ بڑے چمکیلے اور روشن دن تھے ادیبوں سارا دن ٹی ہاؤس میں گزرتا تھاذیادہ تر ادیبوں کا تخلیقی کام اسی زمانے میں انجام پایا تھا ناصر کاظمی نے بہترین غزلیں اسی زمانے میں لکھیں اشفاق احمد نے گڈریا اسی زمانے میں لکھاشعر و ادب کا یہ تعلق پاک ٹی ہاؤس ہی سے شروع ہوا تھاصبح آٹھ بجے پاک ٹی ہاؤس میں کم لوگ آتے تھےناصر کاظمی سگریٹ انگلیوں میں دبائے، سگریٹ والا ہاتھ منہ کے ذرا قریب رکھے ٹی ہاؤس میں داخل ہوتا تھا اور اشفاق احمد سائیکل پر سوار پاک ٹی ہاؤس آتا تھےپاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوں تو دائیں جانب شیشے کی دیوار کے ساتھ ایک صوفہ لگا ھوا تھا سامنے ایک لمبی میز تھی میز کی تینوں جانب کرسیاں رکھی ہوئی تھیں ناصر کاظمی، انتظار حسین، سجاد باقر رضوی، پروفیسر سید سجاد رضوی، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد وغیرہ کی محفل شام کے وقت اسی میز پر لگتی تھیاے حمید، انور جلال، عباس احمد عباسی، ھیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء وغیرہ قائد آظم کی تصویر کے نیچے جو لمبی میز اور صوفہ بچھا تھا وہاں اپنی محفل سجاتے تھےڈاکٹر عبادت بریلوی اور سید وقار عظیم بھی وقت نکال کر پاک ٹی ہاؤس آتے تھےھر مکتبہ فکر کے ادیب، شاعر، نقاد اور دانشور اپنی الگ محفل بھی سجاتے تھےسعادت حسن منٹو، اے حمید، فیض احمد فیض، ابن انشاء، احمد فراز، منیر نیازی، میرا جی، کرشن چندر، کمال رضوی، ناصر کاظمی، پروفیسر سید سجاد رضوی، استاد امانت علی خان، ڈاکٹر محمد باقر، انتظار حسین، اشفاق احمد، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد، انورجلال، عباس احمد عباسی، ہیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء، ڈاکٹر عبادت بریلوی، سید وقار عظیم وغیرہ پاک ٹی ہاؤس کی جان تھےساحر لدھیانوی بھارت جا چکا تھا اور وہاں فلمی گیت لکھ کر اپنا نام امر کر رھا تھا شاعر اور ادیب اپنے اپنے تخلیقی کاموں میں مگن تھے ادب اپنے عروج پہ تھا اس زمانے کی لکھی ھوئی غزلیں، نظمیں، افسانے اور مضامین آج کے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں اس زمانے کی بوئی ہوئی ذرخیز فصل کو ھم آج کاٹ رہے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
واہ شہزاد بھائی کیا نقشہ کھینچا ہے۔ ایسا لگا میں بھی وہیں کہیں بیٹھا ان کی باتیں سُن رہا ہوں۔

میرا خیال ہے چائے کی ایک پیالی اور ہو جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ٹی ہاؤس میں فی الحال شراب کا ذکر آہستہ آہستہ کریں۔ نیا نیا ٹی ہاؤس کُھلا ہے، ایسا نہ ہو چھاپا پڑ جائے۔
 
سعادت حسن منٹو 1952 میں مجلس اقبال کی دعوت پر گورنمنٹ کالج آئے۔ اس موقع پر انہوں نے طلبا اور اساتذہ سے مکالمہ کیا۔
۔ معزز خواتین و حضرات! مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں یہ بتائوں کہ میں افسانہ کیونکر لکھتا ہوں۔ یہ ’کیونکر‘ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ ’کیونکر‘ کے معانی لغت میں تو یہ ملتے ہیں۔ کیسے اور کس طرح۔ اب آپ کو کیا بتائوں کہ میں افسانہ کیونکر لکھتا ہوں۔ یہ بڑی الجھن کی بات ہے۔ اگر میں ’کس طرح‘ کو پیش نظر رکھوں۔ تو یہ جواب دے سکتا ہوں کہ اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھ جاتا ہوں۔ کاغذ قلم پکڑتا ہوں اور بسم اللہ کرکے افسانہ لکھنا شروع کردیتا ہوں۔ میری تین بچیاں شور مچارہی ہوتی ہیں۔ میں ان سے باتیں بھی کرتا ہوں، ان کی باہم لڑائیوں کا فیصلہ بھی کرتا ہوں، اپنے لیے ’سلاد‘ بھی تیار کرتا ہوں، کوئی ملنے والا آجائے تو اس کی خاطر داری بھی کرتا ہوں۔ مگر افسانہ لکھے جاتا ہوں۔
اب’کیسے‘ کا سوال آئے تو میں یہ کہوں گا کہ میں ویسے ہی افسانہ لکھتا ہوں جس طرح کھانا کھاتا ہوں، غسل کرتا ہوں، سگریٹ پیتا ہوں اور جھک مارتا ہوں۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ میں افسانہ کیوں لکھتا ہوں تو اس کا جواب حاضر ہے… میں افسانہ اول تو اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے افسانہ نگاری کی شراب کی طرح لت پڑ گئی ہے۔ میں افسانہ نہ لکھوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں نے کپڑے نہیں پہنے یا میں نے غسل نہیں کیا۔ یا میں نے شراب نہیں پی۔ میں افسانہ نہیں لکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ افسانہ مجھے لکھتا ہے۔ میں بہت کم پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ یوں تو میں نے بیس سے اوپر کتابیں لکھی ہیں، لیکن مجھے بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ یہ کون ہے جس نے اس قدر اچھے افسانے لکھے ہیں جن پر آئے دن مقدمے چلتے رہتے ہیں۔ جب قلم میرے ہاتھ میں نہ ہو تو میں صرف سعادت حسن ہوتا ہوں۔ جسے اردو آتی ہے نہ فارسی، انگریزی نہ فرانسیسی۔ افسانہ میرے دماغ میں نہیں، جیب میں ہوتا ہے، جس کی مجھے کوئی خبر نہیں ہوتی۔ میں اپنے دماغ پر زور دیتا ہوں کہ کوئی افسانہ نکل آئے، افسانہ نگار بننے کی بھی بہت کوشش کرتا ہوں۔ سگریٹ پہ سگریٹ پھونکتا ہوں
مگر افسانہ دماغ سے باہر نہیں نکلتا۔ آخر تھک ہار کر بانجھ عورت کی طرح لیٹ جاتا ہوں۔ ان لکھے افسانے کے دام پیشگی وصول کر چکا ہوتا ہوں۔ اس لیے بڑی کوفت ہوتی ہے۔ کروٹیں بدلتا ہوں۔ اٹھ کر اپنی چڑیوں کو دانے ڈالتا ہوں۔ بچیوں کو جھولا جھلاتا ہوں۔ گھر کا کوڑاکرکٹ صاف کرتا ہوں… جوتے…ننھے منے جوتے جو گھر میں جا بجا بکھرے ہوتے ہیں۔ اٹھاکر ایک جگہ رکھتا ہوں… مگر کم بخت افسانہ جو میری جیب میں پڑا ہوتا ہے، میرے ذہن میں نہیں اترتا… اور میں تلملاتا رہتا ہوں۔ جب بہت زیادہ کوفت ہوتی ہے تو باتھ روم میں چلا جاتا ہوں۔ مگر وہاں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ سنا ہوا ہے کہ ہر بڑا آدمی غسل خانے میں سوچتا ہے لیکن مجھے تجربے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ میں بڑا آدمی نہیں ہوں، اس لیے کہ میں غسل خانے تک میں نہیں سوچ سکتا… لیکن حیرت ہے کہ پھر بھی میں پاکستان اور ہندوستان کا بہت بڑا افسانہ نگار ہوں۔
میں خدا کو حاضر ناظر رکھ کے کہتا ہوں کہ مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں کہ میں افسانہ کیونکر لکھتا ہوں اور کیسے لکھتا ہوں۔ اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ جب میں زچ بچ ہوگیا ہوں۔ تو میری بیوی جو غالباً یہاں موجود ہے آئی اور اس نے مجھ سے یہ کہا ہے ’’آپ سوچئے نہیں، قلم اٹھائیے اور لکھنا شروع کردیجئے۔‘‘ میں اس کے کہنے پر قلم یا پنسل اٹھاتا ہوں اور لکھنا شروع کردیتا ہوں… دماغ بالکل خالی ہوتا ہے، لیکن جیب بھری ہوتی ہے۔ خود بخود کوئی افسانہ اچھل کے باہر آجاتا ہے۔ میں خود کو اس لحاظ سے افسانہ نگار نہیں، جیب کترا سمجھتا ہوں جو اپنی جیب خود بھی کاٹتا ہے اور آپ کے حوالے کردیتا ہے۔
مجھ ایسا بھی بے وقوف دنیا میں کوئی اور ہوگا۔
 
منٹو صاحب کو غالب سے شدید جذباتی وابستگی تھی انھیں غالب پر کبھی کبھی اس قدر پیار آتا تھا کہ وہ فرط محبت سے انہیں گالیاں دیا کرتے تھے وہ گالیاں فحش نہیں ہوتی تھیں وہ غالب کو فرط محبت سے کمینہ کہا کرتے تھے
منٹو اور غالب میں یہ بات بھی تو مشترک تھی کہ غالب "قرض کی پیتے تھے مے" اور انھیں بھی اندازہ تھا کہ کسی نہ کسی دن ان کی فاقہ مستی ضرور رنگ لائے گی اور منٹو صاحب بھی لاھور کے مشہور شراب فروش ایڈل جی کے مقروض ہوتے ہی چلے گئے
("سعادت حسن منٹو ۔ ذاتی یاداشتوں پر مبنی اوراق" سے اقتباس)
 
ناصر کاظمی: میرا سلام کہیے لاھور شہر کے نواح سے، دوستوں سے، قہوہ خانوں سے، درختوں سے، چڑیوں سے، پرندوں سے
انتظار حسین: درخت اور چڑیاں جن سے میری ملاقات ہے وہ تمہیں بہت یاد کرتے ہیں
ناصر کاظمی: میں بھی انہیں بہت یاد کرتا ھوں
(ناصر کاظمی کی وفات سے ایک مہینہ قبل لیے گیے انٹرویو سے اقتباس، یہ انٹرویو انتظار حسین نے لیا تھا)
انتظار حسین نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ناصر کاظمی کو نیچر سے بہت پیار تھا ایک بار میں جون کی گرمی میں سائیکل پر دفتر جا رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ناصر کاظمی سگریٹ کے کش لگاتا ہوا مال روڈ کے فٹ پاتھ پر جا رہا ہے میں نے علیک سلیک کی تو کہنے لگے "پتے دیکھنے جا رہا ہوں، اس وقت لارنس باغ میں پتے جھڑ رہے ہوں گے"
ناصر کاظمی نے خود ہی تو کہا تھا کہ
کہیں کہیں کوئی روشنی ہے
جو آتے جاتے سے پوچھتی ہے
کہاں ہے وہ اجنبی مسافر
کہاں گیا وہ اداس شاعر
(2 مارچ 1972ء ۔۔۔ برسی ناصر کاظمی)
 
Top