محفل چائے خانہ

شب کی زلفیں بھیگ چکی تھیں میاں یعسوب اور ظہیر کاشمیری نے میرے خلاف سازش کی اور میری ڈیوٹی لگائی کہ میں عدم کو ان کے گھر چھوڑ کر آؤں مدہوش عدم کو قابو کرنا بدمست ہاتھی کو قابو کرنے کے برابر تھا لیکن قہر درویش برجان درویش میں عدم کو ساتھ لے کر میکلوڈ روڈ پر آ گیا لاہور ہوٹل کے قریب ہمیں ایک تانگے والا ملا اس نے فرشی سلام کر کے پوچھا حضور کہاں جائیں گے؟ عدم نے بڑی شان بے نیازی سے کہا "چھاؤنی" کو چوان نے کہا دس روپے کرایہ ہو گا ہم نے سالم ٹانگہ لیا عدم اگلی سیٹ اور میں پچھلی سیٹ پر پاؤں پھیلا کر بیٹھ گیا کوچوان نے پھرتی سے چابک سنبھال کر گھوڑے کو چمکارا اور تانگہ اسٹیشن کا موڑ کاٹ کر علامہ اقبال روڈ پر چلنے لگا چاروں طرف جگمگاتی بتیوں کا جال پھیلا ہوا تھا راستے میں کئ انجانے چہرے دم بھر کے لئے ابھرتے اور رنگا رنگ روشنیوں میں دمک کر اندھیروں میں ڈوب جاتے دور سے چہرے مجھے رنگا رنگ کے فانوسوں کی طرح معلوم ہوتے تھے جو ہاتھ سے نکلتے ہی آسمان کی طرف پرواز کر جاتے ہیں فضا میں ایک عجیب سناٹا پھیلا ہوا تھا کبھی کبھی ناقابل فہم آوازیں لہروں کی طرح فضا میں ابھرتیں اور آہستہ آہستہ ڈوب جاتیں یہ نظارہ میرے دل میں ایک کسک پیدا کر رہا تھا جب ٹانگہ دھرم پورہ نہر کے پل کے قریب پہنچا تو وہاں دودھیا رنگ کی روشنی کا سیلاب امڈ رہا تھا بھیڑ بھاڑ زیادہ نہ تھی لوگ خاموشی سے آ جا رہے تھے اور جگمگاتے ہوئے قمقموں کی روشنی میں ان کے چہرے بڑے پراسرار دکھائی دے رہے تھے عدم نے ایک پنواڑی کی دکان پر ٹانگہ رکوایا میں نے پوچھا کیا بات ہے عدم نے کہا ایک کوکا کولا کی بوتل پینی ہے میں نے کوکا کولا کی بوتل لی اور عدم کو پکڑا دی پھر عدم نے کہا ایک بوتل تم پیو گے تب میں پیوں گا میں نے اپنے لئے ایک بوتل لے لی پھر عدم نے کہا ایک بوتل کوچوان پئے گا تب پیوں گا میں نے ایک بوتل کوچوان کو بھی لے کر دی پھر عدم نے کہا ایک بوتل گھوڑا پئے گا تب میں پیوں گا میں سمجھ گیا عدم صاحب شرارت پر تل گئے ہیں میں نے عدم کو پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا عدم صاحب تماشہ نہ بنیں لوگ ٹانگہ کے گرد جمع ہو گئے ہیں جلدی سے پیسے نکالئے پنواڑی آپ کو نہیں جانتا کہ آپ شاعر عدم ہیں وہ ایسے بھی مجھے غنڈہ دکھائی دیتا ہے وہ آپ کو پیسے نہ دینے پر اٹھا کر نہر میں پھینک دیگا پھر آپ آرام سے عدم آباد پہنچ جائیں گے یہ سن کر عدم نے دس روپے کا نوٹ نکالا اور پنواڑی کو دیا اب مصیبت یہ آ پڑی کہ عدم بقیہ پیسے واپس نہ لینا چاہتے تھے میں نے پنواڑی سے پیسے لے کر زبردستی عدم کی جیب میں ڈالے اور ٹانگہ لے کر آگے چلا گیا میرے دل میں یہ خدشہ تھا شاید عدم کی جیب میں پرمٹ نہ ہو اور ہم پکڑے جائیں، رات حوالات میں رہنا پڑے ٹھیک ہے صبح ضمانت ہو تو جاتی مگر یہ سب مصیبت تو تھی آخر چلتے ہوئے عدم کی کوٹھی آئی ہم ٹانگے سے اترے کوچوان کو کرایہ دیا جب عدم نے ڈرتے ڈرتے اپنی کوٹھی کے دروازے پر دستک دی تو اندر سے ان کا چھوٹا لڑکا نکلا عدم نشے کی حالت میں اپنے چھوٹے بیٹے کے سامنے نہایت مظلوم بن کر ادب سے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے اور روتے ہوئے اپنے لڑکے سے کہنے لگے "میں تو پیتا ہی نہ تھا" پھر میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگے "اس شخص نے مجھے زبردستی پلائی ہے" اور ساتھ ہی کوٹ کی جیب سے مٹھی بھر نوٹ نکال کر اپنے بیٹے کو دکھانے لگے کہ میرے پاس پیسے بھی ہیں ان کا چھوٹا صاحب زادہ مجھے اور میاں یعسوب کو تڑاتڑ گالیاں دینے لگا میں وہاں سے گالیاں کھا کر چپکے سے کھسک آیا
(قمر یورش)
شمشاد
 
لیجئے جناب آپ کی محبت کی حلاوت سے بھرپور چائے پیتے ہی طعبیت مائل ہو ئی
شعر موزوں ہو گیا
عرض ہے
مدہوش ہے زاہد تری اک جنبشِ ابرو سے
اے ساقی تری ساقی گری کا انداز اور ہے
آپ نے چائے کی رشوت تھما دی، ایڈوانس میں :( کہنے میں کچھ گستاخی ہو گئی تو کہیں چائے حرام ہی نہ ہو جائے
 
:laughing:جو مرضی کہ لیں اجازت ہے
اجازت مرحمت فرمانے پر شکرگزار ہوں
دونوں مصرعے آخر میں جا کر بحر سے باہر ہو گئے، جسے اساتذہ شاید عروض کی غلطی بیان فرماتے ہیں۔
زاہد کا جنبشِ ابرو سے ہی مدہوش ہو جانا بات تو مزیدار ہے لیکن بحر سے باہر ہو گئی تو شعر مزیدار نہیں رہے گا۔
زاہد بھی تری آنکھ سے پی کر ہوا مدہوش
ساقی ترے انداز زمانے سے جدا ہیں
یا
ساقی ترے انداز نرالے ہیں جہاں سے
گستاخی معاف
 
اجازت مرحمت فرمانے پر شکرگزار ہوں
دونوں مصرعے آخر میں جا کر بحر سے باہر ہو گئے، جسے اساتذہ شاید عروض کی غلطی بیان فرماتے ہیں۔
زاہد کا جنبشِ ابرو سے ہی مدہوش ہو جانا بات تو مزیدار ہے لیکن بحر سے باہر ہو گئی تو شعر مزیدار نہیں رہے گا۔
زاہد بھی تری آنکھ سے پی کر ہوا مدہوش
ساقی ترے انداز زمانے سے جدا ہیں
یا
ساقی ترے انداز نرالے ہیں جہاں سے
گستاخی معاف
تہاڈے ناب میں نبڑ لیاں گا :mad3:
 
قوافی بحر تقتیع اس سے تو اس طرح جان جاتی ہے جس طرح الجبرا سے
ساری عمر شاعری کا صرف ایک سبق یاد ہوا
فاعلاتن فاعلاتن فاعلات ایک تھپڑ ایک گھونسہ ایک لات :laughing3:
اور وہ بھی بیگم سے :tongueout4:
 
قوافی بحر تقتیع اس سے تو اس طرح جان جاتی ہے جس طرح الجبرا سے
ساری عمر شاعری کا صرف ایک سبق یاد ہوا
فاعلاتن فاعلاتن فاعلات ایک تھپڑ ایک گھونسہ ایک لات :laughing3:
اور وہ بھی بیگم سے :tongueout4:

فاعلاتن فاعلاتن فاعلات
دس بٹیرے کھائوں گا میں ایک ساتھ
 
لو جی دس بٹیرے تے چڑی دا اٹھا کھا جاندا اے کوئی پچی تیہ دی گل کرو نا :tongueout4:
میں تے تواڈا خرچہ بچانڑ واسطے کیہا سی
لو فر سن لو
فاعلاتن فاعلاتن فاعلات
سو بٹیرے کھائوں گا میں ایک ساتھ

انہاں خرچہ کرلو گے شاعر پراہ تے؟
 
میں تے تواڈا خرچہ بچانڑ واسطے کیہا سی
لو فر سن لو
فاعلاتن فاعلاتن فاعلات
سو بٹیرے کھائوں گا میں ایک ساتھ

انہاں خرچہ کرلو گے شاعر پراہ تے؟
جے تسی کھا سکدے او تے جنے آکھو گے کھوا دیا ں گا
پسند سجناں دی خرچہ ساڈا :tongueout4:
 
"منٹو"

میں نے اس کو دیکھا ھے
اُجلی اُجلی سڑکوں پر
اِک گرد بھری حیرانی میں

پھیلتی پھیلتی
بھیڑ کے اندھے اوندھے
کٹوروں کی طغیانی میں

جب وہ خالی بوتل
پھینک کر کہتا ہے :
" دنیا ! تیرا حُسن یہی بدصورتی ھے ۔ "

دنیا اس کو گھورتی ھے
شورِ سلاسل بن کر
گونجنے لگتا ھے

انگاروں بھری
آنکھوں میں یہ تند سوال
کون ھے یہ جس نے اپنی
بہکی بہکی سانسوں
کا جال بامِ زماں پر پھینکا ھے

کون ھے جو بل کھاتے
ضمیروں کے پُر پیچ دھندلکوں میں
روحوں کے عفریت کدوں کے زہر اندوز
محلکوں میں لے آیا ھے
یوں بن پوچھے اپنے آپ
عینک کے برفیلے شیشوں سے
چھنتی نظروں کی چاپ
کون ھے یہ گستاخ

تاخ تڑاخ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔!

مجید امجد
 

شمشاد

لائبریرین
سر جی اج تُسی کشمیری چائے دے مزے لوؤ۔

images
 
اقبال کی شگفتہ مزاجی

علامہ اقبال سنجیدہ اور متین ہونے کے باوجود بڑے بذلہ سنج اور خوش طبع تھے۔ گفتگو خواہ کسی قسم کی ہو، مزاح کا پہلو ضرور ڈھونڈ لیتے۔ مہذب و شائستہ لطائف کی قدر کرتے۔ خود بھی لطائف بنا کر دوست احباب کو ہنساتے رہتے، بعض اوقات لطائف کے ذریعے اہم مسائل بھی حل کر دیتے تھے۔
سکندری اور قلندری
ایک مرتبہ علامہ اقبال باہر بیٹھے تھے کہ ایک فقیر تہبندباندھے ہاتھ میں بڑی سی لٹھ لیے نمودار ہوا اور آتے ہی علامہ اقبال کی ٹانگیں دبانے لگا۔ علامہ اقبال کچھ دیر خاموشی سے پاؤں دبواتے رہے پھر فرمایا ’’کیسے آنا ہوا؟‘‘ فقیر نے جواب دیا ’’میں اپنے پیر کے پاس گیا تھا۔ اُنھوں نے فرمایا ہے کہ ڈاکٹر اقبال کو تمھارے علاقے کا قلندر مقرر کیا گیا ہے۔‘‘ علامہ اقبال نے کہا ’’لیکن مجھے تو اس منصبِ قلندری کے عطا کیے جانے کی ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ملی۔‘‘ فقیر نے علامہ کی اس بات کو قلندری کے کوچے کی کوئی رمز جانا اور بیٹھا پاؤں دباتا رہا۔ اتنے میں چوہدری محمد حسین تشریف لے آئے اور آتے ہی سر سکندر حیات سے متعلق کوئی بات کہنا چاہتے تھے کہ علامہ اقبال نے ٹوکا اور کہا ’’چوہدری صاحب اس سکندری کو رہنے دیجیے آج تو یہاں قلندری کی باتیں ہو رہی ہیں۔‘‘
افطاری کے لیے سامان
ماہِ رمضان میں ایک مرتبہ پروفیسر حمید احمد خاں، ڈاکٹر سعید اللہ صدر شعبہ فلسفہ اور پروفیسر عبد الواحد، علامہ اقبال کے دولت کدے پر گئے۔ کچھ دیر بعد مدیر انقلاب مولانا غلام رسول مہر اور مولانا عبدالمجید سالک بھی تشریف لے آئے۔ مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو گیا۔ آپ نے گھٹنی بجا کر اپنے نوکر کو بلایا اور اس نے کہا ’’افطار کے لیے سنگترے، کھجوریں کچھ نمکین اور میٹھی چیزیں جو کچھ ہو سکے سب لے آئو۔‘‘ سالک صاحب نے عرض کی ’’اُفوّہ! اتنا سامان منگوانے کی کیا ضرورت ہے، کھجوریں ہی کافی ہیں۔‘‘ علامہ اقبال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا’’سب کچھ کہہ کر ذرا رعب تو جما دیں۔ کچھ نہ کچھ تو لائے گا۔‘‘
 
Top