کاشفی

محفلین
غزل
(میلہ رام وفا)
محفل میں اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں


عالم ہے ترے پَرتو رُخ سے یہ ہمارا
حیرت سے ہمیں شمس و قمر دیکھ رہے ہیں


بھاگے چلے جاتے ہیں اِدھر کو تو عجب کیا
رُخ لوگ ہواؤں کا جدھر دیکھ رہے ہیں


ہوگی نہ شبِ غم تو قیامت سے ادھر ختم
ہم شام ہی سے راہ سحر دیکھ رہے ہیں


وعدے پہ وہ آئیں یہ توقع نہیں ہم کو
رہ رہ کے مگر جانبِ در دیکھ رہے ہیں


شکوہ کریں غیروں کا تو کس منہ سے کریں ہم
بدلی ہوئی یاروں کی نظر دیکھ رہے ہیں


شاید کہ اسی میں ہو وفاؔ خیر ہماری
برپا جو یہ ہنگامۂ شر دیکھ رہے ہیں
 

کاشفی

محفلین
تعارفِ شاعر:
پنڈت بھگت رام کے بیٹے اور پنڈت جے داس کے پوتے،ناول نویس ،شاعر،صحافی اورحکومت پنجاب سے راج کوی کاخطاب پانے والے پنڈت میلہ رام،میلہ رام وفا کےنام سےجانےجاتےہیں۔26 جنوری1895کوگاؤں ديپوكےضلع سیالکوٹ میں پیداہوئے۔بچپن میں گاؤں میں مویشی چرانےجایا کرتے تھے۔كئی اخباروں کےمدیرہوئے،نیشنل کالج لاہور میں اردو فارسی کےدرس و تدریس کافریضہ انجام دیا۔ان کوباغیانہ نظم اے فرنگی لکھنے کے جرم میں دوسال کی قید بھی ہوئی۔ شعری مجموعےسوزوطن اورسنگ میل کےعلاوہ چاندسفرکا(ناول)ان کی اہم کتابیں ہیں۔ بڑے بھائی سنت رام بھی شاعرتھےاورشوق تخلص کرتے تھے۔ ٹی آررینا کی کتاب پنڈت میلہ رام وفا حیات وخدمات،انجمن ترقی اردو(ہند) سے2011 میں چھپ چکی ہے۔فلم پگلی(1943)اورراگنی(1945)کے نغمے انہی کے لکھے ہوئے ہیں۔ بارہ سال کی عمرمیں شادی ہوئی۔17سال کی عمرمیں شع کہنا شروع کیا،پنڈت راج نارائن ارمان دہلوی کے شاگرد ہوئے۔ارمان داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔اردوکےمشہورومعروف رسالہ مخزن کے مدیررہےاورلالہ لاجپت رائے کے اردواخباروندے ماترم کی ادارت بھی کی۔مدن موہن مالوی کے اخبارات میں بھی کام کیا۔ ویربھارت میں جنگ کا رنگ کے عنوان سے کالم لکھتے تھے۔ ان کاانتقال جالندھر پنجاب میں 19 ستمبر 1980 کو ہوا۔
 
Top