اچھائی اور برائی کو کوئی ابجیکٹیو ویلیو نہیں ہے، اس کا براہ راست تعلق بقا سے ہے۔ہر وہ چیز جو انفرادی و معاشرتی سطح پہ جسمانی و شعوری بقا میں مثبت کردار ادا کرتی ہے ہم اسے اچھائی سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے متضاد برائی سے۔ ایک شخص کے فنا ہو جانے سے ہمارے اندر کی اپنی بقائی انسیکیورٹی کو ہوا ملتی ہے جس کو ہم کلی طور پر اوائیڈ کرنے کی سعی میں ہیں۔
کائنات بہت وسیع ہے اور ہم خود اس کائنات کا حصہ ہیں لیکن ذی شعور ہونے کے سبب کائنات کی بے حسی اور اپنے فنا ہو جانے کے پیشگی خبر سے نالاں ہیں۔ ایسے میں اگر ابجیکٹیولی دیکھا جائے تو مذہب ایک طفل تسلی کے سواکچھ بھی نہیں ۔ اگر انسانی نفسیات پہ غور کیا جائےتو یہ اپنے اندر موجود کم علمی یا غیر یقینیت کے مادے کو یقین سے بھرنے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ یقین آپ کو ایک سٹیبل فٹنگ پرووائیڈ کرتا ہے۔ایسے میں مذہب کا کردار بہت اہم ہے جو آپ کی غیر یقینیت کو جذب کر لیتا ہے اور آپ کو دنیا میں کھیلنے کی ہمت و جواز مہیا کرتا ہے۔ میری دانست میں مذہب کا ماخذ خود انسان ہے، اس کا خارج سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان نے اپنے آپ کو قائم و دائم رکھنے کی سعی میں بہت سی چیزیں ایجاد کی ہیں جن میں سے ایک مذہب ہے، اور یہ وقوعہ ایک دن میں نہیں ہوا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ بہت خوش آئند بات ہے اگر آپ مذہب کی بدولت آسمان کی بلندیوں کو چھونے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اور آپ کے مذہبی عقائد سے کسی دوسرے شخص کی شعوری و جسمانی بقا پہ کوئی حرف نہیں آتا (لیکن ایسا انفرادی سطح پہ تو شاید ممکن ہو لیکن سماجی سطح پہ تقریباً نا ممکن ہے اور اسی وجہ سے آپ کو اچھائی و برائی کی طاقتیں نظر آ رہی ہیں حالانکہ ہر فرد و سماج اپنے بقا کی جنگ میں ہے اور تھا لیکن فرد جب سماج کا حصہ بنتا ہے تو پھر سماجی نفسیات پاگل پن کی حد تک غیر منطقی ہو جاتی ہے، اس پہ بہت تفصیل سے لکھا جا سکتا ہے لیکن وہی بات کہ دماغ کی بے حسی بہت حد تک آڑے آ رہی ہے)۔ حقیقت بہت کربناک بھی ہو سکتی ہے اس سے منہ موڑ کے بھرپور زندگی جینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔اس لیے ہر انسان کی اپنی چوائس ہے کہ اس کی زندگی کا سامان حقیقت کی کھوج میں ہے یا پھر ایمان بالغیب سے آگے بڑھ کر اپنی زندگی کو وہ رنگ دینا ہے جس میں اسے اپنی زندگی کا سامان نظر آتا ہے۔ہر شخص میں حقیقت کا بار اٹھانے کی سکت نہیں ہے، کم از کم زمانہ حال میں۔
حقیقت کی کھوج
ماسلو ایک امریکی ماہرِ نفسیات تھا۔ اس نے انسانی ضروریات کی درجہ بندی کرتے ہوئےایک پیرامڈ بنائی۔ اس میں اس نے بتایا کہ انسان کی سب سے پہلی ترجیح اس کی جسمانی ضروریات ہوتی ہیں جیسا کہ
پانی، خوراک، لباس، گھر، سواری وغیرہ
شروع میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس کی یہ ضروریات پوری ہوجائیں تو وہ اطمینان سے زندگی بسر کرے گا۔ زیادہ تر لوگ زندگی کے خاتمے تک اسی درجے پر رہتے ہوئے جدوجہد کرتے رہتے ہیں
جو لوگ ان ضروریات کو حاصل کرلیتے ہیں تو پھر ان کی اگلے درجے کی ضروریات بیدار ہوجاتی ہیں اور وہ ہیں محفوظ زندگی گذارنا۔انہیں لگتا ہے کہ دل ابھی مطمئن نہیں کیونکہ جدوجہد کرتے ہوئے میں نے اپنی صحت پر توجہ نہیں دی تو اب مجھے اپنی صحت پر دھیان دینا چاہیے۔ گھر تو بنالیا لیکن یہ محفوظ نہیں ہے اب اسے محفوظ بنانا چاہیے۔ مجھے اپنی حفاظت کے لیے گارڈ رکھنے چاہیں وغیرہ۔ ان لوگوں میں سے زیادہ تر پوری زندگی اسی جدوجہد میں گذاردیتے ہیں۔
جو لوگ ان ضروریات کو پورا کرلیتے ہیں تو وہ پھر بھی مطمئن نہیں ہوتے اور ان کی اس سے اگلے درجے کی ضروریات بیدار ہو جاتی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بھلا پیار محبت، دوست احباب اور سماجی زندگی میں مقام بنائے بغیر بھی بندہ مطمئن ہوسکتا ہے۔ اور پھر وہ اس جدوجہد میں لگ جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اسی جدوجہد میں اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔
جو خوش نصیب یہ بھی حاصل کرلیتے ہیں تو دلی اطمینان ان کو بھی نہیں ہوتا اور وہ اگلے درجے کی ضروریات سے متعارف ہوتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہم تو بہت باصلاحیت ہیں ہم کوشش کریں تو سماج میں اعلیٰ مقام بنا سکتے ہیں۔ زندگی ہوتو ایسی کہ دنیا ہمیں یاد رکھے۔ اور ہمارا نام عزت سے لیا جائے۔ پھر وہ نام بنانے کی اس جدوجہد میں لگ جاتے ہیں اور اسی میں اپنی زندگی تمام کردیتے ہیں۔
ان میں سے چند خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں جو یہ مقام بھی حاصل کرلیتے ہیں لیکن افسوس کہ دلی اطمینان اب بھی نہیں ملتا۔ پھر اپنے دل کے اطمینان کے لیے یہ لوگ روحانیت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ اپنی ذات سے ہٹ کر انسانیت کے بارے میں سوچتے ہیں اور انسانی فلاح و بہبود کے کام کرنے لگتے ہیں۔ اور اب شاید انہیں اطمینان حاصل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
---------------------------------------
جہاں پر ماسلو کی تھیوری کے مطابق آسمانی مذاہب کے بغیر انسان اپنی کامیاب زندگی کا اختتام کرتا ہے آسمانی مذاہب اپنے پیرو کاروں کو وہاں سے ابتدا کرنے کا گیان دیتے ہیں۔
مذہب جو کچھ بھی ہے یہ انسانی نفسیات کی اہم ضرورت ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے عقل اور ذہن کو کھلا رکھیں اور اندھے اور بہرے بن کر نہ رہیں۔اور الہامی مذہب بھی یہی کہتا ہے۔