محترمہ مریم افتخار صاحبہ کے ساتھ ایک مصاحبہ!

خوش آمدید خورشیداحمدخورشید صاحب! آپ کا مشاہدہ خوشگوار ہے۔ امید ہے کہ جتنی خصوصیات آپ نے لکھ دی ہیں ہم اس کی شبیہہ بھی ن پائیں کیونکہ goal تو یہی ہے۔ جہاں سے میں خود کو دیکھتی ہوں، مجھے سات سال میں کوئی "نمایاں" تبدیلی نہیں لگی، کیونکہ میں وہی ہوں اور میرا راستہ وہی ہے جو اول روز سے تھا۔ منزل کی فکر نہیں ہے کہ یہ راستہ میرے لیے شاید سب کچھ ہی ہے، اور سات سال پہلے کے انٹرویو میں شاید میں اس کے کسی اور مقام پر تھی، چلتے چلتے کچھ سائن بورڈز اورکچھ ڈائریکشنز مزید کلئیر ہوئیں۔ ایسا ہوتا ہے نا کہ ہر انسان کا کوئی وقت ہوتا ہے جب دوسرے اس پہ غور کرنے لگتے ہیں یا کامیاب سمجھتے ہیں مگر وہ انسان اکثرپہلے بھی وہی ہوتا ہے بس دنیاوی سٹینڈرڈ ز وغیرہ کا فرق ہو سکتا ہے۔
آپ کی فکری تبدیلی کی بات ہو رہی تھی۔ آپ نے کہا کہ کوئی نمایاں تبدیلی نہیں۔ راستہ وہی ہے۔ اگر آپ سچائی کی تلاش کو اپنا راستہ کہ رہی ہیں تو پھرآپ کی بات درست ہے۔
جہاں تک امت مسلمہ اور انسانوں کی inclusivity کا ذکر ہے تو معاملہ کچھ یوں ہے کہ میں انسانوں کے لیے کسی بھی رنگ، نسل ،جینڈر ،تعلیم، علاقے وغیرہ پر بائیسڈ نہیں ہوں اور جب سے خود کا مشاہدہ کر رہی ہوں ہمیشہ inclusivity کی کوشش کی ہے انسانوں کو ڈیل کرتے ہوئے یا ان کو سمجھتے ہوئے۔
اگر انسانوں کی inclusivity کو لمیٹڈ کردیں گی تو آپ دنیا کو ایک مربوط بظام کے طور پر کیسے سمجھ سکتی ہیں۔
لیکن!!! میں اسلام دشمن عناصر کی دشمن ہوں۔ جو سب کا دوست ہوتا ہے وہ بھلا کب کسی کا دوست ہوتا ہے؟ میں بائیسڈ ہوں اسلام کے لیے۔ جو کوئی بھی امت مسلمہ کے جسد واحد کو نقصان پہنچائے گا اور جہاں بھی رزم حق و باطل چلے گی، میں عورت ہو کر بھی چوڑیاں نہ پہنوں گی۔ اسے کر گزرنا سمجھیں یا جو بھی سمجھیں اور یہ بات سچ ہے کہ پہل ہماری طرف سے نہ ہوگی، جو ہم سے ٹکرائے گا وہ انجام سوچ لے کیونکہ ہماری آخری منزل ان شاء اللہ اپنے رب سے ملاقات ہے!:redheart:
اگر آپ اپنے گھر یا اپنے ملک کے دشمنوں سے لڑنے کی بات کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ہر معاشرہ یا ملک اسی اصول پر کاربند ہے۔ اور اگرآپ امتِ مسلمہ کی بات کرتی ہیں تو جذباتی طور پر آپ کا دعوٰی قابلِ قدر سہی لیکن عملی طور پرامتِ مسلمہ کا جسدِ واحد کہاں پایاجاتا ہے ؟
 
راستہ وہی ہے۔ اگر آپ سچائی کی تلاش کو اپنا راستہ کہ رہی ہیں
بالکل!!!
اگر انسانوں کی inclusivity کو لمیٹڈ کردیں گی تو آپ دنیا کو ایک مربوط بظام کے طور پر کیسے سمجھ سکتی ہیں۔
دنیا کو انبیاء سے زیادہ سمجھنے کا goal نہیں ہے۔ میرا نہیں خیال انہوں نے inclusivity کو لمٹیڈ کیا تھا، مگر پھر بھی ان کی ایک بہت سٹرونگ سائیڈ تھی۔
اگر آپ اپنے گھر یا اپنے ملک کے دشمنوں سے لڑنے کی بات کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ہر معاشرہ یا ملک اسی اصول پر کاربند ہے۔ اور اگرآپ امتِ مسلمہ کی بات کرتی ہیں تو جذباتی طور پر آپ کا دعوٰی قابلِ قدر سہی لیکن عملی طور پرامتِ مسلمہ کا جسدِ واحد کہاں پایاجاتا ہے ؟
بہت اچھا پوائنٹ اٹھایا ہے۔ سچ کہہ رہے ہیں کہ یہ جسد واحد فی الحال نظر تو نہیں آتا۔ وگر نہ ہماری آنکھوں کے سامنے حال ہی میں کیا کیا ہوگیا اور ہم ملکی اور ذاتی مفادات میں گھرے ہوئے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہے ۔ یہ جسد واحد شاید صرف جذباتی ہی ہے فی الحال کہ جو ایمان کے رشتے سے جڑے ہیں انہیں تکلیف تو محسوس ہوتی ہے ایک دوسرے کی۔ لیکن ایک بات سمجھتی ہوں کہ دنیا کے عظیم لیڈرز یا most-influential لوگ کسی بھی فیلڈ میں پہلے ایک دنیا کا خواب دماغ میں سوچتے ہیں جب وہ باہر نہیں نظر آ رہی ہوتی اور پھر اپنی فیلڈ کے لحاظ سے اس میں لگ جاتے ہیں کر گزرنے۔ میں شاید خلافت کی امید میں ہوں، یا امام مہدی اور حضرت عیسی کی یا کسی بھی طرح آنے والے مسلم اتحاد کی۔ دیکھتے ہیں میرے دماغ کی دنیا کا مسلم جسد واحد باہر کیسے اور کب ابھرے گا۔ تاہم میں اسی عمارت کی ایک اینٹ ہوں۔ کچھ بھی اگر نہ کر پائی تو میرے یہ لفظ بعد میں آنے والوں کے لیے شاید کچھ ہوں۔ کسی راکھ میں دبی چنگاری کے لیے ہی سہی جو مکمل آفتاب بننے کا ہنر رکھتی ہو۔
 
دنیا کو انبیاء سے زیادہ سمجھنے کا goal نہیں ہے۔ میرا نہیں خیال انہوں نے inclusivity کو لمٹیڈ کیا تھا، مگر پھر بھی ان کی ایک بہت سٹرونگ سائیڈ تھی۔
سوال اگر سمجھ بوجھ کا ہوتا تو آپ کا goal سمجھ میں آتا ہے اور achievable ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انبیاء کوصرف ان کی سمجھ بوجھ کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کی براہِ راست ہدایت یعنی وحی کی وجہ سےانبیاء کہا جاتا ہے۔جس کا سلسلہ بند ہوچکا اس لیے وہ ایک عام انسان کو حاصل نہیں ہے۔ عام انسان کے پاس صرف عقل و دانش ہے جس سے وہ کام لے سکتا ہے لیکن اسے وحی کے برابر یعنی absolute ہونے کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔
میں شاید خلافت کی امید میں ہوں، یا امام مہدی اور حضرت عیسی کی یا کسی بھی طرح آنے والے مسلم اتحاد کی
اگر ایسا ہوتا ہے تو عام انسان یا مسلمان کو کیسے پتہ چلے گا کہ جس کی پیروی میں نے کرنی ہے وہ تشریف لاچکے ہیں؟

نوٹ:- چونکہ میں بھی آپ کی طرح سوال و جواب کو سیکھنے سکھانے کا ذریعہ سمجھتاہوں اس لیےمزید سوال کرنے کی جسارت کی ہے اگر یہ سلسلہ بند کرنا چاہیں تو اس کا اظہار فرمادیں۔
 
نوٹ:- چونکہ میں بھی آپ کی طرح سوال و جواب کو سیکھنے سکھانے کا ذریعہ سمجھتاہوں اس لیےمزید سوال کرنے کی جسارت کی ہے اگر یہ سلسلہ بند کرنا چاہیں تو اس کا اظہار فرمادیں۔
میں سوالات کے لیے ہمیشہ اوپن ہوں اور یک گونہ خوشی ہوتی ہے۔ اگر کوئی جواب نہیں آتا تو موسٹ سائینٹفک آنسر بھی پتہ ہے: آئی ڈونٹ نو۔ :D تاہم مجھے ذاتی طور پر سوالات کے جوابات دینے کی بجائے مزید سولات نکالنا زیادہ پسند ہے۔ کیونکہ اس سے سوچنے کے نیئ لیولز ان لاک ہوتے ہیں یا اردو میں کہیں تو در وا وغیرہ۔۔۔
سوال اگر سمجھ بوجھ کا ہوتا تو آپ کا goal سمجھ میں آتا ہے اور achievable ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انبیاء کوصرف ان کی سمجھ بوجھ کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کی براہِ راست ہدایت یعنی وحی کی وجہ سےانبیاء کہا جاتا ہے۔جس کا سلسلہ بند ہوچکا اس لیے وہ ایک عام انسان کو حاصل نہیں ہے۔ عام انسان کے پاس صرف عقل و دانش ہے جس سے وہ کام لے سکتا ہے لیکن اسے وحی کے برابر یعنی absolute ہونے کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔
استغفرللہ اگر میری زبان سے ایسا کچھ نکلا تھا، میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا جس ضمن میں یہ سوال چلا گیا۔ مجھے دعوی تو کیا خیال بھی نہیں گزرتا ایسی باتوں کا کہ انبیاء کے برابر وغیرہ اور خود تو کیا میں تو بڑی بڑی ہستیوں کی بھی اندھی تقلید کے خلاف ہوں کیونکہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا اور میں محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے علاوہ اور کسی ہستی چاہے مذہبی ہو یا اخلاقی یا سائنسی اور سیاسی وغیرہ کے پیروکار کی حیثیت سے نہیں جانے جانا چاہتی۔ میں نے جو بات پچھلے مراسلے میں کہی تھی اگر دوبارہ مزید آسان الفاظ میں کہنے کی کوشش کروں تو بات کا مقصد فقط یہ تھا کہ انبیاء ہمارے لیے مثالیں ہیں کہ انسان کو کیسا ہونا چاہئیے اور انبیاء کی ہمیشہ ایک سٹرونگ سائیڈ ہوتی تھی، نیوٹرل وغیرہ نہیں تھے وہ۔ تو ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کی ایک سٹرونگ سائیڈ ہو تو آپ کو دنیا کا مربوط علم نہیں آئے گا۔ بلکہ اگر مذہب سے ہٹ کر بھی بات کریں تو دنیا میں بڑے انفلوئینشئیل لوگ سٹرونگلی اوپینئینیٹڈ ہوتے تھے تبھی وہ کوئی کام آگے بڑھا پاتے تھے۔ جو لوگ آگے بڑھ کر خود کو خود ڈیفائین نہیں کرتے، انہیں یہ دنیا ڈیفائین کر دیتی ہے اور یہ دنیا کمزور انسانوں کو ڈیفائین کرنے میں بہت بری ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو عام انسان یا مسلمان کو کیسے پتہ چلے گا کہ جس کی پیروی میں نے کرنی ہے وہ تشریف لاچکے ہیں؟
سچ کہوں تو میں فی الحال نہیں جانتی کہ اس دور فتنہ پرور میں عام انسانوں اور مسلمانوں کے لیے کیا پیمانے ہوں گے کہ وہ رہنما کے دعوے کی صحت جانچ کر پیروی کا فیصلہ کر پائیں۔ جتنا زیادہ میڈیا کا دور ہے، تشریف لانا امید ہے ڈھکا چھپا نہیں رہ پائے گا۔ لیکن میں جنرلی ایک بات کروں گی کہ ہدایت مانگنے سے ملتی ہے اور ایک قرآن سٹوڈنٹ کی حیثیت سے میں نے ہمیشہ اپنے لیے فرقان (سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کی صلاحیت) مانگی ہے اور فی الحال مجھے لگتا ہے کہ میرے لیے سب سے اہم ابھی یہی ہے۔ اب کیسے آتا ہے یہ فرق کرنا؟ اگرچہ مجھے دعوی نہیں کہ چند فیصد بھی مجھے آ چکا ہے (کہا نا کہ اس راستے پر ہوں بس) لیکن مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے پسندیدہ انسانوں کے طور پر کیا اور وہ جن کے لیے اس کا غضب تھا، ان کی کچھ خصوصیات میں واضح فرق تھا او ر کچھ خصوصیات ایسی تھیں جو دونوں سائیڈز پہ ملتی جلتی تھیں مگر درست سائیڈ پہ کھڑا ہونے کا فرق تھا۔ یعنی بات پھر ہدایت پہ آ جاتی ہے اور ہدایت وہ کمپس نیڈل ہے جو بار بار اسی راستے پر لے آتی ہے اور کہیں دور نکلنے نہیں دیتی۔ مزید برآں عوامی زبان میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ ہر انسان کے اندر دو بھیڑئیے ہوتے ہیں ایک اچھائی کا اور ایک برائی کا۔ جس بھیڑیے کو چارہ ڈالتے رہتے ہیں ( اپنی مینٹل، فزیکل؛ سپیریچوئیل ان ٹیک وغیرہ سے) وہی بڑا ہوتا جاتا ہے۔ تو میں یہ کہوں گی کہ ابھی اگر وہ ہستیاں نہیں بھی آ چکیں تب بھی وہ ٹولز موجود ہیں اور نصاب مکمل ہے کہ کیسے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا سیکھیں اور اچھائی کے بھیڑئیے کو پروان چڑھائیں، ہدایت کے راستے پر رہنے کی عملی کوشش کریں اور اللہ سے مانگیں۔ پھر جب وہ ہستیاں تشریف لے آئیں گی امید ہے کہ ہمارا کیا گیا ہوم ورک کچھ کام آئے گا کیونکہ پہنچتا وہی ہے جو راستے پر ہوتا ہے۔ گھر سے نہ نکلنے والے یا ان راستوں پہ نکلے ہوئے جن کے آخر میں آپ کا رب نہیں کھڑا شاید ہی کبھی پہنچ پائیں اگر رب تک پہنچنا چاہتے ہیں تو۔ اور اگر نہیں پہنچنا چاہتے تو موجاں ہی موجاں، بس دعا کریں کہ یہ موجوں والی زندگی ابدی رہے اور اردگرد ہر روز گرنے والی لاشوں سے منہ موڑ ے رکھیں۔ کیونکہ اگر آخرت پہ ایمان والوں کی بات بالفرض سچ نہ نکلی تو بھی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر سچ نکل آئی تو جو دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور آگے کی ابدی زندگی کا سامان نہ کیا، کہاں جائیں گے؟
 
کیونکہ اگر آخرت پہ ایمان والوں کی بات بالفرض سچ نہ نکلی تو بھی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر سچ نکل آئی تو جو دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور آگے کی ابدی زندگی کا سامان نہ کیا، کہاں جائیں گے؟
یہ بہت دلچسپ نقطہ ہے۔ میرا معصومانہ سوال اس ضمن میں یہ ہے کہ اگر بعد از موت خدا وہ نہ نکلا جسے ہم پوجتے ہیں، تو معافی تلافی کے لیے کیا توجیہ قابلِ قبول ہو گی؟
 
یہ بہت دلچسپ نقطہ ہے۔ میرا معصومانہ سوال اس ضمن میں یہ ہے کہ اگر بعد از موت خدا وہ نہ نکلا جسے ہم پوجتے ہیں، تو معافی تلافی کے لیے کیا توجیہ قابلِ قبول ہو گی؟
میرا معصومانہ جواب یہ ہے کہ خدا ایک ہی ہے اور وہی ہے جس نے اپنا تعارف قرآن پاک میں کروا رکھا ہے اور جا بجا اس کا مشاہدہ اس کی تخلیق میں کرتے ہیں۔ میں unapologetic ہوں اس کے معاملے میں اس لیے معافی کا وہ سوچیں جو نہیں ہیں۔ اگر بالفرض خدا وہ نہ نکلا جو قرآن کا خدا ہے، میرا ہے اور ہر مخلوق کا ہے تو پھر وہ جو خدا نکلے گا اس کو کہوں گی کہ میرے خدا نے تو ہدایت کے اتنے راستے دکھائے آسمانی کتابوں پیمبروں اور کئی طریقوں سے، تو کہاں تھا؟ سورۃ الکوثر کے برابر ایک سورۃ ہی لے آتا۔ unapologetic- you- know!
نہ تیرا خدا کوئی اور ہے نہ میرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو راستے ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے

آخری تدوین و اضافہ: مزید یہ کہ کوئی اور خدا جو پوٹینشئیلی آگے جا کے نکل سکتے ہیں ان کی کتابوں کی لسٹ اور ان کے عوامی نمائندوں کے نام وغیرہ بتائیں۔ میں ان شاء اللہ اگلی بار سٹڈی کر کے آؤں گی اور پھر اس پہ بات کریں گے۔ (اور اگر انہوں نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے کچھ نہیں بھیجا ہوا تو پھر آگے جا کے مجھ سے سوال کریں گے؟ واقعی؟)
 
آخری تدوین:
میرا معصومانہ جواب یہ ہے کہ خدا ایک ہی ہے اور وہی ہے جس نے اپنا تعارف قرآن پاک میں کروا رکھا ہے اور جا بجا اس کا مشاہدہ اس کی تخلیق میں کرتے ہیں۔ میں unapologetic ہوں اس کے معاملے میں اس لیے معافی کا وہ سوچیں جو نہیں ہیں۔ اگر بالفرض خدا وہ نہ نکلا جو قرآن کا خدا ہے، میرا ہے اور ہر مخلوق کا ہے تو پھر وہ جو خدا نکلے گا اس کو کہوں گی کہ میرے خدا نے تو ہدایت کے اتنے راستے دکھائے آسمانی کتابوں پیمبروں اور کئی طریقوں سے، تو کہاں تھا؟ سورۃ الکوثر کے برابر ایک سورۃ ہی لے آتا۔ unapologetic- you- know!
نہ تیرا خدا کوئی اور ہے نہ میرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو راستے ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے
میری دانست میں یہ جواب ناکافی ہے۔ اس جواب سے چند سوالات اور نکلتے ہیں۔ اگر اس خدا کا جواب یہ ہوا کہ میں پابند نہیں تھا کسی بھی کتاب یا پیمبر کا کیونکہ میں خدا ہوں اور میں تمھہیں سب سے بہتر جانتا ہوں اس لیے میں نے تمھہیں اپنی ہستی سے ہارڈ وائرڈ کر دیا اور تمھیں کسی کتاب کی ضرورت نہ تھی۔ دوم اگر وہ خدا یہ دعویٰ کرے کہ میں نے تو کتاب اتاری تھی لیکن تم سے پہلے کسی قوم کی نا اہلی کی وجہ سے وہ کتاب یا کلام پس پردہ چلا گیا، اب اس حقیقت کی تلاش تمھارا کام تھا۔
میری دانست میں مذہب کا انسانی تاریخ میں معاشرتی و انفرادی معاملات میں بہت اہم کردار رہا ہے لیکن ہر مذہبی مافوق الفطرت دعویٰ کی بنیاد ایمان پہ ہے اس میں ثبوت و دلائل فٹ نہیں بیٹھتے۔ اگر ایمان بالغیب ہی لانا ہے تو پھر آپ مذہب الف، ب، ج، د کسی پہ بھی ایمان لے آئیں جو بھی آپ کی تسلی کا سامان بن سکے، سب برابر ہے۔
 
میں سوالات کے لیے ہمیشہ اوپن ہوں اور یک گونہ خوشی ہوتی ہے۔ اگر کوئی جواب نہیں آتا تو موسٹ سائینٹفک آنسر بھی پتہ ہے: آئی ڈونٹ نو۔ :D تاہم مجھے ذاتی طور پر سوالات کے جوابات دینے کی بجائے مزید سولات نکالنا زیادہ پسند ہے۔ کیونکہ اس سے سوچنے کے نیئ لیولز ان لاک ہوتے ہیں یا اردو میں کہیں تو در وا وغیرہ۔۔۔
میری کوشش بھی صرف سوال نکالنے اور سوچ کا در وا کرنے کی ہی ہوتی ہے۔ میرا مقصد امتحان لینا یا یہ باور کرانا کہ میں جانتا ہوں ہرگز نہیں ہوتا ۔کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ میری سمجھ ناقص ہے۔
جب سوال پیدا ہوتا ہے تو اس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے انسان اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے۔جب آپ جیسے ذہین دماغوں سے ملاقات ہوتی ہے تو میری کوشش ہوتی ہےکہ تبادلہ خیال ہو تاکہ میں اپنی قائم کی ہوئی رائے پر نظر ثانی کرسکوں۔
استغفرللہ اگر میری زبان سے ایسا کچھ نکلا تھا، میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا جس ضمن میں یہ سوال چلا گیا۔ مجھے دعوی تو کیا خیال بھی نہیں گزرتا ایسی باتوں کا کہ انبیاء کے برابر وغیرہ اور خود تو کیا میں تو بڑی بڑی ہستیوں کی بھی اندھی تقلید کے خلاف ہوں کیونکہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا اور میں محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے علاوہ اور کسی ہستی چاہے مذہبی ہو یا اخلاقی یا سائنسی اور سیاسی وغیرہ کے پیروکار کی حیثیت سے نہیں جانے جانا چاہتی۔ میں نے جو بات پچھلے مراسلے میں کہی تھی اگر دوبارہ مزید آسان الفاظ میں کہنے کی کوشش کروں تو بات کا مقصد فقط یہ تھا کہ انبیاء ہمارے لیے مثالیں ہیں کہ انسان کو کیسا ہونا چاہئیے اور انبیاء کی ہمیشہ ایک سٹرونگ سائیڈ ہوتی تھی، نیوٹرل وغیرہ نہیں تھے وہ۔ تو ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کی ایک سٹرونگ سائیڈ ہو تو آپ کو دنیا کا مربوط علم نہیں آئے گا۔ بلکہ اگر مذہب سے ہٹ کر بھی بات کریں تو دنیا میں بڑے انفلوئینشئیل لوگ سٹرونگلی اوپینئینیٹڈ ہوتے تھے تبھی وہ کوئی کام آگے بڑھا پاتے تھے۔ جو لوگ آگے بڑھ کر خود کو خود ڈیفائین نہیں کرتے، انہیں یہ دنیا ڈیفائین کر دیتی ہے اور یہ دنیا کمزور انسانوں کو ڈیفائین کرنے میں بہت بری ہے۔
آپ نے میرے اٹھائے گئے سوال سے یہ سمجھا کہ میں شاید آپ پر کوئی فتوٰی وغیرہ لگانے کی کوشش کررہا ہوں۔ بالکل بھی ایسانہٰیں ہے۔میرے سوال کا مقصد آپ کے اگلے پیرا گراف کے جواب میں ہے۔
سچ کہوں تو میں فی الحال نہیں جانتی کہ اس دور فتنہ پرور میں عام انسانوں اور مسلمانوں کے لیے کیا پیمانے ہوں گے کہ وہ رہنما کے دعوے کی صحت جانچ کر پیروی کا فیصلہ کر پائیں۔ جتنا زیادہ میڈیا کا دور ہے، تشریف لانا امید ہے ڈھکا چھپا نہیں رہ پائے گا۔ لیکن میں جنرلی ایک بات کروں گی کہ ہدایت مانگنے سے ملتی ہے اور ایک قرآن سٹوڈنٹ کی حیثیت سے میں نے ہمیشہ اپنے لیے فرقان (سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کی صلاحیت) مانگی ہے اور فی الحال مجھے لگتا ہے کہ میرے لیے سب سے اہم ابھی یہی ہے۔ اب کیسے آتا ہے یہ فرق کرنا؟ اگرچہ مجھے دعوی نہیں کہ چند فیصد بھی مجھے آ چکا ہے (کہا نا کہ اس راستے پر ہوں بس) لیکن مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے پسندیدہ انسانوں کے طور پر کیا اور وہ جن کے لیے اس کا غضب تھا، ان کی کچھ خصوصیات میں واضح فرق تھا او ر کچھ خصوصیات ایسی تھیں جو دونوں سائیڈز پہ ملتی جلتی تھیں مگر درست سائیڈ پہ کھڑا ہونے کا فرق تھا۔ یعنی بات پھر ہدایت پہ آ جاتی ہے اور ہدایت وہ کمپس نیڈل ہے جو بار بار اسی راستے پر لے آتی ہے اور کہیں دور نکلنے نہیں دیتی۔ مزید برآں عوامی زبان میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ ہر انسان کے اندر دو بھیڑئیے ہوتے ہیں ایک اچھائی کا اور ایک برائی کا۔ جس بھیڑیے کو چارہ ڈالتے رہتے ہیں ( اپنی مینٹل، فزیکل؛ سپیریچوئیل ان ٹیک وغیرہ سے) وہی بڑا ہوتا جاتا ہے۔ تو میں یہ کہوں گی کہ ابھی اگر وہ ہستیاں نہیں بھی آ چکیں تب بھی وہ ٹولز موجود ہیں اور نصاب مکمل ہے کہ کیسے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا سیکھیں اور اچھائی کے بھیڑئیے کو پروان چڑھائیں، ہدایت کے راستے پر رہنے کی عملی کوشش کریں اور اللہ سے مانگیں۔ پھر جب وہ ہستیاں تشریف لے آئیں گی امید ہے کہ ہمارا کیا گیا ہوم ورک کچھ کام آئے گا کیونکہ پہنچتا وہی ہے جو راستے پر ہوتا ہے۔ گھر سے نہ نکلنے والے یا ان راستوں پہ نکلے ہوئے جن کے آخر میں آپ کا رب نہیں کھڑا شاید ہی کبھی پہنچ پائیں اگر رب تک پہنچنا چاہتے ہیں تو۔ اور اگر نہیں پہنچنا چاہتے تو موجاں ہی موجاں، بس دعا کریں کہ یہ موجوں والی زندگی ابدی رہے اور اردگرد ہر روز گرنے والی لاشوں سے منہ موڑ ے رکھیں۔ کیونکہ اگر آخرت پہ ایمان والوں کی بات بالفرض سچ نہ نکلی تو بھی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر سچ نکل آئی تو جو دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور آگے کی ابدی زندگی کا سامان نہ کیا، کہاں جائیں گے؟
آپ کی ساری باتیں درست اور جذبات قابلِ قدر ہیں۔اللہ، آخرت اور انبیاء کے بارے میں میرا ایمان بھی وہی ہےجیسا آپ کا۔نصاب اور ٹولز (ْقرآن اور سنت) کے برحق ہونے پر میں بھی ویسا ہی ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ آپ کا۔ بات صرف اور صرف ہمارے فہم کی ہے۔ کہ نصاب اور ٹولز کو استعمال کرکے نتیجہ ہم کیا نکالتے ہیں۔ پوری ایمانداری کے ساتھ کوشش کرنے کے باوجود ہم اسے اپنی فہم تو کہ سکتے ہیں لیکن اسے absolute ہونے کا درجہ نہیں دے سکتے۔یعنی اپنے فہم کی بنیاد پر دوسرے کے فہم کاحتمی فیصلہ نہٰیں کرسکتے۔ اللہ کے نبیوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان تھا کہ ان کو اللہ سے براہِ راست ہدایت ملتی تھی۔ اللہ کے نبیوں کے براہِ راست پیروکاروں کے لیے بھی یہ فیصلہ کرنا آسان تھا کہ ان کے درمیان اللہ کے نبی موجود تھے جو ان کی absolute درجے میں راہنمائی کرتے تھے ۔
لیکن ہمارے پاس یہ دونوں ذرائع براہِ راست موجود نہیں ہیں۔ صرف نصاب اور ٹولز موجود ہیں جن کو ہم نے اپنے فہم کے مطابق استعمال کرکے نتیجہ نکالنا ہے۔
جب عدالت فیصلہ کرتی ہے تو یہ کہتی ہے کہ تمام ثبوتوں، گواہوں کے بیانات اور شواہد کی روشنی میں عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں شخص سچا یا جھوٹا ہے۔ یہ نہیں کہتی کہ یہ فیصلہ absolute ہے۔ یہی حال ایک عام انسان کا بھی ہے۔باقی اللہ نیتوں کا حال جانتا ہے اور شاید اسی پر بخشش کا فیصلہ بھی فرمائےگا۔
 
اس جواب سے چند سوالات اور نکلتے ہیں۔ اگر اس خدا کا جواب یہ ہوا کہ میں پابند نہیں تھا کسی بھی کتاب یا پیمبر کا کیونکہ میں خدا ہوں اور میں تمھہیں سب سے بہتر جانتا ہوں اس لیے میں نے تمھہیں اپنی ہستی سے ہارڈ وائرڈ کر دیا اور تمھیں کسی کتاب کی ضرورت نہ تھی۔ دوم اگر وہ خدا یہ دعویٰ کرے کہ میں نے تو کتاب اتاری تھی لیکن تم سے پہلے کسی قوم کی نا اہلی کی وجہ سے وہ کتاب یا کلام پس پردہ چلا گیا، اب اس حقیقت کی تلاش تمھارا کام تھا۔
بہت خوبصورت سوالات، پسند آئے! جوابات کے معاملے میں آئی ڈونٹ نو بٹ مزید سوالات نکالنے کے معاملے میں آئی ایم ان۔ آپ نے اپنی زندگی میں مشاہدہ اور مطالعہ کیا ہوگا کہ یہ دنیا کیسے ورک کرتی ہے۔ کیا آپ نے اس دنیا میں دیکھا کہ کوئی بھی ہستی جس کی بڑائی کو دنیا والے تسلیم کرتے ہیں اس کی دنیا میں کوئی نمائندگی ہی نہیں؟ نہ کتاب کی شکل میں، نہ نمائندگان کی، نہ پیروکاروں کی، نہ سکول آف تھوٹس کی۔ایسی کتنی ہستیوں کو آپ جانتے ہیں جن کے پاس بظاہر کچھ بھی نہیں تھا مگر دنیانے ان کی بڑائی کو تسلیم کیا ؟ اس دنیا میں جتنے بڑے فرعون، نمرود اور بڑی بڑی برائی کی طاقتیں منہ زور اور کھل کر سامنے آنے والی اور تاریخی چیڑ پھاڑ کر دینے والے تھیں، کیا اچھائی کی طاقتیں اور خاص طور پہ ان کا سرچشمہ بالکل دبکا ہوا ہونا دنیا کے اصولوں کے مطابق جو ہمارا مشاہدہ ہے، ممکن ہے؟ اگر واقعی ایسی مثالیں ہیں جن سے میں لا علم ہوں تو ریکمنڈڈ ریڈنگز بھی بتائیے گا۔ میں آپ کی پڑھی ہوئی چیزیں بھی پڑھ کر آوں گی! 🤍
ہر مذہبی مافوق الفطرت دعویٰ کی بنیاد ایمان پہ ہے اس میں ثبوت و دلائل فٹ نہیں بیٹھتے۔ اگر ایمان بالغیب ہی لانا ہے تو پھر آپ مذہب الف، ب، ج، د کسی پہ بھی ایمان لے آئیں جو بھی آپ کی تسلی کا سامان بن سکے، سب برابر ہے۔
ہاں جی لیکن دنیا کا اصول ہے کہ latest -edition پہ لپکتی ہے۔ کتاب ہو یا فیشن ہو یا کچھ بھی۔ جیسے کہ نئی آنے والی چیز ان کو زیادہ فی زمانہ بہتر جگہ کھڑا کرے گی۔ دنیا جیسے کام کر رہی ہے اس میں کب سے سب برابر ہونے لگا؟ یہاں سب برابر ہی تو نظر نہیں آتا نا۔ یا اگر آتا ہے تو بتائیں کیا کیا؟
This is whereI stand in this:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۫-وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ﱪ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ(285)
 
میری کوشش بھی صرف سوال نکالنے اور سوچ کا در وا کرنے کی ہی ہوتی ہے۔ میرا مقصد امتحان لینا یا یہ باور کرانا کہ میں جانتا ہوں ہرگز نہیں ہوتا ۔کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ میری سمجھ ناقص ہے۔
جب سوال پیدا ہوتا ہے تو اس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے انسان اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے۔جب آپ جیسے ذہین دماغوں سے ملاقات ہوتی ہے تو میری کوشش ہوتی ہےکہ تبادلہ خیال ہو تاکہ میں اپنی قائم کی ہوئی رائے پر نظر ثانی کرسکوں۔

آپ نے میرے اٹھائے گئے سوال سے یہ سمجھا کہ میں شاید آپ پر کوئی فتوٰی وغیرہ لگانے کی کوشش کررہا ہوں۔ بالکل بھی ایسانہٰیں ہے۔میرے سوال کا مقصد آپ کے اگلے پیرا گراف کے جواب میں ہے۔

آپ کی ساری باتیں درست اور جذبات قابلِ قدر ہیں۔اللہ، آخرت اور انبیاء کے بارے میں میرا ایمان بھی وہی ہےجیسا آپ کا۔نصاب اور ٹولز (ْقرآن اور سنت) کے برحق ہونے پر میں بھی ویسا ہی ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ آپ کا۔ بات صرف اور صرف ہمارے فہم کی ہے۔ کہ نصاب اور ٹولز کو استعمال کرکے نتیجہ ہم کیا نکالتے ہیں۔ پوری ایمانداری کے ساتھ کوشش کرنے کے باوجود ہم اسے اپنی فہم تو کہ سکتے ہیں لیکن اسے absolute ہونے کا درجہ نہیں دے سکتے۔یعنی اپنے فہم کی بنیاد پر دوسرے کے فہم کاحتمی فیصلہ نہٰیں کرسکتے۔ اللہ کے نبیوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان تھا کہ ان کو اللہ سے براہِ راست ہدایت ملتی تھی۔ اللہ کے نبیوں کے براہِ راست پیروکاروں کے لیے بھی یہ فیصلہ کرنا آسان تھا کہ ان کے درمیان اللہ کے نبی موجود تھے جو ان کی absolute درجے میں راہنمائی کرتے تھے ۔
لیکن ہمارے پاس یہ دونوں ذرائع براہِ راست موجود نہیں ہیں۔ صرف نصاب اور ٹولز موجود ہیں جن کو ہم نے اپنے فہم کے مطابق استعمال کرکے نتیجہ نکالنا ہے۔
جب عدالت فیصلہ کرتی ہے تو یہ کہتی ہے کہ تمام ثبوتوں، گواہوں کے بیانات اور شواہد کی روشنی میں عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں شخص سچا یا جھوٹا ہے۔ یہ نہیں کہتی کہ یہ فیصلہ absolute ہے۔ یہی حال ایک عام انسان کا بھی ہے۔باقی اللہ نیتوں کا حال جانتا ہے اور شاید اسی پر بخشش کا فیصلہ بھی فرمائےگا۔
میں آپ سے صد فیصد اتفاق کرتی ہوں۔ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے! 🤍
 

یاز

محفلین
یہ بہت دلچسپ نقطہ ہے۔ میرا معصومانہ سوال اس ضمن میں یہ ہے کہ اگر بعد از موت خدا وہ نہ نکلا جسے ہم پوجتے ہیں، تو معافی تلافی کے لیے کیا توجیہ قابلِ قبول ہو گی؟
اس سے کیفی اعظمی مرحوم کی ایک نظم کے اختتامی اشعار یاد آ گئے
راہ میں ٹوٹ گئے پاؤں تو معلوم ہوا
جز مرے اور میرا راہ نما کوئی نہیں
ایک کے بعد خدا ایک چلا آتا تھا
کہہ دیا عقل نے تنگ آکے خدا کوئی نہیں
 
بہت خوبصورت سوالات، پسند آئے! جوابات کے معاملے میں آئی ڈونٹ نو بٹ مزید سوالات نکالنے کے معاملے میں آئی ایم ان۔ آپ نے اپنی زندگی میں مشاہدہ اور مطالعہ کیا ہوگا کہ یہ دنیا کیسے ورک کرتی ہے۔ کیا آپ نے اس دنیا میں دیکھا کہ کوئی بھی ہستی جس کی بڑائی کو دنیا والے تسلیم کرتے ہیں اس کی دنیا میں کوئی نمائندگی ہی نہیں؟ نہ کتاب کی شکل میں، نہ نمائندگان کی، نہ پیروکاروں کی، نہ سکول آف تھوٹس کی۔ایسی کتنی ہستیوں کو آپ جانتے ہیں جن کے پاس بظاہر کچھ بھی نہیں تھا مگر دنیانے ان کی بڑائی کو تسلیم کیا ؟ اس دنیا میں جتنے بڑے فرعون، نمرود اور بڑی بڑی برائی کی طاقتیں منہ زور اور کھل کر سامنے آنے والی اور تاریخی چیڑ پھاڑ کر دینے والے تھیں، کیا اچھائی کی طاقتیں اور خاص طور پہ ان کا سرچشمہ بالکل دبکا ہوا ہونا دنیا کے اصولوں کے مطابق جو ہمارا مشاہدہ ہے، ممکن ہے؟ اگر واقعی ایسی مثالیں ہیں جن سے میں لا علم ہوں تو ریکمنڈڈ ریڈنگز بھی بتائیے گا۔ میں آپ کی پڑھی ہوئی چیزیں بھی پڑھ کر آوں گی! 🤍

ہاں جی لیکن دنیا کا اصول ہے کہ latest -edition پہ لپکتی ہے۔ کتاب ہو یا فیشن ہو یا کچھ بھی۔ جیسے کہ نئی آنے والی چیز ان کو زیادہ فی زمانہ بہتر جگہ کھڑا کرے گی۔ دنیا جیسے کام کر رہی ہے اس میں کب سے سب برابر ہونے لگا؟ یہاں سب برابر ہی تو نظر نہیں آتا نا۔ یا اگر آتا ہے تو بتائیں کیا کیا؟
This is whereI stand in this:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۫-وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ﱪ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ(285)
اچھائی اور برائی کو کوئی ابجیکٹیو ویلیو نہیں ہے، اس کا براہ راست تعلق بقا سے ہے۔ہر وہ چیز جو انفرادی و معاشرتی سطح پہ جسمانی و شعوری بقا میں مثبت کردار ادا کرتی ہے ہم اسے اچھائی سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے متضاد برائی سے۔ ایک شخص کے فنا ہو جانے سے ہمارے اندر کی اپنی بقائی انسیکیورٹی کو ہوا ملتی ہے جس کو ہم کلی طور پر اوائیڈ کرنے کی سعی میں ہیں۔
کائنات بہت وسیع ہے اور ہم خود اس کائنات کا حصہ ہیں لیکن ذی شعور ہونے کے سبب کائنات کی بے حسی اور اپنے فنا ہو جانے کے پیشگی خبر سے نالاں ہیں۔ ایسے میں اگر ابجیکٹیولی دیکھا جائے تو مذہب ایک طفل تسلی کے سواکچھ بھی نہیں ۔ اگر انسانی نفسیات پہ غور کیا جائےتو یہ اپنے اندر موجود کم علمی یا غیر یقینیت کے مادے کو یقین سے بھرنے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ یقین آپ کو ایک سٹیبل فٹنگ پرووائیڈ کرتا ہے۔ایسے میں مذہب کا کردار بہت اہم ہے جو آپ کی غیر یقینیت کو جذب کر لیتا ہے اور آپ کو دنیا میں کھیلنے کی ہمت و جواز مہیا کرتا ہے۔ میری دانست میں مذہب کا ماخذ خود انسان ہے، اس کا خارج سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان نے اپنے آپ کو قائم و دائم رکھنے کی سعی میں بہت سی چیزیں ایجاد کی ہیں جن میں سے ایک مذہب ہے، اور یہ وقوعہ ایک دن میں نہیں ہوا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ بہت خوش آئند بات ہے اگر آپ مذہب کی بدولت آسمان کی بلندیوں کو چھونے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اور آپ کے مذہبی عقائد سے کسی دوسرے شخص کی شعوری و جسمانی بقا پہ کوئی حرف نہیں آتا (لیکن ایسا انفرادی سطح پہ تو شاید ممکن ہو لیکن سماجی سطح پہ تقریباً نا ممکن ہے اور اسی وجہ سے آپ کو اچھائی و برائی کی طاقتیں نظر آ رہی ہیں حالانکہ ہر فرد و سماج اپنے بقا کی جنگ میں ہے اور تھا لیکن فرد جب سماج کا حصہ بنتا ہے تو پھر سماجی نفسیات پاگل پن کی حد تک غیر منطقی ہو جاتی ہے، اس پہ بہت تفصیل سے لکھا جا سکتا ہے لیکن وہی بات کہ دماغ کی بے حسی بہت حد تک آڑے آ رہی ہے)۔ حقیقت بہت کربناک بھی ہو سکتی ہے اس سے منہ موڑ کے بھرپور زندگی جینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔اس لیے ہر انسان کی اپنی چوائس ہے کہ اس کی زندگی کا سامان حقیقت کی کھوج میں ہے یا پھر ایمان بالغیب سے آگے بڑھ کر اپنی زندگی کو وہ رنگ دینا ہے جس میں اسے اپنی زندگی کا سامان نظر آتا ہے۔ہر شخص میں حقیقت کا بار اٹھانے کی سکت نہیں ہے، کم از کم زمانہ حال میں۔
 
اچھائی اور برائی کو کوئی ابجیکٹیو ویلیو نہیں ہے، اس کا براہ راست تعلق بقا سے ہے۔ہر وہ چیز جو انفرادی و معاشرتی سطح پہ جسمانی و شعوری بقا میں مثبت کردار ادا کرتی ہے ہم اسے اچھائی سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے متضاد برائی سے۔ ایک شخص کے فنا ہو جانے سے ہمارے اندر کی اپنی بقائی انسیکیورٹی کو ہوا ملتی ہے جس کو ہم کلی طور پر اوائیڈ کرنے کی سعی میں ہیں۔
کائنات بہت وسیع ہے اور ہم خود اس کائنات کا حصہ ہیں لیکن ذی شعور ہونے کے سبب کائنات کی بے حسی اور اپنے فنا ہو جانے کے پیشگی خبر سے نالاں ہیں۔ ایسے میں اگر ابجیکٹیولی دیکھا جائے تو مذہب ایک طفل تسلی کے سواکچھ بھی نہیں ۔ اگر انسانی نفسیات پہ غور کیا جائےتو یہ اپنے اندر موجود کم علمی یا غیر یقینیت کے مادے کو یقین سے بھرنے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ یقین آپ کو ایک سٹیبل فٹنگ پرووائیڈ کرتا ہے۔ایسے میں مذہب کا کردار بہت اہم ہے جو آپ کی غیر یقینیت کو جذب کر لیتا ہے اور آپ کو دنیا میں کھیلنے کی ہمت و جواز مہیا کرتا ہے۔ میری دانست میں مذہب کا ماخذ خود انسان ہے، اس کا خارج سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان نے اپنے آپ کو قائم و دائم رکھنے کی سعی میں بہت سی چیزیں ایجاد کی ہیں جن میں سے ایک مذہب ہے، اور یہ وقوعہ ایک دن میں نہیں ہوا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ بہت خوش آئند بات ہے اگر آپ مذہب کی بدولت آسمان کی بلندیوں کو چھونے کا حوصلہ رکھتے ہیں، اور آپ کے مذہبی عقائد سے کسی دوسرے شخص کی شعوری و جسمانی بقا پہ کوئی حرف نہیں آتا (لیکن ایسا انفرادی سطح پہ تو شاید ممکن ہو لیکن سماجی سطح پہ تقریباً نا ممکن ہے اور اسی وجہ سے آپ کو اچھائی و برائی کی طاقتیں نظر آ رہی ہیں حالانکہ ہر فرد و سماج اپنے بقا کی جنگ میں ہے اور تھا لیکن فرد جب سماج کا حصہ بنتا ہے تو پھر سماجی نفسیات پاگل پن کی حد تک غیر منطقی ہو جاتی ہے، اس پہ بہت تفصیل سے لکھا جا سکتا ہے لیکن وہی بات کہ دماغ کی بے حسی بہت حد تک آڑے آ رہی ہے)۔ حقیقت بہت کربناک بھی ہو سکتی ہے اس سے منہ موڑ کے بھرپور زندگی جینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔اس لیے ہر انسان کی اپنی چوائس ہے کہ اس کی زندگی کا سامان حقیقت کی کھوج میں ہے یا پھر ایمان بالغیب سے آگے بڑھ کر اپنی زندگی کو وہ رنگ دینا ہے جس میں اسے اپنی زندگی کا سامان نظر آتا ہے۔ہر شخص میں حقیقت کا بار اٹھانے کی سکت نہیں ہے، کم از کم زمانہ حال میں۔
حقیقت کی کھوج
ماسلو ایک امریکی ماہرِ نفسیات تھا۔ اس نے انسانی ضروریات کی درجہ بندی کرتے ہوئےایک پیرامڈ بنائی۔ اس میں اس نے بتایا کہ انسان کی سب سے پہلی ترجیح اس کی جسمانی ضروریات ہوتی ہیں جیسا کہ
پانی، خوراک، لباس، گھر، سواری وغیرہ
شروع میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس کی یہ ضروریات پوری ہوجائیں تو وہ اطمینان سے زندگی بسر کرے گا۔ زیادہ تر لوگ زندگی کے خاتمے تک اسی درجے پر رہتے ہوئے جدوجہد کرتے رہتے ہیں

جو لوگ ان ضروریات کو حاصل کرلیتے ہیں تو پھر ان کی اگلے درجے کی ضروریات بیدار ہوجاتی ہیں اور وہ ہیں محفوظ زندگی گذارنا۔انہیں لگتا ہے کہ دل ابھی مطمئن نہیں کیونکہ جدوجہد کرتے ہوئے میں نے اپنی صحت پر توجہ نہیں دی تو اب مجھے اپنی صحت پر دھیان دینا چاہیے۔ گھر تو بنالیا لیکن یہ محفوظ نہیں ہے اب اسے محفوظ بنانا چاہیے۔ مجھے اپنی حفاظت کے لیے گارڈ رکھنے چاہیں وغیرہ۔ ان لوگوں میں سے زیادہ تر پوری زندگی اسی جدوجہد میں گذاردیتے ہیں۔

جو لوگ ان ضروریات کو پورا کرلیتے ہیں تو وہ پھر بھی مطمئن نہیں ہوتے اور ان کی اس سے اگلے درجے کی ضروریات بیدار ہو جاتی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بھلا پیار محبت، دوست احباب اور سماجی زندگی میں مقام بنائے بغیر بھی بندہ مطمئن ہوسکتا ہے۔ اور پھر وہ اس جدوجہد میں لگ جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اسی جدوجہد میں اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔

جو خوش نصیب یہ بھی حاصل کرلیتے ہیں تو دلی اطمینان ان کو بھی نہیں ہوتا اور وہ اگلے درجے کی ضروریات سے متعارف ہوتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہم تو بہت باصلاحیت ہیں ہم کوشش کریں تو سماج میں اعلیٰ مقام بنا سکتے ہیں۔ زندگی ہوتو ایسی کہ دنیا ہمیں یاد رکھے۔ اور ہمارا نام عزت سے لیا جائے۔ پھر وہ نام بنانے کی اس جدوجہد میں لگ جاتے ہیں اور اسی میں اپنی زندگی تمام کردیتے ہیں۔

ان میں سے چند خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں جو یہ مقام بھی حاصل کرلیتے ہیں لیکن افسوس کہ دلی اطمینان اب بھی نہیں ملتا۔ پھر اپنے دل کے اطمینان کے لیے یہ لوگ روحانیت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ اپنی ذات سے ہٹ کر انسانیت کے بارے میں سوچتے ہیں اور انسانی فلاح و بہبود کے کام کرنے لگتے ہیں۔ اور اب شاید انہیں اطمینان حاصل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
---------------------------------------
جہاں پر ماسلو کی تھیوری کے مطابق آسمانی مذاہب کے بغیر انسان اپنی کامیاب زندگی کا اختتام کرتا ہے آسمانی مذاہب اپنے پیرو کاروں کو وہاں سے ابتدا کرنے کا گیان دیتے ہیں۔
مذہب جو کچھ بھی ہے یہ انسانی نفسیات کی اہم ضرورت ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے عقل اور ذہن کو کھلا رکھیں اور اندھے اور بہرے بن کر نہ رہیں۔اور الہامی مذہب بھی یہی کہتا ہے۔
 
میرے لیے یہ سارے مرحلے اور یہ ساری جہتیں میری سیلف ایکچوئلائزیشن اور ٹرانسینڈینس کی bigger picture کی کڑیاں ہیں۔
ماسلو ایک امریکی ماہرِ نفسیات تھا۔ اس نے انسانی ضروریات کی درجہ بندی کرتے ہوئےایک پیرامڈ بنائی۔
آپ دونوں حضرات کے مراسلہ جات کے جوابات ذرا تسلی سے لکھوں گی۔ تاہم اگر ہماریaudienc e بور ہو رہی ہو تو Maslow اور Self-actualization کے بارے میں چند چھینٹیں ہم نے اپنے اس بلاگ میں بھی ڈالی تھیں۔ امید ہے کچھ ہماری( انٹرویو والی) سمجھ آئے گی۔ :)
 
میں اس سے متفق ہوں لیکن اس کی وجہ بھی شعوری بقا ہے۔
اگر شعوری بقا کی کوشش بھی ہے تو یہ built-in ہے۔اور اگر کوئی خالق کومانتا ہے تو پھر مذہب کو بھی ماننا پڑے گا۔
اگر نہیں مانتا تو بھی انسانی نفسیات کی ضرورت کے طو ر پر ماننا پڑے گا۔
 

زیک

مسافر
میں اس سے متفق ہوں لیکن اس کی وجہ بھی شعوری بقا ہے۔

اگر شعوری بقا کی کوشش بھی ہے تو یہ built-in ہے۔اور اگر کوئی خالق کومانتا ہے تو پھر مذہب کو بھی ماننا پڑے گا۔
اگر نہیں مانتا تو بھی انسانی نفسیات کی ضرورت کے طو ر پر ماننا پڑے گا۔
اکثریت کے لئے درست لیکن ہر انسان کے لئے نہیں
 
اگر شعوری بقا کی کوشش بھی ہے تو یہ built-in ہے۔اور اگر کوئی خالق کومانتا ہے تو پھر مذہب کو بھی ماننا پڑے گا۔
اگر نہیں مانتا تو بھی انسانی نفسیات کی ضرورت کے طو ر پر ماننا پڑے گا۔
ضروری نہیں ہے۔ یہ تمام تر ضروریات ارتقائی عوامل سے بھی وجود میں آ سکتی ہیں جن پہ بحث کا بندہ ناچیز فی الوقت متحمل نہیں ہو سکتا۔
 
Top