میں سوالات کے لیے ہمیشہ اوپن ہوں اور یک گونہ خوشی ہوتی ہے۔ اگر کوئی جواب نہیں آتا تو موسٹ سائینٹفک آنسر بھی پتہ ہے: آئی ڈونٹ نو۔

تاہم مجھے ذاتی طور پر سوالات کے جوابات دینے کی بجائے مزید سولات نکالنا زیادہ پسند ہے۔ کیونکہ اس سے سوچنے کے نیئ لیولز ان لاک ہوتے ہیں یا اردو میں کہیں تو در وا وغیرہ۔۔۔
میری کوشش بھی صرف سوال نکالنے اور سوچ کا در وا کرنے کی ہی ہوتی ہے۔ میرا مقصد امتحان لینا یا یہ باور کرانا کہ میں جانتا ہوں ہرگز نہیں ہوتا ۔کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ میری سمجھ ناقص ہے۔
جب سوال پیدا ہوتا ہے تو اس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے انسان اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے۔جب آپ جیسے ذہین دماغوں سے ملاقات ہوتی ہے تو میری کوشش ہوتی ہےکہ تبادلہ خیال ہو تاکہ میں اپنی قائم کی ہوئی رائے پر نظر ثانی کرسکوں۔
استغفرللہ اگر میری زبان سے ایسا کچھ نکلا تھا، میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا جس ضمن میں یہ سوال چلا گیا۔ مجھے دعوی تو کیا خیال بھی نہیں گزرتا ایسی باتوں کا کہ انبیاء کے برابر وغیرہ اور خود تو کیا میں تو بڑی بڑی ہستیوں کی بھی اندھی تقلید کے خلاف ہوں کیونکہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا اور میں محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے علاوہ اور کسی ہستی چاہے مذہبی ہو یا اخلاقی یا سائنسی اور سیاسی وغیرہ کے پیروکار کی حیثیت سے نہیں جانے جانا چاہتی۔ میں نے جو بات پچھلے مراسلے میں کہی تھی اگر دوبارہ مزید آسان الفاظ میں کہنے کی کوشش کروں تو بات کا مقصد فقط یہ تھا کہ انبیاء ہمارے لیے مثالیں ہیں کہ انسان کو کیسا ہونا چاہئیے اور انبیاء کی ہمیشہ ایک سٹرونگ سائیڈ ہوتی تھی، نیوٹرل وغیرہ نہیں تھے وہ۔ تو ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کی ایک سٹرونگ سائیڈ ہو تو آپ کو دنیا کا مربوط علم نہیں آئے گا۔ بلکہ اگر مذہب سے ہٹ کر بھی بات کریں تو دنیا میں بڑے انفلوئینشئیل لوگ سٹرونگلی اوپینئینیٹڈ ہوتے تھے تبھی وہ کوئی کام آگے بڑھا پاتے تھے۔ جو لوگ آگے بڑھ کر خود کو خود ڈیفائین نہیں کرتے، انہیں یہ دنیا ڈیفائین کر دیتی ہے اور یہ دنیا کمزور انسانوں کو ڈیفائین کرنے میں بہت بری ہے۔
آپ نے میرے اٹھائے گئے سوال سے یہ سمجھا کہ میں شاید آپ پر کوئی فتوٰی وغیرہ لگانے کی کوشش کررہا ہوں۔ بالکل بھی ایسانہٰیں ہے۔میرے سوال کا مقصد آپ کے اگلے پیرا گراف کے جواب میں ہے۔
سچ کہوں تو میں فی الحال نہیں جانتی کہ اس دور فتنہ پرور میں عام انسانوں اور مسلمانوں کے لیے کیا پیمانے ہوں گے کہ وہ رہنما کے دعوے کی صحت جانچ کر پیروی کا فیصلہ کر پائیں۔ جتنا زیادہ میڈیا کا دور ہے، تشریف لانا امید ہے ڈھکا چھپا نہیں رہ پائے گا۔ لیکن میں جنرلی ایک بات کروں گی کہ ہدایت مانگنے سے ملتی ہے اور ایک قرآن سٹوڈنٹ کی حیثیت سے میں نے ہمیشہ اپنے لیے فرقان (سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کی صلاحیت) مانگی ہے اور فی الحال مجھے لگتا ہے کہ میرے لیے سب سے اہم ابھی یہی ہے۔ اب کیسے آتا ہے یہ فرق کرنا؟ اگرچہ مجھے دعوی نہیں کہ چند فیصد بھی مجھے آ چکا ہے (کہا نا کہ اس راستے پر ہوں بس) لیکن مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے پسندیدہ انسانوں کے طور پر کیا اور وہ جن کے لیے اس کا غضب تھا، ان کی کچھ خصوصیات میں واضح فرق تھا او ر کچھ خصوصیات ایسی تھیں جو دونوں سائیڈز پہ ملتی جلتی تھیں مگر درست سائیڈ پہ کھڑا ہونے کا فرق تھا۔ یعنی بات پھر ہدایت پہ آ جاتی ہے اور ہدایت وہ کمپس نیڈل ہے جو بار بار اسی راستے پر لے آتی ہے اور کہیں دور نکلنے نہیں دیتی۔ مزید برآں عوامی زبان میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ ہر انسان کے اندر دو بھیڑئیے ہوتے ہیں ایک اچھائی کا اور ایک برائی کا۔ جس بھیڑیے کو چارہ ڈالتے رہتے ہیں ( اپنی مینٹل، فزیکل؛ سپیریچوئیل ان ٹیک وغیرہ سے) وہی بڑا ہوتا جاتا ہے۔ تو میں یہ کہوں گی کہ ابھی اگر وہ ہستیاں نہیں بھی آ چکیں تب بھی وہ ٹولز موجود ہیں اور نصاب مکمل ہے کہ کیسے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا سیکھیں اور اچھائی کے بھیڑئیے کو پروان چڑھائیں، ہدایت کے راستے پر رہنے کی عملی کوشش کریں اور اللہ سے مانگیں۔ پھر جب وہ ہستیاں تشریف لے آئیں گی امید ہے کہ ہمارا کیا گیا ہوم ورک کچھ کام آئے گا کیونکہ پہنچتا وہی ہے جو راستے پر ہوتا ہے۔ گھر سے نہ نکلنے والے یا ان راستوں پہ نکلے ہوئے جن کے آخر میں آپ کا رب نہیں کھڑا شاید ہی کبھی پہنچ پائیں اگر رب تک پہنچنا چاہتے ہیں تو۔ اور اگر نہیں پہنچنا چاہتے تو موجاں ہی موجاں، بس دعا کریں کہ یہ موجوں والی زندگی ابدی رہے اور اردگرد ہر روز گرنے والی لاشوں سے منہ موڑ ے رکھیں۔ کیونکہ اگر آخرت پہ ایمان والوں کی بات بالفرض سچ نہ نکلی تو بھی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر سچ نکل آئی تو جو دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور آگے کی ابدی زندگی کا سامان نہ کیا، کہاں جائیں گے؟
آپ کی ساری باتیں درست اور جذبات قابلِ قدر ہیں۔اللہ، آخرت اور انبیاء کے بارے میں میرا ایمان بھی وہی ہےجیسا آپ کا۔نصاب اور ٹولز (ْقرآن اور سنت) کے برحق ہونے پر میں بھی ویسا ہی ایمان رکھتا ہوں جیسا کہ آپ کا۔ بات صرف اور صرف ہمارے فہم کی ہے۔ کہ نصاب اور ٹولز کو استعمال کرکے نتیجہ ہم کیا نکالتے ہیں۔ پوری ایمانداری کے ساتھ کوشش کرنے کے باوجود ہم اسے اپنی فہم تو کہ سکتے ہیں لیکن اسے absolute ہونے کا درجہ نہیں دے سکتے۔یعنی اپنے فہم کی بنیاد پر دوسرے کے فہم کاحتمی فیصلہ نہٰیں کرسکتے۔ اللہ کے نبیوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان تھا کہ ان کو اللہ سے براہِ راست ہدایت ملتی تھی۔ اللہ کے نبیوں کے براہِ راست پیروکاروں کے لیے بھی یہ فیصلہ کرنا آسان تھا کہ ان کے درمیان اللہ کے نبی موجود تھے جو ان کی absolute درجے میں راہنمائی کرتے تھے ۔
لیکن ہمارے پاس یہ دونوں ذرائع براہِ راست موجود نہیں ہیں۔ صرف نصاب اور ٹولز موجود ہیں جن کو ہم نے اپنے فہم کے مطابق استعمال کرکے نتیجہ نکالنا ہے۔
جب عدالت فیصلہ کرتی ہے تو یہ کہتی ہے کہ تمام ثبوتوں، گواہوں کے بیانات اور شواہد کی روشنی میں عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں شخص سچا یا جھوٹا ہے۔ یہ نہیں کہتی کہ یہ فیصلہ absolute ہے۔ یہی حال ایک عام انسان کا بھی ہے۔باقی اللہ نیتوں کا حال جانتا ہے اور شاید اسی پر بخشش کا فیصلہ بھی فرمائےگا۔