محبت کے موضوع پر اشعار!

شمشاد

لائبریرین
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
(فیض)
 

عیشل

محفلین
ہم سے روٹھا نہ کرو روٹھے نصیبوں کی طرح
ہم تو غیروں سے بھی ملتے ہیں حبیبوں کی طرح
میری چاہت میری محبت کا یہ کرشمہ ہے
بے ادب کرنے لگے بات ادیبوں کی طرح
 

شمشاد

لائبریرین
بیش قیمت ہیں یہ غم ہائے محبت، مت بھول
ظلمتِ یاس کو مت سونپ خزینہ اپنا
(فیض احمد فیض)
 

عیشل

محفلین
اک محبت ہے بد گماں ہونا
اک حقیقت ہے داستاں ہونا
تو جو آئے تو بات بنتی ہے
ورنہ عمروں کا رائیگاں ہونا
 

شمشاد

لائبریرین
جو کھلے تھے واسطے تیرے محبت کے وہ در
ہو گئے ہیں بند ان پر دستکیں دینا بھی کیا
(نزہت عباسی)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جسے تم زندگی جانو
تمہیں وہ روگ کہتا ہو
کہ جس نے خود ہی چاہت سے
تمہارا ہاتھ تھاما ہو
وہ اپنے دل کے دروازے
تمہی پر بند کر دے تو
محبت مر بھی سکتی ہے

تمہیں سنگسار کرنے کو
جو سنگ بانٹے لوگوں میں
صبا کے روکنے کو جو
قفل ڈالے دریچوں پر
کر کے بند دروازے
سانس پر پہرے لگائے تو
محبت مر بھی سکتی ہے

یہ کس نے کہہ دیا تم سے
محبت مر نہیں سکتی
کہ جب کوئی تمہیں
جان سے گزر جانے کو کہتا ہو
آدھی راہ میں خود ہی
مڑ جانے کو کہتا ہو
وہ اپنی بے وفائی ک
خود اعتراف کر لے تو
محبت مر بھی سکتی ہے
محبت مر بھی سکتی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
ہم بچھڑ جائیں تو اچھا ہی ہے
ساتھ رہنے سے محبت کیسی

تو نے منہ پھیر کے دیکھا بھی نہیں
آ گئی تجھ میں مروت کیسی
 

تیشہ

محفلین
بس اک ترتیب اک منظر محبت
جو ممکن ہو تو جیون بھر محبت

زمیں اک منہدم بستی کا ملبہ
اور اس ملبے میں بستا گھر محبت

مٹا دیتی ہے سارے خوف دل سے
بسا کر روح میں اک ڈر محبت

کبھی تھک کر نہیں گرتا زمیں پر
لگا دیتی ہے جسکو پرَ محبت

نہیں بنتا کوئی اس نقش پر نقش
نہیں ممکن محبت پر محبت

ہر اک محبوب میں ' تو تھا ' سو ہم نے
بہت اخلاص سے کی ہر محبت ،
 

تیشہ

محفلین
دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں
ہم کہ تصویر بنے بس تجھے تکتے جاویں

چوب ِنم خوردہ کی مانند سلگتے رہے ہم
نہ تو بجھُ پائیں نہ بھڑکیں نہ دہکتے جاویں

کیا کرے بے چارہ کوئی جب تیرے اندوہ نصیب
منہ سے کچھ بھی نہ کہیں اور سسکتے جاویں

مثردہ وصل سے کچھ ہم ہی زخود رفتہ نہیں
اسکی آنکھوں میں بھی جگنو سے چمکتے جاویں

ہم نوا سنج ِمحبت ہیں ہر اک رُت میں فراز
وہ قفس ہو کہ گلستان ہو چہکتے جاویں ، ، ،
 

تیشہ

محفلین
لاکھ کاٹا ہے تری یاد کو جڑ سے میں نے !
کیا کروں پھر یہ شجر مجھ میں نکل آتا ہے

جب بھی سوچا ہے محبت نہیں کرنی 'اب کے !
پھر ' محبت کا اثر مجھ میں نکل آتا ہے
 

تیشہ

محفلین
محبت درد کی صورت
محبت گزشتہ موسموں کا استخارہ بن کے رہتی ہے
شبانہ ِ ہجر میں روشن ستارہ بن کے رہتی ہے
منڈیروں پر چراغوں کی لووئیں جب تھرتھراتی ہے
نگر میں ناامیدی کی ہوائیں سنسناتی ہیں
گلی میں جب کوئی آہٹ ،کوئی سایہ ،نہیں رہتا
دُکھے دل کے لئے جب کوئی بھی دھوکہ نہیں رہتا
غموں کے بوجھ سے جب ٹوٹنے لگتے ہیں شانے تو ۔۔۔۔
یہ ان پے ہاتھ رکھتی ہے کسی ہمدرد کی صورت ،، ،
گزر جاتے ہیں سارے قافلے جب دل کی بستی سے
فضا میں تیرتی دیر تک ۔ ۔یہ درد کی صوُرت
محبت درد کی صوُرت ۔ ۔ ۔۔
 
Top