محبت کے موضوع پر اشعار!

ظفری

لائبریرین

پلٹ کر آنکھ نم کرنا مجھے ہر گز نہیں آتا
گئے لمحوں کا غم کرنا مجھے ہر گز نہیں آتا
محبت ہو تو بے حد ہو،نفرت ہو تو بے پایاں
کوئی بھی کام کم کرنا مجھے ہر گز نہیں آتا​
 

شمشاد

لائبریرین
دل میں پھر اک کسک سی اٹھی مدتوں کے بعد
اک عمر کے رُکے ہوئے آنسو نکل پڑے

سینے میں بیقرار ہیں مردہ محبتیں
ممکن ہے یہ چراغ کبھی خود ہی جل پڑے
(شہزاد احمد)
 

شمشاد

لائبریرین
عالمِ محبت میں

عالمِ محبت میں
اس کمالِ وحشت میں
بے سبب رفاقت کا
دکھ اٹھانا پڑتا ہے
تتلیاں پکڑنے کو
دور جانا پڑتا ہے
(نوشی گیلانی)
 

ظفری

لائبریرین

قدم قدم پہ بدل رہے ہیں مسافروں کی طلب کے رستے
ہواؤں جیسی محبتیں ہی صداؤں جیسی رفاقتیں ہیں
میں دوسروں کی خوشی کی خاطر غبار بن کے بکھر گیا ہوں
مگر کسی نے یہ حق نہ مانا کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں​
 

تیشہ

محفلین
عہدِ وفا یا ترک ِمحبت ،جو چاہو سو آپ کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے ، ہم سے کیا منواؤ گے ، ۔ ۔
 

حجاب

محفلین
محبت
بڑا ہی خوبصورت جذبہ ہے
پتہ ہی نہیں چلتا
کب اور کیسے
دل میں یوں اُبھر آتا ہے
جیسے
برسات کی اندھیری رات میں
جگنو جھلملا اُٹھیں
یا چپکے سے کوئی
مسجد میں دیا جلا دے !
 

ظفری

لائبریرین

عاشقی بے دلی سے مشکل ہے
پھر محبت اُسی سے مشکل ہے

عشق آغاز ہی سے مشکل ہے
صبر کرنا ابھی سے مشکل ہے

جس کو سب بے وفا سمجھتے ہیں
بے وفائی اُسی سے مشکل ہے

ایک کو دوسرے سے سہل نہ جان
ہر کوئی ہر کسی سے مشکل ہے

تو بضد ہے تو جا فراز مگر
واپسی اُس گلی سے مشکل ہے​
 

حجاب

محفلین
کیسی محبت کیسی چاہت سب کچھ ہم پر روشن تھا
یونہی ذرا شوق ہوا تھا آؤ دل برباد کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سارا

محفلین
‘کہو مجھ سے محبت ہے‘

تمہیں ضد ہے کہ میں کہہ دوں
مجھے ضد ہے کہ تم کہہ دو
مجھے تم سے محبت ہے
کہو مجھ سے محبت ہے
نہیں یہ جانتے دونوں

محبت کب بھلا محتاج ہے لفظوں کی باتوں کی
محبت تو ہماری دھڑکنوں کے ساز میں شامل
سریلے گیت کی مانند
محبت یاد کی دیوی
جو تنہا رات کو اکثر اتر آتی ہے آنکھوں میں
محبت مسکراہٹ ہے حسیں نازک سے ہونٹوں میں
محبت صندلی ہاتھوں کی نازک لرزشوں میں ہے
محبت سوچ کی گہرائیوں سے پھوٹتی خوشبو
ہمیشہ ساتھ رہتی ہے

محبت آنکھ میں پلتا وہ پراسرار جزبہ ہے
جسے اب تک نہیں کوئی سمجھ پایا
نہ اس کی کوئی صورت ہے
نہ اس کا کوئی پیمانہ
ڈھکے الفاظ میں اسکا بہت اظہار ہوتا ہے

کچھ ایسے ہی کہ جیسے اب
تہہِ دل سے تو ہم دونوں بہت اقرار کرتے ہیں
مگر پھر بھی نہ جانے کیوں
تمہیں ضد ہے میں کہہ دوں
مجھے ضد ہے کہ تم کہہ دو
مجھے تم سے محبت ہے
کہو مجھ سے محبت ہے

‘‘ارشد ملک‘
 

سارہ خان

محفلین
کوئی زنجیر ہو۔۔۔
کوئی زنجیر ہو،
آہن کی، چاندی کی،روایت کی،
محبت توڑ سکتی ہے!

یہ ایسی ڈھال ہےجس پر
زمانے کی کسی تلوار کا لوہا نہیں چلتا!
یہ ایسا شہر ہے جس میں
کسی آمر، کسی سلطان کا سکہ نہیں چلتا!
اگر چشمِ تماشا میں ذرا سی بھی ملاوٹ ہو!
یہ آئینہ نہیں چلتا
یہ ایسی آگ ہے جس میں
بدن شعلوں میں جلتے ہیں تو رُوحیں مسکراتی ہیں
یہ وہ سیلاب ہے جس کو
دلوں کی بستیاں آواز دے کر خود بُلاتی ہیں
یہ جب چاہے کسی بھی خواب کی تعبیر مل جائے
جو منظر بجھ چُکے ہیں ان کو بھی تنویر مل جائے
دعا، جو بے ٹھکانہ تھی، اسے تاثیر مل جائے
کسی رستے میں رستہ پوچھتی تقدیر مل جائے
محبت روک سکتی ہے سمے کے تیز دھارے کو!
کسی جلتے شرارے کو، فنا کے استعارے کو!
محبت روک سکتی ہے، کسی گرتے ستارے کو!
یہ چکنا چور آئینے کے ریزے جوڑ سکتی ہے
جدھر چاہے یہ باگیں موسموں کی موڑ سکتی ہے
کوئی زنجیر ہو، اس کو محبت توڑ سکتی ہے-
(امجد اسلام امجد)
 

حجاب

محفلین
Top