محبت ایک دائرہ کار میں محدود رہتی ہے ابتدا سے اختتام تک کہیں نہ کہیں پابندِ سلاسل نظر آتی ہے
جب کہ عشق بحرِ بے کنار ہے۔۔۔ اسے مجبور ہونا نہیں آتا ۔۔ فنا کے سفر پر گامزن رہنا ہی اس کی زندگی ہے۔۔۔ ۔کانچ کی سیڑھی کی مانند کہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیں۔۔۔ ۔یہاں قدم بہکا وہاں عشق اپنے مقام سے ہٹ گیا۔۔۔ ۔
سنبھال سنبھلا کر رکھنا پڑتا ہے عشق کو۔۔۔ ۔عشق میں رہ گزر دشوار ترین لیکن پاؤں کے چھالوں کا گننا ممنوع۔۔۔ ۔شکایت کرنا اس کی حدت کو کم کردیتا ہے۔۔۔ ۔ہر پل رہنے والی تپش کی مانند یہ دل کا احاطہ کیئے رکھتا ہے۔۔۔
محبت مانگتی ہے۔۔۔ اور عشق تو صرف دیتا ہے۔۔۔ ۔۔
صحیح کہا جی آپ نے ۔
 
محبت اور عشق کے بارے میں کوئی بات کرنے کا اہل تو نہیں ہوں، بس ان چیزوں کو دور سے ایک سرسری سی نظر سے دیکھ کر جو سطحی سا اندازہ سا لگایا ہے، وہ کچھ یوں ہے کہ جس طرح لفظ محبت حبّہ سے مشتق ہے اور حبّہ کا مطلب ہے بیج، دانہ۔۔۔چنانچہ جب تک یہ بیچ دل کی سرزمین میں پوشیدہ رہے محبت کہلاتا ہے۔۔ اگر سرزمینِ دل پاک ہو اوراس بیج کوآنسوؤں سے سینچا گیا ہو، توکچھ عرصہ اس نہاں خانہِ دل کی تنہائی ، خامشی اور تاریکی میں دنیا داری کی چکاچوند سے دور رہنے کے بعد یہی بیج نمو پاکر خاک اور خاکی تقاضوں سے بلند ہوجاتا ہے۔اور ظلمت کدہ ءِ خاک پر شاکر نہیں رہتا اور ایک تناور پودے کی طرح کائنات میں اپنے ہونے کا اعلان اور اظہار کردیتا ہے۔۔ اس وقت اسکا نام عشق رکھا جاتا ہے اور عشق نام ہے حدوں سے باہر ہونے کا۔۔
جذبہِ ءِ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہئیے
سینہءِ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
 
آپ کے اس سوال پر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا ۔۔۔:)
استاد (طالب علم سے) - محبت اور عشق میں کیا فرق ہے؟
طالب علم (استاد سے) - سر !!محبت وہ ہے جو آپ اپنی بیٹی سے کرتے ہیں اور عشق وہ ہے جو میں آپ کی بیٹی سے کرتا ہوں.
 

ظفری

لائبریرین
عشق و محبت احساس کی شدت کے ایسے دو درجے ہیں ۔ جو اپنے جذبات اور محسوسات کے اظہار کے لیئے ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب اپنی عقل و شعور کے مطابق کرتے ہیں ۔ اور عقل و شعور کے معیار پر منحصر ہے کہ وہ ان محسوسات اور جذبات کے اظہار کے لیئے حقائق کی حدوں میں رہتا ہے یا پھر اس سے ماوراء ہوجاتا ہے ۔ اس کے لیئے ایک چھوٹی سی مثال پیش ہے ۔
ایک شخص کو معلوم ہوتا ہے اس کا محبوب آج اس گلی سے گذرے گا ۔
وہ صبح کو ہی گلی میں اس کی راہ میں دید بچھا کر بیٹھ جاتا ہے ۔ صبح ہوتی ہے ، دوپہر ہوتی ہے ، سہ پہر ہوتی ہے ، شام ہوجاتی ہے ، حتیٰ کہ رات ہوجاتی ہے ۔ مگر اس کا محبوب نہیں آتا ۔ ناچار وہ شخص مایوس ہوکر گھر لوٹ جاتا ہے ۔ " یہ محبت ہے " ۔

ایک شخص کو معلوم ہوتا ہے اس کا محبوب آج اس گلی سے گذرے گا ۔
وہ صبح کو ہی گلی میں اس کی راہ میں دید بچھا کر بیٹھ جاتا ہے ۔ صبح ہوتی ہے ، دوپہر ہوتی ہے ، سہ پہر ہوتی ہے ، شام ہوجاتی ہے ، حتیٰ کہ رات ہوجاتی ہے ۔اس کا محبوب نہیں آتا ۔ مگر وہ وہاں سے نہیں اُٹھتا کہ جب تک محبوب کا دیدار نہیں ہوگا ۔ وہ یہاں سے نہیں ہٹے گا ۔ " یہ عشق ہے " ۔
 

عینی شاہ

محفلین
کس سے ڈانٹ کھانی ہے؟ مدیحہ سے یا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ؟؟؟؟

اور ہاں، اب کے بازو کی کیا کیفیت ہے؟ پلستر اتارا کہ نہیں ابھی؟
اور کوئی مجھے ڈانت سکتا بھی ہے کوئی :p
نہیں انکل ابھی نہیں اترا ۔۔۔28 تک اترے گا ،بازو ٹھیک ہے لیکن الٹا سیدھا کروں تو درد ہوتا ہے ابھی :(
 

شمشاد

لائبریرین
محفل پر ایک رکن ہوتی تھی ماوراء، میں اس کو تو ڈانٹ لیا کرتا تھا۔ اب کوئی میری ڈانٹ سُنتی ہی نہیں۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
محبت ایک دائرہ کار میں محدود رہتی ہے ابتدا سے اختتام تک کہیں نہ کہیں پابندِ سلاسل نظر آتی ہے
جب کہ عشق بحرِ بے کنار ہے۔۔۔ اسے مجبور ہونا نہیں آتا ۔۔ فنا کے سفر پر گامزن رہنا ہی اس کی زندگی ہے۔۔۔ ۔کانچ کی سیڑھی کی مانند کہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیں۔۔۔ ۔یہاں قدم بہکا وہاں عشق اپنے مقام سے ہٹ گیا۔۔۔ ۔
سنبھال سنبھلا کر رکھنا پڑتا ہے عشق کو۔۔۔ ۔عشق میں رہ گزر دشوار ترین لیکن پاؤں کے چھالوں کا گننا ممنوع۔۔۔ ۔شکایت کرنا اس کی حدت کو کم کردیتا ہے۔۔۔ ۔ہر پل رہنے والی تپش کی مانند یہ دل کا احاطہ کیئے رکھتا ہے۔۔۔
محبت مانگتی ہے۔۔۔ اور عشق تو صرف دیتا ہے۔۔۔ ۔۔
داد دیے بنا چارہ نہیں!
 
Top