اب بھلا بتاؤنیرنگ مجھے ٹیگ کیا اس دھاگے میں جو مجھے پتا ہوتا ان معاملوں کا تو میرا گھربسا ہوتا اور
چارپانچ بچے ہوتے :) ستانے کی بھی حد ہوتی معصوموں کو
واقعی مجھے تو پچھتاوا ہورہا ہے کہ کس معصوم کو چھیڑ بیٹھا
آپ تو معصوم ہیں ہی لیکن ساتھ میں نیرنگ کو تو نہ بنائیں نا
 

عینی شاہ

محفلین
فرق کا تو پتہ نہیں بس مجھے تو یہ پتہ ہے کہ محبت دنیا کی چیزوں سے ۔۔رشتوں سے ۔۔۔ہوتی ہے اور یہ چیپ یا ناخالص بھی ہوسکتی ہے ۔لیکن عشق صرف اللہ سے ہوتا ہے اور یہ بہت ڈیپ اینڈ پیور ہوتا ہے۔ :) اب منے نے ٹیگ کیا تھا تو جواب تو دینا تھا نا :) تھینکس منے بھائی :)
 
محبت اور عشق ۔۔۔ تعریفات میں بہت کچھ مشترک اور بہت کچھ مختلف ہو سکتا ہے، اقبال نے ’’عشق‘‘ کو بہت سے حوالوں میں باندھا ہے۔ سب اہلِ علم جانتے ہیں۔

لغت کے حوالے سے دیکھئے۔

عشق: ع ش ق
عَشِقَہٗ (باب سمِع یسمَعُ) عِشْقاً و عَشَقاً و مَعْشَقاً : بہت محبت کرنا۔ محبت میں حد سے پڑھ جانا۔
صفت مذکر: عاشق ج عشاق، عاشقون؛ صفت مؤنث: عاشقہ و عاشق ج عواشق
عِشق بِالشَّے: چمٹنا، تعَشَّق: بہ تکلف عاشق بننا، بہت محبت کرنا۔
اَلعِشْق: محبت کی زیادتی؛ پارسائی اور فسق دونوں طرح سے ہوتا ہے۔
العَشّاق، العِشِّیق: بہت زیادہ عشق والا۔
دیگر معانی: عشق پیچان، پیلو، پھولوں کی دیکھ بھال کرنے والا (العَشِیق و العَشُوق) ج عُشُق۔

مصباح اللغات : مکمل عربی اردو ڈکشنری ::: ناشر: خزینہء علم و ادب لاہور
 
اسی کتاب سے

حُبّ: ح ب ب
حَبَّہٗ (باب: ضرَب یضرِبُ) حُبّاً و حِبّاً : رغبت کرنا
حَبَّ (باب سمِع یشمَع)، حَبُبَ (باب: کرُم یکرُم) الیہ: محبوب ہونا، حَبَّبَہٗ: محبوب بنانا،
اور کہا جاتا ہے: حَبَّبَنِی اَیّاہُ: اس نے مجھ کو اپنا محبوب بنا لیا۔

۔۔۔ آگے لمبی بحث ہے جو آدھے صفحے پر محیط ہے، کچھ نکات نقل کرتا ہوں:
حَابَّۃ، مُحَابَّہ و حِباباً: باہم محبت کرنا محبت ظاہر کرنا۔
اَحَبَّہٗ: محبت کرنا، صفات: فاعلی (مُحِبّ)، مفعولی (محبوب، مُحَبّ)۔
تَحَبَّبَ اِلیہ: محبت و دوستی ظاہر کرنا۔ تَحَابَّ القومُ : ایک دوسرے سے محبت کرنا۔
اَستَحَبَّ: محبت کرنا، اچھا سمجھنا
المَحَبَّۃ: مرغوب چیز کی طرف طبیعت کا مَیلان۔
 
فرق کا تو پتہ نہیں بس مجھے تو یہ پتہ ہے کہ محبت دنیا کی چیزوں سے ۔۔رشتوں سے ۔۔۔ ہوتی ہے اور یہ چیپ یا ناخالص بھی ہوسکتی ہے ۔لیکن عشق صرف اللہ سے ہوتا ہے اور یہ بہت ڈیپ اینڈ پیور ہوتا ہے۔ :) اب منے نے ٹیگ کیا تھا تو جواب تو دینا تھا نا :) تھینکس منے بھائی :)
سب سے اچھا جواب دیا ہے ماشاءاللہ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
محبت " م" سے ہے ۔ مطلب مفاد کو ہمراہ رکھتی ہے
عشق " ع " سے ہے ۔ عجز علم کو ساتھ رکھتا ہے ۔
محبت " جسم و روح " کی پیاس ہے ۔
عشق صرف " روح " کی معراج ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
محبت میں " دوئی " کے احساس میں " انا " کی راہ پر چلتی ہے ۔خود کو مضبوط کرتی ہے ۔
عشق " انا " کی راہ چھوڑ " عجز " پر قائم ہوتا ہے ۔ مٹاتا ہے خود کو " ایک " ہوتا ہے ۔

واہ
سبحان اللہ
مقامِ عشق کی کیا بات ہے۔
سبحان اللہ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
محبت ایک دائرہ کار میں محدود رہتی ہے ابتدا سے اختتام تک کہیں نہ کہیں پابندِ سلاسل نظر آتی ہے
جب کہ عشق بحرِ بے کنار ہے۔۔۔ اسے مجبور ہونا نہیں آتا ۔۔ فنا کے سفر پر گامزن رہنا ہی اس کی زندگی ہے۔۔۔ ۔کانچ کی سیڑھی کی مانند کہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیں۔۔۔ ۔یہاں قدم بہکا وہاں عشق اپنے مقام سے ہٹ گیا۔۔۔ ۔
سنبھال سنبھلا کر رکھنا پڑتا ہے عشق کو۔۔۔ ۔عشق میں رہ گزر دشوار ترین لیکن پاؤں کے چھالوں کا گننا ممنوع۔۔۔ ۔شکایت کرنا اس کی حدت کو کم کردیتا ہے۔۔۔ ۔ہر پل رہنے والی تپش کی مانند یہ دل کا احاطہ کیئے رکھتا ہے۔۔۔
محبت مانگتی ہے۔۔۔ اور عشق تو صرف دیتا ہے۔۔۔ ۔۔
واہ
کیا خوب لکھا ہے آپ نے۔
موتی پروئے ہیں۔
سبحان اللہ
محبت مانگتی ہے۔۔۔ اور عشق تو صرف دیتا ہے۔۔۔ ۔۔
کیا خوب لکھا ہے، ایسے فقرات اندر تک بے چین کر دیتے ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
فرق کو چھوڑیں جی۔۔۔ بس شعر دیکھیں۔ واہ۔۔۔


من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی

تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری


میں تُو بن گیا ہوں اور تُو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔
متفق۔
یہ پہلی بار محمد وارث بھائی کے بلاگ پہ پڑھا تھا اور بس، آگے کچھ نہیں لکھ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
فرق کا تو پتہ نہیں بس مجھے تو یہ پتہ ہے کہ محبت دنیا کی چیزوں سے ۔۔رشتوں سے ۔۔۔ ہوتی ہے اور یہ چیپ یا ناخالص بھی ہوسکتی ہے ۔لیکن عشق صرف اللہ سے ہوتا ہے اور یہ بہت ڈیپ اینڈ پیور ہوتا ہے۔ :) اب منے نے ٹیگ کیا تھا تو جواب تو دینا تھا نا :) تھینکس منے بھائی :)
اتنا زبردست جواب
اور بھی کمنٹس کا انتظار رہے گا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
لغت کے حوالے سے دیکھئے۔

عشق: ع ش ق
عَشِقَہٗ (باب سمِع یسمَعُ) عِشْقاً و عَشَقاً و مَعْشَقاً : بہت محبت کرنا۔ محبت میں حد سے پڑھ جانا۔
صفت مذکر: عاشق ج عشاق، عاشقون؛ صفت مؤنث: عاشقہ و عاشق ج عواشق
عِشق بِالشَّے: چمٹنا، تعَشَّق: بہ تکلف عاشق بننا، بہت محبت کرنا۔
اَلعِشْق: محبت کی زیادتی؛ پارسائی اور فسق دونوں طرح سے ہوتا ہے۔
العَشّاق، العِشِّیق: بہت زیادہ عشق والا۔
دیگر معانی: عشق پیچان، پیلو، پھولوں کی دیکھ بھال کرنے والا (العَشِیق و العَشُوق) ج عُشُق۔

مصباح اللغات : مکمل عربی اردو ڈکشنری ::: ناشر: خزینہء علم و ادب لاہور
زبردست

محبت اور عشق ۔۔۔ تعریفات میں بہت کچھ مشترک اور بہت کچھ مختلف ہو سکتا ہے، اقبال نے ’’عشق‘‘ کو بہت سے حوالوں میں باندھا ہے۔ سب اہلِ علم جانتے ہیں۔
وہ حوالے بھی اس دھاگے کا حصہ بننے چاہیں تاکہ تمام موضوعات ایک جگہ جمع ہو سکیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
محبت میں کسی نہ کسی مقام پہ اکثر اوقات "ہوس" شامل ہو جاتی ہے اور انسان دھڑام سے زمین کی پستیوں میں چلا جاتا ہے۔
محسن نقوی کے خوب کہا ہے کہ

محبتوں میں ہوس کے اسیر ہم بھی نہیں
غلط نہ جان کے اتنے حقیر ہم بھی نہیں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
علامہ اقبالؒ کی نظم "محبت" محبت کے سلسلے میں بہت اہمیت کی حامل ہے
ذرا دیکھیے گا


عروسِ شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے
ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذتِ رَم سے

قمر اپنے لباسِ نو میں بیگانہ سا لگتا تھا
نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئینِ مسلم سے

ابھی امکاں کے ظلمت خانے سے ابھری ہی تھی دنیا
مذاقِ زندگی پوشیدہ تھا پہنائے عالم سے

کمالِ نظمِ ہستی کی ابھی تھی ابتدا گویا
ہویدا تھی نگینے کی تمنا چشمِ خاتم سے

سنا ہے عالمِ بالا میں کوئی کیمیا گر تھا
صفا تھی جس کی خاکِ پا میں بڑھ کر ساغرِ جم سے

لکھا تھا عرش کے پائے پر اک اکسیر کا نسخہ
چھپاتے تھے فرشتے جس کو چشمِ روحِ عالم سے

نگاہیں تاک میں رہتی تھیں لیکن کیمیا گر کی
وہ اس نسخے کو بڑھ کر جانتا تھا اسمِ اعظم سے

بڑھا تسبیح خوانے کے بہانے عرش کی جانب
تمنائے دلی آخر بر آئی سعئ پیہم سے

پھرایا فکرِ اجزا نے اسے میدانِ امکاں میں
چھپے گی کیا کوئی شے بارگاہِ حق کے محرم سے

چمک تارے سے مانگی، چاند سے داغِ جگر مانگا
اڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلفِ برہم سے

تڑپ بجلی سے پائی، حور سے پاکیزگی پائی
حرارت لی نفسہائے مسیحِ ابنِ مریم سے

ذرا سی پھر ربوبیت سے شانِ بے نیازی لی
مَلک سے عاجزئ افتادگی تقدیرِ شبنم سے

پھر ان اجزا کو گھولا چشمہء حیواں کے پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرشِ اعظم میں

مہوس نے یہ پانی ہستئ نو خیز پر چھڑکا
گرہ کھولی ہنر نے اس کے گویا کارِ علام سے

ہوئی جنبش عیاں ، ذروں نے لطفِ خواب کو چھوڑا
گلے ملنے لگے اُٹھ اُٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے

خرامِ ناز پایا آفتابوں نے ، ستاروں نے
چٹک غنچوں نے پائی، داغ پائے لالہ زاروں نے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
عشق کے کچھ پہلو اقبالؒ کے ہاں دیکھیے ذرا

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم ِ محمدﷺ سے اجالا کر دے

مرد خدا کا عمل ، عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل ِ حیات ، موت ہے اس پر حرام
عشق دمِ جبرئیل ، عشق دل ِ مصطفی
عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام
عشق کی تقویم میں، عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدہ تصورات

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طہٰ
 
Top