مبینہ توہین رسالت پر ہندومزدورہلاک

نبیل

تکنیکی معاون
قابل عزت نبیل صاحب !
آخر میں ایک اہم بات کرنا چاہوں گا کہ جو میں پہلے بھی متعدد بار کر چکا ہوں (اور میں خود اس سے تائب ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ اجتناب کروں) کہ براہ کرم محفل پر طنزیہ ماحول کا خاتمہ کریں، اصل میں جب سینئر اراکین اور ناظمین ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں تو جونیئر لوگ بھی فرط جذبات میں ایسی گفتگو کر جاتے ہیں جو بحث کا مقصود نہیں ہوتی۔


میرے خیال میں یہاں جونیر یا سینیر کا ذکر غیر متعلقہ ہے۔ یہاں بہت سی صاحب علم ہستیاں موجود ہیں جن میں کئی پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مقالہ جات لکھنے والے بھی یہاں موجود ہیں۔ اب یہ میری کم علمی ہے کہ مجھے فلسطین میں اسرائیل کے مظالم کا پاکستان میں mob justice سے تعلق سمجھ نہیں آتا۔ میں اپنی تحریر میں طنز کا اعتراف کرتا ہوں، یہ کچھ ارادی تھا تو کچھ غیر ارادی بھی تھا۔ کوشش کروں گا کہ آئندہ اس سے گریز کروں۔

مسلم ملک میں توہین رسالت کی سزا کیا ہونی چاہیے؟

یہ اس دھاگے کا موضوع نہیں ہے۔ ویسے مسلم ممالک میں توہین رسالت کی سزا کے علاوہ اور کیا اسلامی قانون نافذ ہونا چاہیے؟

آج تک توہین رسالت کے قانون کے تحت پاکستان میں کتنے افراد کو سزائے موت دی گئی؟

میں یہ جانتا ہوں کہ عدالتوں نے کئی مرتبہ لوگوں کو توہین رسالت کے الزام سے بری کیا ہے اور انہی لوگوں کو عدالت سے باہر نکلتے ہی قتل کر دیا گیا ہے۔ ہجوم کی شکل میں کسی ایک کو موت کے گھاٹ‌ اتار دینے کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ آج تک کتنی مرتبہ اس طرح قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف کاروائی کی گئی ہے؟ ایک اور سوال یہ ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کا قانون نافذ ہونے کے بعد اس الزام میں ہونے والے لوگوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟ اور یہ تعداد اس قانون کے نفاذ سے قبل کتنی تھی؟
 
کمال ہے جناب، ایک طرف آپ قانون ہاتھ میں لینے والوں اور قتل کرنے والوں کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ آپ ان کے عمل کو سراہ نہیں رہے ہیں؟ کیا اس طرح آپ عام لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے اور قتل عمد پر نہیں اکسا رہے؟
میری کیا مجال کہ آپ کو کوئی مقالہ لکھنے سے روکوں، آپ شوق سے اپنی تحقیق جاری رکھیں۔

(۱)‌ آپ شوق سے اپنی طنز جاری رکھیں۔
(۲) اور چونکہ ہمارے‌ شوق کی نسبت ہمارے نبی علیہ الصلاۃ والسلام سے‌ ہے اس لئے بصد شوق واحترام اپنا کام جاری رکھوں‌ گا۔
(۳) اور میں مکرر کہتا ہوں کہ جب تک آپکو یہ علم نہ ہو جائے کہ کس انداز میں مقالہ لکھا جارہا ہے تب تک آپ اپنا تبصرہ کرنے کے حقدار نہیں۔


یہاں کے بڑے بڑوں کا انداز تمسخرانہ ہے۔

ایک آپ ہو گاہے گاہے اس طرح کی باتیں کردیا کرتا ہو۔ آزادی ہے‌ٹھیک ہے‌لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ بن علم رکھے کسی کو یا کسی کے کام کو طنز کا نشانہ بنائیں۔

زیک سے بھی مجھے ان کی بعض باتوں پر اختلاف رہتا ہے جس میں وہ مسخرہ پن والا انداز اختیار کرتے ہیں۔

قیصرانی صاحب بھی کبھی کبھار ناز وانداز والا رویہ اختیار کرتے ہیں۔

آپ لوگ بڑے ہو بڑے ہونے کا ثبوت بھی دیں۔
 
راسخ بھائی میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس پر جرم ثابت تو نہیں ہوا تھا تو اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اسے کسی ذاتی عناد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ سننے میں آیا ہے کہ ٹھوکر نیاز بیگ کی پولیس نے تو یہی وطیرہ اپنایا ہوا تھا کہ جسے اٹھانا ہوتا توہین رسالت کا الزام لگا دیتے۔ وللہ اعلم و باالصواب۔

جی محسن آپکی بات اور موقف سمجھتا ہوں۔

نیز قانون کا غلط استعمال بیحد غلط بات ہے۔

ہمارے ملک میں جو اقلیتیں ہیں ان سے رواداری اور پیار ومحبت سے‌ پیش آنا چاہئے جب تک وہ سازشیں نہ کریں
 

نبیل

تکنیکی معاون
(۱)‌ آپ شوق سے اپنی طنز جاری رکھیں۔
(۲) اور چونکہ ہمارے‌ شوق کی نسبت ہمارے نبی علیہ الصلاۃ والسلام سے‌ ہے اس لئے بصد شوق واحترام اپنا کام جاری رکھوں‌ گا۔
(۳) اور میں مکرر کہتا ہوں کہ جب تک آپکو یہ علم نہ ہو جائے کہ کس انداز میں مقالہ لکھا جارہا ہے تب تک آپ اپنا تبصرہ کرنے کے حقدار نہیں۔


یہاں کے بڑے بڑوں کا انداز تمسخرانہ ہے۔

ایک آپ ہو گاہے گاہے اس طرح کی باتیں کردیا کرتا ہو۔ آزادی ہے‌ٹھیک ہے‌لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ بن علم رکھے کسی کو یا کسی کے کام کو طنز کا نشانہ بنائیں۔

زیک سے بھی مجھے ان کی بعض باتوں پر اختلاف رہتا ہے جس میں وہ مسخرہ پن والا انداز اختیار کرتے ہیں۔

قیصرانی صاحب بھی کبھی کبھار ناز وانداز والا رویہ اختیار کرتے ہیں۔

آپ لوگ بڑے ہو بڑے ہونے کا ثبوت بھی دیں۔

صرف آپ ہی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نسبت نہیں ہے، ہم بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہیں۔
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ فورم کا ناظم ہونے سے کوئی بڑا نہیں بن جاتا، اصل بڑے پن کا مظاہرہ صاحب علم حضرات کو کرنا چاہیے۔
آپ کے مقالے کا ذکر محض ضمنی تھا، میرا اصل مقصد اس خبر کا ذکر کرنا تھا۔ اگر بات کرنا چاہیں تو اصل موضوع پر رہ کر بات کریں۔
 
صرف آپ ہی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نسبت نہیں ہے، ہم بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہیں۔
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ فورم کا ناظم ہونے سے کوئی بڑا نہیں بن جاتا، اصل بڑے پن کا مظاہرہ صاحب علم حضرات کو کرنا چاہیے۔
آپ کے مقالے کا ذکر محض ضمنی تھا، میرا اصل مقصد اس خبر کا ذکر کرنا تھا۔ اگر بات کرنا چاہیں تو اصل موضوع پر رہ کر بات کریں۔

او اس ضمن میں طنز کا عنصر کار فرما تھا۔

سب ہی نام لیوا ہیں میری یا آپ کی اس میں کوئی خصوصیت نہیں۔ بات علم پر عمل کرنے کی ہے۔

جتنی بھی باتیں لکھتا ہوں آپ ہی کے کہے ہوئے کا رد عمل ہے۔

آپ درست رویہ اختیار کریں تو کوئی ری ایکشن نہ ہو

اور تیسری بار عرض ہے کہ مقالہ کی روح اور پہچان آپ کے علم میں نہیں اس لئے تنقید اور طنز کرنے کے حقدار نہیں۔

آپ موضوع کی بات کرتے ہیں تو میرا موقف واضح ہے۔

گستاخ رسول کو اس طرح قتل کرنا جہل ونادانی ہے۔ کیونکہ کیا معلوم اس جاہل کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کا علم ہے کہ نہیں۔ اس طرح کے‌لوگوں کو تعلیم دینی چاہئے۔ کیا پتہ کہ جب اسے حقیقت معلوم ہو تو اس کا موقف بدل جائے۔ اسلام کبھی بھی شدت نہیں‌ سکھلاتا۔ اور اپنا حق بھی لیکر رہتا ہے۔

لیکن عشق کے جذبے کو کب دبایا جاسکا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں عقل کام نہیں کرتی۔

اب مجھے نہیں معلوم نبیل کہ آپ کو اس موقف پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے!! اور عرض ہے کہ اس بات کو بنیاد بناکر میں اپنا مقالہ لکھ رہا ہوں۔ اب آپ پر واضح ہوچکا ہے۔ اب جو تنقید آپ نے‌ فرمانی ہے بصد شوق فرمائیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
آپ بلاوجہ خود کو نشانے پر سمجھ رہے ہیں۔ آپ کے مقالے کا ذکر واقعی ضمنی تھا، اگرچہ اس میں طنز تھا۔
اور بات ضرور کریں۔ میں نے یہ خبر اسی لیے پوسٹ ‌کی ہے تاکہ اس موضوع پر بھی بات ہو۔
آپ خود سے فرض کیے جا رہے ہیں کہ اس شخص نے کوئی غلط بات کی تھی۔ اور اب اصل حقیقت تک کبھی کوئی نہیں پہنچ سکے گا۔ یہ واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں غیر مسلم ہی نہیں، عام مسلمان بھی نشانہ بنتے ہیں۔ یہ عشق کا مقام کیا کسی کی جان لینے کے بعد بھی باقی رہتا ہے؟ کیا وہ سینکڑوں لوگ جنہوں نے کسی کو اس کا قصور جانے بغیر موت کے گھاٹ اتار دیا، سب مغفرت کے حقدار ہو گئے ہیں؟


آپ نے اوپر ایک اور پوسٹ‌ میں لکھا ہے:

بات یہ ہے کہ گستاخ نبوت کو لگام کون دے؟ وہ گستاخی کرے ہی کیوں؟ کیا ہم اسے اپنے نبی کے بارے میں اول فول بکنے دیں؟ تاہم براہِ راست قتل پر اعتراض ہوسکتا ہے۔ تو پھر قانون کے حوالے کریں؟ قانون ہی اگر انصاف نہ دے تو پھر کیا کیا جائے؟ چھوٹ کر گستاخ آجائے پھر وہی حرکت کرے!! کیا اسے گستاخی کرنے کی آزادی ہے؟ ہم ابنے بہن بھائیوں اور آباء واجداد کے بارے میں گستاخی سننے کے روادار نہیں۔۔۔ پھر خاتم الٲنبیاء!!!!!

آپ صاف کیوں نہیں کہتے کہ آپ توہین رسالت کے قانون کو بھی فضول اور وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں؟ بس چند لوگوں کا جمع ہو کر کسی انسان کی زندگی کا خاتمہ کرنا کافی ہے، اور عشق کی منزلیں پار۔۔
 
آپ بلاوجہ خود کو نشانے پر سمجھ رہے ہیں۔ آپ کے مقالے کا ذکر واقعی ضمنی تھا، اگرچہ اس میں طنز تھا۔


(۱)‌ جب یہ کام محفل پر میں ہی کر رہا ہوں تو اشارہ بھی میری ہی طرف ہے۔ اس میں بلا وجہ والی بات عقل سے بالاتر ہے۔


اور بات ضرور کریں۔ میں نے یہ خبر اسی لیے پوسٹ ‌کی ہے تاکہ اس موضوع پر بھی بات ہو۔
آپ خود سے فرض کیے جا رہے ہیں کہ اس شخص نے کوئی غلط بات کی تھی۔ اور اب اصل حقیقت تک کبھی کوئی نہیں پہنچ سکے گا۔ یہ واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں غیر مسلم ہی نہیں، عام مسلمان بھی نشانہ بنتے ہیں۔


(۲) کوئی بھی مسلمان چاہے عام ہو یا خاص وہ اس بات کی جرٲت کر ہی نہیں سکتا کہ اپنے نبی کے‌ بارے میں گستاخی کرے۔ وہ کون سے مسلمان ہیں‌ جنہوں نے گستاخی کی؟ اور اگر کی تو وہ مسلمان نہیں رہتا۔

یہ عشق کا مقام کیا کسی کی جان لینے کے بعد بھی باقی رہتا ہے؟

اس سوال کا جواب وہی دے سکتے ہیں جو اس مرحلے سے گزرے ہوئے ہیں۔ ہم جیسے کمتر تو باتوں اور تنقید تک ہی محدود رہتے ہیں۔ حسی بات یہ ہے کہ واقعی گستاخ ہے جو بار بار گستاخی کرتا ہے۔ توبہ نہیں کرتا۔۔۔ تو ممکن ہے یہ مقام جان لینے کے‌ بعد بھی باقی رہے۔

نیز! توہین نبوت کی سزا قتل حاکم دے تو پھر آپ کا کیا کہنا ہے؟


کیا وہ سینکڑوں لوگ جنہوں نے کسی کو اس کا قصور جانے بغیر موت کے گھاٹ اتار دیا، سب مغفرت کے حقدار ہو گئے ہیں؟

نیتوں کا حال کون جانے ؟ جنت جہنم کا فیصلہ ہم کون ہوتے ہیں کرنے والے؟

آپ صاف کیوں نہیں کہتے کہ آپ توہین رسالت کے قانون کو بھی فضول اور وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں؟ بس چند لوگوں کا جمع ہو کر کسی انسان کی زندگی کا خاتمہ کرنا کافی ہے، اور عشق کی منزلیں پار۔۔

مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا میرے موقف میں‌ایسی کوئی بات ہے‌ جو آپ کو یہ سوال کرنے پر آمادہ کرتی ہے؟

میں کہہ رہا ہوں حاکم اس بات کا حقدار ہے کہ وہ سزا دے۔
لیکن عشق وجنون کا فیصلہ عاشق اور مجنون ہی کے‌ پاس ہوتا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
جب یہ کام محفل پر میں ہی کر رہا ہوں تو اشارہ بھی میری ہی طرف ہے۔ اس میں بلا وجہ والی بات عقل سے بالاتر ہے۔

لیکن میری پوسٹ کا اصل مقصد آپ کے مقالے کی تعریف کرنا نہیں تھا۔ میں محض ایک الزام لگا کر کسی بغیر ثبوت کے موت کے گھاٹ اتارنے کو سنگین جرم سمجھتا ہوں، اور اس جرم کی پشت پناہی کرنے یا اس سے نگاہیں پھیرنے کو میں معاشرے کی پستی کی انتہا سمجھتا ہوں۔

میں کہہ رہا ہوں حاکم اس بات کا حقدار ہے کہ وہ سزا دے۔
لیکن عشق وجنون کا فیصلہ عاشق اور مجنون ہی کے‌ پاس ہوتا ہے۔

اب اگر اسرائیل کے فلسطین میں مظالم کو اس مذہبی جنونیت کی وجہ قرار دیا گیا یا پھر عشق اور جنوں کی مجہول دلیلیں پیش کی گئیں تو میں اس کا جواب دینے میں وقت ضائع نہیں کروں گا۔
 
لیکن میری پوسٹ کا اصل مقصد آپ کے مقالے کی تعریف کرنا نہیں تھا۔ میں محض ایک الزام لگا کر کسی بغیر ثبوت کے موت کے گھاٹ اتارنے کو سنگین جرم سمجھتا ہوں، اور اس جرم کی پشت پناہی کرنے یا اس سے نگاہیں پھیرنے کو میں معاشرے کی پستی کی انتہا سمجھتا ہوں۔



اب اگر اسرائیل کے فلسطین میں مظالم کو اس مذہبی جنونیت کی وجہ قرار دیا گیا یا پھر عشق اور جنوں کی مجہول دلیلیں پیش کی گئیں تو میں اس کا جواب دینے میں وقت ضائع نہیں کروں گا۔



نبیل میں آپکو ان باتوں سے اعلی سمجھتا تھا۔

خیر میں بھی لغویات کا جواب نہیں دے سکتا۔

بس اتنی سی بات عرض ہے کہ نبی نبوت اور سیاسی ایشو علیحدہ علیحدہ ہیں۔

اور صد افسوس کے‌آپ ہر جواب میں طنز فرماتے ہیں۔ پڑھے لکھوں کو یہ باتیں زیب نہیں دیتیں۔

آپکی محفل آپکو مبارک

والسلام
 
اسکے لئے تو ایک ہی لفظ کافی ہے کہ قرآن نے رسولِ اکرم کو رحمت اللعالمین کہا ہے- یعنی تمام جہانوں کے لئے رحمت کا باعث -

بلا شبہ اللہ عز و جل نے سیدنا خضرت محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو رحمت للعالمین کہا ہے۔ لیکن آپ نے شائد سوال پڑھا نہیں۔

ہر قدم کا کوئی قانونی یا مذہبی جواز ضروری ہے۔ کوئی بھائی، مدد فرمائیں کہ توہین رسول پر قتل کردینے کے لئے کیا آیات ہیں؟ یا رحمت للعالمین رسول اللہ صلعم کی ذاتی سنت میں سے کوئی سنت یا اقدام پر روشنی ڈالیے کہ جب توہین رسالت کی گئی تو رسول اللہ نے فوراً یا مقدمہ چلا کر قتل کردیا۔

رسول صلعم کی متعدد بار توہین ان کی زندگی میں کی گئی۔ اوجھڑیاں و کوڑا پھینکا گیا۔ پتھر مارے گئے، بری باتیں‌کہی گئیں۔ رسول اللہ نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ کیوں؟؟
جن لوگوں کو رسول اکرم عزیز ہیں وہ آج بھی عزت کرتے ہیں۔ جن کو نہیں‌عزیز وہ نہیں‌کرتے۔ آپ اللہ تعالی کے درج ذیل فرمان سے کیا سمجھتے ہیں ؟

[AYAH]18:29[/AYAH] اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے، بیشک ہم نے ظالموں کے لئے (دوزخ کی) آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر وہ (پیاس اور تکلیف کے باعث) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون دے گا، کتنا برا مشروب ہے، اور کتنی بری آرام گاہ ہے

ملاؤں‌کا یہ وطیرہ رہا کہ " توہین نبوت "‌ کا الزام لگا کر قتل کیا اور منہہ بند کردیا۔ کیا اس سے سارا ہند مسلمان ہوگیا؟ یا پھر اس کا جرمانہ لاکھوں جانو و عزتوں‌ کی شکل میں 1947 میں دیا گیا؟

مجھے ان قرآنی و سنت سے ثابت شدہ احکامات کا انتظار رہے گا جن میں توہین رسالت کی سزا قتل ہو۔ اس وقت تک ان اندھے، گونگے، بہرے لوگوں سے میں درگزر سے کام لوں گا۔ کہ میری معلومات کے مطابق، اس قسم کے معاملے میں درگزر سے کام لیا جائے، یہی اللہ تعالی کا حکم ہے اور یہی سنت رسول ہے ۔۔

والسلام

درج بالا محترم فاروق سرور خان کے مراسلے کے جواب میں درج زیل سوال کیا گیا تھا۔

محترم فاروق صاحب ۔۔

نبی علیہ السلام پر اوجھڑی پھینکنے ، کوڑا پھینکنے اور پتھر مارنے کی باتیں آپ نے قرآن کی کونسی آیت میں پڑھ لیں۔ یہ تو انھی کتابوں کی روایات ہیں جن کو آپ بڑے دھڑلے سے من گھڑت باتیں قرار دیتے ہیں۔

آپ ذرا ان تینوں باتوں کا قرآن کی آیات سے حوالہ دیں۔ اور براہِ کرم لمبی چوڑی پوسٹ لکھ کر بات کو گول مول نہ کریں۔ صرف آیات لکھ دیں۔

خاکسار کے علم میں بھی ذرا اضافہ ہو جائے۔

والسلام


بحر حال یہ سوال ابھی بھی تشنہ ہے اور دیکھیں کب تشنگی دور ہوتی ہے
 
معذرت چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں‌کی تشنگی دور نہیں ہوئی، میں بدھ سے شہر سے باہر رہا ۔لہذا جواب کا موقع نہیں‌مل سکا۔

بنیادی نکتہ میں نے یہ اٹھایا تھا کہ رسول اکرم کو تنگ کرنے اور اس طور ہتک کرنے کے ایک سے زیادہ واقعات ہیں، جن کے جواب میں‌ اسوہ حسنہ یہ رہا کہ رسول اکرم نے کسی کو قتل نہیں‌کیا۔ میں‌نے اس سلسلے میں جن واقعات کا حوالہ دیا آپ ان کو یہ کہہ کر درگزر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ بھی ان ہی کتب روایات کی ایک روایت ہے اور سنی سنائی ہے۔ بہت ممکن ہے ایسا ہو۔ کتب روایات کی روایات کو حتمی ثابت کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

اس وقت ہم یہ درست مان لیتے ہیں کہ چونکہ یہ روایات بھی کتب روایات سے ہیں لہذا ان کو بھی ہم سنی سنائی باتوں‌کے زمرے میں‌ڈالتے ہیں اور مان لیتے ہیں کہ چونکہ ان روایات کو "مظبوط" ثابت کرنا ممکن نہیں‌ہے، لہذا یہ ثابت کرنا کہ سنت رسول اللہ ذاتی توہین کی صورت میں معاف کردینے کی رہی ---- اس کے لئے ہم اس واقعے کو حتمی نہیں‌ مانتے ۔ اور قران سے اس سلسلے میں مدد حاصل کرتے ہیں۔

مجھے سیفی کی اس بات سے اتفاق ہے لہذا یہ نکتہ اس مد سے باہر۔
بقول سیفی" یہ تو انھی کتابوں کی روایات ہیں جن کو آپ بڑے دھڑلے سے من گھڑت باتیں قرار دیتے ہیں۔

تو کیا اب ہمارا سوال یہ رہ جائے گا کہ جب رسول اکرم کو تنگ کیا گیا تو اللہ تعالی نے اس سلسے میں کیا کچھ کرنے کا حکم دیا؟

اگر آپ بغور دیکھئے تو اللہ تعالی نے کچھ جرائم کی سزا دنیا میں دینے کا حکم اپنے نبیوں اور انسانوں کو دیا ہے اور کچھ جرائم کی سزا اپنے ہاتھ میں رکھی ہے، ایسی سزائیں قیامت تک موقوف کردی ہے۔ ماسوائے ان سزاؤں اور عذابوں کے جو اللہ تعالی نے خود نازل کئے۔ اللہ تعالی نے اس سلسلے میں وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ وقت سے پہلے (قیامت سے پہلے) عذاب نہیں‌ لائیں‌ گے دیکھئے۔

[AYAH]22:47 [/AYAH] اور یہ آپ سے عذاب میں جلدی کے خواہش مند ہیں اور اﷲ ہرگز اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہ کرے گا، اور (جب عذاب کا وقت آئے گا) تو (عذاب کا) ایک دن آپ کے رب کے ہاں ایک ہزار سال کی مانند ہے (اس حساب سے) جو تم شمار کرتے ہو

اب آئیے دیکھتے ہیں‌کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دکھایا گیا، توہین کی گئی اور تکلیف دی گئی تو اللہ تعالی نے کیا فیصلہ فرمایا۔ دنیا میں سزا یا خود مشیت ایزدی سے عذاب؟ اگر کوئی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ بصورت " توہین رسالت" اللہ تعالی نے قتل کردینے کا حکم دیا تو ان آیات کا ریفرنس فراہم کردیں۔ میری معلوما اس سلسلے میں محدود ہیں۔

ابو لہب کے رسول پرنور صلعلم کو تکلیف دینے اور توہین کرنے کے بارے میں میں آیات - یہ بہت واضح‌ہے کہ رسول اکرم کو یہ حکم نہیں‌دیا گیا کہ ابو لہب یا اس کی عورت کو قتل کردیا جائے۔ جب کہ ایسا بہت آسانی سے ممکن تھا۔۔۔ کیوں ؟؟؟ نوٹ‌کیجئے کہ مترجمین نے بریکٹ‌میں اصل واقعے کو اجاگر کیا ہے۔

[AYAH]111:1[/AYAH] ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہے)
[AYAH]111:2[/AYAH] اسے اس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اس کی کمائی نے
[[AYAH]111:3[/AYAH] عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گا
[[AYAH]111:4[/AYAH] اور اس کی (خبیث) عورت (بھی) جو (کانٹے دار) لکڑیوں کا بوجھ (سر پر) اٹھائے پھرتی ہے، (اور ہمارے حبیب کے تلووں کو زخمی کرنے کے لئے رات کو ان کی راہوں میں بچھا دیتی ہے)
[[AYAH]111:5[/AYAH] اس کی گردن میں کھجور کی چھال کا (وہی) رسّہ ہوگا (جس سے کانٹوں کا گٹھا باندھتی ہے)

والسلام
 

باسم

محفلین
[ARABIC]إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا ﴿٥٧﴾ [/ARABIC]
[AYAH]33:57[/AYAH] بالشبہ جو لوگ اذیت دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو، لعنت بھیجی ہے ان پر اللہ نے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور تیار کررکھا ہے ان کے لیے رسوا کن عذاب۔

[ARABIC]وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا ﴿٥٨﴾[/ARABIC]
[AYAH]33:58[/AYAH] اور جو لوگ اذیت دیتے ہیں مومن مردوں اور مومن عورتوں کو (الزام لگاکر) ایسے (کاموں) کا جو نہیں کیے انہوں نے تو بے شک انہوں ے اٹھایا اپنے اوپر بوجھ بڑے بہتان کا اور کھلے گناہ کا۔

[ARABIC]يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ﴿٥٩﴾[/ARABIC]
[AYAH]33:59[/AYAH] اے نبی کہو! اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہ وہ لٹکالیا کریں اپنے اوپر اپنی چادر کے پَلّو۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اور ہے اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا۔

[ARABIC]لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٠﴾[/ARABIC][AYAH]33:60[/AYAH] اگر نہ باز آئے منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے اور وہ لوگ جو ہیجان انگیز افواہیں پھیلاتے ہیں مدینہ میں تو ضرور اٹھاکھڑا کریں گے ہم تمہیں ان کے خلاف (کاروائی کے لیے) پھر نہ رہیں گے وہ تمہارے ساتھ مدینہ میں مگر تھوڑے دن۔

[ARABIC]مَلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا ﴿٦١﴾ [/ARABIC]
[AYAH]33:61[/AYAH] لعنت بھیجی جائے گی ان پر (ہرطرف سے)، جہاں کیں پائے جائیں گے، پکڑے جائیں گے اور قتل کیے جائیں گے بری طرح۔
 
باسم، بہت شکریہ، ان آیات کو شئیر کرنے کا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ آپ اس سلسلے میں متفق ہیں کہ 33:57 کے مطابق اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دینے کی سزا، اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے ، وہ یہ کہ اللہ تعالی ان لوگوں‌پر اس دنیا میں اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے۔

سورۃ 33 کی آیات 58 سے جو کہانی شروع ہوئی ہے وہ ام المومنین پر الزام و بہتان لگا کر، نعوذ باللہ ، اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دینے کے ضمن میں ہے۔ 'ملعونین' کے اس گروہ (دیکھئے جمع کاصیغہ) کا جو کہ ( 'ام المومنین' کے بارے) میں افواہیں پھیلا نے کا جرم کررہے تھے ، ان کے خلاف رسول اکرم کو بتایا جارہا ہے کے اس کے مواخذہ میں میں اللہ تعالی نے ایک دن ان (ملعونین) کے خلاف اٹھا کھڑا کرنا ہے، جنگ (یعنی قتال قتیلا )‌ کے لئے۔ عام مسلمانوں کو کسی بھی طور وہیں پر فیصلہ کرکے وہیں پر قتل کردینے کا حق نہیں دیا جارہا ہے جیسا کہ اس ہندو لڑکے کی موت کی صورت میں ہوا ہے۔

ایک دوسرا موضوع:
بقول سیفی" یہ تو انہی کتابوں کی روایات ہیں جن کو آپ بڑے دھڑلے سے من گھڑت باتیں قرار دیتے ہیں۔

برادرم سیفی، آپ کا شکریہ، آپ نے اس سلسلے میں‌دو باتیں کیں، ایک تو اس موضوع کے بارے میں ہے اور دوسری میرے بارے میں۔ آُ نے مجھے موقع دیا کہ آپ کو اور دوسرے بھائیوں کو اپنے خیالات سے آگاہ کرسکوں۔ اس سظر کے بعد مَیں آُ سے یا کسی بھی ایک شخص سے مخاطب نہیں ہوں۔

اجازت چاہوں گا کہ ذاتی خیالات کی مد میں اس پر تھوڑی سی روشنی ڈال سکوں۔ اس چھوٹے سے مضمون کو پورا پڑھئے۔ جملوں‌کو الگ الگ نا دیکھئے۔ آئیے ہم ان کتب روایات کو ذاتی، فرقہ واری اور قومی نکتہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

کیا میں بڑے دھڑلے سے ان کتب کو من گھڑت قرار دیتا ہوں؟
جی نہیں، میں‌ان غیر قرآنی کتب کا دوسرے فرقوں اور مذاہب کی کتب سمجھ کر احترام کرتا ہوں‌ لیکن اجتماعی قوانین کے لئے ان کتب کو قرآن کے خلاف پاتا ہوں اس لئے غیر موزوں سمجھتا ہوں۔
آپ نے وضاحت نہیں‌فرمائی کے آپ کن کتب کی بات کررہے ہیں‌۔ لیکن ہم سمجھ لیتے ہیں ‌کہ آپ انہی کتب روایات کی بات کررہے ہیں جن کو میں کتب روایات قرار دیتا ہوں، جن کو درست ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، یہ ہیں شیعہ حضرات کی کتب روایات، سنی حضرات کی کتب روایات، یہودیوں ، نصرانیوں اور کالدانیوں کی کتب روایات، ہندوؤں ، پارسیوں اور بدھ مت و سکھوں کی کتب روایات۔

میرا خیال ہے کہ آپ بحیثیت مسلمان قرآن کو اللہ تعالی کا کلام قرار دیتے ہیں۔ میں‌بھی دیتا ہوں۔ قرآن کے علاوہ ہر کتاب کو انسانوں کی لکھی ہوئی کتب روایات قرار دیتا ہوں اور ان کو ایک ہی درجے میں رکھتا ہوں۔ ان کتب میں تمام کے تمام فرقوں اور مذاہب کی کتب روایات شامل ہیں۔ جن کے اصلی ہونے کا اور قانون سازی کے لئے استعمال کرنے کا، ایک گروہ اصرار کرتا ہے اور دوسرا گروہ انکار کرتا ہے۔

بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ اگر آپ سنی ہیں تو آپ کا اصرار صحاح ستہ پر ہے جن میں‌سے بیشتر روایات کا شیعہ حضرات انکار کرتے ہیں اور اگر آپ شیعہ ہیں تو جن کتب روایات کو آپ درست قرار دیتے ہیں ان میں‌سے بیشتر روایات کو سنی قبول نہیں کرتے۔ یہ کوئی چھپا ہوا راز نہیں‌ہے کہ آپ یہ نا جانتے ہوں۔ جب ہم من حیث القوم مزید آگے بڑھتے ہیں تو انہی کتب کے نت نئے ورژن سامنے آتے ہیں ، جو ضخامت ، تعداد اور ترتیب کے لحاظ سے مختلف ہیں اور مختلف گروہ اس کے بارے میں آپس میں جھگڑوں میں مصروف ہیں۔ یہ بات بھی کوئی خفیہ راز نہیں ہے کہ یہ جھگڑرے موجود ہیں۔

ذاتی طور پر:
ذاتی طور پر میں ان کتب کو ان کے اپنے فرقے کی کتب قرار دیتا ہوں۔ کہ یہ ان فرقوں کے اپنے مذاہب ہیں جن پر یہ عمل کرتے ہیں ۔ چونکہ دوسروں‌کے مذاہب کا احترام ہم پر فرض‌ہے۔ چاہے وہ کسی بھی کتاب کو 'اپنے لئے قرآن' کا درجہ دیتے ہوں لہذا کسی بے ادبی اور بد احترامی کا میں قائل نہیں۔ اس لئے میں ان غیر قرانی کتب پر انحصار کرنے والے مذاہب کا احترام کرتا ہوں، اور ان غیر قرآنی مذاہب کے علماء‌ کا بھی احترام کرتا ہوں۔ ان میں قرآن پر مبنی مذہب 'اسلام' سے ملتے جلتے مذاہب، جیسے سنی ازم، شیعہ ازم، جو کہ بڑے فرقے (تفرقے یا جھگڑے) ہیں یا قران پر مبنی مذہب یعنی اسلام سے باہر --- لیکن اللہ تعالی کے لئے قابل قبول -- یہودی، نصرانی اور ستارہ پرست جیسے الہامی فرقے (جھگڑے) ہوں۔ ---- یا قران سے دور اور قطعاً‌ مختلف اورمبینہ طور پر اللہ تعالی کے لئے ناقابل قبول مذاہب --- جیسے ہندو مت، بدھ مت یا پارسی و آتش پرست، مَیں ان سب کی کتب و علماء کا یکساں احترام کرتا ہوں ، کیونکہ دوسروں کے مذاہب ، ان کی کتب اور ان کے علماء‌ کا احترام کرنے اور ان کی ہنسی نا اڑانے کا حکم اللہ تعالی دیتے ہیں،

اسلامی فرقہ واری طور پر:
اسلام میں فرقہ ہونا انتہائی بری بات ہے کہ یہ آپسی تفریق کرنے والے ، جدا کرنے والے ، جھگڑا کرنے والے، آپس میں تفرقہ ڈالنے والے لوگوں کو کہتے ہیں، جس کی ممانعت قرآن نے فرمائی ہے، ان فرقوں کو 'فرقہ' ، عزت سے نہیں بلکہ اہانت سے کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ کے حکم کے مطابق نہیں۔ اسلام کے دائرے میں فرقہ بندی کا عمل اللہ کے حکم سے مطابقت نہیں رکھتا اور ایک کریہہ عمل ہے ۔ بنیادی طور پر یہ سوال کہ آپ کا تعلق کس فرقہ سے ہے، اصل میں یہ سوال ہے کے آپ کا تعلق کس جھگڑالو گروپ یا کس فتنہ سے ہے؟ لہذا اس بات پر اترانا کہ ہم کسی جھگڑالو گروپ یا فتنہ سے تعلق رکھتے ہیں- یقیناً‌ ایک نا مناسب وجہء فخر ہے۔

کیوں؟؟؟؟

اس لئے کہ قران کے احکام سے باہر فرقہ واریت، آپ کے اپنے لئے، ممکن ہے درست ہو ، کہ آپ کا یقین ہے کہ اگر آپ کی عبادات کسی خاص طریقہ سے ہی قبول ہونگی تو بہت خوب! آپ اس پر عمل کرتے رہئیے لیکن مسئلہ جب شروع ہوتا ہے جب آپ اور ہم دوسروں پر اپنا یہی طریقہ ٹھونسنا شروع کردیتے ہیں اورصرف اپنے عبادات کے طریقے کو درست جانتے ہیں ۔ اور پھر اس کا اگلا قدم یعنی اجتماعی قانون سازی کے سلسلے میں صرف اپنے علماء اور اپنی کتب کو ‌کو درست قرار دیتے ہیں اور دوسروں کو اس بات کی سزا دیتے ہیں کہ وہ آپکے طریقے سے کیوں‌ نہیں رہتے؟ ہم، آپ اس وقت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دائرے میں قدم رکھنے لگتے ہیں جب کسی بھی نظریاتی فرق کی سزا موت تجویز کرتے ہیں ۔ جیسا کہ اس 22 سالہ لڑکے کے سلسلے میں کیاگیا۔ کہ نظریاتی فرق کو توہین رسالت کا نام دے کر اس کی سزا موت تجویز کردی گئی اور اس پر فوری عمل کردیا گیا۔

قومی اور اجتماعی قانون سازی کے نکتہ نظر سے:
قرآن مسلمانوں‌کو من حیث القوم مخاطب کرتا ہے ، انفرادی طور پر عموماً مخاطب نہیں کرتا ، ۔ قرآن مسلمانوں کے یقین (ایمان) کے مطابق ایک الہامی کتاب ہے اور بہت ہی شاندار اصولوں اور قوانین سے بھرپور ہے۔ اس کا اعتراف مسلم (قرآن کو اللہ کا کلام اور محمد صلعم کو اللہ کا رسول ماننے والے) اور بہت سے غیر مسلم (قرآن کو الہامی نہ ماننے والے) کرتے ہیں ۔ جب مسلمان اجتماعی قانون سازی کرتے ہیں تو صرف قران اور سنت کو استعمال کرتے ہیں اور بقیہ کتب روایات کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ میری ذاتی اور کمزور معلومات کے مطابق، آج کوئی بھی اسلامی ملک قرآن و سنت کے علاوہ کسی بھی کتب روایات کو قانون سازی کے لئے استعمال نہیں کرتا۔ اس امر کی بہت واضح‌وجوہات موجود ہیں ۔ جبکہ قرآن کے اصول دنیا کے بیشتر ممالک کے قوانین میں استعمال کئے گئے ہیں ، ایسا ہونا اتفاقاً‌ نہیں‌ہے۔ بلکہ بیشتر ممالک کی صورت میں‌ اعترافاً‌ ہے۔ مثال کے طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کی وفاقی عدالت، اپنے اعترافی ڈاکومینٹس میں‌یہ تسلیم کرتی ہے کہ محمد (صلعم)‌ ایک بڑے قانون بخشنے والے قانون دان تھے اور امریکی قوانین میں ان کی تجویز کئے ہوئے اصولوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ دیکھئے

Frieze showing Muhammad on the US supreme court’s North Wall Frieze:
http://www.supremecourtus.gov/about/north&southwalls.pdf

اور قرآن رکھنے اور پڑھنے والے امریکی صدر (صدور)‌ اور آئین لکھنے والوں کے لئے یہ لنک دیکھئے۔
Thomas Jefferson’s Quran:
http://www.breitbart.com/news/2007/01/04/D8MEPKIG0.html

John Adam’s had the Holy Quran:
http://www.johnadamslibrary.org/search/books/?category=Religion or
http://www.johnadamslibrary.org/book/?book=ocm03548445Adams 281.1

یہ ذہن میں ‌رکھئے کہ فرقوں‌کے آپسی فرق کی وجہ سے یہ ممکن نہیں‌ہے کہ قومی قوانین صرف اور صرف کسی ایک فرقہ یا مذہب کی خواہشات جت مطابق بنائے جائیں اور باقی فرقوں‌اور مذاہب کو جسمانی طور پر یا اطلاقی طور پر قتل کردیا جائے۔ ایسا کرنا امن و آشتی (‌Peace and harmony ) کے خلاف ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہوگا کہ اجتماعی قانون بنانے کے لئے ضرور ی ہے کہ قرآن کے مسلمہ اصولوں کی مدد سے اجتماعی قانون سازی کی جائے۔ کیوں‌کہ قرآن کسی طور پر دوسرے مذاہب کے نام لیوا لوگوں کی حق تللفی نہیں‌کرتا۔ یہ کتاب، اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالی کسی بھی انسان سے نفرت نہیں کرتا۔ اس دنیا کے قوانین بنانے کے لئے قرآن ایک بہترین اصول ساز کتاب ہے، جبکہ دوسری کتب روایات، انفرادی عبادات کے لئے تو موزوں ہیں‌ لیکن ان کتب کا اثر عموماَ‌ اجتماعی معاملات پر مناسب نہیں پڑتا، لہذا یہ کتب عموماً اجتماعی قانون سازی کے لئے اچھی ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ یہ بہت واضح اور ثابت شدہ امر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بیشترکتب روایات دوسرے فرقوں اور مذاہب کو نظریاتی فرق کی سزا موت تجویز کرتی ہیں۔ دہشت گردوں کا یہ بنیادی نعرہ کہ نظریات کے فرق کی سزا موت، یقیناًَ ، ایک غیر قرآنی اصول ہے۔

یہ موضوع:
اس موضوع پر کہ ایک 22 سالہ ہندو لڑکے کو لوگوں‌ نے نظریاتی اختلاف کی وجہ سے جرم ثاب کئے بغیر قتل کردیا اور اس کام کو جائز سمجھا، کچھ اصحاب و احباب نے روایتی کتب کو ذریعہ بنایا اور یہ موقف اختیار کیا کہ یہ ایک درست عمل ہے کہ ایک مجمع ایک شخص کو فوری طور پر توہین رسالت کا الزام عائد کرکے، فوری طور پر لاتوں‌اور مکوں سے تواضع کرکے فوری طور پر اس کو وہیں قتل کردے۔ بناء‌کسی مقدمے یا شنوائی کے ۔ یعنی نظریاتی فرق کی سزا موت۔

جب کہ باقی لوگوں کا موقف یہ ہے کہ اگر ایسا ہو تو اس جرم کو ثابت کرنے کے لیے قانون کے سامنے پیش کیا جائے کہ عام افراد کو کسی شخص‌ پر مقدمہ چلانے، سزا دینے اور قتل کردینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ایسا حق صرف اور صرف عوام کے منتخب کئے ہوئے نمائندوں‌کی طرف سے بٹھائے ہوئے ججوں ، عدالتو‌ں اور اس کام کے لئے مختص‌کئے ہوئے اداروں کو ہے کہ وہ اس جرم کی کیا سزا تجویز کرتے ہیں۔

جن لوگوں‌ کا موقف یہ ہے کہ مجمع کے لئے یا افراد کے لئے توہین رسالت کے جرم میں فوری سزا ، اور قتل جائز ہے، کسی سنت رسول اور قرآن کی آیت کی غیر موجودگی میں کسی بھی فرد کو یہ حق دے رہے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی ان کو مجمع میں توہین رسالت کا مجرم قرار دے دے۔ ایسے تمام افراد جو اس پر یقین رکھتے ہیں ، کیا وہ ذاتی طور پر تیار ہیں کہ مسجد میں ان پر کوئی توہین رسالت کا الزام عائد کرے اور وہ جذباتی طور پر ہیجان خیز مجمع کی لاتوں گھونسوں اور مکوں کے سامنے اپنے موقف کا دفاع کریں‌؟ اور بنا کسی مقدمے کے ان کے بیان کا حساب مجمع کو کرنے دیا جائے۔ آپ اتفاق کریں گے کہ ایک اسلامی ملک میں کسی شخص کو بناء‌مقدمہ کے سزا دینا ایک قابل تقصیر جرم ہے۔ کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ کو یہ خوف ہو کہ جونہی آپ باہر نکلیں، لوگ آپ پر اس لیے پل پڑیں کہ آپ کے نظریات دوسروں کے نظریات سے مختلف ہیں اور آپ ‌کو کسی بھی جگہ یہ موقع نہ دیا جائے کہ آپ وضاحت کرسکیں کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ بلکہ لاتوں گھونسوں اور مکوں ، گالیوں اور گولیوں‌سے آپ کی بات کا جواب دیا جائے؟ میرا خیال ہے آپ میں سے کوئی بھی اس اصول سے قطعا متفق نہیں ہوگا، میں بھی متفق نہیں۔

آج جب دنیا ایک دوسرے پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، دوسروں‌کو اس خوف میں‌مبتلا کرنا کہ ان کے اپنے نظریات ، مذہب یا فرقہ پر عمل کرنے اور انکی اپنی عبادات ، طور طریقہ، روایات و اقدار پر عمل کرنے کی سزا موت ہے، ایک انتہائی قدم ہے ، اس طرز عمل کا واضح‌ نام ٹیررازم یا دہشت گردی ہے۔ جو لوگ دوسروں کو ان کے طور طریقوں پر جینے کا موقع نہیں دیتے یعنی دہشت گرد ہیں ان کی سزا آج کی دنیا میں یقیناً‌ تکلیف دہ ہے، چاہے وہ ایک فرد ہوں یا ایک قوم۔ اس سزا کے دینے میں مسلم اور غیر مسلم دونوں یکساں‌ طور پر ایک ساتھ ہیں۔ اگر ایسے لوگ جو دہشت گردی (یعنی نظریاتی اختلاف کی سزا موت)‌ دینے کے کریہہ جرم میں مبتلا ہیں اور اس کے لئے اسلام سے وجوہات پیش کرتے ہیں تو وہ دہشت گردی سے بڑھ کر مزید کریہہ جرم یعنی دہشت گردی کی مدد سے اسلام کی، اللہ کی اور اس کے رسول کی اور اس مذہب کے ماننے والوں کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ نظریاتی اختلاف کی سزا موت کو جہاد قرار دینا، مزید ایک کریہہ جرم ہے۔

قرآن گواہ ہے کہ اللہ تعالی نظریاتی اختلاف کی سزا موت، جنگ یا قتل تجویز نہیں کرتا۔ بلکہ اسلامی فلاحی ریاست کے دفاع کو جہاد کا نام دیتا ہے۔

اختتام :
اسلام کو دہشت گردی کے لئے استعمال کرنا کہ اسلام یہ کہتا ہے ، یا قرآن یہ کہتا ہے کہ نظریاتی اختلاف کی سزا موت ہے مسلمانوں کے ساتھ کیا جانے والا ایک کریہہ جرم ہے۔

اس 22 سالہ ہندو لڑکے کو اہانت رسول کے غیر ثابت شدہ جرم کے پردے میں قتل کردینا اور اس جرم کا دفاع کرنا یقیناً‌ دہشت گردی کے غیر اسلامی نظریہ یعنی " نظریاتی اختلاف کی سزا موت " کے فلسفے کے دفاع کرنے کے مترادف ہے ۔ میں اس فلسفے کی جس کا نام دہشت گردی ہے، سخت مذمت کرتا ہوں۔

والسلام۔
 

سیفی

محفلین
مغل صاحب۔۔۔۔بہت شکریہ

مجھے اپنی تفاخرانہ انا کی تسکین کی ضرورت نہیں ۔ فاروق سرور خان صاحب نے نبی علیہ السلام کی توہین کے تین واقعات کا ذکر کیا تھا۔ چونکہ وہ کتبِ احادیث کو نہیں مانتے اور پورا اسلام صرف قرآن مجید سے ثابت کرنے کے داعی ہیں۔ اس لئے میں نے ان سے یہ سوال کیا ہے کہ ان تین واقعات کا قرآن سے ثبوت دکھا دیں۔

اب فاروق صاحب ثبوت دے دیں تو مجھ جیسے کم علم کو بھی پتہ چلے کہ بغیر احادیث کی کتب کے بھی دین مکمل ہو سکتا ہے کہ نہیں۔

بس اتنی سی بات ہے۔ (ہم نے اپنی انا کی تسکین کر کے کیا لے لینا ہے)

والسلام مع الاکرام
 

مغزل

محفلین
مجھے آپ کی بات سے مکّمل اتفاق ہے سیفی صاحب ۔۔
اگر ایسا ہی ہے تو میں اپنی بات سے رجوع کرتا ہوں۔
طالبِ دعا
م۔م۔مغل
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،
میری سب دوستوں سےگزارش ہے کہ گفتگو کو موضوع پر جاری رکھیں۔ اگر کسی اور موضوع پر گفتگو آگے بڑھانا ضروری ہے تو اسے علیحدہ دھاگے میں شروع کیا جا سکتا ہے۔
 
Top