شفیق خلش مانِع حُصولِ یار میں تقدیر اب بھی ہے

طارق شاہ

محفلین
غزل
مانِع حُصولِ یار میں تقدیر اب بھی ہے
استادہ صف بہ صف لیے شمشیر اب بھی ہے

پھیلائے کم نہ ربط و تعلّق کے باوجُود!
ہم تک خبر کے آنے میں تاخیر اب بھی ہے

حاصل نہیں جِلو کی وہ رعنائیاں، مگر
ہر اِک گُزشتہ لُطف کی تاثیر اب بھی ہے

مُدّت ہُوئی کہ اُن سے عِلاقہ نہیں کوئی !
نِسبت سے لیکن اپنی وہ تشہیر اب بھی ہے

کوشِش حصُولِ ماہ سے ہُوں نِیم جاں، مگر
دِل میں وہی اِرادۂ تسخِیر اب بھی ہے

بہتر دیارِ غیر سے حالات کب ہُوئے
حائل جو مصلحت کی تھی زنجیر اب بھی ہے

قانِع کب ایسے حال پہ دِل، یا نِباہ پر!
سوچے نِجاتِ غم کی یہ تدبیر اب بھی ہے

دل کی شکستگی پہ بھی طاقت کہاں گئی
ہر روز خواہشوں کی وہ تعمیر اب بھی ہے

سُننے کا ذَوق رکھتا ہُوں اعلٰی ترین مَیں !
کانوں کو میرے دِی گئی تکبیر اب بھی ہے

خواب اب نہیں اِن نیند کے ماتوں میں وہ خلؔش
خواہش کہ پائیں راست سی تعبیر اب بھی ہے

جائیں دیارِ ہِجر سے واپس وہی، خلؔش !
جن کو وَطن وہ باپ کی جاگیر اب بھی ہے

شفیق خلؔش
بُدھ،۴جون ۲۰۲۵
واشنگٹن، ڈی سی
 
آخری تدوین:
Top