لکھاری کی مؤنث

بہت کچھ اور بھی رائج ہو چکا ہے صاحب!
نثری نظم، نثری غزل وغیرہ وغیرہ، ’’دیوارِ جھوٹ‘‘ جیسی تراکیب بھی، اور زندگی کا دیگر غلط سلط طریقے بھی اور رواج بھی۔
بات صرف زبان تک کہاں رہ گئی ہے۔
اس فقیر نے جو درست سمجھا عرض کر دیا، اس میں نہ کوئی ضد کی بات ہے اور نہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ زبان میری محتاج ہے۔ ویسے یہ لہجہ آپ کا نہیں لگتا مجھے، جناب فارقلیط رحمانی صاحب۔
۔آپ تسلیم کریں یا نہ کریں، یہ حقیقت ہے کہ موجودہ دَور کی اردو زبان اور اس کے ادب میں اداکارہ اور فنکارہ کو اپنا لیا گیا ہے۔یقین نہیں آتا پاکستان کے کسی بھی شہر سے شائع ہونے والا ایسا کوئی اخبار، رسالہ یا جریدہ اُٹھا کر دیکھ لیجیے جس میں فلموں کے بارے میں تبصرے شائع ہوتے ہوں۔ ان تمام میں آپ کو کہیں بھی اداکارنی یا فنکارنی جیسے بے تکے الفاظ نہیں ملیں البتہ اداکارہ اور فن کارہ ضرور مل جائیں گے۔ اس کے با وجود اگر آپ اپنی ضد پر قائم ہیں تو بصد شوق رہیے۔ کیونکہ اردو زبان و ادب کسی فرد واحد کے محتاج نہیں۔​
بہر حال شکریہ۔
آئندہ محتاط رہوں گا۔ اس بار در گزر فرمائیے۔


جناب الف عین
 
اربابِ بست و کشاد کی خدمت میں اپنے ایک مہربان کی خالص علمی ادبی گفتگو کا ایک پیراگراف
حضورِ والا!تخلیقِ اِنسانی زبان کے لیےنہیں ہوئی۔بلکہ انسانوں کے لیے زبانیں تخلیق کی گئیں یا ہوئیں۔ اس لیے عموماًاہل زبان نے اور بالخصوص علمائے لسانیات نے ان لفظوں کو ہمیشہ اپنی زبانوں کے دامن میں جگہ دی جو زباں زدِ عام ہوگئے۔عوام میں مقبول ہوگئے، ہر خاص و عام کی زبان پر چڑھ گئے۔آپ تسلیم کریں یا نہ کریں، یہ حقیقت ہے کہ موجودہ دَور کی اردو زبان اور اس کے ادب میں "اداکارہ" اور "فنکارہ" کو اپنا لیا گیا ہے۔یقین نہیں آتا پاکستان کے کسی بھی شہر سے شائع ہونے والا ایسا کوئی اخبار، رسالہ یا جریدہ اُٹھا کر دیکھ لیجیے جس میں فلموں کے بارے میں تبصرے شائع ہوتے ہوں۔ ان تمام میں آپ کو کہیں بھی اداکارنی یا فنکارنی جیسے بے تکے الفاظ کبھی نہیں ملیں گے البتہ "اداکارہ" اور "فن کارہ" ضرور مل جائیں گے۔ اس کے با وجود اگر آپ اپنی ضد پر قائم ہیں تو بصد شوق رہیے۔ کیونکہ اردو زبان و ادب مجھ جیسے کسی فرد واحد کے محتاج نہیں۔
محمد یعقوب آسی ، @ الف۔عین،


’’۔۔۔ جیسے بے تکے الفاظ کبھی نہیں ملیں گے‘‘
’’۔۔۔ اگر آپ اپنی ضد پر قائم ہیں تو بصد شوق رہئے، اردو زبان و ادب کسی فردِ واحد کے محتاج نہیں۔‘‘
یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ اس کے آخری جملے میں الفاظ ’’مجھ جیسے‘‘ بعد کی تدوین ہے۔ اس سے پہلے میں ان کے ارشادات کا آخری حصہ نقل کر چکا تھا (جواب نمبر 21)۔
شمشاد صاحب، محمد وارث صاحب، الف عین صاحب، حسان خان صاحب، سید عاطف علی صاحب۔
 

الف عین

لائبریرین
فارقلیط رحمانی کا اشارہ اگر واقعی محمد یعقوب آسی تھے (ہیں نہیں، تدوین سے پہلے) تو ان سے درخواست ہے کہ اس کی وضاحت کریں۔ اور اگر واقعی یہ روا روی میں کیا گیا ایسا ہی سہو تھا، تو آسی بھائی سے بھی درخواست ہے کہ در گزر کریں۔ آسی بھائی کی دل آزاری کا واقعی مجھے افسوس ہے۔بہر صورت وضاحت کی ذمہ داری فارقلیط رحمانی کی بنتی ہے
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
" اردو زبان و ادب کسی فردِ واحد کے محتاج نہیں۔‘‘ یہ ایک عمومی جملہ تھا۔ اس میں عالی جناب قبلہ محمد یعقوب صاحب آسی کو نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔ لیکن جیسا کہ آپ حضرات نے سمجھا مجھے فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا کہ پڑھنے والے تو اس سے قبلہ محمد یعقوب صاحب آسی کی ذات ہی مراد لیں گے، لہٰذا غلطی کا احساس ہوتے ہی پیغام کی تدوین کردی گئی۔ اردومحفل میں جن حضرات کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتا ہوں، جن کی علمیت کا میں قائل ہوں ان کی فہرست یوں تو کافی طویل ہے لیکن ان میں سر فہرست جو چند ہستیاں ہیں :قبلہ محمد یعقوب صاحب، قبلہ خلیل صاحب، قبلہ سید محمد شہزاد ناصر صاحب،محترم اعجاز صاحب، نایاب صاحب،محترم فاتح صاحب،محترم حسان خاں صاحب، ۔۔۔۔۔،​
۔۔۔۔۔،​
۔۔۔۔۔،​
۔۔۔۔۔،​
۔۔۔۔۔،​
ان سے تو ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے ان کی شان میں گستاخی کیسے کر سکتے ہیں؟​
ۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃۃتاہم اگر آسی صاحب کی یا اس بحث میں شامل کسی بھی ہستی کی اس ناکارہ کے کسی پیغام سے اشارتاً یا کنایتاً بھی دلآزاری ہوئی ہو تو معافی کا خواستگار ہوں۔​
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اختلاف رائے کے کئی پہلو ہیں ۔۔۔ ہم اس اختلاف کی جانب مثبت نقطہء سے دیکھ کر اپنی رائے میں نکھار بھی پیدا کر سکتے ہیں اور کسی منفی نقطہء نظر سے پرکھ کر ماحول میں حریفانہ کشاکشسے محفل کی فضا مکدر بھی کر سکتے ہیں ۔ہمارے لفظوں میں سمائی ہوئی یہی ادائیں۔ کبھی پنہاں تو کبھی آشکارا ۔ نہ صرٍ ف ہماری شخصیت کے علمی و فکری پہلوؤں کا آئینہ بن جاتی ہیں بلکہ بسا اوقات ہمارے معاشرتی و خاندانی پس منظر کی بہت گہری عکاسی کرتی ہیں ۔۔ ۔ جہاں ہم اپنی تحریر میں ان تقاضوں کواپنے تئیں پیش نضر رکھتے ہیں ۔وہاں بشری احساسات کا اتار چڑھاؤ بعض اوقات ہمیں الفاظ کی صحیح ترجمانی سے باز بھی رکھتا ہے ۔۔۔ مندرجہ بالا بحث میں بہت سے پہلو مجھے دلچسپ معلوم ہوئے اور بہت لطف آیا اپنی محدود فکر پر مبنی حقیر سی رائے بھی دے دی اوراحبّائے کی قیمتی اراء بھی دیکھنے کا موقع بھی ملا ۔۔۔۔ محترم آسی صاحب کی طرف سے اشارہ کردہ ایک عبارت کے ذرا تیکھے تیور کا ذکر کیا گیا ہے۔۔ ۔ مجھے امید واثق ہے کہ آسی صاحب کی قلبی کشادگی کے سامنے رحمانی کے پیش کردہ الفاظ بلکہ الفاظ میں سموئے ہوئے جذبات محفل کو مثبت سمت میں گامزن رکھنے میں کافی سے زیادہ ثابت ہوں گے ۔۔۔ اور ہم محفل کی ذی وقار شخصیات کی قابل قدر آراء سے محروم نہ ہوں گے۔اورہم جیسے تلامذہ ءمحفل یہاں کے برادرانہ اور دوستانہ ماحول میں سے بہت کچھ علمی و تمدنی نکات سیکھتے رہیں گے ۔میری پیش کردہ رائے میں اگر کوئی چبھتا پہلو کسی ِصاحب محسوس ہوا ہو تو اسے میری علمی کم فہمی اور تمدنی فقدان سمجھ لیا جائے۔ ۔۔آداب۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
راجپوتانی
اردو میں "انی" لگا کر مؤنث بنانے کا قاعدہ موجود ہے:
جیسے:
سیٹھ: سٹھانی
نوکر : نوکرانی
جیٹھ: جٹھانی
وقس علیٰ ہذ القیاس
رحمانی صاحب اور شمشاد صاحب ۔راجپوت ایک مرکب لفظ ہے- بمعنی راجا کی اولاد (پوت بمعنی بیٹا ) ۔۔۔دونوں شاید ہندی یا سنسکرت الفاظ ہیں۔۔پوت کا لفظ اردو میں بیٹا کے معنی میں عام مستعمل ملتا ہے ۔مثلا" کماؤ پوت۔کما (کر ہاتھ بٹا)نے والا بیٹا ۔۔۔۔۔۔سپوت ۔لائق بیٹا۔۔۔۔۔۔۔کپوت نالائق بیٹا ۔۔۔۔۔
( کپوت کے لفظ کی کوئی اردو سمعی بصری یا مثال اگرچہ میری نظر سے کبھی نہیں گذری مگر یہ لفظ ان ہی معانی میں سندھی زبان میں موجود ہے ) ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔یہ لفظ راجپوت بطور ایک خاندانی نام مستعمل ہے ۔چناں چہ اسے ہر دو اصناف پہ محیط سمجھنا جائز ہونا چاہیے ۔۔۔ جیسے راجپوت مرد اور راجپوت عورتیں۔۔۔۔ ہاشمی مرد اور ہاشمی عورتیں وغیرہ۔۔۔
اور اگر کوئی قاعدہ لگا کر مؤنث بنانا ہی ہو تو اردو میں " انی " کے ساتھ صرف "نی " بھی لگایا جاتا ہے ۔۔۔ مثلا" شیرنی ۔بھوتنی ۔۔۔ راجپوت کیونکہ بھوت سے زیادہ مشابہ ہے ( صرف کلمہ کے صوتی آہنگ کے اعتبار سے :lol: ) چناں چہ راجپوتنی کا قرین قیاس ہونا بھی ممکن ہوسکے گا:) ۔۔
 
احبابِ گرامی۔
سچی بات یہی ہے کہ مجھے دکھ ہوا تھا۔ اسی لئے میں نے عرض کیا تھا کہ ’’یہ لہجہ آپ کا نہیں لگتا مجھے‘‘۔ اور میں دل میں رنج پالنے کا قائل ہی نہیں، سو فوری طور پر اس کا اظہار کر دیا۔ اپنی اس زود رنجی پر شرمندہ ہوں۔
مباحث چلتے رہیں گے، محفل جمی رہے گی، اللہ ہم سب کے دلوں کو ملائے رکھے۔ میں جناب فارقلیط رحمانی صاحب سمیت تمام دوستوں کا ممنون ہوں۔ اللہ خوشیاں دے۔

کچھ ہی ثانیوں میں بجلی بند ہو جائے گی، پھر ملتے ہیں۔ اللہ حافظ۔
 
( کپوت کے لفظ کی کوئی اردو سمعی بصری یا مثال اگرچہ میری نظر سے کبھی نہیں گذری مگر یہ لفظ ان ہی معانی میں سندھی زبان میں موجود ہے ) ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔​

کپوت پنجابی اور راجپوتانے کی زبان میں موجود ہے۔ ک کا سابقہ برے کے معانی میں آتا ہے۔ کپوت کا مطلب ہوا ’’ناخلف بیٹا یا وارث‘‘
س کا سابقہ اچھے کے معانی میں آتا ہے۔ سپوت کا مطلب ہے ’’قابلِ فخر بیٹا یا وارث‘‘
 
پنجابی کا ایک مشہور مقولہ ہے:
’’پت کپت ہو سکدے نیں، ماپے کماپے نہیں ہوندے‘‘
معانی: اولاد بری ہو سکتی ہے والدین برے نہیں ہو سکتے۔
 
ابھی کچھ دیر پہلے ایک دیرینہ ساتھی کے جنازے کی نماز کے لئے اس کے گاؤں جا رہا تھا۔ راستہ پوچھنا پڑا، تو ذہن میں ایک اور پنجابی کہاوت آ گئی: ’’جے راہ نہ پائیے تے کراہ وی نہ پائیے‘‘ (اگر ہم راستہ نہ بتا سکتے ہوں تو غلط راستہ نہیں بتانا چاہئے)۔

یہ اسی تسلسل میں ہے۔ کسی اسم سے پہلے سین یا کاف لگانا۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ سین اچھے، مناسب، موزوں، قابل تحسین وغیرہ کے معانی شامل کرتا ہے، کاف برے، نامناسب، غیرموزوں، قابل مذمت وغیرہ کے معانی شامل کرتا ہے۔
چَج (طریقہ، ڈھنگ): سچج (مہارت، سلیقہ)، کچج (بے ڈھنگا پن، عدمِ سلیقہ)
ویلا (وقت): سویلا (ٹھیک وقت)، کویلا (تاخیر) ۔ سویرا غالباً سویلا سے بنا ہے۔
۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ سنسکرت کا طریقہ ہے کہ برے کے لئے کُ کا سابقہ اور اچھے کے لئے سُ کا سابقہ لگاتے ہیں۔ لیکن آسی بھائی کی مثالوں میں محض سویرا کے بارے میں ان کی تحقیق درست ہے، باقی الفاظ شاید صرف پنجابی میں استعمال ہوتے ہوں گے۔ سنسکرت، ہندی یا اردو میں نہیں۔
راجپوت کے سلسلے میں عاطف سے متفق ہوں۔ جہاں بطور نسب کے استعمال ہو گا، وہاں محض راجپوت، اور جہاں، بطور خاص بول چال میں، کسی راجپوت عورت کی اکڑ، کر و فر وغیرہ کا ذکر کرنا ہو، تو اس کے لئے راجپوتنی استعمال ہوتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
راجپوتنی کی بجائے راجپوتائن زیادہ مناسب لگتا ہے۔
آپ یہ بھی استعمال کر لیں آپ کے مخاطب یقینا" سمجھ لیں گے ۔۔۔۔۔
بات سمجھ میں آگئی ہے نا ;)۔بس تو پھر ٹھیک ہے۔ ( اگر آپ عابد کاشمیری آف پی ٹی وی صاحب کو جانتے ہیں تو اس عبارت سے لطف اندوز ہو پا ئیں گے )
 
Top