قوم دہشتگردوں کے خلاف متحد ہو رہی ہے۔ نذیر ناجی

مہوش علی

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے مانا کہ تغافل تو نہ کرو گے لیکن۔
لیکن میری قوم نے پھر بہت دیر کر دی اپنی یہ خاموشی توڑتے توڑتے۔ یہ خاموش اکثریت کی وہ خاموشی تھی جس کی وجہ سے آج حالات یہاں تک پہنچے کہ تیس لاکھ افراد خود اپنے ملک میں بے گھر ہیں۔ اور اسکا واحد [بلکہ واحد نہیں، سب سے بڑا] ملزم میڈیا میں موجود یہ رائیٹ ونگ حضرات ہیں جو طالبان کے ہر جرم کے بعد قوم کو اسلام اور بیرونی سازشیوں کی لوری سنا کر تھپتھپا کر سلاتے رہے۔
اس رائیٹ ونگ میڈیا کے بعد دوسرا بڑا دشمن ہمارے سیاستدان ہیں جن میں اتنی ہمت نہ تھی کہ آگے آ کر طالبان کی فتنے کو فتنہ کہتے، اس پر احتجاج کرتے۔ انہیں اپنی شہرت اور اپنی سیاست پیاری ہے کہ جس سیاست کو چمکانے میں فتنوں سے ہاتھ ملایا جاتا ہے، ان کا صفایا نہیں کیا جاتا۔


headlinebullet.gif
shim.gif
dot.jpg
shim.gif
”بے گناہوں کو مارنے والے مسلمان ہیں‘ نہ انسان۔ وطن کی خاطر جان دینے والے قوم کے محسن اور شہید ہیں۔ شدت پسندی سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہوا اور ہم جگ ہنسائی کا نمونہ بن رہے ہیں۔“ یہ میرے کسی کالم کا اقتباس نہیں۔ ملک کے مقبول عوامی لیڈر نوازشریف کے الفاظ ہیں‘ جو انہوں نے لاہور کے دھماکے میں شہید ہونے والے پولیس اہلکار غلام مصطفی کی رہائش کے سامنے ورثاء میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب میں ادا کئے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ میں نے یہ خبر اس اخبار میں پڑھی‘ جو نوازشریف کا حامی بلکہ ترجمان تصور کیا جاتا ہے۔ سرخی میں نوازشریف‘ وطن کی خاطر جان دینے والوں کو قوم کے محسن اور شہید قرار دیتے ہیں۔ لیکن خبرنگار نے متن میں حسب روایت انہیں ”جاں بحق“ ہی لکھا۔ درحقیقت میڈیا کا بڑا حصہ‘ دہشت گردوں سے اس قدر خائف ہے کہ وہ وطن کی خاطر لڑنے والوں کو شہید لکھتے ہوئے یا بولتے ہوئے بھی ڈرتا ہے اور باغیوں کی ہلاکت کو ہلاکت قرار دینے کا بھی اسے حوصلہ نہیں پڑتا۔ جان بچانے کے لئے دونوں طرف کے جانی نقصان کے لئے ایک ہی ترکیب رکھ دی گئی ہے‘ جو ملک کی حاکمیت اور قانون کے خلاف بغاوت کے جرم میں‘ موت کے منہ میں جائے‘ وہ بھی جاں بحق اور جو وطن پر اپنی جان نچھاور کرے‘ وہ بھی جاں بحق۔ یہ رائے عامہ کو گمراہ کرنے کا ایسا طریقہ ہے جو پیشہ ورانہ تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ دنیا میں شاید ہی کسی ملک کا میڈیا‘ اپنے وطن کی خاطر جان دینے والوں کو شہید لکھنے سے کتراتا ہو۔ اس پر اظہار افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
خودکشی کی مسلسل وارداتوں‘ معصوم شہریوں کی جائیدادوں کی تباہی‘ سکولوں اور ہسپتالوں کی عمارتیں بموں سے اڑانے کی وارداتوں‘ شہریوں کے سامنے نافرمانی کرنے والوں کو کوڑے لگانے کے کرتبوں‘ گردنیں کاٹنے کے بہیمانہ مظاہروں‘ زندہ انسانوں کو چوراہوں میں پھانسیاں لگانے کے دہشت ناک جرائم اور اغوا برائے تاوان کی غیرانسانی حرکات کے نتیجے میں‘ نام نہاد طالبان کا وہ بھرم تیزی سے ٹوٹ رہا ہے‘ جو انہوں نے بعض سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے اسلام کے نام پر قائم کر رکھا تھا۔ مسلمان اسلام سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ طالبان چونکہ اسلام کے نعرے لگاتے اور شرعی قوانین کی بات کرتے ہیں اور اپنے ہر جرم پر بھی اسلام کا لیبل لگاتے ہیں۔ اس لئے سادہ لوح مسلمانوں کی اکثریت یہی سمجھتی تھی کہ وہ نفاذ اسلام کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جبکہ ان کے خلاف کارروائی کرنے والے امریکہ کے اتحادی ہیں۔ مگر ان کے مسلسل مظالم اور انسان دشمن کارروائیوں کو دیکھ کر عوام کی رائے تیزی سے بدلنے لگی ہے۔ پاکستان کا کوئی شہر ایسا نہیں‘ جہاں ان کے مظالم سے متاثر ہونے والے موجود نہ ہوں۔ رہی سہی کسر سوات کے متاثرین نے نکال دی ہے۔ وہ کم و بیش پاکستان کے ہر شہر میں پھیل گئے ہیں۔ کہیں کم‘ کہیں زیادہ۔ اور جو کہانیاں وہ اور ان کے بچے بیان کرتے ہیں۔ انہیں سن کر طالبان سے ہمدردی رکھنے والے بھی کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کرتے ہیں۔ جو کوئی بھی ان متاثرین کی باتیں سنتا ہے۔ اس کا خون کھولنے لگتا ہے اور دل انسانیت کے دشمنوں کے خلاف نفرت سے بھر جاتا ہے۔
طالبان سے ہمدردیاں رکھنے اور ان کے حق میں ملک بھر کے اندر مہم چلانے والے عمران خان کی سابق اہلیہ گزشتہ روز پاکستان آئیں۔ عمران خان کے گھر میں ہی قیام کیا۔ وہ خاندان کی مہمان تھیں۔ ان کے بچے پاکستانی ہیں۔ گویا ان کا دل پاکستان میں ہے۔ وہ انتہائی دردمند خاتون ہیں۔ سوات کے متاثرین کی مدد کر رہی ہیں۔ ان کے حالات دیکھنے کے لئے انہوں نے متاثرین کے کیمپوں کے دورے بھی کئے۔ اپنے مشاہدات میں انہوں نے ایک جگہ لکھا ”کیمپ میں موجود ایک استاد (ٹیچر) نے بتایا کہ یہاں کا ہر بچہ بھرے مجمعے میں انسانی گردنیں کٹنے کا مشاہدہ کر چکا ہے۔ آٹھ سالہ بچی آمنہ نے پردے کے پیچھے کھڑی ہو کر آہستہ سے اپنے استاد کو بتایا کہ اس کے چچا کا پیٹ چیر کر کس طرح ان کی انتڑیوں اور اوجڑی کو طالبان نے باہر کھینچا۔ ایک اور لڑکی نے بتایا کہ اس کی والدہ کو صرف اس لئے گولی مار دی گئی کہ اس نے نقاب نہیں پہنا تھا اور ایک اور خاتون کو اس وقت گولی مار دی گئی جب وہ کرفیو کے دوران گھر سے باہر نکلی۔ سات سال کی بسما نے بتایا کہ اس نے اپنے خاندان کے تمام چھوٹے بڑے مردوں کو خونی چوک میں پھانسی چڑھتے ہوئے دیکھا۔“ یہ بچی بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ صرف اشاروں میں بات کرتی ہے اور اس کی درد بھری کہانی وہ لوگ بیان کرتے ہیں‘ جو اس کی حقیقت جانتے ہیں۔ یہ متاثرین ابھی تک طالبان کے خوف کے زیراثر ہیں۔ کیونکہ یہاں پر میڈیا اور طالبان کے ہمدرد ان خبروں کو دباتے ہیں‘ جن میں طالبان کی پسپائی اور فوج کی کامیابیوں کا ذکر ہوتا ہے۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد کس طرح سے اپنے زیرکنٹرول علاقوں میں عوام کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ طالبان کی ہمدردی میں‘ ان کی پسپائی اور فوج کی کامیابی کو نمایاں نہ کرنے والے‘ ظالموں کو کس قدر طاقت پہنچا رہے ہیں؟ اس کا اندازہ متاثرین کے کیمپوں میں طاری خوف سے کیا جا سکتا ہے اور سوچا جا سکتا ہے کہ جو لوگ ابھی تک متاثرہ علاقوں میں بیٹھے ہیں‘ وہ خوف کی کس کیفیت میں ہوں گے؟ ان کی بھاری اکثریت ابھی تک یہ سوچ رہی ہو گی کہ نہ جانے کب فوج واپس چلی جائے اور طالبان پھر سے آ کر انہیں انتقام کا نشانہ بنائیں۔ پاک فوج سے ہمدردی کرنے والے کو‘ طالبان جاسوس قرار دے کر بھرے مجمعے میں ان کی گردن کاٹتے ہیں تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔ آپ نے اس ڈرائیور کی خبر پڑھی ہو گی۔ جس نے ایک پولیس والے کو ٹھنڈا پانی پلا دیا تھا۔ طالبان نے اس جرم میں اسے پیڑ سے باندھ کر کوڑے لگائے۔ وہ مشکل سے فرار ہو کر اسلام آباد پہنچا۔ میں نے یہ کالم نوازشریف کے الفاظ سے اس لئے شروع کیا کہ وہ لوگ جو اسلام کی وجہ سے طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں‘ جان لیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ نوازشریف کی اسلام سے محبت پر کسی کو شک نہیں ہو سکتا اور جب تک انہیں یقین کامل نہیں ہو گیا کہ نام نہاد طالبان ”مسلمان ہیں نہ انسان“ وہ ان کے خلاف نہیں بولے۔ عام مسلمانوں کی طرح وہ بھی اسلام کے نام کی وجہ سے طالبان کا لحاظ کرتے رہے۔ لیکن وہ ایک دردمند انسان ہیں۔ نام نہاد طالبان کے مظالم کی تفصیل سن کر ان کا دل بھی پھٹ گیا ہو گا اور کونسا انسان ہے جو اپنے ہی ہم وطنوں اور ہم مذہبوں کو بموں سے اڑا کر اسلام سے محبت کا دعویٰ کر سکے؟ ایسے لوگ ایک دن بہرطور بے نقاب ہوتے ہیں۔ طالبان کی حقیقت سامنے آنے لگی ہے۔ ان کی بھرپور حمایت کرنے والے بھی‘ اب ان کی وکالت کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور جو لوگ نوازشریف کی ہمدردانہ خاموشی کو طالبان کی حمایت سمجھ کر ‘ان کے حق میں قصیدے لکھتے نہیں تھکتے تھے۔ اب وہ کس طرح رخ بدلیں گے؟ یہ جاننا مشکل نہیں۔ وہ اسی طرح بدلیں گے‘ جیسے ان کے کئی ساتھی پہلے ہی بدل چکے ہیں۔ میں تو انہیں پڑھ کر ہمیشہ یہ جان لیتا ہوں کہ آبپارہ میں ہوا کا رخ کدھر کو ہے؟ آخر میں تمام اہل وطن سے گزارش کروں گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم کو متحد کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جو دہشت گرد ہمیں قتل کر رہے ہیں۔ ہمارے اثاثے برباد کر رہے ہیں۔ ہماری معیشت تباہ کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے دشمن ہیں اور جو جنگ اپنے دشمنوں کے خلاف کی جائے‘ وہ اپنی جنگ ہوتی ہے ۔ کسی اور کی جنگ نہیں۔ اگر اس جنگ میں امریکہ سے مدد ملتی ہے۔ تو حاصل کرنا چاہیے۔ ایران نے بھی جنگ کے دوران اسرائیل سے ہتھیار خریدنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا تھا۔
 

راشد احمد

محفلین
مجھے بیچارے نذیر ناجی پر ترس آتا ہے کبھی کہتا ہے کہ قوم میں 1965 والا جذبہ بیدار ہوگیا ہے کبھی کہتا ہے کہ قوم دہشت گردی کے خلاف متحدہورہی ہے۔ 1965 اور 2009 میں بہت فرق ہے۔ آج کے جو زمینی حقائق ہیں انہیں دیکھنا چاہئے۔ 1965 میں‌ہمارا دشمن ہمارے سامنے جنگ کررہا تھا آج ہمارا دشمن درپردہ جنگ کررہا ہے۔ اس وقت ایوب خان پاکستان کا صدر تھا اور آج آصف غداری صدر ہے۔نذیر ناجی کو چاہئے کہ 1971 کو بھی یاد رکھے۔

قوم کیا خاک متحد ہے یہ بیچارے تو مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ کا رونا رہے ہیں۔ یہ بیچارےے تو اپنے مسائل میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ان کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ وہ متحد ہوسکیں۔
نذیر ناجی ہر کالم میں ایک جیسی بات کرتا ہے لگتا ہے کہ وہ پرانے کالموں میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے پیش کردیتا ہے
 

راشد احمد

محفلین
خودکشی کی مسلسل وارداتوں‘ معصوم شہریوں کی جائیدادوں کی تباہی‘ سکولوں اور ہسپتالوں کی عمارتیں بموں سے اڑانے کی وارداتوں‘ شہریوں کے سامنے نافرمانی کرنے والوں کو کوڑے لگانے کے کرتبوں‘ گردنیں کاٹنے کے بہیمانہ مظاہروں‘ زندہ انسانوں کو چوراہوں میں پھانسیاں لگانے کے دہشت ناک جرائم اور اغوا برائے تاوان کی غیرانسانی حرکات کے نتیجے میں‘ نام نہاد طالبان کا وہ بھرم تیزی سے ٹوٹ رہا ہے‘ جو انہوں نے بعض سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے اسلام کے نام پر قائم کر رکھا تھا۔ مسلمان اسلام سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔
خودکشی کی وارداتوں میں اضافہ میں توحکومت بھی ملوث ہے عوام کیا مہنگائی، بیروزگاری کی وجہ سے خودکشیاں نہیں کررہے۔ ان کی کالی کرتوتوں کی بات کوئی نہیں کرتا۔

طالبان سے ہمدردیاں رکھنے اور ان کے حق میں ملک بھر کے اندر مہم چلانے والے عمران خان
عمران خان کو بہت غلط انداز میں پیش کیا ہے اس پلاٹ ناجی نے۔ عمران خان کا موقف میں نے کئی بار سنا ہے اس نے کبھی طالبان کی حمایت نہیں کی۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے، فوجی طاقت مسائل حل نہیں کرے گی بلکہ مزیدخراب کرے گی۔ فوجی کاروائی سے عوام کا زیادہ نقصان ہوگا لیکن میڈیا ہے کہ اس کی کوئی بات مکمل پیش نہیں کرتا۔ بس اس نے آپریشن کی مخالفت کردی تو یہ سب اس پر چڑھ دوڑے

جو دہشت گرد ہمیں قتل کر رہے ہیں۔ ہمارے اثاثے برباد کر رہے ہیں۔ ہماری معیشت تباہ کر رہے ہیں۔
ہمیں تو قتل زرداری اینڈ کمپنی بھی کررہی ہے۔ مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بیروزگاری کے ذریعے

وہ ہمارے دشمن ہیں اور جو جنگ اپنے دشمنوں کے خلاف کی جائے‘ وہ اپنی جنگ ہوتی ہے ۔ کسی اور کی جنگ نہیں۔ اگر اس جنگ میں امریکہ سے مدد ملتی ہے۔ تو حاصل کرنا چاہیے۔ ایران نے بھی جنگ کے دوران اسرائیل سے ہتھیار خریدنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا تھا۔

زرداری کو چاہئے کہ نذیر ناجی کو بھی اپنی کابینہ میں بھرتی کرلے

ملک کے مقبول عوامی لیڈر نوازشریف
نوازشریف کی اسلام سے محبت پر کسی کو شک نہیں ہو سکتا اور جب تک انہیں یقین کامل نہیں ہو گیا کہ نام نہاد طالبان ”مسلمان ہیں نہ انسان“ وہ ان کے خلاف نہیں بولے۔ عام مسلمانوں کی طرح وہ بھی اسلام کے نام کی وجہ سے طالبان کا لحاظ کرتے رہے۔ لیکن وہ ایک دردمند انسان ہیں۔
پہلے یہ صاحب مشرف کے قصیدے پڑھتے تھے اب نواز شریف کے۔ آخر پنجاب حکومت کی طرف سے دئیے گئے پلاٹ کا حق بھی تو ادا کرنا ہے
 

طالوت

محفلین
عمران خان کو بہت غلط انداز میں پیش کیا ہے اس پلاٹ ناجی نے۔ عمران خان کا موقف میں نے کئی بار سنا ہے اس نے کبھی طالبان کی حمایت نہیں کی۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے، فوجی طاقت مسائل حل نہیں کرے گی بلکہ مزیدخراب کرے گی۔ فوجی کاروائی سے عوام کا زیادہ نقصان ہوگا لیکن میڈیا ہے کہ اس کی کوئی بات مکمل پیش نہیں کرتا۔ بس اس نے آپریشن کی مخالفت کردی تو یہ سب اس پر چڑھ دوڑے
عمران خان کا موقف بڑا واضح اور حقیقت سے قریب تر ہے ۔ مگر عمران خان اور ان جیسے دوسرے حضرات کے ساتھ عجیب سا مذاق کیا جا رہا ہے ، کہ نہ صرف ان کا موقف پوری طرح سے بیان نہیں کیا جاتا بلکہ آدھے کو بھی تروڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے ۔ حالت کچھ ایسی ہے جیسی نو گیارہ کے وقت تھی کہ جو "ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے" کہ جو شخص بھی ان مسائل کی جڑ کی طرف انگلی اٹھاتا ہے اسے طالبان کا حمایتی بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ اصل خرابی تو اس وقت ہوئی جب ہمارے (بزدل) کمانڈو صدر نے ہتھیار ڈالے اور "ڈو مور" کی کفرانہ رسم ہمیں دے گیا ۔ حد تو یہ ہے کہ اصل طالبان سے خوفزدہ ان کا یہ موقف بھی ماننے کو تیار نہیں کہ پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث نام نہاد طالبا ن یا تحریک طالبان پاکستان کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ۔محض بندوق کی گولی سے معاملات حل کرنا پختونتو کیا کسی بھی قوم سے ممکن نہیں۔
اسلئے صحافت کو دیانت داری سے نبھانے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ حقائق کو بغیر کسی تعصب و نفرت و اقرباء پروری کے درست تناظر میں پیش کیا جائے اور نذیر ناجی جیسے چھوٹے آدمی کے لئے یہ بات ممکن نہیں۔
وسلام
 

ساجد

محفلین
ناجی صاحب کی تمام باتوں سے تو اتفاق نہیں ہے مجھے، لیکن پھر بھی ان کے حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ آپ جناب کبھی ناں جی ہوتے ہیں تو کبھی ہاں جی۔ بہر حال یہاں انہوں نے بہت کھری بات کہی ہے۔
 

ابن جمال

محفلین
مجھے اس پر واقعتآ بہت تعجب ہے کہ اس نذیر ناجی جس نے چند دنوں پہلے ایک اینکر کو فون کرکے گندی گالیاں دی تھیں ایک تواب تک جنگ میں اس کے کالم تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔دوسرے اس فورم پر ایک صاحبہ نے اس کا یہ کالم شامل کیاہے۔جب کہ کسی اورملک میں اگر ایسا ہواہوتا تواب تک اس کو اخبار سے علیحدہ کردیاگیاہوتا اورلوگوں نے اس کابائیکاٹ بھی کردیاہوتا لیکن یہ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟/
 

مہوش علی

لائبریرین
اللہ اللہ کر کے لگنا شروع ہوا ہے کہ ناجی صاحب کی کاوشیں اور کالم رنگ لا رہے ہیں۔
اوپر کا کالم پڑھہیں جس میں پہلی مرتبہ کسی صحافی کو ہوش آیا ہے کہ پاک فوج کے سپاہی شہید ہیں۔ مگر ہمارا میڈیا رائیٹ ونگ کے اتنے زیر اثر ہے کہ آج تک پاک فوج کے شہید جوانوں اور ان وحشی خونی درندوں کے مرنے میں کوئی فرق ہی نہیں کرتے تھے۔ اگر کشمیر کے مجاہدین کی شہادت کو شہید لکھتے آئے ہیں تو طالبان کے خلاف اتنے سالوں سے انہیں کون سا سانپ سونگھا ہوا تھا۔

اور ناجی صاحب کے کالم چھپنے کے بعد آج میں نے جنگ اخبار میں پاک فوج کے لیے "شہید" کا لفظ استعمال ہوتے دیکھا۔

up62.gif


قوم نے آتے آتے بہت دیر کر دی اور بہت نقصان ہوا۔ بہرحال دیر آید درست آید۔ اللہ تعالی ہماری قوم کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ امین۔
 

زین

لائبریرین
اللہ اللہ کر کے لگنا شروع ہوا ہے کہ ناجی صاحب کی کاوشیں اور کالم رنگ لا رہے ہیں۔
اوپر کا کالم پڑھہیں جس میں پہلی مرتبہ کسی صحافی کو ہوش آیا ہے کہ پاک فوج کے سپاہی شہید ہیں۔ مگر ہمارا میڈیا رائیٹ ونگ کے اتنے زیر اثر ہے کہ آج تک پاک فوج کے شہید جوانوں اور ان وحشی خونی درندوں کے مرنے میں کوئی فرق ہی نہیں کرتے تھے۔ اگر کشمیر کے مجاہدین کی شہادت کو شہید لکھتے آئے ہیں تو طالبان کے خلاف اتنے سالوں سے انہیں کون سا سانپ سونگھا ہوا تھا۔

اور ناجی صاحب کے کالم چھپنے کے بعد آج میں نے جنگ اخبار میں پاک فوج کے لیے "شہید" کا لفظ استعمال ہوتے دیکھا۔

up62.gif


قوم نے آتے آتے بہت دیر کر دی اور بہت نقصان ہوا۔ بہرحال دیر آید درست آید۔ اللہ تعالی ہماری قوم کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ امین۔

نذیر ناجی صاحب کی باتیں میڈیا پر اتنی اثرانداز ہورہی ہیں‌ :confused: :eek: یہ تو اب پتہ چلا

میں نے تو یہی دیکھا ہے کہ میڈیا سیکورٹی اہلکاروں کے لئے شہید کا لفظ ہمیشہ اس وقت استعمال کرتا ہے جب فوج زور ہوتی ہے اور عسکریت پسندوں کو شکست کا سامنا ہوتا ہے تب میڈیا پر زیادہ دبائو فوج اور حکومت کی طرف سے ہوتا ہے

ناجی صاحب کا کالم جون کے اس ہفتے شائع ہوا ہے جبکہ ذیل میں‌دی گئی جنگ کی خبر مئی کی ہے جس میں سیکورٹی اہلکار کے لئے شہید کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔

اپ کو یہ آج کیوں‌دکھائی دیا اس پہلے کیوں دکھائی نہیں‌دیا ؟

راولپنڈی (جنگ نیوز) پاک فوج نے آپریشن راہ راست میں بریکوٹ سے ٹنڈو ڈاگ تک کا علاقہ شدت پسندوں سے آزاد کرالیااور گزشتہ 24 گھنٹوں میں 25 شدت پسند ہلاک اور ایک فوجی آفیسر شہید ہوا۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری بیان کے مطابق آپریشن راہ راست نئے دور میں داخل ہوچکا ہے اور گزشتہ 24 گھنٹوں میں آپریشن کے دوران مجموعی طور پر 25 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ، سیکیورٹی فورسز نے مٹہ اور کانجو کے علاقوں سے عسکریت پسندوں کو ختم کرنے کیلئے دونوں قصبوں کا محاصرہ کرلیا اور لوگوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ فوج سے تعاون اور جنگجوؤں کی نشاندہی کریں ، مقامی افراد عسکریت پسندوں کے خلاف فوج کی مدد کرے گی تو شدت پسندوں کا خاتمہ اور علاقے کا کنٹرول واپس لینا یقینی ہوجائے گا۔ ادھر فورسز نے ڈانگ آرکوٹ اور نذر آباد میں عسکریت پسندوں کے ایک کمپاؤنڈ کو تباہ کرکے پانچ عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا اس آپریشن میں سوات میں فوجیوں کی تعیناتی کی دستاویزات بھی برآمد ہوئیں اسی طرح بھرپور جھڑپوں کے بعد سیکیورٹی فورسز نے کانجو سے نواں کلی اور بلگرام سے تختہ بند (بائی پاس) تک کا علاقہ عسکریت پسندوں سے آزاد کروالیا جبکہ مینگورہ میں فوج اور عسکریت پسندوں کے مابین لڑائی جاری ہے سکیورٹی فورسز نے پیوچار میں اپنی پوزیشن مزید مضبوط کرلیں گزشتہ رات سیکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے ٹھکانے پر حملے میں اہم کامیابی حاصل کی جس میں 20 عسکریت پسند ہلاک جبکہ پاک فوج کا ایک آفیسر شہید اور دو فوجی زخمی ہوگئے۔
ربط
 

طالوت

محفلین
باتوں کو تروڑ مروڑ کر پیش کرنا تو کوئی ان سے سیکھے ۔ اب دیکھئے گا بے تکی تاویلیں ۔
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
نذیر ناجی صاحب کی باتیں میڈیا پر اتنی اثرانداز ہورہی ہیں‌ :confused: :eek: یہ تو اب پتہ چلا

میں نے تو یہی دیکھا ہے کہ میڈیا سیکورٹی اہلکاروں کے لئے شہید کا لفظ ہمیشہ اس وقت استعمال کرتا ہے جب فوج زور ہوتی ہے اور عسکریت پسندوں کو شکست کا سامنا ہوتا ہے تب میڈیا پر زیادہ دبائو فوج اور حکومت کی طرف سے ہوتا ہے

ناجی صاحب کا کالم جون کے اس ہفتے شائع ہوا ہے جبکہ ذیل میں‌دی گئی جنگ کی خبر مئی کی ہے جس میں سیکورٹی اہلکار کے لئے شہید کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔

اپ کو یہ آج کیوں‌دکھائی دیا اس پہلے کیوں دکھائی نہیں‌دیا ؟

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ میڈیا آخری وقت میں حکومت اور فوج کے دباؤ میں آ کر شہید کا لفظ استعمال کرتا ہے، تب بھی منافق میڈیا ہی ہے۔ اگر میڈیا پہلے دن سے صحیح کردار ادا کرتا اور بجائے طالبانی فتنے کے جرائم اور انکی خونی خصلت و فطرت پر پردے ڈالتے رہنے کے انکا اصلی خونی چہرے کو عوام کے سامنے لاتا تو آج ہزاروں معصوموں کا یوں خون نہ بہتا اور نہ ہی تیس لاکھ افراد بے گھر ہوتے۔

اب بھی صورتحال یہ ہے کہ شاید سوائے جنگ اخبار کے باقی اخبارات ابھی تک فوج کے لیے شہید کا لفظ استعمال نہیں کر رہے۔ اور اگر آپ لوگوں کے دل تنگ نظری کا شکار نہیں تو شاید آپ لوگ دیکھ پائیں کہ ناجی صاحب بالکل درست ہیں جب وہ میڈیا کی اس حرکت پر کھل کر تنقید اور ملامت کر رہے ہیں۔
اور اگر جنگ اخبار نے ناجی صاحب کہ کہنے سے قبل ہی شہید کا لفظ استعمال کیا ہے تو یہ ناجی صاحب کی نہیں بلکہ میری غلطی ہے کہ میں اسے پہلے دیکھ نہ سکی یا محسوس نہ کر سکی اور ناجی صاحب پھر بھی میڈیا پر اس ملامت میں بالکل حق بجانب ہیں۔


باتوں کو تروڑ مروڑ کر پیش کرنا تو کوئی ان سے سیکھے ۔ اب دیکھئے گا بے تکی تاویلیں ۔
وسلام

بھائی صاحب، اگر آپ دلائل کے جواب میں دلائل لانے کی بجائے ایسے ہی دوسرے کی ذاتیات پر رکیک الزامات لگانا چاہتے ہیں تو اس سے بہتر ہے کہ آپ دوسروں کے مراسلے پڑھا ہی نہ کریں۔ شکریہ۔

************

ناجی صاحب ان گنے چنے افراد میں شامل ہیں جو پہلے دن سے طالبانی مذہبی جنونیوں کی خونی خصلت کی نشاندہی کر رہے تھے۔ مگر بجائے کہ انکے دلائل پر غور کیا جاتا، حسب معمول انکی ذاتیات کو موضوع بناتے ہوئے انکی کردار کشی شروع ہو گئی۔

ہم میں سے کوئی انسان بھی فرشتہ کی طرح معصوم نہیں ہے۔ اگر ناجی صاحب نے کچھ غلط باتیں کی ہیں تو اُن غلط باتوں پر تنقید ہونی چاہیے، مگر ادھر حال یہ ہے کہ ان غلط باتوں کی وجہ سے انکی اُن صحیح باتوں کو بھی ٹھکرانا شروع کر دیا جو کہ بالکل سچی تھیں اور اُن حقائق کو بیان کر رہی تھیں کہ جن کا ادراک نہ کر کے آج ہم تیس لاکھ پاکستانیوں کو بے گھر اور ہزاروں کو خون میں تڑپتا دیکھ رہے ہیں۔

غصہ اسلام میں حرام ہے۔ اگر ناجی صاحب نے غصہ میں آ کر کسی کو برا بھلا کہا ہے تو غلط کام کیا ہے۔

یاد رکھئیے کہ غصہ انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ اور اسلام دین فطرت ہے اور سمجھتا ہے کہ انسان غصہ میں آ کر اپنا نقصان کر سکتا ہے، اور اسی لیے اسلام نے غصے کو حرام قرار دیا ہے۔

ناجی صاحب نے بے شک غصہ میں آ کر غلط کام کیا۔

مگر کہتے ہیں نا کہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے یہ گناہ خود نہ کبھی کیا ہو۔

مجھے نہیں علم کہ غصے میں آ کر آپ میں سے کتنے ہیں جو آج تک کبھی غصے میں نہ آئیں ہوں اور کبھی کسی کو برا بھلا نہ کہا ہو۔

اور ہم لوگ تو بہت چھوٹے لوگ ہیں، حتی کی انبیا تک کے متعلق کہا جاتا ہے کہ غصہ میں آ کر ان سے ترک اولی ہوا ہے۔ موسی علیہ الصلوۃ والسلام نے غصہ میں آ کر ہارون علیہ الصلوۃ و السلام کی داڑھی پکڑ لی۔
اور پھر واقعات ہیں کہ کس طرح اصحاب رسول میں چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوئیں اور غصے میں آ کر انہوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا تک کہا۔ میں ان واقعات کی تفصیل میں تو نہیں جاتی کیونکہ یہاں پر موجود ایک طبقہ فورا اسے غلط رنگ دے گا۔ بہرحال یہ واقعات ہمارے لیے بہترین "سبق" رکھتے ہیں کہ غصہ انسانی فطرت ہے اور بلند رتبہ لوگ بھی اس سے محفوظ نہیں رہ پائے۔ اس لیے اگر آج آپ، ہم اور ناجی صاحب جیسے کہیں چھوٹے رتبے کے لوگ غصہ میں آتے ہیں تو اس غلطی کو انسانی غلطی سمجھنا چاہیے اور اسے انسانیت کا سب سے بڑا کرائسز نہیں بنا دینا چاہیے۔

اگر ہم بلند رتبہ لوگوں کی غصہ میں آ کر کی جانی والی غلطیوں کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور اس بنا پر انکی پوری ذات کی نفی نہیں کرتے، تو پھر ہمیں یہی سٹینڈرڈز کم تر رتبہ لوگوں کے لیے بھی روا رکھنے چاہیے ہیں

ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنے کا نام انصاف ہے۔ سزا اتنی ہی ملنی چاہیے جتنا جرم ہے۔ لیکن چونکہ ناجی صاحب انتہا پسندوں کی دم پر مسلسل پاؤں رکھ کر دباتے رہتے ہیں، اس لیے یہ طبقہ شرارت کر کے انکی غلطی کو انسانی تاریخ کی عظیم غلطی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس بہانے کو بنیاد بنا کر انکی پوری ذات کی نفی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

آخر میں رسول ص کی ایک حدیث:

sunan abu dawud, book 41, number 4859:

Narrated abuhurayrah:

the prophet (peace_be_upon_him) said: The gravest sin is going to lengths in talking unjustly against a muslim's honour, and it is a major sin to abuse twice for abusing once.

رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اپنے سامنے کچھ واقعات ہوئے جن میں لوگ غصے میں آ کر ایک دوسرے کو برے بھلے الفاظ کہہ گئے۔ میرے نزدیک ان احادیث میں بہترین سبق ہے کہ رسول ص نے ان مواقع پر کیا نصیحتیں کیں اور کس طرح ان مسائل اور جھگڑوں کو حل کروایا۔ مگر مجھے یقین ہے کہ یہاں رسول ص کی اس سیرت کو پس پشت ڈال کر موضوع کو الگ ہی رنگ دے دیا جائے گا، اس لیے میں خاموش رہتی ہوں اور جو لوگ واقعی ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ ان واقعات کو خود ڈھونڈیے اور ان سے سبق حاصل کیجئے۔
 

ابن جمال

محفلین
کیاخیال ہے نذیرناجی کو اگر رائٹ ونگ گروپ کی جانب سے زیادہ مال پانی ملے توادھر لڑھکیں گے یانہیں؟
 

ساجداقبال

محفلین
میرے خیال میں اتنی بھی متعصب ہونے کی ضرورت نہیں۔ میڈیا 2003 سے آرمی کی قربانیوں کو شہادت ہی لکھتا رہا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر اخبار اپنی ڈفلی بجاتا رہا ہے۔ کوئی شہید تو کوئی جاں بحق۔
 

محسن حجازی

محفلین
سوات آپریشن میں کہا گیا تھا کہ ایک آدھ ہفتے میں ختم ہو جائے گا۔ آپ نذیر ناجی جیسے ایک لاکھ آدمی اور لے آئیے مگر حقائق حقائق ہی رہیں گے اور مجھے یہ آپریشن ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں تین گروہ اس جنگ کے حامی ہیں۔ ان میں ایک تو لبرل فاشسٹ ہیں۔ دوسرے دو مسلمان ہی ہیں جن میں سے ایک فقہ حنفیہ کی ذیل ہی میں آتا ہے تاہم دونوں گروہ بغض معاویہ میں اس جنگ کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر اپنی اپنی ڈفلیاں بجا رہے ہیں۔

بہرطور یہ لکھوا لیجئے کہ یہ آپریشن آئندہ پانچ سال ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کے نتیجے میں ہاتھ سے شمالی علاقاجات نکل جائیں گے یا فوج واپس بلانا پڑے گی بات دوبارہ کسی معاہدے پر ہی آئے گی۔ اس علاقے میں فوج کشی کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ پاک فوج اتنی بھی پروفیشنل نہیں جتنی کہ مرحومہ نورجہاں پیش کر گئی ہیں۔ یہ عقدہ بیس سال بعد کھلے گا کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں روس کوریا ایران عرب دنیا کے کچھ لوگوں سمیت تمام بڑے امریکہ مخالف کھلاڑی ملوث تھے بعینہ جیسے کہ افغان جہاد میں صورتحال تھی۔

سیدھے سیدھے سوالات یہ ہیں کہ ایک عام پستول کی گولی کی کم از کم قیمت بیس روپے ہے۔
یہ میزائلوں بموں راکٹ لانچروں کے پیسے کہاں سے آ رہے ہیں؟
کیا میں اس لیے ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے ہزاروں روپے ٹیکس دیتا ہوں کہ آپ میرے ہی دیس کے لوگوں کو میرے ہی دیس میں کیمپوں میں سسکنے پر مجبور کر دیں؟
 

اظفر

محفلین
شکریہ محسن حجازی اس پوسٹ‌کا ۔
اگر اپنے ہی ملک میں آپریشن ناگزیر ہی تھا تو ان کو چاہیے تھا پہلے اس کی اس طرح منصوبہ بندی کریں گے وہا‌ں کے عام لوگ اس قدر بے دردی سے نہ کچلے جائیں ۔ مجھے سمجھ نہیں آتا ہمارا پڑھا لکھا صدر اور چیف آف آرمی سٹاف اتنے بیوقوف ہیں کہ چند ماہ میں تیس لاکھ لوگوں‌کو کھلے آسمان تلے دھیکل دیا ،وہ بھی صرف چند ہزار جنگجووں سے لڑائی کی خاطر ۔ حد تو یہ ہے باقی صوبے ان بے گھر لوگوں کو سپورٹ کرنے کیلیے تیار ہی نہیں ، میاں‌نواز شریف کے علاوہ کسی نے ان کو ویلکم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ ابھی یہ حال ہے مزید چند ماہ تک ان بے گھر لوگوں کی تعداد کڑوڑوں تک جا سکتی ہے ۔ پاکستان کا وہ صوبہ جو آج سے چند سال قبل تعلیم اور یونی ورسٹیز کے معاملہ میں سپیریر تھا آج اس کو کھنڈا بنایا جا رہا ہے۔ جب وہ جنگجو متحد ہو رہے تھے تب یہ آرمی ، آئی ایس آئی کہاں‌تھی ؟ ۔
گیہوں کے ساتھ گھن پستا تو دیکھا ہے مگر یہاں گھن کے ساتھ گیہوں‌ پستا کب تک دیکھیں گے
 

مہوش علی

لائبریرین
سوات آپریشن میں کہا گیا تھا کہ ایک آدھ ہفتے میں ختم ہو جائے گا۔ آپ نذیر ناجی جیسے ایک لاکھ آدمی اور لے آئیے مگر حقائق حقائق ہی رہیں گے اور مجھے یہ آپریشن ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں تین گروہ اس جنگ کے حامی ہیں۔ ان میں ایک تو لبرل فاشسٹ ہیں۔ دوسرے دو مسلمان ہی ہیں جن میں سے ایک فقہ حنفیہ کی ذیل ہی میں آتا ہے تاہم دونوں گروہ بغض معاویہ میں اس جنگ کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر اپنی اپنی ڈفلیاں بجا رہے ہیں۔

بہرطور یہ لکھوا لیجئے کہ یہ آپریشن آئندہ پانچ سال ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کے نتیجے میں ہاتھ سے شمالی علاقاجات نکل جائیں گے یا فوج واپس بلانا پڑے گی بات دوبارہ کسی معاہدے پر ہی آئے گی۔ اس علاقے میں فوج کشی کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ پاک فوج اتنی بھی پروفیشنل نہیں جتنی کہ مرحومہ نورجہاں پیش کر گئی ہیں۔ یہ عقدہ بیس سال بعد کھلے گا کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں روس کوریا ایران عرب دنیا کے کچھ لوگوں سمیت تمام بڑے امریکہ مخالف کھلاڑی ملوث تھے بعینہ جیسے کہ افغان جہاد میں صورتحال تھی۔

سیدھے سیدھے سوالات یہ ہیں کہ ایک عام پستول کی گولی کی کم از کم قیمت بیس روپے ہے۔
یہ میزائلوں بموں راکٹ لانچروں کے پیسے کہاں سے آ رہے ہیں؟
کیا میں اس لیے ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے ہزاروں روپے ٹیکس دیتا ہوں کہ آپ میرے ہی دیس کے لوگوں کو میرے ہی دیس میں کیمپوں میں سسکنے پر مجبور کر دیں؟

محترم بھائی صاحب،
لبرل فاشسٹوں اور دیگر دو فرقوں کے طرف انگلی اٹھانے کی بجائے آپ ایک دفعہ دل و دماغ کھول کر دیکھئے تو آپ کو نظر آئے گا کہ لبرل فاشسٹ کیا اور شیعہ و بریلوی کیا، اور عیسائی و دیگر اقلیتیں کیا، اہلحدیث کیا ۔۔۔۔۔۔ بلکہ انکے اپنے فرقے والے دیوبندی تبلیغی کیا اور اپنے ہی فرقے والے مولانا فضل الرحمان کیا ساری خدائی ان سے تنگ و عاجز ہے۔
کیا جماعت اسلامی کو انہوں نے بخشا؟ کیا اپنے فرقے کے مولانا حسن جان کو انہوں نے بخشا؟ [نعیمی صاحب کی تو بات ہی کیا کریں کہ انہیں تو آپ "دو فرقوں" کا نام دے کر جینے کا حق ہی سلب کر لینا چاہتے ہیں]
کیا ان قبائلی سرداروں کو انہوں نے بخشا جو انہی کے فرقے سے تعلق رکھتے تھے مگر انکی خونی بربریت سے اتفاق نہیں کرتے تھے؟

آپ ہر ہر فرقے ہر ہر گروہ کی طرف انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ بھائی صرف ایک نظر ان کے مظالم پر بھی ڈال لیں۔

اگر کسی نے کہہ دیا ہے کہ یہ جنگ کچھ دنوں میں ختم ہو جائے گی تو اسکا الزام آپ ہم پر کیوں ڈال رہے ہیں۔ لیکن اگر آج ہم نے قربانیاں دے کر اس فتنے کو ختم نہیں کیا تو کل کو یہ ناسور قوم کے پورے جسم میں پھیل چکا ہو گا اور پھر کوئی علاج ممکن نہ رہے گا۔

اور بھائی، دوسروں کو جینے کا حق دینا سیکھئے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
شکریہ محسن حجازی اس پوسٹ‌کا ۔
اگر اپنے ہی ملک میں آپریشن ناگزیر ہی تھا تو ان کو چاہیے تھا پہلے اس کی اس طرح منصوبہ بندی کریں گے وہا‌ں کے عام لوگ اس قدر بے دردی سے نہ کچلے جائیں ۔ مجھے سمجھ نہیں آتا ہمارا پڑھا لکھا صدر اور چیف آف آرمی سٹاف اتنے بیوقوف ہیں کہ چند ماہ میں تیس لاکھ لوگوں‌کو کھلے آسمان تلے دھیکل دیا ،وہ بھی صرف چند ہزار جنگجووں سے لڑائی کی خاطر ۔ حد تو یہ ہے باقی صوبے ان بے گھر لوگوں کو سپورٹ کرنے کیلیے تیار ہی نہیں ، میاں‌نواز شریف کے علاوہ کسی نے ان کو ویلکم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ ابھی یہ حال ہے مزید چند ماہ تک ان بے گھر لوگوں کی تعداد کڑوڑوں تک جا سکتی ہے ۔ پاکستان کا وہ صوبہ جو آج سے چند سال قبل تعلیم اور یونی ورسٹیز کے معاملہ میں سپیریر تھا آج اس کو کھنڈا بنایا جا رہا ہے۔ جب وہ جنگجو متحد ہو رہے تھے تب یہ آرمی ، آئی ایس آئی کہاں‌تھی ؟ ۔
گیہوں کے ساتھ گھن پستا تو دیکھا ہے مگر یہاں گھن کے ساتھ گیہوں‌ پستا کب تک دیکھیں گے

انسانی نفسیات میری سمجھ سے باہر ہیں۔

۔ سالہا سال سے طالبان کے فتنے کی جب نشاندہی کی جاتی تھی تو اظفر آپ اور آپ جیسے حضرات جو میڈیا میں بیٹھے ہیں، وہی ہمارے پیچھے ڈنڈا لے کر پڑا ہوتا تھا اور طالبانی مظالم اور قتل و غآرت کو چھپا رہا ہوتا تھا۔
یا حیرت کہ آج اتنے سالوں کے بعد پوچھتے ہیں کہ یکایک یہ آپریش کیوں شروع کر دیا گیا۔

میری آپ سے کوئی ذاتی رنجش نہیں ہے، مگر آپ نے جو غلطیاں کیں ہیں انکی ذمہ داری لینا سیکھئے بجائے اب بھی دوسروں پر اپنی غلطیوں کا بار منتقل کرنے کے۔

اور گیہوں کے ساتھ گھن پس جانا ماضی کا محاورہ تھا، آپ آج کی دنیا میں آئیں تو آپ کو شاید نظر آ جائے کہ جدید اسلحہ کی تباہی یہی ہے کہ ایک خود کش حملہ آور مردود مرتا ہے تو اپنے ساتھ بیسیوں کو لے کر مرتا ہے اور سینکڑوں کو زخمی کر دیتا ہے۔ سارا الزام آپ کے سر ہی ہے کہ سانپ کا سر اُس وقت کیوں نہیں کچلا جب وہ پیدا ہوا۔ آج جب وہ پل کر اژدر بن چکا اور ہزاروں لاکھوں کو نگل چکا؟

کاش کہ پہلے دن سے میڈیا اس فتنے کی خونی خصلت کو چھپانے کی بجائے اسکا اصل چہرہ قوم کو دکھاتا تو آج سے کہیں پہلے یہ آپریشن شروع ہوتا اور اتنا نقصان نہ اٹھانا پڑتا جتنا کہ آج اٹھانا پڑ رہا ہے۔
 

arifkarim

معطل
سیدھے سیدھے سوالات یہ ہیں کہ ایک عام پستول کی گولی کی کم از کم قیمت بیس روپے ہے۔
یہ میزائلوں بموں راکٹ لانچروں کے پیسے کہاں سے آ رہے ہیں؟
کیا میں اس لیے ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے ہزاروں روپے ٹیکس دیتا ہوں کہ آپ میرے ہی دیس کے لوگوں کو میرے ہی دیس میں کیمپوں میں سسکنے پر مجبور کر دیں؟

آپکی تان بھی پیسے پر آکر ٹوٹ گئی! :grin:
بھائی یہ نہ پوچھیں پیسے کہاں سے آرہے ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ اسلحے کے وسائل کہاں سے آرہے ہیں؟! :rollingonthefloor:
 

طالوت

محفلین
ہو گئیں شروع بے تکی تاویلیں ۔اب ان کا جواب بھی سرا سر ذاتیات میں آئے گا ، اسلئے میں کچھ نہیں کہتا ، ماسوائے اس کے کہ رکیک حملے کی نوعیت آپ کے سامنے ہے ۔
-------------------------------------------------------------------------------------
میرے خیال میں اب آپریشن ناگزیر ہو چکا تھا مگر ہماری عقل کل رکھنے والی عسکری قیادت کا یہ بے ڈھنگا انداز ہمیں یقینا لے ڈوب رہا ہے ۔ سچ تو وہی ہے کہ لال مسجد سے لے کر سوات تک سالوں مہینوں ہمارے ٹیکسوں پر پلنے والی درجن سے زائد ایجنسیاں اور درجن بھر قانون نافذ کرنے والے ادارے افیم کھا کر بے سدھ پڑے تھے ؟ ڈرامہ فقط وہی ہے کہ ڈالروں کی بارش میں اچھل کود کرنے کو ملک کا بیڑا غرق کرنے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ بنایا گیا جس کے روح رواں آنجہانی کمانڈو صدر تھے ۔ اور اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں اور ابھی بہت کچھ بھگتنا باقی ہے ۔ اس اندھی چڑھائی میں پختون ذہنیت کے مطابق کتنے مزید طالبان پیدا ہونگے اور ہو رہے ہیں اس کا انتظار ابھی باقی ہے ۔ رہی منافقین کی فوج تو ان کی منافقت کھل کر سامنے آ چکی ہے اور اول منافقین خاموشی سے بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں اور مسکرا رہے ہیں وگرنہ ذرا سی بات پر یہ ایم جناح روڈ اور ریگل چوک لاہور میں وہ طوفان بد تمیزی مچاتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی ۔۔
وسلام
وسلام
 
Top