قطعہ برائے اصلاح

غدیر زھرا

لائبریرین
رنجش کے جواں بوٹے کو اب سینچ کے رکھیئے
دل پہلو سے جاتا ہے اسے بھینچ کے رکھیئے

قائم ہیں اگر آپ ہی دعوٰی پہ ستم کے
ہم آتے ہیں جانانہ کماں کھینچ کے رکھیئے

(زہرا)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
بوٹے کو سینچا جاتا ہے، اس کا مجھے علم نہیں۔
جانانہ کا استعمال غلط ہے۔
بوٹے کی جگہ پودے کیا جا سکتا ہے..اگر بوٹے کے سینچنے کے بارے میں ابہام ہو..
پہلے لفظ جانان کا استعمال کیا پھر معلوم ہوا کہ یہ فارسی میں تو تنہا مستعمل ہے لیکن اردو میں اضافت کے ساتھ ہی مستعمل ہے تو اس کو جانانہ سے بدل دیا کہ جانانہ کا تنہا استعمال کلاسک شعراء کے ہاں دیکھنے میں آتا ہے..

کیوں زلف تری الجھی رہتی ہے اے جانانہ
حاضر ہے دلِ صد چاک درکار ہو گر شانہ

(عشق اورنگ آبادی)

خیال آنکھوں کا تیری جبکہ اے جانانہ رکھتے ہیں
تو جوں نرگس ہر اک انگشت بر پیمانہ رکھتے ہیں

(شاہ نصیر)

بہرحال میں اسے بدلنے کی کوشش کرتی ہوں بہت شکریہ :)
 
آخری تدوین:

غدیر زھرا

لائبریرین
میری ناقص رائے میں:
ستم کا دعوہ نہیں ارادہ کیا جاتا ہے۔
قائم ہیں اگر آپ ارادے پہ ستم کے
شاید درست ہوگا
بہت شکریہ سر :)

رنجش کے جواں پودے کو اب سینچ کے رکھیئے
دل پہلو سے جاتا ہے اسے بھینچ کے رکھیئے

قائم ہیں اگر آپ ارادے پہ ستم کے
آتے ہیں ابھی جاناں کماں کھینچ کے رکھیئے

(زہرا)
 
رنجش کے جواں پودے کو اب سینچ کے رکھیئے
دل پہلو سے جاتا ہے اسے بھینچ کے رکھیئے
بوٹے کا لفظ یہاں غیرمناسب نہیں تھا۔ مگر جیسے آپ مناسب سمجھیں۔
دوسرے مصرع میں پہلو، جو فارسی لفظ سے، کا واؤ گر رہا ہے جو فاش غلطی ہے۔ اسے اگر آپ یوں کر لیں؛
دل جاتا ہے پہلو سے اسے بھینچ کے رکھیے​
تو عیب کا سانپ بھی مر جائے گا اور روانی کی لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔
قائم ہیں اگر آپ ارادے پہ ستم کے
آتے ہیں ابھی جاناں کماں کھینچ کے رکھیئے
مصرعِ ثانی میں جاناں کی دوسری الف گر رہی ہے جو پچھلی غلطی سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ ایک مفت مشورہ:
ہم آتے ہیں سرکار کماں کھینچ کے رکھیے​
اگلی، آخری اور اہم بات یہ ہے کہ رکھیے، کیجیے وغیرہ جیسے الفاظ میں ہمزہ کا استعمال معیوب ہے۔ جدید اردو املا اس کی اجازت نہیں دیتا۔ قدیم طرز پر بھی اسے زیادہ سے زیادہ رکھئے لکھا جاتا تھا۔ جو صورت آپ نے نکالی ہے وہ آپ ہی سے خاص ہے۔ اب اگر اہلِ اردو کچھ عرصے میں آپ کے قاعدے پر نہ لکھنے لگیں تو آپ ہی چار و ناچار ان کا اصول اپنا لیجیے گا۔ زمانہ با تو نسازد، تو با زمانہ بساز!
 

غدیر زھرا

لائبریرین
بوٹے کا لفظ یہاں غیرمناسب نہیں تھا۔ مگر جیسے آپ مناسب سمجھیں۔
دوسرے مصرع میں پہلو، جو فارسی لفظ سے، کا واؤ گر رہا ہے جو فاش غلطی ہے۔ اسے اگر آپ یوں کر لیں؛
دل جاتا ہے پہلو سے اسے بھینچ کے رکھیے​
تو عیب کا سانپ بھی مر جائے گا اور روانی کی لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔

مصرعِ ثانی میں جاناں کی دوسری الف گر رہی ہے جو پچھلی غلطی سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ ایک مفت مشورہ:
ہم آتے ہیں سرکار کماں کھینچ کے رکھیے​
اگلی، آخری اور اہم بات یہ ہے کہ رکھیے، کیجیے وغیرہ جیسے الفاظ میں ہمزہ کا استعمال معیوب ہے۔ جدید اردو املا اس کی اجازت نہیں دیتا۔ قدیم طرز پر بھی اسے زیادہ سے زیادہ رکھئے لکھا جاتا تھا۔ جو صورت آپ نے نکالی ہے وہ آپ ہی سے خاص ہے۔ اب اگر اہلِ اردو کچھ عرصے میں آپ کے قاعدے پر نہ لکھنے لگیں تو آپ ہی چار و ناچار ان کا اصول اپنا لیجیے گا۔ زمانہ با تو نسازد، تو با زمانہ بساز!
اتنی "فاش" غلطیاں : ( اور اہلِ اردو میرے قاعدے پر کیوں چلیں گے میں ہی ان کے اصول اپنا لوں گی : (

بہت شکریہ آپ کی اصلاح کےلیے :) :) :)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
رنجش کے جواں بوٹے کو اب سینچ کے رکھیے
دل جاتا ہے پہلو سے اسے بھینچ کے رکھیے

قائم ہیں اگر آپ ارادے پہ ستم کے
ہم آتے ہیں سرکار کماں کھینچ کے رکھیے

(زہرا)
 
Top