کاشفی

محفلین
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
فکر کی کون سی منزل سے گزرتا ہوں میں
اب تو اک شعر بھی کہتے ہوئے ڈرتا ہوں میں


حوصلہ دل کا بڑھاتی ہے عزائم کی شکست
خونِ جذبات سے کچھ اور نکھرتا ہوں میں


کس کے پَرتو سے مری رُوح کو ملتا ہے جمال
کس کی تہذیب کے صدقے میں سنورتا ہوں میں


میری فن کار طبیعت کا یہ دیکھو تو مذاق
ایک ہی رنگ سے ہر نقش کو بھرتا ہوں میں


ہائے وہ جس سے منوّر مرا جینا ہے محال
ہائے وہ جس کے ہر انداز پہ مرتا ہوں میں
 
Top