فلم Fitna - The movie کے بارے میں آپ کی رائے؟

arifkarim

معطل
آج ہی اس فلم کو دیکھا ہے۔ انتہائی دکھ اور تکلیف کے ساتھ؛ 15 منٹ‌ کی اس شارٹ فلم نے تو مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ اس سے مغربی اقوام کی مسلمانوں سے دشمنی اور بغض‌ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ قرآن کریم کے پاک کلام کی غلط تشریح اور ساتھ میں ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محد مصطفیٰ ﷺ کے چہرہ مبارک کو انتہائی غلط رنگ میں‌ پیش کیا گیا۔
اب ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان تعصب پسند قوموں کا‌ کھل کر مقابلہ کریں، اور قرآنی تعلیمات اور اسلامی تعلیمات کو مزید مذاق کا نشانہ بننے سے روکیں۔
فلم کا اسٹارٹ ہی 11 ستمبر 2001 میں رونما ہونے والے واقعات سے کیا گیا، جنہیں خود امریکہ نے کروا کر سارا الزام مسلمانوں پر ڈال دیا! اور دہشت گردی کی ایک مستقل چھاپ ہمارے سینوں پر لگا دی! استفر اللہ ربی من کل زنب و اتوب الیه
یہ سارا فتنہ ہمارے ملاؤں اور مولویوں نے پھیلایا ہوا ہے؛ یہ نہ تو قرآن پاک کی تعلیم ہے اور نہ ہی حضرت محمدﷺ کی۔ دہشت گردی اور ہتھیار کے ساتھ جہاد کیلئے ہمیں ہمارے آج کل کے ‘‘عالم دین’’‌ اکساتے ہیں۔ ان کی انہی حرکتوں کی وجہ سے آج پورا عالم اسلام بدنام ہو رہا ہے!
اگر ایڈمن صاحب اجازت دیتے، تو اس فلم کا لنک یہاں پوسٹ کر دیتا، مگر میرا خیال ہے کہ اس تکلیف دہ فلم کو نہ ہی دیکھا جائے تو بہتر ہے۔ :mad:
 

محمد سعد

محفلین
ملا یا مولوی صرف وہی شخص ہوتا ہے کہ جو اللہ کی رضا کے لیے دین کا کام کرتا ہو۔ ہمارے ہاں یہ رواج ہو چلا ہے کہ جس شخص کے چہرے پر داڑھی نظر آ جائے، ہم اسے ملا یا مولوی جیسے خطابات سے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح عالمِ دین اسے کہتے ہیں جو دین کا علم جانتا ہو۔ کسی ایرے غیرے کو عالمِ دین نہیں کہا جا سکتا۔
 

محمد سعد

محفلین
اور جہاد بالسیف کی اہمیت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور میں ہر کوئی جہاد بالسیف کی الگ طریقے سے تعریف کر رہا ہے جس کی وجہ سے نئی نسل کو جہاد کی حقیقت کو سمجھنے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہاں پر ہر وہ داڑھی والا جسے کے پاس ایک لاؤڈ سپیکر ہے اپنے آپ کو عالم دین سمجھتا ہے۔ ہم میں خود اتنے اختلافات ہیں کہ جن کا کوئی شمار نہیں، ہم آپس میں ہی اتنے الجھے ہوئے ہیں تو دوسروں کو کیا سلجھائیں گے۔ اور یہی غیرمسلموں کی کامیابی ہے۔
 

arifkarim

معطل
ملا یا مولوی صرف وہی شخص ہوتا ہے کہ جو اللہ کی رضا کے لیے دین کا کام کرتا ہو۔ ہمارے ہاں یہ رواج ہو چلا ہے کہ جس شخص کے چہرے پر داڑھی نظر آ جائے، ہم اسے ملا یا مولوی جیسے خطابات سے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح عالمِ دین اسے کہتے ہیں جو دین کا علم جانتا ہو۔ کسی ایرے غیرے کو عالمِ دین نہیں کہا جا سکتا۔

دین کے علمبردار ہی ہماری نوجوان نسل کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اگر آپ یہ فلم دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہمارے ‘‘عالم دین’’ ہم سے کیا مطالبات کرتے ہیں!
 

بلال

محفلین
یہاں پر ہر وہ داڑھی والا جسے کے پاس ایک لاؤڈ سپیکر ہے اپنے آپ کو عالم دین سمجھتا ہے۔ ہم میں خود اتنے اختلافات ہیں کہ جن کا کوئی شمار نہیں، ہم آپس میں ہی اتنے الجھے ہوئے ہیں تو دوسروں کو کیا سلجھائیں گے۔ اور یہی غیرمسلموں کی کامیابی ہے۔

سچ کہا آپ نے شمشاد بھائی یہاں حال کچھ ایسا ہی ہے۔۔۔ ہر کوئی خطیب اعظم ہوتا ہے اور عالم دین ہوتا ہے۔۔۔ اس میں کچھ ہمارے ایسے لوگوں کا بھی قصور ہے جنہوں نے ہی ان کو یہ خطابات دے رکھے ہیں۔۔۔ جیسا کہ محمد سعد نے کہا۔۔۔
 

arifkarim

معطل
یہاں پر ہر وہ داڑھی والا جسے کے پاس ایک لاؤڈ سپیکر ہے اپنے آپ کو عالم دین سمجھتا ہے۔ ہم میں خود اتنے اختلافات ہیں کہ جن کا کوئی شمار نہیں، ہم آپس میں ہی اتنے الجھے ہوئے ہیں تو دوسروں کو کیا سلجھائیں گے۔ اور یہی غیرمسلموں کی کامیابی ہے۔

ہمارے انہی باہمی اختلافات کا فائدہ اٹھا کر غیر مسلم یہود و نصاریٰ ہمارے دین کا یہ حال کر رہے ہیں۔
 
بے معنی فلم ہے، جن آیات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ ایک قوم کے دفاع کے نکتہء نظر سے درست نظریہ ہیں۔ قرآن فلاحی ریاست کے دفاع کا حکم دیتا ہے۔ جو کہ تمام ریاستوں‌کا بنیادی دستور ہے۔ کسی بھی جنگ کو پڑھ لیجئے ، ہر فوج کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسری فوج کے بنیادی کمیونیکیشن نظام کو درہم برہم کردے۔ یہ مسئلہ نہیں‌ مسئلہ یہ ہے کہ جب افراد ، اجتماعی و قومی احکامات کو ذاتی ذمہ داری سمجھ بیٹھتے ہیں۔

یہ فلم کوئی نیا خیال نہیں، ایک صاحب قرآن کی آیات کو خونی تصاویر پر تھوڑے سے معنی ردو بدل کرکے لکھتے رہے ہیں۔

مسائیل فرقہ واریت اور قرآن کے علاوہ کتب کے پروموشن سے جنم لیتے رہے ہیں۔ آج ملاؤں کا ایک گروپ پاکستانیوں کا قتل عام کرتا پھررہا ہے - اور اس فساد کو جہاد کہتا ہے۔

فرض‌ کیجئے ۔ جی فرض کیجئے ۔۔۔ کہ ہمارے نبی پاک آج ہمارے درمیان ہوتے تو ہم سب کا کیا فرقہ ہوتا؟‌ ہم شیعہ ہوتے، سنی ہوتے یا کیا ہوتے؟ اور وہ (صلعم) اپنے بعد لکھی جانے والی کس کس کتاب کو قرآن کا پیوند تسلیم کرلیتے؟
 
اس سوال کا مقصد
میرے خیال سے فرقے ہمشہ نبی کے جانے کے بعد ہی بنتے ہیں پہلے نہیں

آئیے اس خیال کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ کہ کیا اللہ تعالی ہم سے یہ توقع کرتے رہے ہیں‌کہ ہم فرقوں‌میں‌بٹ جائیں؟ وہ کتب جو مسلمانوں‌کو فرقوں‌میں باٹتی ہیں وہ کتب قرآن کے احکامات کے مخالف نہیں تو اور کیا ہیں؟

[AYAH]3:103[/AYAH] اور مضبوطی سے تھام لو تم اللہ کی رسّی کو سب مِل کر اور فرقہ بندی نہ کرو اور یاد کرو احسان اللہ کا جو اس نے تم پر کیا کہ تھے تم آپس میں) دُشمن پھر الفت پیدا کردی اس نے تمہارے دلوں میں سو ہوگئے تم اللہ کے فضل و کرم سے بھائی بھائی اور تھے تم (کھڑے) کنارے پر آگ سے بھرے گڑھے کے سو بچالیا اللہ نے تم کو اس سے، اس طرح کھول کھول کر بیان کرتا ہے اللہ تمہارے لیے اپنی آیات تاکہ تم رہنمائی حاصل کرو۔

[AYAH]3:105[/AYAH] اور نہ ہو جانا تم ان لوگوں کی طرح جو فرقوں میں بٹ گئے اور اختلاف میں مبتلا ہوگئے اس کے بعد بھی کہ آچکے تھے ان کے پاس واضح احکام اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے ہے عذابِ عظیم۔
[AYAH]42:14[/AYAH] اور نہیں فرقوں میں بٹے لوگ مگر اس کے بعد کہ آچکا تھا ان کے پاس صحیح علم۔ (اور ہوئی یہ فرقہ بندی) ایک دوسرے کی ضد میں۔ اور اگر نہ ہوتی ایک بات جو پہلے سے طے ہوچکی تھی تیرے رب کی طرف سے ایک مدتِ مقرر تک کے لیے تو ضرور فیصلہ کردیا جاتا ان کے درمیان اور یقینا وہ لوگ جنہیں وارث بنایا گیا تھا کتاب کا ان کے بعد ضرور شک میں مبتلا ہیں اس کے بارے میں جو انہیں مطمئن نہیں ہونے دیتا۔

[AYAH]6:159[/AYAH] بے شک وہ جنہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا اپنے دین کو اور بن گئے گروہ گروہ، نہیں ہے تمہیں ان سے کوئی واسطہ، بات یہ ہے کہ اُن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے پھر وہی ان کو بتائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے؟۔

[AYAH]30:32[/AYAH] ان میں سے (بھی نہ ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور وہ گروہ در گروہ ہو گئے، ہر گروہ اسی (ٹکڑے) پر اِتراتا ہے جو اس کے پاس ہے

تو پھر نبی کا فرقہ کیا ہے؟‌ کیا دین کے معانی اسلام ہیں یا صرف مذہب؟ مختلف ادیان (‌مذاہب)‌ میں سے کون سا دین اللہ کو پسند ہے؟ نبیً ا کرم کا فرقہ صرف وہ فرقہ تھا جو مذہبوں میں مذہب اللہ تعالی نے پسند فرمایا۔ یعنی " اسلام" ، جب اللہ تعالی ہمارے لئے مذہب اسلام پسند فرماتا ہے تو پھر ہم اپنے آپ کو سنی، شیعہ، حنفی، حنبلی، شافعی، بریلوی، دیوبندی، وہابی اہلحدیث ، اہلسنت ، کیوں‌ کہتے ہیں؟؟؟

[AYAH]3:19 [/AYAH] بلاشبہ دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔ اور نہیں اختلاف کیا (اس دین سے) ان لوگوں نے جنہیں دی گئی کتاب مگر اس کے بعد کہ آچکا تھا ان کے پاس حقیقی علم (محض) آپس کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے۔ اور جو کوئی انکار کرے گا احکامِ الٰہی کا، تو بے شک اللہ جلد چکانے والا ہے حساب۔
والسلام
 

arifkarim

معطل
آئیے اس خیال کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ کہ کیا اللہ تعالی ہم سے یہ توقع کرتے رہے ہیں‌کہ ہم فرقوں‌میں‌بٹ جائیں؟ وہ کتب جو مسلمانوں‌کو فرقوں‌میں باٹتی ہیں وہ کتب قرآن کے احکامات کے مخالف نہیں تو اور کیا ہیں؟

بھائی جان: اگر یہ بات ہمارے مسلمان بھائیوں کو سمجھ آجائے تو آج ہی تمام فرقے ختم ہو جائیں!
 

سیفی

محفلین
محترم فاروق صاحب و دیگر احباب

ہر زمانے میں ہادی کی تعلیمات کے ماننے والے اور انکار کرنے والے ہوتے ہیں۔ جو بالترتیب مسلمان اور کافر کہلاتے ہیں۔ اور ہر ہادی کے جانے کے بعد اس کے ماننے والے تقریبا دو گروہوں میں لازما تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک وہ جو ہادی کے تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا رہتے ہیں اور دوسرے جو ان تعلیمات کو غلط سلط کر بیٹھتے ہیں اور افراط تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تقریبا اکثر انبیاء کے حالات ایسے ہی ملتے ہیں وجہ یہ ہے کہ شیطان لوگوں کو بہکانے میں کامیاب رہتا ہے اور خوش قسمت ہی اس کے داؤ سے بچ سکتے ہیں

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرما دیا تھا کہ میری امت میں تہتر فرقے ہوں گے۔ بہتر جہنم میں‌جائیں گے اور صرف ایک فرقہ کی نجات ہو گی۔ صحابہ نے پوچھا کہ وہ فرقہ کونسا ہو گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلے گا۔

امت میں اختلاف دو طرح کا ہے۔ ایک اولیٰ ، غیر اولیٰ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ طریقہ افضل ہے یا دوسرا۔ آمین بالجہر افضل ہے یا اخفاء۔ وغیرہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اختلاف سے کوئی کافر نہیں‌ہوجاتا

دوسرا اختلاف بنیادی مسائل کے اندر ہے۔ اللہ کی توحید ، رسالت، فرشتوں ، یومِ آخرت کے عقائد وغیرہ۔ پس جو شخص اسلام کے بنیادی عقائد میں اختلاف کرے گا تو اندیشہ ہے کہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔

اب تاریخِ انبیا کے مطابق دیکھ لیں۔اور نبی علیہ السالم کے حدیث کے مطابق۔ فرقے تو بن کر رہیں گے۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ جو عقل اللہ نے آپ کو اور مجھے عطا کی ہے اس کی روشنی میں دیکھیں کہ کونسا فرقہ اللہ کے رسول اور اس کے صحابہ کے طریق پر ہے۔ اور صرف عقل پر بھروسہ نہ رکھیں بلکہ اللہ سے ہدایت کی دعا بھی کرتے رہیں۔ امید کامل ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اہلِ حق میں سے اٹھائے گا۔

والسلام مع الاکرام
 
نبی اکرم سے غلطی کا امکان نہیں‌ہے۔ غلطی کا امکان ان روایات کے گھڑنے والوں سے ہے جو یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا تفرقہ و فرقہ بندی درست ہے ۔ چونکہ اب 185 سے بھی زائد فرقے ہوچکے ہیں اور مزید یہ کہ قرآن فرقہ بندی کی اجازت نہیں دیتا لہذا یہ ممکن ہی نہیں‌کے رسول اکرم قرآن کے خلاف کسی بات کو مناسب قرار دیں لہذا قرین قیاس یہی ہے کہ یہ روایت سنی سنائی من گھڑت روایت ہے۔ کسی قسم کی فرقہ بندی غیر موزوں اور غیر اسلامی ہے، سیاسی مفادات و وابستگی کے لئے لوگوں کے ایمان کو پامال کیا گیا اور فرقہ بندی کو درست قرار دینے کے لئے ایسی روایات گھڑی گئیں

اب آتے ہیں ان چند آیات کی طرف جو اس فلم میں استعمال کی گئی ہیں ، مثال کے طور پر

[ayah]8:60 [/ayah]اور مہیا رکھو اُن کے مقابلے کے لیے جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیّار بندھے رہنے والے گھوڑے تاکہ خوفزدہ کرسکو تم اُس کے ذریعہ سے اللہ کے دشمنوں کو، اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے دشمنوں کو جو اُن کے علاوہ ہیں، جنہیں تم نہیں جانتے، (لیکن) اللہ جانتا ہے اُنہیں۔ اور جو بھی تم خرچ کرو گے کوئی چیز، اللہ کی راہ میں تو اُس کا پُورا پُورا بدلہ دیا جائے گا تمہیں اور تمہارے ساتھ بے انصافی نہ کی جائے گی

یہ آیت مسلمانوں کو اپنی فلاحی ریاست کے دفاع کے لئے تیاری کا حکم دیتی ہے ۔ اس کے معنوں‌کو توڑ مروڑ کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اپنا دفاع کی تیاری کرنا دہشت گردی ہے۔

دوسری آیت 4:56 کو دیکھئے: یہ آیت اللہ تعالی کی وارننگ ہے کہ یوم حشر کے بعد انکار کرنے والوں‌کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ اس آیت کو بھی بے معنی طور پر تصاویر کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔

[ayah]4:56 [/ayah] بے شک وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا ماننے سے ہمارے احکام کو عنقریب جھونکیں گے ہم انہیں آگ میں۔ جب جل جائیں گی کھالیں ان کی تو بدل دیں گے ہم ان کی کھالیں اور کھالوں سے، تاکہ مزہ چکھتے رہیں عذاب کا۔ بے شک اللہ ہے سب پر غالب، بڑی حکمت والا۔

اگلی آیت 47:4 جنگ کے دوران کس طرح‌لڑا جائے ، اسک کا بہترین ترجمہ ڈاکٹر شبیر احمد نے کیا ہے، اس ترجمے میں گردنیں اڑا دینے کے جگہ درست ترجمہ ، --- مخالف فوج کوکمانڈ‌ سینٹر سے کاٹ‌ دو --- کے مناسب الفاظ اور مناسب معانی استعمال کئے گئے ہیں۔ اور جنگ کے بعد کس طرح‌رہا جائے اس صورت کو وضاحت بھی اس آیت میں کی گئی ہے۔ جنگی مقابلہ کی صورت میں‌ ہر فوج اسی مقصد کے لئے لڑتی ہے۔ اور جنگ کے بعد جنگی قیدیوں سے کیسا سلوک کیا جائے اس کا طریقہ بھی قرآن بتاتا ہے، جو کہ کسی طور بھی ظالمانہ نہیں ہے۔ اس آیت کو بھی بے جا استعمال کیا گیا ہے اور اس کے معنے توڑ مروڑ‌کر پیش کئے گئے ہیں۔ انتہائی بے ایمانی سے نصف آیت استعمال کی گئی ہے جس میں اجتماعی احکام کو افرادی حکم سے بدل دیا گیا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ایسا کرنا (‌اجتماعی احکامات کو انفرادی احکامات میں بدلنے کا کام )‌ سب سے پہلے ملاؤں اور تالیبانوں نے شروع کیا۔ دیکھئے۔


[ayah]4:74 [/ayah] پھر جب (میدان جنگ میں) تمہارا مقابلہ (متحارب) کافروں سے ہو تو (دورانِ جنگ) ان کی گردنیں اڑا دو، یہاں تک کہ جب تم انہیں (جنگی معرکہ میں) خوب قتل کر چکو تو (بقیہ قیدیوں کو) مضبوطی سے باندھ لو، پھر اس کے بعد یا تو (انہیں) (بلامعاوضہ) احسان کر کے (چھوڑ دو) یا فدیہ (یعنی معاوضہِء رہائی) لے کر (آزاد کر دو) یہاں تک کہ جنگ (کرنے والی مخالف فوج) اپنے ہتھیار رکھ دے (یعنی صلح و امن کا اعلان کر دے)۔ یہی (حکم) ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو ان سے (بغیر جنگ) انتقام لے لیتا مگر (اس نے ایسا نہیں کیا) تاکہ تم میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائے، اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں قتل کر دیئے گئے تو وہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا۔

چونکہ قرآن مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ زبردستی کسی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نا کیا جائے لہذا یہ آیت بہت مناسب پیغام دیتی ہے وہ یہ کہ جو لوگ تم کو تمہارے دین سے ہٹا دینے کی خواہش رکھتے ہوں‌ ان کو دوست نا بناؤ۔ قرآن عام ادمی کو منصف یا جج نہیں‌بناتا بلکہ یہ اختیار صرف منتخب حکومت کو تفویض کرتا ہے کہ وہ جرائم کے فیصلے کریں۔ مسلمانوں کو زبردستی اپنے دین سے ہٹانے کو قرآن جرم قرار دیتا ہے اور حکومت پر اس کے لئے مناسب اقدامات کرنے کا حکم دیتا ہے، جیسا کہ قتل اور ڈاکہ کی صورت میں مناسب اقدام کرنا حکومت کا فرض ہے۔

[ayah] 4:89[/ayah] وہ (منافق تو) یہ تمنا کرتے ہیں کہ تم بھی کفر کروجیسے انہوں نے کفر کیا تاکہ تم سب برابر ہو جاؤ۔ سو تم ان میں سے (کسی کو) دوست نہ بناؤ یہاں تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت (کر کے اپنا ایمان اور اخلاص ثابت) کریں، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو انہیں پکڑ لو اور جہاں بھی پاؤ انہیں قتل کر ڈالو اور ان میں سے (کسی کو) دوست نہ بناؤ اور نہ مددگار

آج سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ ہم اپنے قرآن اور صرف قرآن کا مطالعہ روز کریں اور اپنے مذہب کے بارے میں‌درست بات جانیں ، ورنہ ملا ہم کو فتنہ، فساد فی الارض‌اللہ اور جعلی جہاد کے لئے استعمال کرتے رہیں گے اور مخالف اسی قرآن کو غلط ثابت کرتے رہیں گے۔
 

محمد سعد

محفلین
جناب میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ملا اسے کہتے ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے دین کا کام کرتا ہے۔ ہر ایرے غیرے کو ملا کہنا درست نہیں ہے۔
 
جناب میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ملا اسے کہتے ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے دین کا کام کرتا ہے۔ ہر ایرے غیرے کو ملا کہنا درست نہیں ہے۔

بہت شکریہ :
آپ کی بات کو تھوڑا سا آگے بڑھاتے ہیں کہ ملا کی تعریف اس سے بہتر کسی نے نہیں کی۔ یہ تعریف میری اور شاید آپ کی بھی پیدائش سے پہلے طے ہوچکی ہے۔۔۔

دین ملا فساد فی سبیل اللہ ۔

اللہ کی رضا حاصل کرنا ہم سب پر فرض‌ہے۔ یہ کوئی پیشہ نہیں کہ ہم اسے کسی ملا ، مولوی یا آیت اللہ کو آؤٹ سورس کردیں ۔ یہ توقع رکھنا کہ ملائیت ایک پیشہ ہے اور ملا ایک پیشہ ور ہے کہ کسی شخص‌کو ایک درجہ دینا کہ --- ملا اسے کہتے ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے دین کا کام کرتا ہے --- حد درجہ معصومیت اور اپنی ذمہ داری سے فرار ہے۔

امامت و خطابت اور قرآن سیکھنا ہم سب پر فرض‌ہے۔ کچھ لوگ خصوسی طور پر اس کام کے لئے نہیں چنے گئے ہیں۔ آپ کو مجھ کو سب کو اپنے اسکولوں اور کالجوں میں قرآن، امات و خطابت کی تعلیم پر زور دینا چاہئیے تاکہ --- یہ سوچ ہی ختم ہو ---- کہ کسی سپیشل ملا کی ضرورت ہے ۔ اور ---- ملا ---- ہی وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو ----- ہم جاہل ---- نہیں کرسکتے۔

جب ہم آپ سائینس، جیومیٹری، ریاضی، بیالوجی، کیمسٹری، فزکس پڑھ سکتے ہیں تو قرآن بھی پڑھ سکتے ہیں اور خطابت اور امامت بھی سیکھ سکھتے ہیں۔ جی :) جب --- ملا --- وہ علوم سیکھ ہی نہیں سکھتا جو آپ سیکھ سکتے ہیں تو قرآن کیا خاک سیکھے گا؟ :)

اس --- آؤٹ‌ سورس --- کئے ہوئے دین سے آگے بڑھنا اور خود سے یہ تین کام سیکھنا ہماری اور وقت کی ضرورت ہے - ورنہ یہ ---- ملا --- یہی کچھ مانگتے رہیں‌گے، اسی فساد میں گرفتار رکھیں گے اور ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور یہی فلمیں بنتی رہیں گی۔ ضرورت ہے خود سے قرآن ، امامت و خطابت سیکھنے کی کہ ہر شخص اس قابل ہو کہ یہ کام کرسکے۔

والسلام
 

arifkarim

معطل
محترم فاروق صاحب و دیگر احباب

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرما دیا تھا کہ میری امت میں تہتر فرقے ہوں گے۔ بہتر جہنم میں‌جائیں گے اور صرف ایک فرقہ کی نجات ہو گی۔ صحابہ نے پوچھا کہ وہ فرقہ کونسا ہو گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلے گا۔

والسلام مع الاکرام

بہت اچھے۔ اس حدیث کو پڑھ کر تو مجھے یہ فکر لاحق ہو گئی ہے کہ ہمارے ملاؤں نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی قیادت میں جب قادیانی فرقہ کو 1974 میں غیر مسلم اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا تھا، اور جہاں‌ اس وقت کے 72 مسلمان فرقوں نے متحدہ یہ فیصلہ کیا تھا کہ 72 فرقے اسلام کے اندر اور یہ 73 واں فرقہ دائرہ اسلام سے خارج۔ کہیں یہی فرقہ تو نجات والا نہیں؟ جس کو خدا کی منشاء نے خود ہی باقی مسلمانوں سے الگ کریا؟:eek:
اگر یہ سچ ہوا تو پھر تو ہم سیدھا دوزخ میں‌جائیں گے!
 

arifkarim

معطل
نبی اکرم سے غلطی کا امکان نہیں‌ہے۔ غلطی کا امکان ان روایات کے گھڑنے والوں سے ہے جو یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا تفرقہ و فرقہ بندی درست ہے ۔ چونکہ اب 185 سے بھی زائد فرقے ہوچکے ہیں اور مزید یہ کہ قرآن فرقہ بندی کی اجازت نہیں دیتا لہذا یہ ممکن ہی نہیں‌کے رسول اکرم قرآن کے خلاف کسی بات کو مناسب قرار دیں لہذا قرین قیاس یہی ہے کہ یہ روایت سنی سنائی من گھڑت روایت ہے۔ کسی قسم کی فرقہ بندی غیر موزوں اور غیر اسلامی ہے، سیاسی مفادات و وابستگی کے لئے لوگوں کے ایمان کو پامال کیا گیا اور فرقہ بندی کو درست قرار دینے کے لئے ایسی روایات گھڑی گئیں

فرقے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کی شہادت کے بعد ہی بننا شروع ہو گئے تھے۔ اور دوسرا یہ کہ یہ حدیث درست ہے۔ آپ ﷺ نے اس روایت میں یہودیوں کی مثال دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ جیسا کہ یہوی 72 فرقوں میں بٹ گئے ہیں، اسی طرح میری امت پر بھی ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ان سب میں سے صرف ایک فرقہ ہی نجات یافتہ ہوگا۔ آج سب فرقے اپنے آپ کو وہ نجات یافتہ فرقہ تسلیم کرتے ہیں، مگر یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کونسا ہے۔۔۔۔ مگر ایک بات درست ہے کہ وہ انہی میں سے ایک ہے، جو کہ آج موجود ہیں!
آپ کی بات درست ہے کہ قرآن فرقہ واریت کی اجازت نہیں دیتا، مگر ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو یہ کیسے قائل کریں؟
 

بلال

محفلین
اگر دوست برا نہ مانائیں تو ایک بات کہتا ہوں وہ یہ کہ یہ دھاگہ فلم فتنا کے بارے میں آپ کی رائے کے لئے ہے لیکن یہاں ماحول تو بدل ہی گیا۔۔۔ فلم تو شروع کی چند پوسٹ تک محدود رہ گئی۔۔۔ اور بات مولوی اور فرقہ تک چلی گئی۔۔۔ سب نے اچھی بحث کی ہے لیکن میرے خیال میں فرقہ واریت اور مولوی حضرات پر مزید بحث کے لئے نئا دھاگہ کھول لیا جائے۔۔۔
 

محمد سعد

محفلین
بہت شکریہ :
آپ کی بات کو تھوڑا سا آگے بڑھاتے ہیں کہ ملا کی تعریف اس سے بہتر کسی نے نہیں کی۔ یہ تعریف میری اور شاید آپ کی بھی پیدائش سے پہلے طے ہوچکی ہے۔۔۔

دین ملا فساد فی سبیل اللہ ۔

اللہ کی رضا حاصل کرنا ہم سب پر فرض‌ہے۔ یہ کوئی پیشہ نہیں کہ ہم اسے کسی ملا ، مولوی یا آیت اللہ کو آؤٹ سورس کردیں ۔ یہ توقع رکھنا کہ ملائیت ایک پیشہ ہے اور ملا ایک پیشہ ور ہے کہ کسی شخص‌کو ایک درجہ دینا کہ --- ملا اسے کہتے ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے دین کا کام کرتا ہے --- حد درجہ معصومیت اور اپنی ذمہ داری سے فرار ہے۔

امامت و خطابت اور قرآن سیکھنا ہم سب پر فرض‌ہے۔ کچھ لوگ خصوسی طور پر اس کام کے لئے نہیں چنے گئے ہیں۔ آپ کو مجھ کو سب کو اپنے اسکولوں اور کالجوں میں قرآن، امات و خطابت کی تعلیم پر زور دینا چاہئیے تاکہ --- یہ سوچ ہی ختم ہو ---- کہ کسی سپیشل ملا کی ضرورت ہے ۔ اور ---- ملا ---- ہی وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو ----- ہم جاہل ---- نہیں کرسکتے۔

جب ہم آپ سائینس، جیومیٹری، ریاضی، بیالوجی، کیمسٹری، فزکس پڑھ سکتے ہیں تو قرآن بھی پڑھ سکتے ہیں اور خطابت اور امامت بھی سیکھ سکھتے ہیں۔ جی :) جب --- ملا --- وہ علوم سیکھ ہی نہیں سکھتا جو آپ سیکھ سکتے ہیں تو قرآن کیا خاک سیکھے گا؟ :)

اس --- آؤٹ‌ سورس --- کئے ہوئے دین سے آگے بڑھنا اور خود سے یہ تین کام سیکھنا ہماری اور وقت کی ضرورت ہے - ورنہ یہ ---- ملا --- یہی کچھ مانگتے رہیں‌گے، اسی فساد میں گرفتار رکھیں گے اور ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور یہی فلمیں بنتی رہیں گی۔ ضرورت ہے خود سے قرآن ، امامت و خطابت سیکھنے کی کہ ہر شخص اس قابل ہو کہ یہ کام کرسکے۔

والسلام

جنابِ عالی! یہی تو میں عرض کر رہا ہوں کہ ہم لوگ ملا کی تعریف میں غلطی کر رہے ہیں۔ ملائیت کوئی پیشہ نہیں ہے اور نہ ہی ملا کوئی پیشہ ور جیسا کہ ہم نے انہیں بنا دیا ہے۔ یہ ایک ذمہ داری ہے۔ ہر دور میں کم از کم ایک جماعت مسلمانوں میں ایسی ہونی چاہیے جو دین کا علم حاصل کرے اور اسے دوسروں تک پہنچائے۔ یہ ہمارا اپنا ہی قصور ہے کہ ہم لوگ لائق ترین بچوں کو تو بڑے بڑے انگریزی سکولوں میں‌داخل کراتے ہیں تاکہ وہ کوئی بڑے افسر بن کر ہمارے لیے مستقل کمائی کا ذریعہ اور فخر کا سبب بن سکیں جبکہ معاشرے کے دھتکارے ہوئے دماغوں کو دین کا علم حاصل کرنے پر لگا دیتے ہیں کیونکہ ان سے ہمیں ایسی کوئی توقع نہیں ہوتی۔ ایسی صورت حال میں ہم کیسے اعلیٰ درجے کے علماء کی توقع کر سکتے ہیں؟ جہاں تک آپ کی اس بات کا تعلق ہے کہ ہم سب کو دین کا علم حاصل کرنا چاہیے تو میں اس معاملے میں آپ کے ساتھ بالکل متفق ہوں اور اگر آپ غور کریں تو اس پوسٹ میں میں‌نے یہی کہنے کی کوشش کی ہے۔
 
Top