'فلم جنگل بک بچوں کیلئے بہت خوفناک'!

arifkarim

معطل
'فلم جنگل بک بچوں کیلئے بہت خوفناک'
5707ebf8de88f.jpg
— اسکرین شاٹ
بچوں میں مقبول کہانی جنگل بک پر بننے والی فلم کو انڈیا میں سنسر بورڈ نے بہت زیادہ 'خوفناک' قرار دے کر یو اے سرٹیفکیٹ جاری کردیا ہے۔
انڈین سنسر بورڈ کے خیال میں فلم کے تھری ڈی گرافکس اور ساﺅنڈ ایفیکٹس بچوں کے لیے بہت زیادہ 'خوفناک' ہیں۔
یو اے سرٹیفکیٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی فلم کو دیکھنے کے لیے 12 سال سے کم عمر بچوں کو والدین کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا میں بھی ڈرنی اسٹوڈیوز کی اس فلم کو 'پیرنٹل گائیڈنس' ریٹنگ دی گئی ہے۔
سنسر بورڈ کے سربراہ پہلاج نہلانی نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا 'جس طرح رولر کوسٹر رائیڈ پر وارننگ دی جاتی ہے، سنسر بورڈ کے پینل کو بھی ایسا لگا کہ یہ فلم بہت خوفناک ہے اور مشورہ دیا ہے کہ والدین خود فیصلہ کریں کہ یہ چھوٹے بچوں کے دیکھنے کے لیے مناسب ہے یا نہیں'۔
ان کا مزید کہا تھا 'اگر پروڈیوسرز چاہیں تو اس فیصلے کے خلاف اپیل کرسکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، جب لوگ اس فلم کو دیکھیں گے تو وہ ہمارے خدشات کو سمجھ سکیں گے'۔
سنسر بورڈ کے ذرائع کے مطابق فلم کی کہانی کی بجائے ٹیکنالوجی خدشات کا باعث بنی 'اگر فلم ٹوڈی ٹیکنالوجی میں ہوتی تو اسے یونیورسل سرٹیفکیٹ دیا جاتا'۔
فلم کا ہندی ٹریلر:
http://www.dawnnews.tv/news/1035833
 

arifkarim

معطل
انڈیا میں فلم ’جنگل بک‘ کو بچّے تنہا نہیں دیکھ سکتے
160407101232_jungle_book_640x360_bbc_nocredit.jpg

سینسر بورڈ کے اس فیصلے پر بہت سے لوگوں نے ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا کی سائٹز پر بورڈ کے اس فیصلے کا مذاق اڑایا ہے
انڈیا میں سینسرز بورڈ نے ڈزنی کی فلم ’جنگل بک‘ کو یو/ اے سرٹیفیکٹ جاری کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بچّے یہ فلم کسی بالغ شخص کی موجودگی کے بغیر نہیں دیکھ سکتے۔
بورڈ کے اس اقدام پر کافی نکتہ چینی ہورہی ہے کیونکہ یہ فلم تو بچوں کو ہی ذہن میں رکھ کر بنائی گئی ہے اور آخر اس میں ایسا کیا ہے کہ اسے یو اے سرٹیفیکٹ دیا گيا۔
لیکن سینسرز بورڈ کے سربراہ پہلاج نہلانی نے ایک انڈین اخبار کو اس بارے میں وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ فلم کچھ زیادہ ہی ڈراؤنی ہے۔
جنگل بک سنہ 1967 میں بنائي گئی اینیمیٹیڈ فلم کی ریمیک ہے جسے کمپیوٹر کی مدد سے تھری ڈی میں نئے سرے سے تیار کیا گیا ہے۔ یہ فلم روڈیارڈ کپلنگ کی کتاب پر پر مبنی ہے۔
فلم سے متعلق تجزیاتی رپورٹوں میں اس کی کافی تعریف کی گئی ہے اور بھارت میں یہ فلم 8 اپریل کو ریلیز ہورہی ہے۔
پہلاج نہلانی نے ایک بھارتی اخبار کو بتایا کہ فلم کو یو/ اے سرٹیفیکٹ دینے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ اس کے ’تھری ڈی ایفکٹز اتنے زیادہ خوف ناک ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے جانور ناظرین پر ہی کودے پڑ رہے ہیں۔‘
160404080503_the_jungle_book_512x288_disneypr_nocredit.jpg

چونکہ امریکہ میں اس فلم کے تعلق سے والدین کو بعض ہدایات جاری کی گئی تھیں اسی لیے انڈیا میں بھی اس پر بحث شروع ہوئی
لیکن فلم کےموسیقار وشال بھاردواج نے ایک کانفرنس میں میں کہا کہ فلم میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے اسے یو / اے سرٹیکفٹ دیا جاتا۔
ان کا کہنا تھا ’یہ بہت ہی خوبصورت فلم ہے۔ اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس سے بچے ڈر جائیں گے لیکن ہمیں اس حقیقت کو تو تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ وقت ہی ایسا ہے۔‘
سینسر بورڈ کے اس فیصلے پر بہت سے لوگوں نے ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ کئی افراد نے سوشل میڈیا کی سائٹز پر بورڈ کے اس فیصلے کا مذاق اڑایا ہے۔
ایک ٹوئٹر صارف رے بین لکھتی ہیں ’پہلاج نہلانی نے جنگل بک کو یو اے سرٹیفیکٹ دیا ہے۔ ظاہر ہے جنگل کے ننگے جانوروں نے انھیں ناراض کر دیا ہوگا۔‘
چونکہ امریکہ میں اس فلم کے تعلق سے والدین کو بعض ہدایات جاری کی گئی تھیں اسی لیے انڈیا میں بھی اس پر بحث شروع ہوئی اور بعض افراد نے بورڈ کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔
لنک
 

arifkarim

معطل
آٹھ اپریل کو ریلیز ہو چکی ہے . میں نے ریلیز کے پہلے دن کے شو میں یہ فلم دیکھ لی ہے. اچھی انیمیشن فلم ہے. ساؤنڈ افیکٹس زیادہ ہیں. سنسر بورڈ نے درست فیصلہ لیا ہے.
ہالی وڈ کو بھی عقل آ ہی گئی کہ جس کے بارہ میں فلم ہو اسی قوم یا ملک کے اداکار کاسٹ کئے جائیں۔ اس فلم کا لیڈ رول ایک امریکی نژاد ہندوستانی بچے نے ادا کیا جیسا کہ اصل کتاب میں ہے۔ اگر مقامی امریکی کو لے لیتے تو فلم کا دیوالیہ نکال آنا تھا۔
 

محمدظہیر

محفلین
ہالی وڈ کو بھی عقل آ ہی گئی کہ جس کے بارہ میں فلم ہو اسی قوم یا ملک کے اداکار کاسٹ کئے جائیں۔ اس فلم کا لیڈ رول ایک امریکی نژاد ہندوستانی بچے نے ادا کیا جیسا کہ اصل کتاب میں ہے۔ اگر مقامی امریکی کو لے لیتے تو فلم کا دیوالیہ نکال آنا تھا۔
لڑکے نے اچھی اداکاری کی ہے.

میری شدید خواہش اور توقع تھی فلم کے ہندی ورژن میں اس گیت کو دیکھوں لیکن پوری فلم میں یہ کہیں نظر نہیں آیا، جس کا مجھے افسوس رہا
 

arifkarim

معطل

arifkarim

معطل
میری شدید خواہش اور توقع تھی فلم کے ہندی ورژن میں اس گیت کو دیکھوں لیکن پوری فلم میں یہ کہیں نظر نہیں آیا، جس کا مجھے افسوس رہا
یہ محض پروموشنل گانا تھا ہندوستانی بچوں کیلئے۔ اسکو فلم میں شامل کرنے کا تو سوال ہی نہیں تھا۔
 

یاز

محفلین
ہالی وڈ کو بھی عقل آ ہی گئی کہ جس کے بارہ میں فلم ہو اسی قوم یا ملک کے اداکار کاسٹ کئے جائیں۔ اس فلم کا لیڈ رول ایک امریکی نژاد ہندوستانی بچے نے ادا کیا جیسا کہ اصل کتاب میں ہے۔ اگر مقامی امریکی کو لے لیتے تو فلم کا دیوالیہ نکال آنا تھا۔
لائف آف پائی میں بھی غالباََ ایسا ہی کیا تھا، اور کافی کامیاب رہی تھی فلم۔
 

محمدظہیر

محفلین
یہ محض پروموشنل گانا تھا ہندوستانی بچوں کیلئے۔ اسکو فلم میں شامل کرنے کا تو سوال ہی نہیں تھا۔
جی پروموشنل گانا تو ہے لیکن ہندی ورژن کے ابتدائی یا آخری حصے میں ڈال دیتے کیا فرق پڑ جاتا.
اس کا انیمیٹڈ پرانا گانا بھی ایک زمانے میں کافی مقبول رہا
 

فرخ منظور

لائبریرین
جنگل بک کے مصنف رڈ یارڈ کپلنگ کے والد جان لاک وڈ کپلنگ، میو سکول آف آرٹ موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس کے پہلے پرنسپل تھے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
رڈ یارڈ کپلنگ کا مشہور ناول کِم لاہور کی زمزمہ توپ سے شروع ہوتا ہے اسی لیے اسے کمز گن بھی کہا جاتا ہے۔ کِم ناول تمام تر لاہور کی کہانی بیان کرتا ہے۔ اور ایک دلچسپ بات کہ رڈ یارڈ کپلنگ نے اس ناول میں لاہور کے عجائب گھر کو انگریزی میں میوزیم نہیں لکھا بلکہ عجائب گھر کا ہو بہو ترجمہ دا ونڈر ہاؤس لکھا ہے۔
 

arifkarim

معطل
رڈ یارڈ کپلنگ کا مشہور ناول کِم لاہور کی زمزمہ توپ سے شروع ہوتا ہے اسی لیے اسے کمز گن بھی کہا جاتا ہے۔ کِم ناول تمام تر لاہور کی کہانی بیان کرتا ہے۔ اور ایک دلچسپ بات کہ رڈ یارڈ کپلنگ نے اس ناول میں لاہور کے عجائب گھر کو انگریزی میں میوزیم نہیں لکھا بلکہ عجائب گھر کا ہو بہو ترجمہ دا ونڈر ہاؤس لکھا ہے۔
جنگل بک گو کہ انگریزی میں لکھی گئی لیکن اسکے کرداروں کے نام ہندی میں ہی شامل کئے گئے۔ جیسے اکیلا، راکشا، بھالو، بندر، لنگور، شیر خان وغیرہ۔ فلم میں موگلی اور اسکے بھیڑیے بہن بھائی اپنی ماں راکشا کو امی کہتے ہیں۔
 
Top