میں نے گیتا، بائبل قادیانیت وغیرہ سب کا مطالعہ کررکھا ہے۔۔۔
میرے مطالعے کی فکر چھوڑیں۔۔۔
اپنی خیر منائیں!!!
اچھی بات ہے۔ یعنی آپ مسیحیت میں جنت و دوزخ کے فلسفہ کو جانتے ہیں۔ پھر یہ بھی جانتے ہوں گے کہ یہ اسلامی سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ وہاں بھی صرف وہی لوگ جنت میں جائیں گے جو حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا تسلیم کرکے نجات حاصل کرے۔
 

سید عمران

محفلین
اچھی بات ہے۔ یعنی آپ مسیحیت میں جنت و دوزخ کے فلسفہ کو جانتے ہیں۔ پھر یہ بھی جانتے ہوں گے کہ یہ اسلامی سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ وہاں بھی صرف وہی لوگ جنت میں جائیں گے جو حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا تسلیم کرکے نجات حاصل کرے۔
یہ خدائی فیصلہ نہیں ہے!!!
 
میں نے گیتا، بائبل قادیانیت وغیرہ سب کا مطالعہ کررکھا ہے۔۔۔
میرے مطالعے کی فکر چھوڑیں۔۔۔
اپنی خیر منائیں!!!

واقعی؟ بھائی بائبل کی وہ آیات بتائیں جس میں حضرت محمدﷺ کی پیشگوئی بیان ہوئی ہے۔
 

سین خے

محفلین
سین خے!
جب تک ہم ان سے اچھے تعلقات نہیں رکھیں گے کیسے انہیں اسلام کا پیغام دے سکیں گے!
ایک آدھ دفعہ آنے جانے کو،ساتھ کام کرنے کو،جان پہچان کو دوستی نہیں کہتے۔اس میں نیت کو بھی بہت دخل ہے۔
میں اس کی مثال دیتی ہوں۔
میری سابقہ باس قادیانی تھیں۔میرے پہلے بچے کی وفات ہوگئی۔میں 89 دنوں کی چھٹی پہ تھی۔انہوں نے میرے نام چھٹی بھیجی کہ میں 45 دن کی چھٹی سے زیادہ نہیں کر سکتی اب۔اس سے پہلے وہ میرے گھر افسوس کے لئے آچکی تھیں باقی احباب کے ساتھ۔
میں صاحب کے ساتھ ان کے گھر گئی۔میڈم!آپ میری باس ہیں آپ مجھے صرف فون کر دیتیں اور اس قانون کا حوالہ نہ بھی دیتیں صرف اپنا حکم دیتیں تو میں پھر بھی آپ کا کہنا مانتی۔
اگلے دن میں جانے لگی۔
میں نے ان کا ہر حکم مانا ہے اور بہت اچھی ماتحت رہی ہوں الحمداللہکافی لوگ ذاتی طور پہ انہیں تحائف دیتے تھے لیکن میں باس کو تحائف دینے کے خلاف تھی۔میڈم مجھ پہ بہت بھروسہ کرتی تھیں اور مجھ سے بات چیت پہ بہت خوش رہتی تھیں۔میری بے تکلفی کی عادت تھی۔ان سے بھی ہنسی مذاق چلتا تھا۔
پھر ان کا تبادلہ ہوگیا۔پھر بھی کسی میٹنگ پہ ملاقات ہو جاتی۔میں ہمیشہ ان کے بائیں طرف بیٹھتی ہوں۔انہیں چائے بنا کر دیتی ہوں۔کسی میٹنگ میں جانا ہو اور ان کے پاس اپنی کنوینس نہیں ہوتی تو انہیں پک اینڈ ڈراپ کرتی ہوں۔
ان کا فون آیا کہ ان کا بھائی بیمار ہے اور ان کے پاس آٹھ عدد پیپرز بنانے کے لئے آگئے ہیں۔میں نے تسلی دی اور انہیں پیپرز بنا کے،کمپوز کر کے پرنٹ نکال کے بھیج دیے۔
انہیں اپنے بھائی کے پاس باہر جانا تھا تب بھی یہی ہوا۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک میٹنگ تھی۔میں کسی وجہ سے نہیں جا رہی تھی۔ان کو فون کر کے پوچھا۔ان کے پاس جانے کا انتظام نہ تھا۔میں خود گھر سے دور تھی۔
فورا ادھر ادھر فون کھٹکا کے انتظام کیا۔
ان کا بہت جی چاہتا ہے کہ ہماری دوستی ہو۔ہم ایک دوسرے کے گھر آئیں جائیں۔رازو نیاز کریں۔ لیکن۔۔۔۔۔یہ میں نہیں کر سکتی۔
مجھے ان سے ہمدردی ہے۔مجھے کبھی ان کی تنہائی پہ ترس بھی آتا ہے۔
لیکن میں نے کچھ فاصلہ رکھا ہے۔

بہت شکریہ آپ کا کہ آپ نے اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا۔ مجھ سے آپکا نقطہ نظر سمجھنے میں غلطی ہوئی تھی۔ مجھے لگا تھا آپکا موقف کچھ اور ہوگا لیکن خیر بہرحال بہت شکریہ۔
 

سین خے

محفلین
گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔

میرے اسکول اور کالج میں ہر طرح کا اسلامی تہوار بڑے اہتمام سے منایا جاتا تھا۔ چاہے وہ عید میلاد النبی ﷺ ہو چاہے عید ملن پارٹی ہو۔ رمضان کے دوران ہمارے مسیحی اساتذہ اور شاگرد پوری طرح احتیاط کرتے تھے کہ ہمارے سامنے کچھ کھایا پیا نہ جائے اور اس میں اسکول کے سسٹر اور فادر بھی شامل ہوتے تھے۔ جب عید آتی تھی تو بڑے جوش و خروش سے سب اساتذہ پورا انتظام کرواتے اور بڑی خوشی خوشی ہمیں مبارکباد بھی دیتے اور پارٹی میں شریک بھی ہوتے۔ اس کے علاوہ فادر اور سسٹر کی طرف سے پھولوں کے گلدستے وغیرہ بھی اساتذہ کے لئے بھجوائے جاتے تھے اور مسلم اساتذہ کے لئے ایک الگ پارٹی کا انتظام کیا جاتا تھا۔

میلاد کے لئے سب سے بڑا انتظام ہوتا تھا۔ ٹینٹ لگتا تھا اور ہم سب کو مٹھائی بھی تقسیم کی جاتی تھی۔ اس کے لئے ہم سے کبھی ایک روپیہ بھی نہیں لیا گیا۔ میرے اسکول میں ڈھائی ہزار بچے پڑھتے ہیں۔ اب ذرا سوچئے کہ کتنا زیادہ خرچا آتا ہوگا۔ آخر میں فادر اور سسٹر سب کا شکریہ ادا کرتے اور سب کو مبارکباد بھی دیتے تھے۔ ہمیں کبھی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ قرآت کے مقابلے بھی ہوتے تھے۔

رمضان شروع ہونے پر ہر مسیحی استاد اور شاگرد ہمیں الگ الگ رمضان کی مبارکباد دیتے۔ رمضان کے خیال سے ہمیشہ ہمارے اسکول کے اوقات کم کر دئیے جاتے تھے اور اس کے علاوہ خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھا کہ ہمیں زیادہ ہوم ورک وغیرہ نہ دیا جائے۔ عید اور بقرعید پر ناصرف ہمیں بلکہ جو ماں باپ اسکول چھوڑنے لینے آتے تھے ان کو بھی مبارکباد دی جاتی تھی۔ ہمارے ماں باپ کو ہمیشہ سلام کرتے تھے۔

کسی ٹیچر یا اسٹوڈنٹ کا انتقال ہو جاتا تھا تو قرآن خوانی بھی ہوتی تھی۔ مرحومین کی یاد میں جو تقریب ہوتی تھی تو سب دعا میں شریک ہوتے تھے۔ مسیحی اساتذہ اپنے طریقے سے دعا کر دیتے تھے پھر کوئی مسلمان ٹیچر دعا کرتے تھے۔

اب ایسے میں ہم بھی انھیں کرسمس، نیو ائیر، ایسٹر اور فیسٹ ڈے پر وش کرتے تھے۔ کارڈ بھی بے انتہا بنا کر دئیے ہیں اور تحفے تحائف بھی دئیے ہیں۔ :) جب ہم عید پر اپنے مسلم ٹیچرز اور دوستوں کو کارڈ اور تحائف دیتے تھے تو ایسے میں اگر مسیحی تہواروں پر ہم ان سے دور رہتے تو ہم کس قسم کا ان کو پیغام دیتے؟ اب ہم کیا اپنے مسیحی کلاس فیلوز سے یہ کہتے کہ ہم سے زیادہ فری نہ ہو یا ہمیں اپنا دوست نہ بناوَ، ہمارے گھر آنا جانا تمھارا منع ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟

جہاں تک بات ایک ہی برتنوں میں کھانے پینے کی ہے تو سب کے لئے ایک ہی جیسے پانی کے فلٹر تھے۔ بہت سارے اسٹوڈنٹس گلاس میں پینے کے بجائے منہ لگا کر بھی پی لیتے تھے۔ کینٹین میں سب کے لئے ایک ہی جیسے پلیٹیں چمچے وغیرہ ہوتے تھے۔ پر ہم نے کبھی اللہ کا شکر ایسا نہیں سوچا نہ ہی میں نے کبھی کسی کو ایسے کرتے یا کہتے سنا۔ شائد کراچی میں ہم کانونٹ میں پڑھنے لکھنے والوں کا گھر کا ماحول اور سوچ مختلف ہے۔ :) مجھے یہ تھریڈ پڑھ کر کچھ ایسا ہی محسوس ہوا۔ ٹیچرز کے لئے بھی چائے اور لنچ وغیرہ کے ایک ہی برتن ہوتے تھے۔ ایک ٹیچر نے البتہ میری امی سے کہا تھا کہ وہ برتنوں میں احتیاط کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سوچنے پر بھی مجھے کوئی اور متعصبانہ رویہ یاد نہیں آیا۔

اب مجھے سمجھ نہیں آرہا جس طرح کی باتیں میں نے اس تھریڈ میں پڑھی ہیں کہ دوستی نہ کی جائے، دور رہا جائے وغیرہ وغیرہ اس پر بھلا میں کیا تبصرہ کروں۔ مجھے جو کہنا تھا میں نے کہہ دیا۔ میں دیکھوں گی کہ میری یاداشتیں پڑھنے سے آپ سب کی بھلا کیا رائے بنتی ہے۔

میں کوئی عالمہ نہیں ہوں اور دین کے معاملے میں میرا علم بہت کم ہے البتہ ایک بات میں ضرور کہنا چاہوں گی کہ معاشرے کی اقدار وقت کے ساتھ بہت زیادہ بدل چکی ہیں۔ اب سے بیس سال پہلے میل جول کے الگ طور طریقے تھے اور اب کچھ اور ہیں۔ میرے بہت مسیحی دوست تھے اور مجھے اب بھی وہ یاد آتے ہیں۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے یہاں محفل پر میری آپ سب سے اچھی دعا سلام اور جان پہچان ہے اور میں آپ سب کو دوست احباب میں ہی شمار کرنا پسند کرتی ہوں۔

مجھے اب بھی اپنے مسیحی اساتذہ سے انسیت اور محبت محسوس ہوتی ہے جیسے بچپن میں ہوتی تھی کیونکہ انھوں نے ہم سب کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا اور آج میں جو کچھ بھی ہوں اس کا کریڈٹ ان سب کو جاتا ہے۔ مجھے اپنے مسیحی اسکول، کالج، اساتذہ اور دوستوں پر فخر ہے۔ یہ بہترین پاکستانی ہیں اور انھوں نے ہمارے معاشرے کو بے انتہا فائدہ پہنچایا ہے۔

کسی ایک طبقے کو معاشرتی طور پر آئیسولیٹ کرنا اب بے انتہا مشکل ہے اور دنیا بھر میں بے انتہا برا سمجھا جاتا ہے۔ جب ایک طبقہ ہمارے لئے اتنا کچھ کرے تو بدلے میں منطقی طور پر کچھ اچھا کرنا چاہئے۔ اس پر سوچنے اور گنجائش نکالنے کی انتہائی سخت ضرورت ہے۔
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
ایک اور بات ابھی تک سینٹ جوزف، سینٹ پیٹرک اور سینٹ پال کی پرائمری کی فیس دو ہزار روپے ہے۔ جبکہ بیکن ہاوَس کی تیرہ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ بڑے پرائیویٹ اسکولز میں آٹھ سے گیارہ ہزار ہے۔ چھوٹے پرائیویٹ اسکولز میں چار ہزار کے قریب ہے۔

معیار کیتھولک مشنری اور پارسی اسکولوں کا اب بھی پرائیویٹ اسکولوں میں بہت اچھا ہے۔ یہاں کے ٹیچرز انگریزی میں شاذ و نادر ہی غلطی کرتے پائے جاتے ہیں۔ بیکن ہاوَس کا تعلیمی سسٹم جدید ہے اور بے انتہا افیکٹیوو ہے مگر وہاں بھی میں نے ٹیچرز کو غلط انگریزی بولتے سنا ہے۔ ایکسنٹ میں بھی زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
تو محترم میرے سوال کا جواب عطا فرمائیے۔
آپ کے اس جواب میں پوچھوں گا کون سی بائبل؟؟؟ لوقا کی، یوحنا کی، متی کی وغیرہ...
پھر آپ کی تجویز کردہ بائبل کے لیے نیٹ گردی کروں...
وہاں سے نہ ملے تو الگ محنت...
بلاوجہ اتنی مشقت کا فائدہ؟؟؟
 

کون سی بائیبل کیا مطلب۔ بھائی جان بائیبل ایک ہی ہے۔
قا کی، یوحنا کی، متی کی وغیرہ...
محترم یہ انجیل کے باب ہیں۔
پھر آپ کی تجویز کردہ بائبل کے لیے نیٹ گردی کروں...
نیٹ گردی کیوں۔ آپ تو باقاعدہ مطالعہ فرما چکے ہیں
وہاں سے نہ ملے تو الگ محنت...
یہ وہم نہیں ہے حضور۔ ثبوت ہے۔
 

سید عمران

محفلین
کون سی بائیبل کیا مطلب۔ بھائی جان بائیبل ایک ہی ہے۔

محترم یہ انجیل کے باب ہیں۔

نیٹ گردی کیوں۔ آپ تو باقاعدہ مطالعہ فرما چکے ہیں

یہ وہم نہیں ہے حضور۔ ثبوت ہے۔
آپ مطالعہ اور ازبر یاد ہونے میں فرق نہیں رکھتے...
ہم روز قرآن پڑھتے ییں تو کیا ہر دلیل از بر ہوگی؟؟؟
 
Top