غول پریوں کے چلے آتے ہیں ویرانے میں - فضا بسوانی

کاشفی

محفلین
غزل
(جناب فضا بسوانی)

غول پریوں کے چلے آتے ہیں ویرانے میں
کون سی بات ہے ایسی ترے دیوانے میں

اور محفل میں مرے دل کی لگی بھڑکائی
کہہ کے بے درد نے، کیا سوز ہے پروانے میں

پاؤں رکھے وہ کہیں، دل پہ مرے پڑتا ہے
یہ قیامت کی ادا ہے ، مرے مستانے میں

دیکھ کر حُسن بتاں میں تو زخود رفتہ تھا
لوگ کہتے ہیں کہ سجدے کئے بت خانے میں

پھول اُٹھائیں جو ہمارے تو دُکھیں نازک ہاتھ
غیر کی نعش اُٹھے درد نہ ہو شانے میں

مشق کی جھوم کے شاخوں نے چمن میں برسوں
وہ نہ آئی جو ادا ہے مرے مستانے میں

شمع کہتی ہے بلا میری جلائے اس کو
خود جلے سوز تو موجود ہے پروانے میں

کہہ رہی ہے مرے ساقی کی یہ مستی بھری آنکھ
اتنی مے ہے کہ سماتی نہیں پیمانے میں

اے نسیم سحری شمع کو گل کر نہ ابھی
جان تھوڑی سی ہے جلتے ہوئے پروانے میں

اے فضا جو تمہیں کہنا ہے وہ ساقی سے کہو
کون سنتا ہے سبھی مست ہیں میخانے میں
 

کاشفی

محفلین
سب تو روتے ہیں مگر اُن کو ہنسی آتی ہے
ایسی کیا بات ہے باسط ترے افسانے میں
(جناب باسط بسوانی)
 

کاشفی

محفلین
جان جب لی تھی، حیا اُن کو نہیں آئی تھی
شرم آتی ہے اُنہیں قبر پر اب آنے میں
(جناب ثمر بسوانی)
 

کاشفی

محفلین
لطفِ ساقی سے جو محروم ہیں میخانے میں
آنکھ سے اشک ٹپک پڑتے ہیں پیمانے میں
چشمِ ساقی کی محبت نہیں چھپتی دل میں
بادہء تند ٹھہرتی نہیں پیمانے میں
(جناب خلیل بسوانی)
 

کاشفی

محفلین
آج کچھ پیرِ خرابات ہے ساقی ناراض
رنگ اچھا نظر آتا نہیں میخانے میں
(جناب ساقی بسوانی)
 

کاشفی

محفلین
غیر کا قصہء غم سن کے کہا یہ ہنس کر
وہ کہاں بات، جو ہے شاد کے افسانے میں
(جناب شاد بسوانی)
 
Top