غم حسین علیہ السلام پر اشعار

لیا خیال کا جب تیرے آسرا میں نے
ہوا یقین کہ منزل کو پا لیا میں نے

خدا کرے کہ مجھے خواب میں حسین ملیں
تمام رات اندھیروں میں کی دعا میں نے

چرن سنگھ چرن
 

فاخر رضا

محفلین
سلام - “مگر رسم عزا کچھ کم نہیں ہے”

فضا کچھ سازگار اس دم نہیں ہے
مگر شمعِ عزا مدھم نہیں ہے

کوئی گوشہ نہیں ایسا زمیں پر
شہ دیں کا جہاں پرغم نہیں ہے


کوئی اشکِ غمِ شہ کے علاوہ
غمِ دنیا ترا مرہم نہیں ہے

نشانِ سینہ کوبی مٹ بھی جائیں
عزاداروں کا مٹتا غم نہیں ہے

سنبھل کر منہ شگافی کیجئے گا
عبادت ہے مری ماتم نہیں ہے

پلٹتاہے ہواؤں کے رخوں کو
جو جھک جائے یہ وہ پرچم نہیں ہے

بہت ہیں سورما لشکر میں شہ کے
مگر اصغر کسی سے کم نہیں ہے

اٹھائیں آہ کیسے لاشِ اکبر
کمر میں شاہ کی اب دم نہیں ہے

ہے ثابت ناقہ صالح کی حرمت
مگر اصغر کی حرمت کم نہیں ہے

دعائیں کس طرح مقبول ہونگی
جو تیری آنکھ ہی پرنم نہیں ہے

یہ نذرانہ حضورِ شاہ ذاکرؔ
لحد کے واسطے کچھ کم نہیں ہے

ولی رضا حیدری ذاکرؔ
 

سیما علی

لائبریرین
میانِ تیغ و سناں، لَا الٰہ الّا اللہ
حدیثِ شعلہ بجاں، لَا الٰہ الّا اللہ

مقامِ سجدۂ بے اختیار، عجز تمام
کمالِ حرفِ بیاں، لَا الٰہ الّا اللہ

جہاں رسولﷺ کے نقشِ قدم وہیں پہ علیؓ
وہیں حسینؓ جہاں لَا الٰہ الّا اللہ

ہر امتحان، ہر اک ابتلا کی منزل میں
قرار دلِ زدگاں لَا الٰہ الّا اللہ

شہود و شاہد و مشہود ایک ہوں کہ نہ ہوں
امین و امن و اماں لَا الٰہ الّا اللہ

غبار اُڑاتے ہوئے وقت کے مقابل بھی
حصارِ نام و نشاں لَا الٰہ الّا اللہ

سوالِ بیعتِ دربارِ شام اور حسینؓ
کہاں یزید کہاں لَا الٰہ الّا اللہ

کنارِ آبِ رواں، ارتباطِ مشک و علم
فغانِ تشنہ لباں لَا الٰہ الّا اللہ

افتخار عارف
 

سیما علی

لائبریرین
حسین جب کہ چلے بعد دوپہر رن کو
نہ تھا کوئی کہ جو تھامے رکاب توسن کو
سکینہ جھاڑ رہی تھی عبا کے دامن کو
حسین چپ کے کھڑے تھے جھکائے گردن کو
نہ آسرا تھا کوئی شاہ کربلائی کو
فقط بہن نے کیا تھا سوار بھائی کو

میر انیس
 

سیما علی

لائبریرین
ہائے قاسم علیہ السلام

جب لاشئہ قاسم پہ شہ بحر و بر آئے
چاک اپنا گریبان کئے ننگے سر آئے
نیزہ لئے ہم شکل نبی نوحہ گر آئے
عباس سنبھالے ہوئے تیغ و سپر آئے

دیکھا صفت شیر ستمگاروں کو تن کے
حملہ کیا قاتل پہ جگر بند حسن کے

میر انیس
 

سیما علی

لائبریرین
قلب میں داغوں کے گل، دامن میں اشکوں کے گہر،
ہم یہ ہدیہ لےکے جایٔں گے خدا کے سامنے۔۔۔۔۔۔

واہ ری رحمت کہ دوزخ کو بھی ٹھنڈا کر دیا،
آگ پانی ہو گیٔ خاکِ شفاکے سامنے۔۔۔۔

ّمیر ؔانیس
 

سیما علی

لائبریرین
سبط ِ نبی:pbuh: سے منزل ِ مقصد قریب ہے
آرام گاہ ِ جان ِ محمد :pbuh:قریب ہے
مولد تو دور رہ گیا مشہد قریب ہے
جس جا لحد بنے گی وہ سرحد قریب ہے

جاتے ہیں آپ خلق کی مشکل کشائ کو
آئی ہے کربلا سے اجل پیشوائی کو

میر ببر علی انیس
 

فاخر رضا

محفلین
یہاں کوئی مرا ہم دم نہیں ہے
میں روتا ہوں کہ کوئی غم نہیں ہے

جو تیری آنکھ ہی پر نم نہیں ہے
یہ سینہ کوبی ہے ماتم نہیں ہے


حسینیت سے مجھ کو انس تو ہے
یزیدیت سے دل برہم نہیں ہے


خوشا جن کو بہتر مل گئے تھے
یہاں تو ایک بھی محرم نہیں ہے

کاظم رضا حیدری
 

سیما علی

لائبریرین
لفظ شہید
کیا تھا جو وعدہ نانا سے حسین نے
ہوکر کربلا میں شہید نبھایا حسین نے

مُشکل جو آ ن پڑی تھی دین اسلام پر
کرکے قربان کُنبہ اُمت سے بچایا حسین نے

دے کر شہید اسلام کو ایسے اصحاب و احباب
حُر ، حبیب ، جون جیسے جانباز بتایا حسین نے

کیا تھا جو اسرار طلب بیعیت کا یزید نے
سر کٹا دیا پر سر کو نہ جُکھایا حسین نے

کرے گا جب بھی کوئی خدا کے احکام سے انکار
یزید کی طرح ہوگا رسوا وہ بھی بتایا حسین نے

ہو مُشکل میں جب بھی دین خدا کرنا مدد ایسے انتظار
دے کر علی اکبر ،جیسےشہیدوں کا خون دکھایاحسین نے

(انتظار مہدی)
 

سیما علی

لائبریرین
محسن نقوی

امام حسین علیہ السلام جب کربلا پہنچے . اور خیام لگانے کا حکم دیا ... تو سرزمین کربلا اور امام حسین علیہ السلام کے مابین جو گفتگو ھوئی ۔ اس تخیل کو حماد اہلبیت شہید محسن نقوی نے قلمبند کیا .... اس کلام کے ایک ایک بند کو بالخصوص سب سے آخری بند کو غور سے پڑھیں ۔۔۔۔

*************

حسین (ع) :

تجھ پر میرا سلام ہو اے دشت بے گیاہ
میری محبتوں کی عقیدت وصول کر
آیا ہوں رفعتوں کی تمنا لیئے ہوئے
میرا خلوص میری دعائیں قبول کر

کربلا :

اے اجنبی ٹھہر مجھے اتنی دعا نہ دے
پہلے بھی میری خاک ھے نبیوں سے شرمسار
میری حدوں سے جلد گزر جا با احتیاط
میں کربلا ھوں میری تباھی سے ہوشیار

حسین (ع) :

تیرے اجاڑ پن کا میرے پاس ھے علاج
تجھ کو خبر نہیں کہ میں عیسیٰء کا ناز ھوں
میں نے تو بچپنے میں فرشتوں کو پر دیئے
اپنا مرض بتا میں بڑا کارساز ھوں

کربلا :

میرا یہ مشورہ ھے مسافر پلٹ ہی جا
شاید تجھے خبر نہیں میرے جنون کی
گرمی سے جاں بلب ہیں تیرے قافلے کے لوگ
لیکن میری رگوں میں ضرورت ھے خون کی

حسین (ع) :

اے نینوا اداس نہ ھو حوصلہ نہ ہار
لایا ھوں تیرے واسطے پیغام زندگی
میں خود اجڑ کے تجھ کو بساوں گا اس طرح
تیری سحر بنے گی میری شام زندگی

کربلا :

آئے تھے لوگ مجھ کو بسانے کے شوق میں
اک پل میں سب کے صبر کے ساغر چھلک گئے
تو تازہ دم سہی مگر اتنا خیال کر
میری اداسیوں سے پیمبرء بھی تھک گئے

حسین (ع) :

وہ لوگ انبیاء تھے مگر میں امام ہوں
ممکن نہیں کہ دید کے بدلے شنید لوں
تجھ کو سنوارنے کی تمنا بھی ضد بھی ھے
اب طے یہ ہو چکا ھے تجھے میں خرید لوں

کربلا :

ھر چند لا علاج ہیں میری اداسیاں
لیکن یہ حوصلہ یہ محبت کمال ھے
نسخے سبھی درست سہی خواہشیں بجا
میں کیا کروں کہ تو کوئی زہرا کا لال ھے

حسین (ع) :

آہستہ بول اتنی دلیلیں نہ دے مجھے
گستاخیاں نہ کر کہ شہہ مشرقین ھوں
لے اب لگا رہا ھوں تیری خاک پر خیام
اتنا بھڑک رھی ھے تو سن میں حسینء ھوں

محسن نقوی ۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
#محسن_نقوی

بصَد رکُوع و سجود و قیام کہنا ہے
حسین ابنِ علی پر سلام کہنا ہے

زباں کو چاہیے کچھ اعتمادِ خاکِ شفا
ہمیں جبیں کو معلّیٰ مقام کہنا ہے

غمِ حسین میں اک اشک کی ضرورت ہے
پھر اپنی آنکھ کو، کوثر کا جام کہنا ہے

یہ نام کیوں نہ کروں زندگی میں وردِ زباں؟
مجھے لحد میں علی کو امام کہنا ہے!!

بروزِ حشر زیارت نصیب ہو تو ہمیں
علی کے لال سے تھوڑا سا کام کہنا ہے

کہاں تلک نہ سُنے گا کوئی حسین کا ذکر؟
یہ داستاں تو ہمیں صبح و شام کہنا ہے

یہ داغِ ماتمِ شبیر ہے جِسے محسن
اندھیری قبر میں ماہِ تمام کہنا ہے!
 
Top