غم حسین علیہ السلام پر اشعار

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
واللہ کیا عظیم ہے رتبہ حسین کا
اونچا ہے اونچے اونچوں سے درجہ حسین کا
سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیا
ہے کس قدر عجیب یہ جذبہ حسین کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آ گئ شام غریباں اور اندھیرا ہو گیا
اے میرے پیارے چچا

بالیاں جو عید کے دن بابا نے پہنائی تھیں
چھن گئی ہیں بالیاں جل گیا دامن میرا

مجھ کو لگتا ہے سلانے موت ہی اب آئے گی
اب نہیں بابا کا سینہ وہ جو تھا بے سر میرا
اے میرے پیارے چچا

ساتھ بابا کے گئے سب کوئی آتا بھی نہیں
اس اندھیرے بن میں تنہا کس کو دوں بولو صدا
اے میرے پیارے چچا

اس کی آنکھوں سے بھی احسن اشک ہی بہتے رہے
جب یہ کہتی تھی وہ رو کر ہے کہاں بابا میرا
اے میرے پیارے چچا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جب ہاتھ قلم ہو چکے عباس جری کے
نوحہ حسین کرتے ہوئے یہ دشت میں پہنچے
سانسیں ابھی روں تھیں علمدار یہ بولے
محروم زیارت کا سلام اخیر ہے
اک آنکھ میں لہو ہے ، لگا اک میں تیرہے
آقا میرے مولا
میں کیسے اٹھوں آقا میرے ہاتھ نہیں ہیں
پاؤں نہیں چھو سکتا میرے ہاتھ نہیں ہیں
میرے ہاتھ نہیں ہیں

آقا یہ غلامی کا صلہ کیسا دیا ہے
کس پیار سے سر آپ نے زانو پہ رکھا ہے
اٹھ کر سلام کرتا ، میرے ہاتھ نہیں ہیں
میرے ہاتھ نہیں ہیں

گودی میں سکینہ کو اٹھاؤں گا میں کیسے
کس طرح نبھاؤں گا غلامی کے طریقے
میں اس سے ہوں شرمندہ، میرے ہاتھ نہیں ہیں
میرے ہاتھ نہیں ہیں

جب زین سے زمیں کی طرف آنے لگا مولا
نہ کوئی مددگار تھا نہ کوئی سہارا
اس وقت خیال آیا میرے ہاتھ نہیں ہیں
میرے ہاتھ نہیں ہیں

یہ نوحہ غازی سر مجلس جو رضا ہے
ریحان عزا کہتا ہے یہ معجزہ کیا ہے
یہ ہاتھ ہیں غازی کے میرے ہاتھ نہیں ہیں
میرے ہاتھ نہیں ہیں

(کلام: ریحان اعظمی)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بغور سن لے زمانہ حسین ایسے تھے
بقا فنا کو بنایا حسین ایسے تھے
چھری کے نیچے وہ خالق سے پیار کی باتیں
اجل کو ہو گیا سکتہ حسین ایسے تھے

شہید لکھنوی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہزار زخم کھا کے بھی تو سجدہ ریز ہو گیا
یزیدیت مٹا گیا تیرا قیام یا امام
تجھے سلام کر رہے تھے کوہ طور سے کلیم
تو کر رہا تھا نوک نیزہ پر کلام یا امام
سلام لے کے آئے ہیں تیرے غلام یا امام
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جرات انکار بیعیت کربلا والوں سے ہے
میرے خوں میں خوئے غیرت کربلا والوں سے ہے

دین حق کی سربلندی اور بقا کے واسطے
سرفروشی کی روایت کربلا والوں سے ہے

جن کے ذہنوں میں یزیدی فکر طاری ہے ابھی
آج بھی ان کو عداوت کربلا والوں سے ہے

نار سے چل کر وہ خود ہی نور تک آئے مگر
دوجہاں میں حر کی حرمت کربلا والوں سے ہے

ہر مریض لادوا کو بھی شفا دیتی ہے جو
کربلا کی وہ کرامت کربلا والوں سے ہے

کوئی پوچھے گا اگر تہذیب سے راز سخن
وہ کہے گا یہ مہارت کربلا والوں سے ہے

تہذیب
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
محبوب کبریا کے نواسے حسین تک
اشکوں نے پھر سفر کیا پیاسے حسین تک

پشت رسول کیا تہہ خنجر بھی دیکھنا
سجدے کا فاصلہ ہے خدا سے حسین تک

کاوش کرے جو زخم تو مرحم سے اس طرف
سو معجزے ہیں خاک شفا سے حسین تک

اصغر کو ماں کی گود سے پیاری ہے کربلا
پہنچا یہ پھول اور ادا سے حسین تک

تاریخ چپ رہی تو لہو بولتا رہا
زندہ ہے عشق کرب و بلا سے حسین تک

طالب حسین طالب
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بجھے سارے وہ خنجر بولنے والے
پر روشن ہیں کٹے وہ سر بولنے والے
ہوئے خاموش تو پھر جا بجا بولے
وہ پروانے برابر بولنے والے
یہ سچ ہے کاروان شاہ بطحا میں
بہت سے لوگ تھے پر بولنے والے
پڑا جب وقت تو لاکھوں میں ارشد
یہی تھے بس بہتر بولنے والے

ارشد ملک
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
رنگین ہے جس خون سے اسلام کا دامن وہ عہد ہے روشن
پیشانی دیں پر ہے چمکتی ہوئی تحریر، قربانی شبیر

بغید آذر
 
Top