غم حسین علیہ السلام پر اشعار

سیما علی

لائبریرین
لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ جسکی ایک ضرب سے، کمالِ فنّ ِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

دلاوری میں فرد ہے، بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جس کے دبدبے سے رنگ دشمنوں کا زرد ہے
حبیبِ مُصطفیٰ ہے یہ، مجاہدِ خدا ہے یہ
جبھی تو اس کے سامنے، یہ فوج گرد گرد ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط اِمام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

حفیظ جالندھری
 

سیما علی

لائبریرین
یہ چاند نکلا مُحرم کا ، روشنی ھے ابھی
حسین ع زندہ ھے دنیا میں زندگی ھے ابھی
*
ابھی تو قافلہ کرب و بلا میں پہنچا نہیں
مری سکینہ ع کے چہرے پہ تازگی ھے ابھی
*
علی ع کی بیٹی ابھی ھے امیر دیکھو ذرا
وہ اپنے عون و محمٌد ع کو چُومتی ھے ابھی
*
ابھی تو لیلیٰ ع نے اکبر ع سے کچھ کہا ہی نہیں
وہ کیسے بیٹا کہے گی یہ سوچتی ھے ابھی
*
ابھی تو خیمے میں پانی ھے،ماں کا حال ھے یہ
وہ پیاسا سونے سے قاسم ع کو روکتی ھے ابھی
*
ابھی تو زینبِ کبریٰ ع کے لعل بھی ہیں وہاں
مرا حسین ع کہاں ھے یہ پوچھتی ھے ابھی
*
حُسینی فوج کا جرنیل سامنے ھے ابھی
رُقیہ ع غازی ع کا صدقہ اُتارتی ھے ابھی
*
ابھی ھے زینب و کُلثوم ع کے سروں پہ ردا
خیام جلنے میں لگتا ھے دیر سی ھے ابھی
*
یہ چاند کس لیے نکلا ھے کربلا میں بتول ؟
رُباب ع چُوم کے اصغر ع کو دیکھتی ھے ابھی
*
(فاخرہ بتول نقوی)
 

سیما علی

لائبریرین
بول اے یزیدیت کے نمک خوار کچھ تو بول
ہارا ہے کون، جیت ہے کس کی زباں تو کھول
اپنی جفا بھی دیکھ، ہماری وفا بھی دیکھ
تاریخ سے بھی پوچھ حقائق کو بھی ٹٹول

نامِ حُسينؑ نقش ہے حبل الورید پر
لعنت ہی کر رہا ہے زمانہ یزید پر...

- محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
ایک آسمانِ شہادت حُسین ہے کہ نہیں
بتاؤ دین کی عظمت حُسین ہے کہ نہیں
مٹانے والوں سے پوچھو جو مٹ گئے خود ہی
جہاں میں اب بھی سلامت حُسین ہے کہ نہیں
جب اُن کے سائے میں اسلام ہے تو شک کیوں ہے
نبی کا سایہء رحمت حُسین ہے کہ نہیں
یہ مرتضیٰ کے درِعلم کے ولی ہیں تو پھر
امامِ علم و ذہانت حُسین ہے کہ نہیں
تمام رنگ علی اور نبی کے ہیں منظر
سراپا حق و صداقت حُسین ہے کہ نہیں

(منظر بھوپالی)
 

سیما علی

لائبریرین
بحضور امام حسین علیہ السلام

اے مرے سربريدہ ، بدن دريدہ
سدا ترا نام برگزيدہ
ميں کربلا کے لہو لہو دشت ميں تجھے
دشمنوں کے نرغے ميں ، تيغ در دست ديکھتا ہوں
ميں ديکھتا ہوں
کہ تيرے سب رفيق ، سب ہمنوا، سبھی جانفروش
اپنے سروں کی
فصليں کٹا چکے ہيں
گلاب سے جسم اپنے خوں ميں نہا چکے ہيں
ہوائے جانکا کے بگولے
چراغ سے تابناک چہرے بجھا چکے ہيں
مسافران رہ وفا لٹ لٹا جا چکے ہيں
اور اب فقط تو
زمين کے اس شفق کدے ميں
ستارہ صبح کی طرح
روشنی کا پرچم لئے کھڑا ہے
يہ ايک منظر نہيں
اک داستاں کا حصہ نہيں
اک واقعہ نہيں
يہيں سے تاريخ اپنے تازہ سفر کا آغاز کر رہی ہے
يہيں سے انسانيت
نئی رفعتوں کو پرواز کر رہی ہے
ميں آج اسی کربلا ميں بے آبرو ، نگوں سر،شکست خوردہ، خجل کھڑا ہوں
جہاں سے ميرا عظيم ہادی
حسين ع کل سرخرو گيا ہے
ميں جاں بچا کر ، فنا کے دلدل ميں جاں بلب ہوں
وہ جاں لٹا کر
منارہ عرش چھو گيا ہے

احمد فراز
 

سیما علی

لائبریرین
‏میدانِ کربلا:

صحرا پہ ہرطرف شہِؐ دیں نے نگاہ کی
سب تھم گئی سپاہ شہِؐ کم سپاہ کی
فرمایا آج چُھٹ گئے ایذا سے راہ کی
ہاں اب پسند کر لو جگہ خیمہ گاہ کی
آگے کہیں نہ جائیں گے اس ارض پاک سے
الفت ہماری خاک کو ہے یاں کی خاک سے

‎#میرانیس
 

سیما علی

لائبریرین
جہاں میں سلسلہ چشم تر حسین ع کا ہے
ہیں اشک لوگوں کے لیکن اثر حسین ع کا ہے

تو چھوٹی چھوٹی عزاداریوں سے خایف تھا
اب آ کے دیکھ یہ سارا نگر حسین ع کا ہے

انہوں نے پھر محمد ص سمجھ کے مارا اسے
اگرچہ انکو پتہ تھا پسر حسین ع کا ہے

ہمارے صبحوں کا نام علی ع سے ہے آغاز
پھر اس کے بعد تو اک اک پہر حسین ع کا ہے

مری خاموشی کو پہچان کر وہ کہتے تھے
یہ چپ ضرور کھڑا ہے مگر حسین ع کا ہے

کسی نے پوچھا کہ ہے عرش و فرش بھی کس کے
جواب آیا کہ زیر و زبر حسین ع کا ہے

سید فرحت عباس شاہ
 

سیما علی

لائبریرین
‏جب کربلا میں داخلۂ شاہِ دیں ہوا
دشتِ بَلا نمونۂ خُلدِ بریں ہوا
سر جُھک گیا فلک کا یہ اوجِ زمیں ہوا
خورشید محوِ حُسنِ حسینؐ حَسیں ہوا
پایا فروغ نیّرِ دیں کے ظہور سے
جنگل کو چاند لگ گئے زہراؐ کے نور سے

‎#میرانیس
 

سیما علی

لائبریرین
سلام بحضور امام عالی مقام علیہ السلام

جہاں میں سلسلہِ چشمِ تر حسینؑ کا ہے
ہیں اشک لوگوں کے لیکن اثر حسینؑ کا ہے

ازل ابد کے مراسم سے یہ ہوا معلوم
نظام شمس و قمر، بحر و بر حسینؑ کا ہے

کہ حر کو حر ہی نہ رہنے دے اور بنا بھی دے
اصول، علت و معلول پر حسینؑ کا ہے

وہ چھوڑ چھاڑ کے دربار شام کا لشکر
ادھر کو چل پڑا قبلہ جدھر حسینؑ کا ہے

پچھاڑتا یت جو قاتل کو اس کی فتح پر
ضمیر ظلم یہی تو ہنر حسینؑ کا ہے

وہ جس نے موت پہ قادر بنا دیا سجدہ
یداللہ کہتے ہیں جس کو پدر حسینؑ کا ہے

تو صرف خیبر و خندق کی بات کرتا ہے
اُحد حسینؑ کا غزوہ، بدر حسینؑ کا ہے

ہماری صبحوں کا نامِ علیؑ سے ہے آغاز
پھر اس کے بعد تو اک اک پہر حسینؑ کا ہے

مجھے یہ راز سمجھ آ گیا ہے اے لوگو
خدا اور ا س کے پیمر کا در حسینؑ کا ہے

سجود آئے ہوئے ہیں برائے استقبال
یہاں سے آج یقیناً گزر حسینؑ کا ہے

وگرنہ راکھ سوا کچھ نہیں کسی جانب
اگر کہیں کوئی ہے تو شرر حسینؑ کا ہے

کرے گا کوئی اسی صف میں آئے گا کیونکہ
یہ انقلاب تو یارو ڈگر حسینؑ کا ہے

کوئی ہوا نہ ہوا تاج و تخت کے باعث
غلام حشر تلک معتبر حسینؑ کا ہے

وہاں ملامتِ کُل اور یہاں رضائے خدا
اُدھر یزید کا لشکر ادھر حسینؑ کا ہے

یہ مسجدیں ہیں جو آباد آج سجدوں سے
ترا کرم سہی مولا، ثمر حسینؑ کا ہے

کہا خدایا ترا عبد کون ہے آخر؟
صدا یہ آئی کہ جو بھی بشر حسینؑ کا ہے

کسی نے پوچھا کہ ہیں عرش و فرش بھی کس کے
جواب آیا کہ زیر و زبر حسینؑ کا ہے

کہا کہ مولا تری کائنات کس کے لیے؟
تو ہنس کے بولے سبھی مال و زر حسینؑ کا ہے

کہا کہ مولا تری کہکشائیں کیا ہیں بھلا؟
اداس ہو کے کہا بام و در حسینؑ کا ہے

جو ہم نے پوچھا سجاتے ہو عرش جبرائل
تو احترام سے بولے گزر حسینؑ کا ہے

براقً طاقت پرواز ہے کمال تری
براق بولا کہ سب بال و پر حسینؑ کا ہے

ہے جچ رہی مجھے اپنے لیے یہی تقسیم
کہ دل علیؑ کا ہوا اور سر حسینؑ کا ہے

ہے جاں حسینؑ کی، یہ میری جاں حسین کی ہے
وہ دل حسین کا، باردگر حسینؑ کا ہے

مری خموشی کو پہچان کر وہ کہتے تھے
یہ چپ ضرور کھڑا ہے مگر حسین کا ہے

یہ دین رستہ ہے اللہ کا اور ا س پہ فقط
قدم رسول کے ہیں اور سفر حسینؑ کا ہے

یزیدیت ترے ماتھے پہ جو پسینہ ہے
خدا کا خوف نہیں ہے یہ ڈر حسینؑ کا ہے

تُو چھوٹی چھوٹی عزاداریوں سے خائف تھا
اب آ کے دیکھ یہ سارا گر حسینؑ کا ہے

وہ سایہ دار، ثمر ور شجر حسینؑ کا ہے
جو آ رہا ہے اکیلا نظر، حسینؑ کا ہے

یہاں کبھی رہا کرتے تھے آسماں والے
وہ جس پہ تالے پڑے ہیں وہ گھر حسینؑ کا ہے

اسے سجا لے پلک پر دکھا زمانے کو
یہ عام آنسو نہیں نامہ بر حسینؑ کا ہے

ہے حوصلے میں سبھی بیٹیاں محمدؐ کی
ہر ایک طفل بھی سینہ سپر حسینؑ کا ہے

یہ جنگجو یہ جو شہ رگ سے تیر توڑتا ہے
یہ شیر خوار مجاہد گہر حسینؑ کا ہے

اٹھارہ سال کا کڑیل جواں علی اکبر
ہے اپنی ماں کا دل و جاں، جگر حسینؑ کا ہے

انہوں نے پھر بھی محمد سمجھ کے مارا اُسے
اگرچہ ان کو پتا تھا پسر حسینؑ کا ہے

یہ جس نے لے لیا زخموں کی اوٹ میں شہ کو
یہ اسپِ شیر ببر، بے خطر حسینؑ کا ہے

نہیں ہے کوئی ضرورت کسی عدالت کی
تمہارے ہاتھ میں خنجر ہے، سر حسینؑ کا ہے

سکینہ بابا کو کربل میں ڈھونڈنے نکلیں
نہ پوچھ اس پہ جو چھلنی جگر حسینؑ کا ہے

مجھے یہ حکم ملا، شاعرِ امام لکھو
یہ خاندان جو ہے در بدر حسینؑ کا ہے

لکھو کہ فاطمہ بازار شام میں آئیں
کہا کہ بابا یہ دیکھو یہ سر حسینؑ کا ہے

عجیب شان سے زندان شام ہے روشن
کہ جو اسیر ہے نور نظر حسینؑ کا ہے

جہاں دعائیں سبھی مستجاب ہوتی ہیں
جہاں سے ملتا ہے سب کچھ وہ در حسینؑ کا ہے

مرا پرندہِ دل مارا مارا پھرتا رہے
پلٹ کے آئے گا فرحت اگر حسینؑ کا ہے

فرحت عباس شاہ
 

سیما علی

لائبریرین
وفا جس کا پڑھے کلمہ ، اُسے عباس کہتے ہیں
جسے سجدے کریں سجدہ ، اُسے عباس کہتے ہیں
جو ہے شبیر کی قوت ، علی کو ناز ہے جس پر
سے زہرا کہیں بیٹا ، اُسے عباس کہتے ہیں
اٹھے طوفاں چلے آندھی ، زمیں گردش کرے پھر بھی
رہے اونچا علم جس کا ، اُسے عباس کہتے ہیں
جو پتھر پر علم گاڑھے ، اُسے کہتے ہیں سب حیدر
علم گاڑھے جو پانی پر ، اُسے عباس کہتے ہیں
علی کا خوں زہرا کی دعا حسن کی چاہت
بنے ان سب سے جو مل کر ، اُسے عباس کہتے ہیں
وہ پیاسا ‘ پیاس نے جس کی کیا سیراب دریا کو
ہے جس کی پیاس بھی دریا ، اُسے عباس کہتے ہیں
لگائے جو بغیر تیغ کے انبار لاشوں کے
جو ہے پیکر شجاعت کا ، اُسے عباس کہتے ہیں
جو تھا شبیر کا خادم مگر سب صاحبان دل
اُسے آقا اُسے مولا ، اُسے عباس کہتے ہیں
 

سیما علی

لائبریرین
جب رن میں سر بلند علی کا علم ہوا
فوجِ خدا پہ سایۂ ابرِ کرم ہوا

چرخ زبر جدی پے تسلیم خم ہوا
پنجے پہ سات بار تصدق حشم ہوا

دیکھا نہ تھا کبھی جو علم اس نمود کا
دونوں طرف کی فوج میں غل تھا درود کا

میر انیس
 

سیما علی

لائبریرین
قربان احتشام علمدار نام ور
رخ پر جلالت شہ مرداں تھی سر بسر

چہرہ تو آفتاب سا اور شیر کی نظر
قبضے میں تیغ بر میں زرہ دوش پر سپر

چھایا تھا رعب لشکرِ ابنِ زیادؔ پر
غل تھا چڑھے ہیں شیر الٰہی جہاد پر

میر انیس
 

سیما علی

لائبریرین
عباس نام ور بھی عجب سج کا ہے جوان
نازاں ہے جس کے دوشِ منور پہ خود نشان

حمزہ کا رعب صولت جفرؔ علی کی شان
ہاشم کا دل حسین کا بازو ، حسن کی جان

کیوں کر نہ عشق ہو شہ گردوں جناب کو
حاصل ہیں سیکڑوں شرف اس آفتاب کو

میر انیس
 

سیما علی

لائبریرین
اے زمین کربلا اے آسمان کربلا
تجھ کو یاد آتے تو ہوں گے ر فتگان کربلا

کر رہے ہیں ذکر ان کے حق کو پہچانے بغیر
سلسلے باطل کے اور زعم بیان کربلا

کچھ بریدہ بازوؤں والے نے لکھی ریت پر
کچھ کہانی کہہ گیا اک بے زبان کربلا

اپنے اپنے زاویے سے اپنے اپنے ڈھنگ سے
ایک عالم لکھ رہا ہے داستان کربلا

مصحف ناطق تلاوت کر رہا تھا وقت عصر
سن رہے تھے خاک پر آسود گان کربلا

ٹھوکروں میں ہے شکوہ و شوکت دربار شام
کوئی حر کے دل سے پوچھے عزوشان کربلا

استغاثے کی صدا آتی ہے اٹھو افتخار !
استغاثہ جس میں شامل ہے اذان کربلا

افتخار عارف
 

سیما علی

لائبریرین
مسدس بعنوان {کربلا}

بقلم جناب بلال کاظمی صاحب

میں بلندی ہوں مجھے کرب وبلا کہتے ہیں دل کعبہ کے دھڑکنے کی صدا کہتے ہیں

شہ معراج بھی معراج بقا کہتے ہیں میں وہ خطہ ہوں جسے عرش علا کہتے ہیں

تخت بلیقس کی توقیر میری خاک میں ہے
اب سلیماں بھی میری سرحد املاک میں ہے

چشمۂ زمزم مکہ کی روانی میں ہوں جس سے مشہور ہے کعبہ وہ کہانی میں ہوں

پر کشش وجہ براہیم کا پانی میں ہوں دور ہے جس سے بڑھاپا وہ جوانی میں ہوں

جو مجھے چھوڑ کے کعبہ پہ نظر کرتا ہے
کاغذی ناؤ سے پانی پہ سفر کرتا ہے

زینت رفعت طوبی ہے پھریرہ میرا سب کے آنگن میں اترتا نہیں سایہ میرا

جنتیں کرتا ہے تخلیق پسینہ میرا ذہن مفلوج کہاں سمجھے گا رتبہ میرا

عرشۂ منبر الہام صدا دیتاہے
میرے عرفان کی توفیق خدا دیتا ہے

چشمۂ و منبع اسرار حرم مجھ سے ہے لوح محفوظ ہے مجھ سے یہ قلم مجھ سے ہے

صفوت و شوکت و اجلال و حشم مجھ سے ہے سجدہ گاہوں کے تقدس کا بھرم مجھ سے ہے

جو یہ کہتا ہے مری خاک پہ سجدہ نہ کرو
وہ ہے کوفے کا خمیر اس پہ بھروسہ نہ کرو

میرے دیدار میں کرتے ہیں فرشتے تعجیل مجھ سے ملتے ہوئے جاتے ہیں نجف کو جبریل

چودہ صدیوں سے ہے زہرا کا پسر میرا کفیل زاہد تنگ نظر سن میری عظمت کی دلیل

بر سر قبر شہ جن و بشر رکھا ہے
میری مٹی پہ رسولوں نے بھی سر رکھا ہے

خواب غفلت کے درندے سوئے تعبیر نہ دیکھ قید ظلمت کے مکیں نور کی زنجیر نہ دیکھ

قوم موسی کے مقلد میری تنویر نہ دیکھ چشم تشکیک و تحیر میری تصویر نہ دیکھ

مجھ میں امکان بہکنے کا نہیں رہتا ہے

میرے سائے میں رسولوں کا یقیں رہتا ہے

مجھ سے صحراؤں کے طوفان لرزتے تھے مگر مجھ میں وہ ہو تھا کہ حیوان لرزتے تھے مگر

طائران فلک الحان لرزتے تھے مگر کل بہاروں کے گلستان لرزتے تھے مگر

جب سے شہ نے میرے سینے پہ قدم رکھا ہے
حق پسندوں نے میرا نام ارم رکھا ہے

عاشق بارگہ آل نبی جانتا ہے شہ ایماں کے مقدر کا دھنی جانتا ہے

کنز مخفی ہے بانداز جلی جانتا ہے اس حقیقت کو فقط حر جری جانتا ہے

میری دولت میری شہرت میری جاگیر حسین
میں زمانے کا مقدر میری تقدیر حسین

کھا رہی ہوں قسم حضرت عباس جری میرے احسان کی مقروض ہے ہر ایک صدی

ہے گواہی کے لیے مولد سرکار علی ساری دنیا کی زمینیں ہیں کنیزیں میں میری

حق کی میزان میں فضہ کے مساوی ہوں میں

شاہ والا کی خریدی ہوئی لونڈی ہوں میں

حسن پیرائہ اظہار پہ حیرت نہ کرو نہ کرو لہجۂ انکار پہ حیرت نہ کرو

مظہر لوح پر اسرار پہ حیرت نہ کرو میری شیرینی گفتار پہ حیرت نہ کرو

عصر کے وقت تبسم بھری تقریر نے دی
میں تو گونگی تھی زباں اصغر بے شیر نے دی

دم بدم مصر کے بازار کے آتے ہیں سلام میرے دیدار کو آتے ہیں رسولان انام

یوسفان شہ مظلوم کا مجھ میں ہے قیام علی اکبر ہے زمانے میں میرے حسن کا نام

ساری دنیا سوئے جنت بشرف دیکھتی ہے
اور جنت میرے چہرے کی طرف دیکھتی ہے

ظرف رکھتے ہو تو پھر جان لو رتبہ میرا بر سر گلشن فردوس ہے سایہ میرا

طور سینا سے بہت آگے ہے جلوہ میرا کیوں نہ فرش غم ہجرت ہو قصیدہ میرا

مرکز خوشبوئے آغوش پیمبر میں ہوں
جس پہ نیند آئی ہے سرور کو وہ بستر میں ہوں
 

Mir Bilal Mir

محفلین
مرتضیٰ کی یہ صدا آتی تھی شاباش حسین
ماں تکلم بھی کہے جاتی تھی شاباش حسین
جد کا پیغام ہوا لاتی تھی شاباش حسین
ذاتِ واجب بھی کہے جاتی تھی شاباش حسین

داد دیتے تیرے اجداد بھی ایسا لڑتا
میں بدن رکھتا تو بلکل تیرے جیسا لڑتا
 
Top