غم حسین علیہ السلام پر اشعار

سیما علی

لائبریرین
گُلُو کہ با خبرِ طوق تھا سو اُف بھی نہ کی
کہاں سنا تھا کہ آواز صبر کرتی ہے

نصیرؔ اُس شہِؑ تشنہ لباں کی خدمت میں
سلام مستقلاً روحِ عصر کرتی ہے

نصیر ترابی
 

سیما علی

لائبریرین
مجروح پھر ہے عدل و مساوات کا شعار
اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ انتشار

پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر یار
پھر کربلائے نو سے ہے نوعِ بشر دو چار

اے زندگی جلالِ شہِ مشرقین دے
اس تازہ کربلا کو بھی عزمِ حسینؑ دے
جوش ملیح آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
قائم رہے سروں پہ رِدائے غمِ حُسَین
مولا نہ کوئی غم دے سوائے غمِ حُسین

کچھ کہہ رہی ہے شامِ غریباں کی خامُشی
رہ رہ کے آ رہی ہے صدائے غمِ حُسَین

اُس آنکھ کو تو آنکھ نہیں، بے حِسی کہو
جس آنکھ کو لہُو نہ رُلائے غمِ حُسَین

رو رو کے چاہے آنکھوں کی بینائی کھو بھی جائے
پھر بھی عطا ہوں آنسو برائے غمِ حُسَین

اس کیفیت میں ردِ بلا کا ہے معجزہ
دُنیا کے سب غموں سے بچائے غمِ حُسَین

رحمان فارس 🖤
 

سیما علی

لائبریرین
اٹھا کے ہاتھ میں عزم حسین کا پرچم
’’ حسین والے زمانے میں چھائے جاتے ہیں ‘‘

یہ نورؔ انکا کلیجہ تھا ظلم سہہ سہہ کر
غموں کے سیل میں بھی مسکرائے جاتے ہیں
  • سید محمد نور الحسن نور عزیزی
 

سیما علی

لائبریرین
آئے ہیں اصغر کو لیکر بخششِ اُمت کو شاہ
بے زباں کے خون کی شاید ضرورت ہوگئی
خون میں ڈوبے ہوئے اصغر ہیں شہہ کی گود میں
اے قمر کیا چاند سی صورت کی صورت ہوگئی
اُستاد قمر جلالوی
 

سیما علی

لائبریرین
غریب و بیکس و مظلوم و تشنہ کام سلام
علی کے چاند نبی کے مہہ تمام سلام
اثر ہے یہ تیرے اک کربلا کے سجدے کا
نماز ہوگئی قائم میرے امام سلام
قصیدہ پڑھنے جو بیٹھا میں بزم ساقی میں
تو میکشوں میں اُٹھا غل قمر سلام سلام
اُستاد قمر جلالوی
 

سیما علی

لائبریرین
میدان میں عجب شان سے وہ شیر نر آئے
‏گویا کہ بہم حیدرؑ و جعفر ع نظر آئے

‏غل پڑ گیا حضرتؑ کی بہنؑ کے پسر آئے
‏افلاک سے بالائے زمیں دو قمر آئے

‏یوسف سے فزوں حسنِ گراں مایہ ہے ان کا
‏یہ دھوپ بیاباں میں نہیں سایہ ہے ان کا

‏(میر انیس رح)
 

رباب واسطی

محفلین
حُسین ایماں کی جستجو ہے
حُسین یزداں کی آبرو ہے
حُسین تنہا تھا کربلا میں
حُسین کا ذکر چار سو ہے
حُسین کا حوصلہ نہ پوچھو
حُسین لُٹ کر بھی سُرخرو ہے
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
والد۔صاحب کے کچھ ( ایک سلام میں سے نامکمل ) اشعار

سید خورشید علی ضیا عزیزی .

مرے غم خانہ,دل لی تمنا اور کیا ہوتی
فقط میری جبیں ہوتی' زمین,کربلا ہوتی .
ٹھکانہ کر گیا اس کا حسینی کارواں' ورنہ
بھٹکتی آج دنیا میں کہیں صدق و صفا ہوتی . --------------------
ضیا ساحل پہ بیٹھا رورہا ہوں اپنی قسمت پر
مری کشتی بھی غرق, موجہ, کرب و بلا ہوتی .
 

سیما علی

لائبریرین
سلام بحضور امام حسین علیہ السلام

السّلام اے نُورِ اوّل کے نشاں
السّلام اے راز دارِ کُن فکاں

السّلام اے داستانِ بے کسی
السّلام اے چارہ سازِ بے کساں

السّلام اے دستِ حق، باطل شکن
السّلام اے تاجدارِ ہر زماں

السّلام اے رہبرِ علمِ لَدُن
السّلام اے افتخارِ عارفاں

السّلام اے راحتِ دوشِ نبی
السّلام اے راکبِ نوکِ سناں

السّلام اے بوترابی کی دلیل
السّلام اے شاہبازِ لا مکاں

السّلام اے ساجدِ بے آرزو
السّلام اے راز دارِ قُدسیاں

السّلام اے ذوالفقارِ حیدری
السّلام اے کشتۂ تسلیمِ جاں

السّلام اے مستیٔ جامِ نجف
السّلام اے جنبشِ کون و مکاں

السّلام اے رازِ قرآنِ مبیں
السّلام اے ناطقِ رازِ نہاں

السّلام اے ہم نشینِ ریگِ دشت
السّلام اے کج کلاہِ خسرواں

السّلام اے دُرِ دینِ مُصطفٰی
السّلام اے معدنِ علمِ رواں

السّلام اے گوہرِ عینِ علی
دینِ پیغمبر کے عنوانِ جلی
 

سیما علی

لائبریرین
سلام مرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دشت میں شام ہوتی جاتی تھی
ریت میں بُجھ رہی تھیں وہ آنکھیں
جن کو اُنؐ کے لبوں نے چوما تھا
(جن کی خاطر بنے یہ ارض و سما)
پاس ہی جل رہے تھے وہ خیمے
جن میں خود روشنی کا ڈیرا تھا

ہر طرف تھے وہ زخم زخم بدن
جن میں ہر ایک تھا گہرکی مثال
قیمتی، بے مثال ، پاکیزہ
دیکھ کر بے امان تیروں میں
ایک چھلنی ، فگار، مشکیزہ
رک رہا تھا فرات کا پانی
وقت اُلجھن میں تھا ، کدھر جائے
پھیلتے جا رہے تھے ہر جانب
بے کراں درد کے گھنے سائے
جن میں لرزاں تھی ایک حیرانی
جو کہ گمنام ہوتی جاتی تھی
دشت میں شام ہوتی جاتی تھی


پھر اُسی شام کے تسلسل میں
شام والوں نے ، اہلِ کوُفہ نے
جلتے خیموں سے دربدر ہوتی
روشنی کا جلوس بھی دیکھا!
خاک اور خون میں تھیں آلودہ
اُن جبینوں کی چادریں کہ جنھیں
چاندنی چھپ کے ملنے آتی تھی
وہ حیا دار تھی نظر اُن کی
جس کا سب احترام کرتے تھے
خاک برسر، برہنہ پا، خاموش
چل رہی تھیں وہ بیبیاں ، جن کے
معتبر ، بے مثال شجرے کو
جُھک کے تارے سلام کرتے تھے

شہر کے راستوں کے گِردا گِرد
ہر طرف تھا ہجوم لوگوں کا
خُوگرِ ظلم ، سنگ دل، قاتل
تختِ ابلیسیہ کے کارندے
سب کی آنکھوں کے سامنے ان کو
پا بہ زنجیر کھینچے جاتے تھے

امجد اسلام امجد
 

سیما علی

لائبریرین
سیاہ بخت سے لمحوں کے کیا نصیب ہوئے
ترے لہو کی لپک سے ضیا نصیب ہوئے

مہ و نجوم محرم کے پہلے عشرے کے
فنا کی اَور سے نکلے، بقا نصیب ہوئے

عجیب تیرگی ظلمت کدے میں پھیلی تھی
حریف نور کے سارے خطا نصیب ہوئے

ضمیر جاگا تو اس کی پکار پر حُر بھی
بتانِ وقت سے چھوٹے، خدا نصیب ہوئے

کٹے تھے بازؤےعباس، مشک چھلنی تھی
مگر وہ اس پہ بھی خوش تھے، وفا نصیب ہوئے

کھلا تھا دشت مگر پھر بھی سانس گھٹتا تھا
مشامِ جاں سے ترے دم، ہوا نصیب ہوئے

کنارِ آب تھا معصوم تشنہ لب اصغر
فرات تیرے مقدر نہ بانصیب ہوئے
علی اصغر عباس
 

جاسمن

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔ سلام ۔۔۔۔۔۔

جو اہلِ بیت کا دل سے غلام ہونے لگے
اُسی کا دونوں جہانوں میں نام ہونے لگے

"حسینُ مِنی و انا من الحسین" ہے یار
میں نعت کہنے لگوں تو سلام ہونے لگے

حسین دوشِ محمد پہ جب سوار ہوئے
طویل سجدے ہوئے، کم قیام ہونے لگے

پڑھا درود ، پڑھیں جب بخاری و مسلم
تو اہلِ بیت علیہ سلام ہونے لگے

مِرے حسین کے جیسا کوئی سخنور نئیں
جو نوکِ نیزہ پہ بھی ہم کلام ہونے لگے

میں اُن کے دھیان میں گم سُم نکل پڑا گھر سے
یقین مانیے خود میرے کام ہونے لگے

نمازِ فجر کی تسبیح میں مِرے شہباز
مدینہ دھیان میں آئے تو شام ہونے لگے

شہباز نیّر
 

سیما علی

لائبریرین
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حُسینؑ زُبدۂ نسلِ رَسُول، اِبنِ رَسُولؐ
علیؑ کے لاڈلے، زَہراؑ کے پُھول، اِبنِ رَسُولؐ

حَسنؑ حُسینؑ ہی اَبْنَاءَنَا کے ہیں مِصداق
کہے گا اِن کو ہر اِک با اصُول، اِبنِ رَسُولؐ

رواں ہر آنکھ سے اطفالِ اشک پُرسے کو
تِرے لیے دِلِ عالم مَلُول، اِبنِ رَسُولؐ

تِرا وجُود ہے خود آیهࣨ مّنَ الآیات
ہے کربلا تِری شانِ نُزول، اِبنِ رَسُولؐ

اگر تُو دوشِ رسالت پہ کھیلنا چاہے
تو دیں رَسُولؐ بھی سجدے کو طُول، اِبنِ رَسُولؐ

تِرے خلُوصِ عمل سے سبق نہ سیکھ سکے
یہ دِیں فروش، یہ اُجرت وصُول، اِبنِ رَسُولؐ

رَسُولؐ بند نہ کرتے اگر یہ دروازہ
خُدا گواہ، تُو ہوتا رَسُول، اِبنِ رَسُولؐ

تُجھے عَدُو بھی مِلا تو عجیب سِفلہ مزاج
نہ کوئی شرم، نہ کوئی اصُول، اِبنِ رَسُولؐ

یہ قیصری تِرے پائے غَیُور کا دھوون
یہ سِیم و زر تِرے قدموں کی دھُول، اِبنِ رَسُولؐ

ہے تیرا بیتِ امامت مِرے جنُوں کا مطاف
جبینِ عجز کا سجدہ قبُول، اِبنِ رَسُول

نصِیرؔ کو نہ اُٹھانا اب اپنی چوکھٹ سے
بحقّ فاطمہ زَہراؑ بَتُول، اِبنِ رَسُولؐ

مہک اُٹھا ہے نصِیرؔ اِن کے دم سے باغِ جہاں
حَسنؑ حُسینؑ ہیں زَہراؑ کے پُھول، اِبنِ رَسُولؐ ۔

سیّدپِیرنصِیرالدّین نصِیرؔ جیلانی
 
Top