غم حسین علیہ السلام پر اشعار

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
وہ رات جب امام کی گونجی تھی یہ صدا
اے دوستان صادق و یاران باصفا
باقی نہیں رہا ہے کوئی اور مرحلہ
اب سامنا ہے موت کا اور صرف موت کا
آنے ہی پر بلائیں ہیں اب تحت و فوق سے
جانا جو چاہتا ہے چلا جائے شوق سے

اور سنتے ہی یہ بات بصد کرب و اضطراب
شبیرؑ کو دیا تھا یہ انصار نے جواب
دیکھیں جو ہم یہ خواب بھی اے ابن بوترابؑ
واللہ فرط شرم سے ہوجائیں آب آب

قرباں نہ ہو جو آپ سے والا صفات پر
لعنت اس امن و عیش پہ تف اس حیات پر

کیا آپ کا خیال ہے یہ شاہ ذی حشم
ہم ہیں اسیر سود و زیاں صید کیف و کم
خود دیکھ لیجئے گا کہ گاڑیں گے جب قدم
ہٹنا تو کیا ہلیں گے نہ دشت و غا سے ہم
پتلے ہیں ہم حدید کے پیکر ہیں سنگ کے
انساں نہیں پہاڑ ہیں میدان جنگ کے
جوش ملیح آبادی
بے شک، بے شک
کربلا اسباب کی جنگ نہ تھی بلکہ ایمان اور حوصلے کی جنگ تھی۔ جس میں بلا شبہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا ساتھ دینے والوں کے ساتھ مل کر اپنے نانا صلی اللہ علیہ و سلم کے دین کے پرچم کو سربلند کیا۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا ساتھ دینے والوں کے ساتھ مل کر اپنے نانا صلی اللہ علیہ و سلم کے دین کے پرچم کو سربلند کیا۔
میدان کربلا میں خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و اصحابِ امام کی جانثاری بے مثال ہے ۔۔اللہ کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے حیات جاوداں پالیتے ہیں اسی لئے کہاگیا کہ اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کو مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
جن کا جھولا فرشتے جھلاتے رہے
‏لوریاں دے کے نوری سلاتے رہے
‏جن کو کاندھوں پہ آقا ﷺ بٹھاتے رہے
‏اس حسین ابن حیدر علیہ السلام پہ لاکھوں سلام
 

سیما علی

لائبریرین
سر لوح آب لکھا ہوا، کسی تشنہ مشک کا ماجرا
‏سر فرد ریگ لکھی ہوئی، کوئی داستاں ہو تو لے کے آ

‏میرے مد و جزر کی خیر ہو کہ سفر ہے دجلہ و دہر کا
‏کہیں مثل نام حسین بھی، کوئی بادباں ہو تو لے کے آ

‏نصیر ترابی
 

سیما علی

لائبریرین
حدِ فُرات سے نکلی تو چشم چشم یہ موج
‏بیانِ تَشنہ دہانی کو نشر کرتی ہے

‏نصیر! اُس شہہِ تَشنہ لباں کی خدمت میں
‏سلام، مُستقلاً رُوحِ عصر کرتی ہے

‏(نصیر تُرابی)
 

سیما علی

لائبریرین
یہ جو اک عزا کی نشست ہے، یہ عجب دعا کا حصار ہے
‏کسی نارسا کو تلاش کر، کوئی بے اماں ہو تو لیکے آ
‏یہ عَلم ہے حق کی سبیل کا، یہ عَلم ہے اہلِ دلیل کا
‏کہیں اور ایسی قبیل کا، کوئی سائباں ہو تو لیکے آ
‏نصیر ترابی
 

سیما علی

لائبریرین
اے قوم! وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ
اسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ
کیوں چپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ
تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ
مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہو
لازم ہے کہ ہر فرد حسینؑ ابن علیؑ ہو

جوش ملیح آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
دل و دماغ میں مہر و وفا کے افسانے
تصورات میں روشن فضائے بدر و حُنین

خوشا یہ اوجِ مقدر، زہے یہ عز و شرف
مری زباں پہ جاری ہے آج ذکرِ حُسین

نہ فکر سود و زیاں کی، نہ ذکرِ تیغ و تبر
حُسین، راہِ خدا میں تری یہ بے تابی

بہار گلشنِ اسلام میں پلٹ آئی
کہ تیرے خون سے قائم ہے اس کی شادابی

کہیں بھی اہلِ محبت کی تشنگی نہ بجھی
فرات و نیل کے ساحل سے تا بہ گنگ و جمن

برائے لالہ و گل اجنبی ہے فصلِ بہار
خزاں کے دستِ تصرف میں آگیا ہے چمن

ہر ایک سمت میں عفریت ظلم کے رقصاں
خدا کے دین کا حلقوم ہے تہِ شمشیر

نئے یزید، نئی کربلا ہوئی پیدا
زمانہ ڈھونڈ رہا ہے کوئی نیا شبّیر
مولانا کوثر نیازی
 

سیما علی

لائبریرین
قبر ِشبیر کو چھو کر جو ھوا آتی ھے
اس میں لپٹی ھوئ زھرا کی دعا آتی ھے
ھم عزاداروں کے دل جیسے عزا خانے ھیں
ھر گھڑی ھائے` حسینا کی صدا آتی ھے

صفدر ہمدانی
 

سیما علی

لائبریرین
کوئی چراغ تخیل نہ میری راہ میں رکھ
بس اک سلام کا گوہر میری کلاہ میں رکھ

اگرچہ تو کسی سچائی کا مورخ ہے
یزید عصر کو بھی دفتر سپاہ میں رکھ

بکھیر صفحہء قرطاس پر لہو کے حروف
قلم سنبھال کے مت دل کی خانقاہ میں رکھ

سمجھ سکے جو شہیدان حق کی تاجوری
جبین عجز کو تو خاک پائے شاہ میں رکھ

علی کے سجدہء آخر سے حلق اصغر تک
ہر ایک تیر ستم مرکز نگاہ میں رکھ

وہی امام زماں جو ہیں سب پہ سایہ فگن
انہیں کے سایہ دستار کی پناہ میں رکھ

مجھے وہ حریت فکر بھی دے حُر کی طرح
پھر اُس کے بعد اُسی لشکر و سپاہ میں رکھ

سلام و مرثیہ و نعت لے کے حاضر ہوں
اُنہیں کا بندہ سمجھ اپنی بارگاہ میں رکھ

ترا یہ شاعر نقاش تو ہے ذرہء خاک
اسے غبار بنا کہ مہر و ماہ میں رکھ
نقاش کاظمی
 

سیما علی

لائبریرین
آدمی کو آگہی ملتی رہے گی
کربلا سے روشنی ملتی رہےگی
کیا کہوں زرخیزیِ خونِ شہیداں
ہر قدم پر زندگی ملتی رہے گی
ضربتِ سجدہ کی ہیبت سے ہمیشہ
خاک میں اب بت گری ملتی رہے گی
کربلا سے رابطہ جب تک رہے گا
فکرِنو کو تازگی ملتی رہے گی
مٹ نہیں سکتی عزاداری ہماری
ہر صدا اب ماتمی ملتی رہے گی
سید عمار علی کاظمی
 

سیما علی

لائبریرین
یہ خیال ہے نہ قیاس ہے تِرا غم ہی میری اَساس ہے
‏جنہیں لَو لگی ہو حُسین کی وہی میرے دَرد شناس ہیں
‏جسے صِرف حَق ہی قبُول ہو یہی جس کا اَصلِ اُصول ہو
‏جو نہ بِک سَکے، جو نہ جُھک سَکے اُسے کربلائیں ہی راس ہیں

‏⁧‫احمد_ندیم_قاسمی‬⁩
 

سیما علی

لائبریرین
وہ جو نورِ چشمِ بتول تھا، جو گُل ریاضِ رسول تھا!!!!!!
‏اسی ایک شخص کے قتل سے میری کتنی صدیاں اُداس ہیں!!!!!!
احمد ندیم قاسمی
 

سیما علی

لائبریرین
یہ شہادت ہے اس انسان کی اب حشر تلک
‏آسمانوں سے صدا آئے گی انساں انساں
‏(احمد ندیم قاسمی)
 

سیما علی

لائبریرین
یوں متّصل رسن سے بندھے تھے وہ دلفگار
‏رشتے میں جیسے دانۂ تسبیح ِ آبدار
‏اور سب کے پیش پیش امام ِ فلک وقار
‏عابدؑ کی یہ دلیل ِ امامت تھی آشکار
‏سبحے کا اس رسن کو شرف لاکلام ہے
‏جس کا امام دونوں جہاں کا امام ہے
‏مرزا دبیر
 

سیما علی

لائبریرین
پِدر کی گود کی خاطر سکینہؑ جب بھی روتی ہے
وہ لوری باپ کے لہجے میں بیٹی کو سُناتا ہے

خیال آتا ہے جب بھی پرداِ زینبؑ کا مہدیؑ کو
کبھی تلوار پر وہ ہاتھ رکھتا ہے ہٹاتا ہے

وہ حجت ہے اُسی کا کام ہے اِس درد کو سہنا
کسی خاکی کے دل میں جونؔ یہ غم کب سماتا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
اک پہر میں بیٹی علی(ع) کی، علمدار بن گئی
نکلی نہ تھی کبھی جو گھر سے، قافلہ سالار بن گئی
 

سیما علی

لائبریرین
اے زینب کبریٰ(س) تیرے خطبوں کے ذریعہ
شبیر کا پیغام زمانہ نے سنا هے

دیتے هیں جو ہر روز مسلمان آذانیں
در اصل تیرے درد بھرے دل کی صدا هے
 

سیما علی

لائبریرین
”حدیثِ عِشق، دو باب اَست، کربلا و دَمِشق
یکے حُسینؓ رقم کرد، دیگرے زینبؓ!“

یعنی ”عِشقِ کی حدیث (ارشاداتِ رسول) کے دو باب ہیں۔ ایک نواسہ¿ رسول نے میدانِ کربلا میں لِکھا اور دوسرا دمشق میں (دربارِ یزید میں انتہائی جُرا¿ت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے)
 

سیما علی

لائبریرین
لو حیدریو وارد مجلس ہوئیں زہراؑ
دو فاطمہؑ کی روح کو عباسؑ کا پرسا
اب تک نہیں کفنائے گئے ہیں شہ والا
بے گور ہے سردار و علمدار کا لاشا
رونے نہیں دیتے ہیں عدو آل نبی کو
تم سب کے عوض روؤ حسینؑ ابن علی کو
خاموش دبیرؔ اب کہ نہیں نظم کا یارا
مداح کا دل خنجر غم سے ہے دو پارا
کافی پئے بخشش یہ وسیلہ ہے ہمارا
اک ہفتے میں تصنیف کیا مرثیہ سارا
تجھ پر کرم خاص ہے یہ حق کے ولی کا
یہ فیض ہے سب مدح جگر بند علیؑ کا
مرزا دبیر
 
Top