غزل ۔ کہیں پنگھٹوں کی ڈگر نہیں، کہیں آنچلوں کا نگر نہیں ۔ بشیر بدر

محمداحمد

لائبریرین
غزل

کہیں پنگھٹوں کی ڈگر نہیں، کہیں آنچلوں کا نگر نہیں
یہ پہاڑ دھوپ کے پیڑ میں کہیں سایہ دار شجر نہیں

مجھے ایسی بات بتائیے جو کوئی سنے تو نئی لگے
کوئی شخص بھوک سے مرگیا یہ خبر تو کوئی خبر نہیں

تیرے نام سے میری راہ میں کوئی دکھ کے پھول بچھا گیا
میں تیری زمین کا خواب ہوں مجھے آسمان کا ڈر نہیں

میرے ہمسفر میرے راز داں یہ اداس پلکوں کے سائباں
تیرے ساتھ دھوپ کے راستوں کا سفر بھی کوئی سفر نہیں

کوئی میرؔ ہو کہ بشیرؔ ہو جو تمھارے ناز اٹھائیں ہم
یہ غزل کی دلی ہے با ادب ، یہاں بے ادب کا گزر نہیں

بشیر بدرؔ
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت ہی خوبصورت انتخاب ہے احمد بھائی۔ لیکن یہ شعر تو بےحد پسند آیا۔

بہت شکریہ !

غزل تو ہے ہی اچھی ۔ لیکن آپ نے ہماری کام چوری کی داد نہیں دی کہ آپ نے جو شکریہ ایک اور پوسٹ میں عمر سیف بھائی کو ارسال کیا، ہم نے وہی شکریہ یہاں استعمال کر لیا۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت شکریہ !

غزل تو ہے ہی اچھی ۔ لیکن آپ نے ہماری کام چوری کی داد نہیں دی کہ آپ نے جو شکریہ ایک اور پوسٹ میں عمر سیف بھائی کو ارسال کیا، ہم نے وہی شکریہ یہاں استعمال کر لیا۔ :)
اصل میں آپ نے زیادہ کام کیا ہے تو میں سوچ رہا تھا کہ کس کو کہوں کہ آپ کے زیادہ کام کرنے کی وجوہات پتا کرے۔ ستم دیکھیں کسی اور دھاگے سے تبصرے کا اقتباس یہاں تک لے کر آنا اور پھر سمائلی بھی بنانا کچھ آسان ہے کیا۔۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اصل میں آپ نے زیادہ کام کیا ہے تو میں سوچ رہا تھا کہ کس کو کہوں کہ آپ کے زیادہ کام کرنے کی وجوہات پتا کرے۔ ستم دیکھیں کسی اور دھاگے سے تبصرے کا اقتباس یہاں تک لے کر آنا اور پھر سمائلی بھی بنانا کچھ آسان ہے کیا۔۔۔۔۔

ہاہاہاہاہا۔۔۔!

یہ بھی ٹھیک کہا۔ :)
 
Top