غزل ۔ کہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا ۔ محمد احمد

مغزل

محفلین
کیا کہنے احمد بھیا، واہ واہ واہ ۔ بہت خوب ، کیااچھی غزل ہے ، داد حاضر ہے ، گر قبول افتد زہے عزو شرف
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا
میں دریا تھا مگر صحرا نشیں تھا

ملے تھے ہم تو موسم ہنس دیئے تھے
جہاں جو بھی ملا، خنداں جبیں تھا

واہ احمد بھائی۔ مزا آگیا۔ بہت ہی عمدہ شاعری ہے۔ لاجواب۔ :hatoff:
 

محمداحمد

لائبریرین
کہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا
میں دریا تھا مگر صحرا نشیں تھا

ملے تھے ہم تو موسم ہنس دیئے تھے
جہاں جو بھی ملا، خنداں جبیں تھا

واہ احمد بھائی۔ مزا آگیا۔ بہت ہی عمدہ شاعری ہے۔ لاجواب۔ :hatoff:
ماشاءاللہ
اس بڑھ کر میرے پاس تو الفاظ نہیں ہیں۔

بہت شکریہ ذوالقرنین بھائی اور بلال بھائی۔۔۔!
 
سویرا تھا شبِ تیرہ کے آگے
جہاں دیوار تھی، رستہ وہیں تھا
واہ واہ کیا خوبصورت غزل ہے بھئی ۔لاجواب ۔
بہت سی داد احمد میاں آپ کے لیئے ۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
شکست و ریخت کیسی، فتح کیسی
کہ جب کوئی مقابل ہی نہیں تھا
ایک بار پھر آپ کی غزل اچھی لگی۔ داد قبول کیجیے۔

البتہ دوسرے شعر میں معنوی سقم ہے۔ "شکست و ریخت"، فتح کا متضاد نہیں۔ مجھے محمود احمد غزنوی صاحب کا یہ مشورہ پسند آیا۔ ایسی کچھ تبدیلی کر دیجے، تا کہ معنوی سقم دور ہو سکے۔
کہاں کی جیت اور کیسی ہزیمت​
کہ جب کوئی مقابل ہی نہیں تھا​
 

الشفاء

لائبریرین
ملی منزل کسے کارِ وفا میں
مگریہ راستہ کتنا حسیں تھا

واہ۔ بہت خوب کہا ہے جناب۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
اِس غزل کو پڑھ کے ایک نامعلوم تشنگی سی جاگتی ہے۔ایک کسک سی محسوس ہوتی ہے۔
بہت خوب! دعاؤں بھری داد!
 
Top