افتخار عارف غزل ۔ کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے ۔ افتخار عارف

محمداحمد

لائبریرین
غزل

کوئی جنوں کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے
بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے

ہوا بھی ہوگئی میثاقِ تیرگی میں فریق
کوئی چراغ نہ اب رہگزر میں رکھا جائے

اُسی کو بات نہ پہنچے جسے پہنچنی ہو
یہ التزام بھی عرضِ ہنر میں رکھا جائے

نہ جانے کون سے ترکش کے تیر کب چل جائیں
نشانِ مہر کمانِ سپر میں رکھا جائے

وفا گمان ہی ٹھہری تو کیا ضرور کہ اب
لحاظِ ہمسفری بھی سفر میں رکھا جائے

ہر اک سے پوچھتے پھرتے ہیں تیرے خانہ بدوش
عذابِ در بدری کس کے گھر میں رکھا جائے

ہمیں بھی عافیتِ جاں کا ہے خیال بہت
ہمیں بھی حلقۂ نا معتبر میں رکھا جائے

افتخار عارف
 

کاشفی

محفلین
ہوا بھی ہوگئی میثاقِ تیرگی میں فریق
کوئی چراغ نہ اب رہگزر میں رکھا جائے

بہت عمدہ جناب۔۔
 
Top