افتخار عارف غزل ۔ جُنوں کا رنگ بھی ہو شعلہ نمو کا بھی ہو ۔ افتخار عارف

محمداحمد

لائبریرین
غزل

جُنوں کا رنگ بھی ہو شعلہ نمو کا بھی ہو
سکُوتِ شب میں اک انداز گفتگو کا بھی ہو

میں جس کو اپنی گواہی میں لے کے آیا ہوں
عجب نہیں کہ وہی آدمی عدو کا بھی ہو

وُہ جس کے چاک گریباں پہ تہمتیں ہیں بہت
اسی کے ہاتھ میں شاید ہنر رفو کا بھی ہو

وہ جس کے ڈوبتے ہی ناؤ ڈگمگانے لگی
کسے خبر وہی تارہ ستارہ جو کا بھی ہو

ثبوت محکمی جاں تھی جس کی برّشِ ناز
اُسی کی تیغ سے رشتہ رُخِ گلو کا بھی ہو

وفا کے باب میں کارِ سخن تمام ہوا
مری زمیں پہ اک معرکہ لہو کا بھی ہو

افتخار عارف
 
Top