ساغر صدیقی غزل - پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دیے - ساغر صدیقی

محمد وارث

لائبریرین
پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دیے
پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دیے

نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو رو دیے
غنچہ کسی نے شاخ سے توڑا تو رو دیے

اڑتا ہوا غبار سرِ راہ دیکھ کر
انجام ہم نے عشق کا سوچا تو رو دیے

بادل فضا میں آپ کی تصویر بن گئے
سایہ کوئی خیال سے گزرا تو رو دیے

رنگِ شفق سے آگ شگوفوں میں لگ گئی
ساغر ہمارے ہاتھ سے چھلکا تو رو دیے


(ساغر صدیقی)
 

شاہ حسین

محفلین
بہت اچھی غزل ہے شکریہ وارث صاحب پوسٹ کرنے سے پہلے تلاش کی تو نظر آگئی ۔

استاد محترم ذرا اس شعر کو عروض کی روشنی میں دیکھئے کہ کون سا صحیح ہے ۔

نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو ہنس دیے
غنچہ کسی نے شاخ سے توڑا تو رو دیے

یا


نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو رو دیے
غنچہ کسی نے شاخ سے توڑا تو رو دیے
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ شاہ صاحب، ہنس اور رو کا وزن ایک ہی ہے اس لیے فرق نہیں پڑتا کیونکہ 'ہنس' میں ہندی مخلوط نون ہے جو تقطیع میں محسوب نہیں ہوتا یعنی اسکا کوئی وزن نہیں ہے جیسے آنکھ میں بھی ہےاور سنگ (ساتھ) میں بھی۔ لہذا رو اور ہنس دونوں ایک سببِ خفیف یا 'فع' ہیں۔

شعر کا مسئلہ اہم ہے کہ اس میں ہنس ہے یا رو، میں نے شاید کہیں 'ہنس' لکھا دیکھا تھا، اور ہنس لگا بھی مجھے ٹھیک تھا یعنی اس میں صنعتِ تضاد (ہنسنا اور رونا) پائی جاتی ہے لیکن ظاہر ہے اگر کسی معتبر نسخے میں 'رو' ہے تو براہِ کرم بتا دیں تا کہ میں درست کر دوں :)
 

شاہ حسین

محفلین
مسلہ مستند نسخہ کا ہی ہے ! میرے پاس جو نسخہ ہے میں نہیں سمجھتا کہ وہ مستند ہے اسی سبب آپ سے کلیہ لگانے کی گزارش کی تھی
 

فاتح

لائبریرین
وہ تو سنا ہے قبلہ، آج کل 'تھوک' کے بھاؤ ملتی ہیں ;)
شاید انھی کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ "اور لے آئیں گے بازار سے۔۔۔":laughing:

'دو گواہیاں' ہو گئی ہیں سو میں مصرع درست کیے دیتا ہوں :)
ویسے اس 'حد' تک جانے سے قبل مزید دو کا انتظار کر لیجیے قبلہ;)
 
Top