غزل: میں تنہا بھرے شہر میں بھی (امجد میانداد)

السلام علیکم،
کچھ دوستوں بزرگوں کی حوصلہ افزائی کے بعد اب سوچا ہے کہ محفلین کو سزا دی جائے اپنی شاعری پڑھا کر۔
امید ہے حوصلہ افزائی کی جائے گی اور اصلاح بھی۔

اجنبی ہوں اپنے گھر میں بھی
میں تنہا بھرے شہر میں بھی
تم نے سونپی وہ تاریکیاں مجھے
اندھیرا ہے میری سحر میں بھی
تُو خواب سی آ، اور جگا دے مجھے
رات کے کسی پہر میں بھی
عشق چاہے تو صرف دل میں نہیں
آگ لگتی ہے بحر میں بھی
وہ ہاتھوں سے پلائے تو یقیں ہے
حیات ہو گی زہر میں بھی۔
بہت شکریہ :)
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم، میں یہ لکھ کر تمہارا حوصلہ پسپا نہیں کرنا چاہتا کہ وزن میں نہیں ہے۔ بس یہ کہوں گا کہ ذرا درست تقطیع کر کے دکھا دیں۔ اگر اوزان بھی خطا نہ ہوں تو بھی قوافی درست نہیں۔ شہر، زہر (بحر) قوافی ہو سکتے ہیں، یا گھر، (سحر)، پہر واوین میں اس وقت جب صوتی قوافی کی اجازت دی جائے۔ دونوں قوافی ایک ہی غزل میں نہیں ہو سکتے۔ پہلی قسم میں را سے قبل ساکن حرف ہے، دوسری قبیل را سے پہلے مفتوح، زبر والے حرف کی ہے۔
لیکن اس میں قطعی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ خیالات اور ان کا بیان بہت خوب ہیں
 
عزیزم، میں یہ لکھ کر تمہارا حوصلہ پسپا نہیں کرنا چاہتا کہ وزن میں نہیں ہے۔ بس یہ کہوں گا کہ ذرا درست تقطیع کر کے دکھا دیں۔ اگر اوزان بھی خطا نہ ہوں تو بھی قوافی درست نہیں۔ شہر، زہر (بحر) قوافی ہو سکتے ہیں، یا گھر، (سحر)، پہر واوین میں اس وقت جب صوتی قوافی کی اجازت دی جائے۔ دونوں قوافی ایک ہی غزل میں نہیں ہو سکتے۔ پہلی قسم میں را سے قبل ساکن حرف ہے، دوسری قبیل را سے پہلے مفتوح، زبر والے حرف کی ہے۔
لیکن اس میں قطعی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ خیالات اور ان کا بیان بہت خوب ہیں
استادِ محترم آپ کی نشاندہی سر آنکھوں پر، آپ نے بالکل بجا فرمایا۔ دراصل میں اپنے خیالات کے اظہار کو شاعری اسی لیے نہیں سمجھتا کہ مجھے اسلوب کی قطعی سمجھ نہیں اور بخدا میں نے یہاں یا کہیں اور جتنی جگہوں پر بھی اس میں بہتری لانے کے لیے کچھ مطالعہ کیا مجھے سمجھ ہی نہیں آیا۔ یا یہ سمجھ لیں کہ قوانین یا اسلوب کا جامہ میرے خیالات سے پہنا نہیں جاتا، لیکن بس اپنے احساسات و خیالات لکھ لیا کرتا ہوں،
 
Top