جون ایلیا غزل - سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی - جون ایلیا

فرحت کیانی

لائبریرین
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی

ثابت ہُوا سکونِ دل و جان نہیں کہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی

ترکِ تعلقات تو کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ چل پڑے کوئی

دیوار جانتا تھا جسے میں، وہ دھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی

[align=justify:20c3d788b2]میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی!!!![/align:20c3d788b2]

اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی !!

ہاں ٹھیک ہے میں اپنی اَنا کا مریض ہوں
آخرمیرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی

اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی۔
 

ماوراء

محفلین
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی!!!!​

بہت اچھی غزل ہے!
 

شمشاد

لائبریرین
بہت اچھی شاعری ہے۔ اور جون ایلیا تو میرے پسندیدہ شعراء میں سے ایک ہیں۔
 

ماوراء

محفلین
واقعی فرحت، سبھی شعر بہت اچھے ہیں۔ شئیر کرنے کا شکریہ۔ :)

ثابت ہُوا سکونِ دل و جان نہیں کہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی

ہاں ٹھیک ہے میں اپنی اَنا کا مریض ہوں
آخرمیرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ماوراء نے کہا:
واقعی فرحت، سبھی شعر بہت اچھے ہیں۔ شئیر کرنے کا شکریہ۔ :)

ثابت ہُوا سکونِ دل و جان نہیں کہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی

ہاں ٹھیک ہے میں اپنی اَنا کا مریض ہوں
آخرمیرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی

:) جی اور آپ کا اس پوسٹ کو پڑھنے اور تعریف کا شکریہ
 

محسن حجازی

محفلین
ڈاکٹر بشیر بدر کی ایک غزل:

وہ بجھے گھروں کا چراغ تھا یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو
اسے لے گئی ہے کہاں ہوا، یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو
کئی لوگ جان جائیں گے مرے قاتلوں کی تلاش میں
مرے قتل میں مرا ہاتھ تھا، یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو
وہ تمام دنیا کے واسطے جو محبتوں کی مثال تھا
وہی اپنے گھر میں تھا بے وفا، یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو
کہیں مسجدوں میں شہادتیں کہیں مندروں میں عدالتیں
یہاں کون کرتا ہے فیصلہ یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو
میرے پاس جتنی ہے روشنی ہے یہی چراغ کی زندگی
میں کہاں جلا، کہاں بجھا، یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو
مجھ جان کر کوئی اجنبی وہ دِکھا رہے ہیں گلی گلی
اسی شہر میں مرا گھر بھی تھا، یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو
وہ سمجھ کے دھوپ کے دیوتا مجھے آج پوجنے آئے ہیں
میں چراغ ہوں تیری شام کا، یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو


اور ایک میری اپنی غزل:

کچھ اسرار منکشف ہوئے ہیں
کچھ زاویے منعطف ہوئے ہیں
بدلے ہیں کچھ افکار میرے
کچھ خیالات منحرف ہوئے ہیں
صاحبان جاہ و حشمت و ہوس
کہاں کے منصف ہوئے ہیں
بہت زیادہ ہیں رقیب میرے
بہت کم معترف ہوئے ہیں
مہرباں ہے قدرت محسنؔ گر
ہم خوبی سے متصف ہوئے ہیں

 

ابنِ آدم

محفلین
وہ تمام دنیا کے واسطے جو محبتوں کی مثال تھا
وہی اپنے گھر میں تھا بے وفا، یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو
---------------------------------------------
مجھ جان کر کوئی اجنبی وہ دِکھا رہے ہیں گلی گلی
اسی شہر میں مرا گھر بھی تھا، یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو
===========================

مندرجہ بالا اشعار پڑھ کے بے اختیار ایک حدیث مبارکہ یاد آئی مکمل صیح طور پہ یاد نہیں آرہی مگر اس کا مفہوم کچھ ایسا ہے کہ “کچھ کچھ تقریریں جادو ہوتی ہیں اور کچھ کچھ اشعار تو بہت پر حکمت ہوتے ہیں“

بقول حضرتِ ندیم قاسمی

مجھ ایسے کافر کو ترے پیار نے یوں شرمایا
دل تجھے دیکھ کے دھڑکا تو خدا یاد آیا

بہت شکریہ۔ آپکے اشعار کا انتخاب بہت خوب ہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
محسن حجازی نے کہا:

وہ تمام دنیا کے واسطے جو محبتوں کی مثال تھا
وہی اپنے گھر میں تھا بے وفا، یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو

اور ایک میری اپنی غزل:
کچھ اسرار منکشف ہوئے ہیں
کچھ زاویے منعطف ہوئے ہیں
بدلے ہیں کچھ افکار میرے
کچھ خیالات منحرف ہوئے ہیں


بہت عمدہ۔بہت بہت شکریہ
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ابن آدم نے کہا:
===========================

مندرجہ بالا اشعار پڑھ کے بے اختیار ایک حدیث مبارکہ یاد آئی مکمل صیح طور پہ یاد نہیں آرہی مگر اس کا مفہوم کچھ ایسا ہے کہ “کچھ کچھ تقریریں جادو ہوتی ہیں اور کچھ کچھ اشعار تو بہت پر حکمت ہوتے ہیں“


بہت شکریہ۔ آپکے اشعار کا انتخاب بہت خوب ہے

سچ کہا :)
 

محسن حجازی

محفلین
ڈاکٹر صاحب ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

چاند کے چاروں طرف میلی ردائیں ساتھ ہیں
خاک اتنی سر چڑھے کس کی ہوائیں ساتھ ہیں
ایک عورت سے وفا کرنےکا یہ تحفہ ملا
جانے کتنی عورتوں کی بددعائیں ساتھ ہیں
انگلیاں میری ستاروں تک پہنچ سکتی نہیں
مٹھیوں میں جگنوؤں کی بدعائیں ساتھ ہیں
دن کھلا ہے پھول سا اور رات بھیگی آنکھ سی
کوئی موسم ہو یہاں دونوں ہوائیں ساتھ ہیں
میں ہوں کاغذ کا اک ٹکڑا جانے کس کی کھوج میں
کیوں میرے پیچھے زمانے کی ہوائیں ساتھ ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
انگلیاں میری ستاروں تک پہنچ سکتی نہیں
مٹھیوں میں جگنوؤں کی بدعائیں ساتھ ہیں

بہت خوب، بہت اچھی شاعری ہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
محسن حجازی نے کہا:
ڈاکٹر صاحب ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

چاند کے چاروں طرف میلی ردائیں ساتھ ہیں
خاک اتنی سر چڑھے کس کی ہوائیں ساتھ ہیں

ایک عورت سے وفا کرنےکا یہ تحفہ ملا
جانے کتنی عورتوں کی بددعائیں ساتھ ہیں
انگلیاں میری ستاروں تک پہنچ سکتی نہیں
مٹھیوں میں جگنوؤں کی بدعائیں ساتھ ہیں
دن کھلا ہے پھول سا اور رات بھیگی آنکھ سی
کوئی موسم ہو یہاں دونوں ہوائیں ساتھ ہیں

میں ہوں کاغذ کا اک ٹکڑا جانے کس کی کھوج میں
کیوں میرے پیچھے زمانے کی ہوائیں ساتھ ہیں

بہت خوب اور بہت شکریہ :)
 
ترکِ تعلقات تو کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ چل پڑے کوئی
[align=center]


کتنا سچا شعر ہے ۔

فرحت بہت اچھی غزل شئیر کی ہے۔
 
Top