غزل: دِل کی باتیں مت مانو دِل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے

احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
ایک غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

دِل کی باتیں مت مانو دِل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے

اوپر سے تو سیرابی کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے
ڈوب كے دیکھو دریا میں وہ پیاسا بھی ہو سکتا ہے

پیڑ گھنا ہو کتنا بھی ، بے سایہ بھی ہو سکتا ہے
اور سہارا دینے والا تنکا بھی ہو سکتا ہے

دِل بہلے ماحول کی رونق سے ، ایسا لازم تو نہیں
بھیڑ میں رہنے والا بالکل تنہا بھی ہو سکتا ہے

منزل ملتی ہے رستے پر چلتے رہنے والوں کو
بڑھتے بڑھتے قطرہ اک دن دریا بھی ہو سکتا ہے

رائے کسی كے بارے میں بِن پرکھے ہی قائم نہ کرو
پہلے پتھر لگتا ہے جو ، ہیرا بھی ہو سکتا ہے

دنیا دام لگائےگی لیکن تم لالچ مت کرنا
بکنے والا بکتے بکتے سستا بھی ہو سکتا ہے

حد سے بڑھ کر جبر کسی پر کرنا اچھی بات نہیں
برف کا ٹکڑا مجبوری میں شعلہ بھی ہو سکتا ہے

غم کیا ہے گر ساتھی تجھ کو راہ میں تنہا چھوڑ گئے
ساتھ نبھانے والا تیرا رستہ بھی ہو سکتا ہے

میں ہی ناداں تھا جو سوچا ، اِس بیگانی دنیا میں
جس پر مر مٹ جاؤ وہ پِھر اپنا بھی ہو سکتا ہے

عابدؔ اس نے جاتے جاتے مڑ کر بھی دیکھا نہ مجھے
آج بھی خود سے پوچھتا ہوں ، کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
 
آخری تدوین:

ایس ایس ساگر

لائبریرین
دِل کی باتیں مت مانو دِل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے

اوپر سے تو سیرابی کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے
ڈوب كے دیکھو دریا میں وہ پیاسا بھی ہو سکتا ہے

پیڑ گھنا ہو کتنا بھی ، بے سایہ بھی ہو سکتا ہے
اور سہارا دینے والا تنکا بھی ہو سکتا ہے

دِل بہلے ماحول کی رونق سے ، ایسا لازم تو نہیں
بھیڑ میں رہنے والا بالکل تنہا بھی ہو سکتا ہے

منزل ملتی ہے رستے پر چلتے رہنے والوں کو
بڑھتے بڑھتے قطرہ اک دن دریا بھی ہو سکتا ہے

رائے کسی كے بارے میں بِن پرکھے ہی قائم نہ کرو
پہلے پتھر لگتا ہے جو ، ہیرا بھی ہو سکتا ہے

دنیا دام لگائےگی لیکن تم لالچ مت کرنا
بکنے والا بکتے بکتے سستا بھی ہو سکتا ہے

حد سے بڑھ کر جبر کسی پر کرنا اچھی بات نہیں
برف کا ٹکڑا مجبوری میں شعلہ بھی ہو سکتا ہے

غم کیا ہے گر ساتھی تجھ کو راہ میں تنہا چھوڑ گئے
ساتھ نبھانے والا تیرا رستہ بھی ہو سکتا ہے

میں ہی ناداں تھا جو سوچا ، اِس بیگانی دنیا میں
جس پر مر مٹ جاؤ وہ پِھر اپنا بھی ہو سکتا ہے

عابدؔ اس نے جاتے جاتے مڑ کر بھی دیکھا نہ مجھے
آج بھی خود سے پوچھتا ہوں ، کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے
لاجواب۔ خوبصورت اشعار سے مزین ایک بہترین غزل۔
ایک ایک شعر دل میں اترنے والا۔
کمال کی غزل کہی ہے آپ نے عرفان علوی بھائی۔
زبردست۔
ڈھیروں داد قبول کیجیے۔ اللہ آپ کو سدا خوش رکھے۔ آمین۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
پیڑ گھنا ہو کتنا بھی ، بے سایہ بھی ہو سکتا ہے
اور سہارا دینے والا تنکا بھی ہو سکتا ہے
عابدؔ اس نے جاتے جاتے مڑ کر بھی دیکھا نہ مجھے
آج بھی خود سے پوچھتا ہوں ، کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے
واہ خوب ۔ بہت اچھا کہا ہے ۔ علوی صاحب ۔
 
لاجواب۔ خوبصورت اشعار سے مزین ایک بہترین غزل۔
ایک ایک شعر دل میں اترنے والا۔
کمال کی غزل کہی ہے آپ نے عرفان علوی بھائی۔
زبردست۔
ڈھیروں داد قبول کیجیے۔ اللہ آپ کو سدا خوش رکھے۔ آمین۔
ساگر صاحب ، ذرہ نوازی اور دعا كے لیے بے حد ممنون ہوں . اللہ آپ کو بھی ہمیشہ خوش رکھے . آمین .
 

اکمل زیدی

محفلین
بہت عمدہ عرفان صاحب۔۔۔سوچا تھا ایک دو شعر لے لوں مگر سارے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں یعنی مختصر یہ کہ مجموعی طور پر پوری غزل عمدہ ہے۔۔۔
 
بہت عمدہ عرفان صاحب۔۔۔سوچا تھا ایک دو شعر لے لوں مگر سارے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں یعنی مختصر یہ کہ مجموعی طور پر پوری غزل عمدہ ہے۔۔۔
اکمل صاحب، نگاہ کرم اور ذرہ نوازی كے لیے بے حد متشکّر ہوں . جزاک اللہ .
 

یاسر شاہ

محفلین
علوی بھائی پہلے تو داد قبول کیجیے کہ پیاری غزل ہے ۔

دِل کی باتیں مت مانو دِل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے
دِل کی باتیں مت مانو دِل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے

پہلے مصرع کو دیکھتے ہیں:
دِل کی باتیں مت مانو دِل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے
"دل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے " :بھی: کا استعمال بتا رہا ہے کہ سچا بھی ہو سکتا ہے لہذا "دل کی باتیں مت مانو" کی بجائے "سب باتیں دل کی مت مانو" کہنا چاہیے ۔یا بحر کی رعایت سے "دل کی نہ مانو سب باتیں دل جھوٹا بھی ہو سکتا ہے"-کیا خیال ہے؟

اب اگلے مصرع کو دیکھتے ہیں اور پچھلے مصرع سے اس کا ربط ڈھونڈتے ہیں:
دن میں سپنے دیکھنے والا اندھا بھی ہو سکتا ہے

اگر پچھلے مصرع سے علیحدہ کر کے دیکھا جائے تو اس مصرع کے دو مطلب نکلتے ہیں
»»ممکن ہے وہ اندھا ہو جو دن میں سپنے دیکھ رہا ہو
»»دن میں سپنے دیکھنے والا عین ممکن ہے عنقریب اندھا ہو جائے کیونکہ وہ مستقل دن میں آنکھوں سے وہ کام لے رہا ہے جو ان کا کام نہیں ۔سو اس کی آنکھوں کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے۔
پچھلے مصرع میں دو مذکور ہیں ان کے ساتھ اگر دوسرے مصرع کو دیکھا جائے تو یہ صورتیں پیدا ہوتی ہیں:
1-دل جو دن میں سپنے دیکھ رہا ہے ممکن ہے اندھا ہو۔
2-صاحب دل جو دن میں سپنے دیکھ رہا ہے ممکن ہے اندھا ہو۔
3-دل عنقریب اندھا ہو جائے گا یوں ہی اگر دن میں سپنے دیکھے گا
4-صاحب دل عنقریب اندھا ہو جائے گا اگر یوں ہی دن بھر خواب سجائے گا۔
اب دونوں مصرعوں کے ربط سے دیکھتے ہیں کہ ان چار مطالب میں سے کون سا رہتا ہے۔

قاری کا شعر پڑھتے ہی پہلے مطلب کی طرف دھیان جاتا ہے کہ جو میری رائے میں ٹھیک نہیں۔کیونکہ اندھے کی انجانے میں کی گئی خلاف واقعہ بات جھوٹ نہیں ہو سکتی ۔ہاں جان بوجھ کر خلاف واقعہ بات کرنا جھوٹ ہے۔
دوسرے اور تیسرے مطلب سے بھی مصرعے مربوط نہیں ہو پاتے البتہ چوتھا مطلب ایسا ہے کہ جو دونوں مصرعوں میں ربط فراہم کرتا ہے ۔تاہم یہ مطلب فوری ذہن میں نہیں آتا ۔

میری رائے میں شعر کا مفہوم یہ ہوا کہ دل کی ہر بات ماننے والی نہیں ہوتی کیونکہ دل جھوٹ بھی بولتا ہے ،دل کی ہر بات ماننے کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ دن میں بھی خواب ہی خواب دکھائی دیں گے اور آنکھیں کام کی نہ رہیں گی۔


اوپر سے تو سیرابی کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے
ڈوب كے دیکھو دریا میں وہ پیاسا بھی ہو سکتا ہے

واہ بہت خوب ۔


پیڑ گھنا ہو کتنا بھی ، بے سایہ بھی ہو سکتا ہے
اور سہارا دینے والا تنکا بھی ہو سکتا ہے

دِل بہلے ماحول کی رونق سے ، ایسا لازم تو نہیں
بھیڑ میں رہنے والا بالکل تنہا بھی ہو سکتا ہے
اچھے اقوال زریں ہیں ماشاء اللہ۔
عابدؔ اس نے جاتے جاتے مڑ کر بھی دیکھا نہ مجھے
آج بھی خود سے پوچھتا ہوں ، کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے
واہ۔اچھا ہے۔
برف کا ٹکڑا مجبوری میں شعلہ بھی ہو سکتا ہے
علوی بھائی یہ خلاف واقعہ بات ہے ۔دبی ہوئی چنگاری کا شعلہ بن کر آگ پکڑنا تو خلاف واقعہ نہیں البتہ برف کو شعلہ بنتے نہیں دیکھا ۔کبھی آپ نے دیکھا ہو تو ضرور بتائیے گا۔
منزل ملتی ہے رستے پر چلتے رہنے والوں کو
بڑھتے بڑھتے قطرہ اک دن دریا بھی ہو سکتا ہے
یہاں بھی دوسرا مصرع کھٹک رہا ہے ۔
بڑھتے بڑھتے قطرہ اک دن بچہ تو ہو سکتا ہے دریا کیسے ہو سکتا ہے؟
قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے محاورہ سنا ہے اور غالب کا یہ مصرع بھی پڑھا ہے ۔
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
لیکن آپ کا مصرع کچھ عجیب لگ رہا ہے۔

امید ہے اپنے فیض سے محروم نہیں فرمائیں گے۔
 
Top