آتش غزل - خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری - آتش

محمد وارث

لائبریرین
خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری

پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری

شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا
خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری

دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے
صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری

مری طرف سے صبا کہیو میرے یوسف سے
نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری

شبِ فراق میں، اے روزِ وصل، تا دمِ صبح
چراغ ہاتھ میں ہے اور جستجو تیری

جو ابر گریہ کناں ہے تو برق خندہ زناں
کسی میں خُو ہے ہماری، کسی میں خُو تیری

کسی طرف سے تو نکلے گا آخر اے شہِ حُسن
فقیر دیکھتے ہیں راہ کو بہ کو تیری

زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے سیف زباں
رہے گی معرکے میں آتش آبرو تیری

(خواجہ حیدر علی آتش لکھنوی)
 

جیا راؤ

محفلین
جو ابر گریہ کناں ہے تو برق خندہ زناں
کسی میں خُو ہے ہماری، کسی میں خُو تیری


واہ !!
وارث صاحب بہت ہی خوبصورت غزل ہے !
شئیر کرنے کا شکریہ
 
Top