عرفان صدیقی غزل-- خانۂ درد ترے خاک بسر آگئے ہیں -- عرفان صدیقی، بھارت

مغزل

محفلین
غزل

خانۂ درد ترے خاک بسر آگئے ہیں
اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھرآگئے ہیں

جان و دل کب کے گئے ناقہ سواروں کی طرف
یہ بدن گرد اڑانے کو کدھر آگئے ہیں

رات دن سوچتے رہتے ہیں یہ زندانی ٔ ہجر
اس نے چاہا ہے تو دیوار میں در آگئے ہیں

اس کے ہاتھوں میں ہے شاخِ تعلق کی بہار
چھو لیا ہے تو نئے برگ و ثمر آگئے ہیں

ہم نے دیکھا ہی تھا دنیا کو ابھی اس کے بغیر
لیجئے بیچ میں پھر دیدۂ تر آگئے ہیں

اتنا آسان نہیں فیصلۂ ترکِ سفر
پھر مری راہ میں دوچار شجر آگئے ہیں

نیند کے شہرِ طلسمات میں دیکھیں کیا ہے
جاگتے میں تو بہت خواب نظر آگئے ہیں

عرفان صدیقی، بھارت
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ محمود
لیکن کہیں کچھ غلطی ہے
اس کے ہاتھوں میں ہے شاخِ تعلق کی بہار
شاید یوں ہو۔
اس کے ہاتھوں میں ہے اک شاخِ تعلق کی بہار
 
Top