غزل برائے تنقید - نوید صادق

نوید صادق

محفلین
غزل

تصویر کا جو دوسرا رخ تھا، نہیں دیکھا
ہم نے کبھی امکان کا رستہ نہیں دیکھا

جس حال میں،جس جا بھی رہے،خود سے رہے دور
اک شخص بھی اپنی طرف آتا نہیں دیکھا

اک غم کہ ہمیں راس بہت تھا ،سو نہیں ہے
مدت سے نمِ چشم کو رسوا نہیں دیکھا

اے نقش گرِ خواب! ذرا دھیان ادھر بھی
ہم نے کبھی تعبیر کا چہرہ نہیں دیکھا

قرطاسِ دلِ زار پہ یہ نقشِ شکستہ!
وہ کون تھا جس نے مجھے دیکھا، نہیں دیکھا

یہ روگ مرے فکر کی تجسیم کرے گا
سورج نے مرے شہر کا نقشہ نہیں دیکھا

کچھ تم بھی کہو، میری تو گویائی چلی بس!
کیا دیکھ لیا تم نے یہاں،کیا نہیں دیکھا

چپ چاپ نوید اپنی حدوں میں پلٹ آؤ
ہم نے بھی کئی دن سے تماشا نہیں دیکھا

(نوید صادق)
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوشی ہو رہی ہے نوید صاحب آپ کے ایک طویل عرصے کے بعد محفل پر دیکھ کر اور افسوس بھی ہوا یہ جان کر کہ آپ علیل تھے، اللہ تعالٰی آپ کو صحت عطا فرمائیں۔

اور بہت خوبصورت غزل ہے یہ، بہت داد قبول کیجیئے، سبھی اشعار بہت اچھے ہیں۔ لاجواب۔



غزل
اے نقش گرِ خواب! ذرا دھیان ادھر بھی
ہم نے کبھی تعبیر کا چہرہ نہیں دیکھا

اس شعر میں لفظ 'دھیان' پر میرا دھیان بار بار جا رہا ہے کہ یہ بحر میں صرف اسی طرح پورا اترتا ہے کہ 'دھیان' کی 'ی' کو لفظ کے درمیان سے گرا کر اسے 'دان' پڑھا جائے، جو کہ شاید درست نہیں ہے، آپ کی کیا رائے ہے۔
 

فاتح

لائبریرین

اس شعر میں لفظ 'دھیان' پر میرا دھیان بار بار جا رہا ہے کہ یہ بحر میں صرف اسی طرح پورا اترتا ہے کہ 'دھیان' کی 'ی' کو لفظ کے درمیان سے گرا کر اسے 'دان' پڑھا جائے، جو کہ شاید درست نہیں ہے، آپ کی کیا رائے ہے۔


وارث صاحب! میری رائے میں "دھیان" کی ادائیگی کے سلسلے میں اس کی ی کے ساتھ بھی سوالیہ "کیا" کی ی کا سا سلوک کرنا زیادہ بہتر ہے۔ یعنی وزن کے اعتبار سے دھیان اور دھان ایک ہی ہیں۔


دھیان آ گیا ہے مرگِ دلِ نا مراد کا
ملنے کو مل گیا ہے سکوں بھی قرار بھی
ادا جعفری
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم جناب نوید صادق صاحب آپ کو یہاں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کیسے ہیں آپ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے مجھے افسوس ہے کہ میں آپ سے رابطہ نہیں کر سکا میں نے ویسے آپ کو ایک دو دفعہ فون بھی کیا تھا لیکن آپ شاہد سو رہے تھے یا مصرف تھے اس لے بات نہیں‌ہو سکی اب آپ کسے ہیں



غزل تو مشاءاللہ بہت اچھی ہے آپ کو تو پتہ ہے ہم تنقید تو نہیں کر سکتے لیکن اتنا ہے کہ آپ کی اس غزل سے بہت کچھ سیکھنے کو مل جاے گا بہت شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب! میری رائے میں "دھیان" کی ادائیگی کے سلسلے میں اس کی ی کے ساتھ بھی سوالیہ "کیا" کی ی کا سا سلوک کرنا زیادہ بہتر ہے۔ یعنی وزن کے اعتبار سے دھیان اور دھان ایک ہی ہیں۔


دھیان آ گیا ہے مرگِ دلِ نا مراد کا
ملنے کو مل گیا ہے سکوں بھی قرار بھی
ادا جعفری

بہت شکریہ جناب، میری کنفیوژن دور ہو گئی، نوازش آپ کی اور معذرت نوید صادق صاحب سے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے نوید صاحب دھیان لگا کر رکھیے اپنی شاعری پر تاکہ مزید اچھی غزلیں پڑھ سکیں - بہت شکریہ ! :)
 

نوید صادق

محفلین
وارث بھائی!!
معذرت کی اس میں کیا بات ہے۔ یہ تو سیکھنے سکھانے کا عمل ہے۔ سند کے لئے یگانہ کا ایک شعر

کس کی آواز کان میں آئی
دور کی بات دھیان میں آئی

(یگانہ)
 

الف عین

لائبریرین
ناصر کا بھی تو ہے۔ ا
س کی صورت بھی دھیان سے اتری۔
بلکہ دھیان کو اگر دھِیان باندھا گیا تو فاش غلطی ہوگی۔ ہندی کے لفظ میں بھی نصف دھ ہے، گیان کی طرح۔
اور نوید کی اس خوبصورت غزل کے اسی شعر پر میرا دھیان دوسرے مصرعے کی طرف گیا:
ہم نے کبھی تعبیر کا چہرہ نہیں دیکھا
آنے دو تعیر کو ان کے انٹر ویو کے لئے۔ قلمی۔۔۔ یعنی سائبر چہرہ تو ہم سب دیکھ ہی سکتے ہیں ایک دوسرے کا۔
معاف کرنا نوید۔۔ مذاق سوجھ گیا۔ لیکن یہ غزل متقاضی ہے کہ ایک بار پھر بھر پور داد دی جائے۔
پچھلی غزل سمت کے تازہ شمارے میں شامل کی تھی۔ دیکھ لی؟
 

نوید صادق

محفلین
ویسے آپس کی بات ہے، سودا نے ایک جگہ دھیان کو پورا بھی باندھ رکھا ہے۔ لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب کئی چیزیں اپنی حتمی شکل میں نہیں آئی تھیں تھیں۔ لیکن ان کے ہمعصر درد نے دھیان بروزن دان باندھا ہے، اور یہی صحیح ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
غزل

تصویر کا جو دوسرا رخ تھا، نہیں دیکھا
ہم نے کبھی امکان کا رستہ نہیں دیکھا

جس حال میں،جس جا بھی رہے،خود سے رہے دور
اک شخص بھی اپنی طرف آتا نہیں دیکھا

اک غم کہ ہمیں راس بہت تھا ،سو نہیں ہے
مدت سے نمِ چشم کو رسوا نہیں دیکھا

اے نقش گرِ خواب! ذرا دھیان ادھر بھی
ہم نے کبھی تعبیر کا چہرہ نہیں دیکھا

قرطاسِ دلِ زار پہ یہ نقشِ شکستہ!
وہ کون تھا جس نے مجھے دیکھا، نہیں دیکھا

یہ روگ مرے فکر کی تجسیم کرے گا
سورج نے مرے شہر کا نقشہ نہیں دیکھا

کچھ تم بھی کہو، میری تو گویائی چلی بس!
کیا دیکھ لیا تم نے یہاں،کیا نہیں دیکھا

چپ چاپ نوید اپنی حدوں میں پلٹ آؤ
ہم نے بھی کئی دن سے تماشا نہیں دیکھا

(نوید صادق)

بہت پیاری غزل ہے صادق صاحب، واہ واہ، یہ شعر تو کمال کا ہے،
جس حال میں،جس جا بھی رہے،خود سے رہے دور
اک شخص بھی اپنی طرف آتا نہیں دیکھا


اور اس شعر نے بھی دل کے تار چھودیئے۔

اے نقش گرِ خواب! ذرا دھیان ادھر بھی
ہم نے کبھی تعبیر کا چہرہ نہیں دیکھا


آپ کو داد کے ڈھیروں پھول قبول ہوں۔
 

مغزل

محفلین
غزل

تصویر کا جو دوسرا رخ تھا، نہیں دیکھا
ہم نے کبھی امکان کا رستہ نہیں دیکھا

جس حال میں،جس جا بھی رہے،خود سے رہے دور
اک شخص بھی اپنی طرف آتا نہیں دیکھا

اک غم کہ ہمیں راس بہت تھا ،سو نہیں ہے
مدت سے نمِ چشم کو رسوا نہیں دیکھا

اے نقش گرِ خواب! ذرا دھیان ادھر بھی
ہم نے کبھی تعبیر کا چہرہ نہیں دیکھا

قرطاسِ دلِ زار پہ یہ نقشِ شکستہ!
وہ کون تھا جس نے مجھے دیکھا، نہیں دیکھا

یہ روگ مرے فکر کی تجسیم کرے گا
سورج نے مرے شہر کا نقشہ نہیں دیکھا

کچھ تم بھی کہو، میری تو گویائی چلی بس!
کیا دیکھ لیا تم نے یہاں،کیا نہیں دیکھا

چپ چاپ نوید اپنی حدوں میں پلٹ آؤ
ہم نے بھی کئی دن سے تماشا نہیں دیکھا

(نوید صادق)

نوید بھائی رسید حاضر ہے ۔
مگر یہ غزل یہاں کیسے ؟؟
 

ایم اے راجا

محفلین
نوید بھائی داد تو میں پہلے بھی دے چکا ہوں آج اس غزل کو دوبارہ پڑھا تو ایک نقطہ نکل آیا جو کہ میری کم علمی کی وجہ سے میری سمجھ میں نہیں آیا یا یوکہیں کہ کم مطالعہ کی وجہ سے نظر سے نہیں گذرا۔

اک غم کہ ہمیں راس بہت تھا ،سو نہیں ہے
مدت سے نمِ چشم کو رسوا نہیں دیکھا

نمِ چشم کیا لفظ ہے کیونکہ میں نے چشمِ نم ہی پڑھا ہے، چشمِ نم یعنی گیلی آنکھ، نمِ چشم ، کا کیا مطلب ہو گا، کیا اس سے سے مراد آنکھ کا گیلا پن ہے، یا آنکھ کا آنسو؟
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ استادِ محترم، ایک سوال اور کہ کیا یہ کوئی نئی ترکیب ہے یا بِلا تردد اسے استعمال کیا جاسکتا ہے اور استعمال ہوتا رہا ہے؟
 

مغزل

محفلین
نوید بھائی رسید کے بعد حاضر ہوں۔ مقدور بھر تبصرہ کرنے کے لیے ، اجازت (؟)
 
Top