غزل برائے اصلاح "غُرفہِ قلبِ صنم کھٹکھٹا کے دیکھ سکوں"

غُرفہِ قلبِ صنم کھٹکھٹا کے دیکھ سکوں
میں اپنے خواب حقیقت بنا کے دیکھ سکوں

مرے مزاج کی سرگوشیاں یہ کہتی ہیں
کوئی تو ہو میں جسے مسکرا کے دیکھ سکوں

کوئی تو شب ہو میسر وصال ہو نہ فراق
فقط میں سامنے اسکو بٹھا کے دیکھ سکوں

ہے اسکی چشم سمندر کی وسعتوں سے بحال
تو اپنے ہونٹ پہ ساحل بنا کے دیکھ سکوں

نہ اسکے قد کو گوارا زوالِ قامت ہے
نہ مجھ میں تاب کہ نظریں اٹھا کے دیکھ سکوں

محمد ارتضیٰ آسیؔ
 
آخری تدوین:
پہلا مصرع بدل دینا چاہئے. غرفہ یا کمرہ نہیں دروازہ کھٹکٹھایا جاتا ہے

آداب۔۔
عرض کرتا ہوں اگر قلبِ لطیف و نازک پر گراں نہ گزرے۔۔۔

علمِ لغت کے اعتبار سے "غُرفہ" دریچہ یا (کسی چھوٹے دروازے) کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔۔
شاید آپ نے یہ اصطلاح سنی ہو "دل دریچہ" تو اسکی تفسیر لفظِ غُرفہ سے کی گئی ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آداب۔۔
عرض کرتا ہوں اگر قلبِ لطیف و نازک پر گراں نہ گزرے۔۔۔

علمِ لغت کے اعتبار سے "غُرفہ" دریچہ یا (کسی چھوٹے دروازے) کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔۔
شاید آپ نے یہ اصطلاح سنی ہو "دل دریچہ" تو اسکی تفسیر لفظِ غُرفہ سے کی گئی ہے
محمدارتضیٰ آسی صاحب غرفہ اصلاً عربی لفظ ہے اور اس کے کے معنی کمرے کے ہیں ۔۔۔ دریچہ کے معنی درست نہیں اور مستعمل بھی نہیں ۔ ۔۔اردو انسائیکلو پیڈیا میں اسے اس معنی کا حامل کہا گیا ہے لیکن یہ درست نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
غرفہ کے لفظ پر اعتراض نہیں۔ وزن کی بات کی تھی۔ مطلع کے پہلے مصرع میں دو بحور خلط ملط ہو گئی ہیں۔ غزل کی بحر ہے مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن۔ اور مطلع میں جو شامل ہو گئی ہے، وہ ہے فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن۔ اکثر مبتدی ان دونوں بحور میں کنفیوز کرتے ہیں۔
باقی غزل بہت اچھی ہے
 
غرفہ کے لفظ پر اعتراض نہیں۔ وزن کی بات کی تھی۔ مطلع کے پہلے مصرع میں دو بحور خلط ملط ہو گئی ہیں۔ غزل کی بحر ہے مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن۔ اور مطلع میں جو شامل ہو گئی ہے، وہ ہے فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن۔ اکثر مبتدی ان دونوں بحور میں کنفیوز کرتے ہیں۔
باقی غزل بہت اچھی ہے

متشکرم الف عین صاحب ۔۔
 

جیہ

لائبریرین
آداب۔۔
عرض کرتا ہوں اگر قلبِ لطیف و نازک پر گراں نہ گزرے۔۔۔

علمِ لغت کے اعتبار سے "غُرفہ" دریچہ یا (کسی چھوٹے دروازے) کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔۔
شاید آپ نے یہ اصطلاح سنی ہو "دل دریچہ" تو اسکی تفسیر لفظِ غُرفہ سے کی گئی ہے
مجھے آپ سے اتفاق نہیں۔ سورہ فرقان آیت نمبر 75 میں لفظ غرفہ آیا ہے ۔ مفسرین نے اس کے معنی بلند و بالا عمارت یا بالا خانے کے کئے ہیں۔ دریچہ غرفہ کا حصہ تو ہو سکتا ہے مگر غرفہ کے معنی دریچہ نہیں ہو سکتے۔ واللہ اعلم
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مجھے آپ سے اتفاق نہیں۔ سورہ فرقان آیت نمبر 75 میں لفظ غرفہ آیا ہے ۔ مفسرین نے اس کے معنی بلند و بالا عمارت یا بالا خانے کے کئے ہیں۔ دریچہ غرفہ کا حصہ تو ہو سکتا ہے مگر غرفہ کے معنی دریچہ نہیں ہو سکتے۔ واللہ اعلم
کچھ عربی میں عام مستعمل مثالیں۔۔۔۔غرفۃ النوم۔بیڈ روم۔۔۔۔غرفۃالجلوس۔سٹنگ روم یا ڈرائنگ روم۔۔۔۔غرفۃ التجاریۃ۔چیمبر آف کامرس۔وغیرہ۔۔۔۔ انگریزی چیمبر اردو لفظ خانے کا مترادف ہے ۔
بالا خانے کا ترجمہ غالبا ًاس لیے کیا گیا ہے کہ وہاں جنت عالیہ کا ذکر ہے۔۔۔أولئك يجزون الغرفة بما صبروا ويلقون فيها تحية وسلاما۔۔۔
فیروز اللغات میں بھی البتہ دریچہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن کوئی مثال نہیں۔
 

جیہ

لائبریرین
یہی تو میں پہلے مراسلے کہا تھا کہ یہ عام طور پر کمرے کے لئے استعمال ہوتا ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہجائے کوتاہ بھی مستعمل ہے ، مگر شاید اس کی کچھ قیود ہوں گی، شاید مصرع کی ابتدا میں ہونا ۔
اقبال صاحب:
میں ہلاکِ جادوئے سامری ، تو قتیلِ شیوۂ آزری
جی ہاں ۔ یہاں مذکورہ جگہ میں تو الف کے ساتھ "اپنے " کے ساتھ استعمال ہوئی ہے جو بالکل تھیک ہے۔
 

طارق شاہ

محفلین
غُرفہِ قلبِ صنم کھٹکھٹا کے دیکھ سکوں
خوش آمدید اور ایک اچھے خیالات کی غزل کے لئے تشکّر!
چند باتیں جو پڑھ کر ذہن میں آئیں لکھ رہا ہوں ، دیکھ لینے میں کوئی قباحت نہیں
کہ یہی ہمارے لئے بھی سیکھنے کا طریقہ اور وسیلہ ہے :

مطلع یوں کردیں تو ٹھیک ہوگا کہ
صنم کا غُرفہِ دل کھٹکھٹا کے دیکھ سکوں
میں اپنے خواب حقیقت بنا کے دیکھ سکوں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تو شب ہو میسر وصال ہو نہ فراق
فقط میں سامنے اُسکو بٹھا کے دیکھ سکوں

بالا شعر میں ، " کوئی تو شب ہو " ایسا مفہوم دیتا ہے کہ حاصل، وصال اور فراق کی راتوں میں
ایک ایسی رات کے متلاشی ہیں کہ جس میں آمد پر ، وصل نہ ہو بس سامنے بٹھانے اور دیکھنے کا عمل ہو
اگر صرف یہی منشا ہے تو ، شب کی قید کیوں ؟
اسے مرے خیال میں ،کچھ یوں کردینا بہتر ہوگا کہ :

مِلے وہ شب کہ نہ ہو جس میں فکرِ وصل و فراق
بس اُس کو ، چاند کے آگے بٹھا کے دیکھ سکوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے اسکی چشم سمندر کی وسعتوں سے بحال
تو اپنے ہونٹ پہ ساحل بنا کے دیکھ سکوں

؟؟
مفہوم مجھ پر واضح نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ اسکے قد کو گوارا زوالِ قامت ہے
نہ مجھ میں تاب کہ نظریں اٹھا کے دیکھ سکوں
اسکے قد کو گوارہ نہ ہونا ؟

کچھ یوں یا اس قسم کا بہتر ہوگا کہ:
نہ سرو ناز کو جُھکنا ذرا گوارا ہے !
نہ مجھ میں تاب کہ نظریں اُٹھا کے دیکھ سکوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد ارتضیٰ آسی صاحب

اپنا خیال مخلصانہ اور محبّانہ لکھ دیا ، اتفاق ضروری نہیں
بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں صاحب :):)
 
آخری تدوین:

شوکت پرویز

محفلین
"میں" متکلم کو ہجائے بلند باندھا جاتا ہے خاص طور پر شاید۔ کیوں عاطف بھائی
ہجائے کوتاہ بھی مستعمل ہے ، مگر شاید اس کی کچھ قیود ہوں گی، شاید مصرع کی ابتدا میں ہونا ۔
اقبال صاحب:
میں ہلاکِ جادوئے سامری ، تو قتیلِ شیوۂ آزری
جی ہاں ۔ یہاں مذکورہ جگہ میں تو الف کے ساتھ "اپنے " کے ساتھ استعمال ہوئی ہے جو بالکل تھیک ہے۔

غالب کے یہاں متکلّم 'مَیں' ایک حرفی (ہجائے کوتاہ) مصرع کے درمیان میں:

یک الف بیش نہیں صیقلِ آئینہ ہنوز
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا

شرحِ اسبابِ گرفتارئیِ خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا

بہ قدرِ ظرف ہے ساقی خمارِ تشنہ کامی بھی
جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا

ہر چند ہوں میں طوطئیِ شیریں سخن ولے
آئینہ، آہ، میرے مقابل نہیں رہا

برقِ بہار سے ہوں میں پادر حنا ہنوز
اے خارِ دشت دامنِ شوقِ رسیدہ کھینچ

تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرق ہوئے میرے رفقا میرے بعد

بنتا اسد میں سرمۂ چشمِ رکابِ یار
آیا نہ میری خاک پہ وہ شہسوار حیف

ہر عضو غم سے ہے شکن آسا شکستہ دل
جوں زلفِ یار ہوں میں سراپا شکستہ دل

نے کوچۂ رسوائی و زنجیر پریشاں
اے نالہ میں کس پردے میں آہنگ نکالوں

تسلیم سے یہ نالۂ موزوں ہوا حصول
اے بے خبر میں نغمۂ چنگِ خمیدہ ہوں
 
آخری تدوین:
Top