Qamar Shahzad

محفلین
آج یہ کون مرے شہر کا رستہ بھُولا
دیکھ کر جس کو مرا قلب دھڑکنا بھُولا

میں ہی مبہوت نہیں حسنِ فسوں گر کی قسم
جس نے دیکھا اسے پلکوں کو جھپکنا بھُولا

بھولتا کیسے مرا دل مری جاں کا مالک
کون حاکم ہے کہ جو اپنی رعایا بھُولا

بھولپن میں کیا اظہارِ محبت اس نے
کتنا بھولا ہے، مرا بزم میں ہونا بھُولا

چاند بھی دے گا شہادت کہ درونِ فرقت
میں کسی شب نہ ترا چاند سا چہرہ بھُولا

بھول جاتا ہے حقیقت میں وہی روزِ وصال
جو نہیں خواب میں اک روز بھی آنا بھُولا

بعد چسکی کے ترے ہاتھ کو چوما یوں ہے
خیر سے چائے میں تُو آج ہے میٹھا بھُولا

یاد رہتی نہیں باتیں مجھے کل کی لیکن
آج تک مجھ کو نہیں اس کا سراپا بھُولا

غیر ہی دیکھا کیے اس کو درونِ محفل
وہ سجا جس کے لیے اس کو دکھانا بھُولا
قمر آسی
 
Top