محمد وارث

لائبریرین
ولایت

مرزا نے شاہی دربار میں اپنی غزل سنائی اور جب مقطع پڑھا۔۔

یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

تو بہادر شاہ بولا "بھئی ہم تو جب بھی ویسا نہ سمجھتے۔"

مرزا نے کہا۔ "حضور تو اب بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں، مگر یہ اس لئے ارشاد ہوا ہے کہ میں اپنی ولایت ہر مغرور نہ ہو جاؤں۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
عورتوں کی نماز

ایک روز کسی سے کہنے لگے۔ "کیوں صاحب، ہم تو مرد ہیں، ہمارا نماز پڑھنا ٹھیک ہے، ہم نماز پڑھتے ہیں تو اسلیے کہ حوریں ملیں، غلمان ملیں، یہ عورتیں آخر کیوں نماز پڑھتی ہیں؟ انہیں کس کی تلاش ہے؟"۔
 

محمد وارث

لائبریرین
باغی مسلمان

غدر کے بعد مرزا کی پنشن بند تھی اور دربار میں شرکت کی اجازت نہ تھی، ایک روز پنڈت موتی لال، میر منشی لیفٹیننٹ پنجاب مرزا سے ملنے آئے، پنشن کا ذکر چلا تو مرزا نے کہا ۔۔۔

"تمام عمر میں ایک دن شراب نہ پی ہو تو کافر اور ایک دفعہ نماز پڑھی ہو تو گنہگار، پھر میں نہیں جانتا کہ سرکار نے کسطرح مجھے باغی مسلمانوں میں شمار کرلیا۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی پہلے بھی عرض کی تھی کہ غدر کی بجائے جنگِ آزادی لکھیں تو بہتر ہے۔

جی شمشاد بھائی، اب خیال رکھوں گا، لیکن میرے خیال میں یہ کوئی اتنا برا لفظ بھی نہیں ہے۔ اللہ جنت نصیب کرے، اہنے سر سید احمد تو ساری زندگی اسے "بغاوت" ہی لکھتے اور کہتے رہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
چودہ طبق

مرزا کے ایک شاگرد نے ان سے کہا۔

حضرت آج میں‌ امیر خسرو کی قبر پر گیا تھا، مزار پر کھرنی کا درخت ہے، اسکی کھرنیاں میں نے خوب کھائیں، کھرنیوں کا کھانا تھا کہ فصاحت و بلاغت کا دروازہ کھل گیا، دیکھیئے میں‌ کیسا فصیح و بلیغ ہوگیا ہوں۔

مرزا چہک کر بولے۔۔

"ارے میاں تین کوس کیوں گئے؟ میرے پچھواڑے کے پیپل کی پیپلیاں کیوں نہ کھا لیں، جو چودہ طبق روشن ہو جاتے۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
مولانا صہبائی

ایک روز کسی صحبت میں مولانا صہبائی کا ذکر آیا، مرزا نے کہا۔۔

"مولانا نے بھی کیا عجیب و غریب تخلص رکھا ہے، عمر بھر میں ایک چلو بھی نصیب نہیں ہوئی اور صہبائی تخلص رکھا ہے۔ سبحان اللہ، قربان جائیے اس اتقا کے اور صدقے جائیے اس تخلص کے۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
میاں مٹھو

جاڑے کے موسم میں ایک دن طوطے کا پنجرا سامنے رکھا تھا، طوطا سردی کے سبب پروں میں منہ چھپائے بیٹھا تھا، مرزا نے دیکھا تو کہا ۔۔

"میاں مٹھو، نہ تمھارے جورو، نہ بچے، تم کس فکر میں یوں سر جھکائے بیٹھے ہو۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
تاریخا

مرزا نے حضرت صاحب عالم مارہروی سے ان کا سنِ ولادت دریافت کیا، انہوں‌ نے کہا کہ میرا سالِ ولادت لفظ "تاریخ" سے نکلتا ہے جس کا عدد 1211 ہجری ہے۔ مرزا کی ولادت 1212 ہجری میں واقع ہوئی تھی، چنانچہ اس کے جواب میں‌ مرزا نے یہ شعر لکھ بھیجا:

ہاتفِ غیب سُن کے یہ چیخا
ان کی تاریخ، میرا تاریخا
 

محمد وارث

لائبریرین
بادشاہ

ایک دفعہ رات کو پلنگ پر لیٹے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے، تاروں کی ظاہری بے ربطی اور انتشار دیکھ کر بولے۔

"جو کام خود رائی سے کیا جاتا ہے، اکثر بے ڈھنگا ہوتا ہے، ستاروں کو دیکھو کس ابتری سے بکھرے ہوئے ہیں، نہ تناسب ہے نہ انتظام، نہ بیل ہے نہ بوٹا، مگر بادشاہ خود مختار ہے، کوئی دم نہیں مار سکتا۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
شیطان

مرزا کی بیٹھک ایک چھوٹا سا تنگ کمرہ تھا جسکا دروازہ بھی بیحد چھوٹا تھا۔ ایک بار رمضان کے مہینے میں مفتی صدرالدین آزردہ ٹھیک دوپہر کے وقت مرزا سے ملنے آئے، اس وقت مرزا اپنے کسی دوست کے ساتھ چوسر کھیل رہے تھے۔

آرزدہ انہیں دیکھ کر کہنے لگے کہ مرزا صاحب ہم نے حدیث میں پڑھا تھا کہ رمضان کے مہینے میں شیطان قید ہوتا ہے مگر آپ کو چوسر کھیلتے ہوئے دیکھ کر حدیث کی صحت میں تردد پیدا ہوگیا ہے۔

مرزا نے فوراً کہا، قبلہ حدیث بالکل صحیح ہے، مگر آپ کو معلوم ہو کہ وہ جگہ جہاں شیطان قید رہتا ہے، یہی تو ہے۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تشنہ لب

مرزا کے تنگدستی کے دنوں میں جب پنشن وغیرہ بند تھی اور پینے پلانے کا سامان مہیا نہیں تھا، اپنے ایک خط میں اپنی حالت کو یوں بیان کرتے ہیں۔

"میر مہدی، صبح کا وقت ہے، جاڑا خوب پڑ رہا ہے، انگھیٹی سامنے رکھی ہوئی ہے، دو حرف لکھتا ہوں، ہاتھ تاپتا جاتا ہوں، آگ میں گرمی سہی مگر وہ آتشِ مے کہاں کہ جب دو جرعے پی لئے فوراً رگ و پے میں دوڑ گئی، دل توانا ہوگیا، دماغ روشن ہوگیا۔ نفسِ ناطقہ کو تواجد بہم پہنچایا، ساقیٔ کوثر کا بندہ اور تشنۂ لب؟ ہائے غضب، ہائے غضب۔"

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نواب علاؤ الدین کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔

بدست مرگ ولے بدتر از گماں تو نیست

مکرر لکھ چکا ہوں کہ قصیدے کا مسودہ میں نے نہیں رکھا۔ مکرر لکھ چکا ہوں کہ مجھے یاد نہیں کہ کونسی رباعیاں مانگتے ہو، پھر لکھتے ہو، رباعیاں بھیج، قصیدہ بھیج، معنی اسکے یہ کہ تو جھوٹا ہے، اب کے تو مکرر بھیجے گا۔

بھائی قرآن کی قسم، انجیل کی قسم، توریت کی قسم، زبور کی قسم، ہنود کے چار وید کی قسم، دساتیر کی قسم، ژند کی قسم، اَوِستا کی قسم، گُرو کے گرنتھ کی قسم، نہ میرے پاس وہ قصیدہ، نہ مجھے وہ رباعیاں یاد، کلیات کے باب میں جو عرض کر چکا ہوں۔

برہما نیم کہ ہستیم و ہماں خواہد بُود

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خانہ داری

مرزا خانہ داری کو سخت مصیبت قرار دیتے تھے، کسی نے انکے ایک شاگرد امراؤ سنگھ کی دوسری بیوی کے مرنے کا حال لکھا اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اسکے ننھے ننھے بچے ہیں اب اگر تیسری شادی نہ کرے تو کیا کرے اور بچوں کی کسطرح پرورش ہو۔

مرزا اسکے جواب میں لکھتے ہیں۔

"امراؤ سنگھ کے حال پر اسکے واسطے رحم اور اپنے واسطے رشک آتا ہے، اللہ اللہ ایک وہ ہیں کہ دو دو بار انکی بیڑیاں کٹ چکی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ایک اور پچاس برس سے جو پھانسی کا پھندہ گلے میں پڑا ہے تو نہ پھندہ ہی ٹوٹتا ہے نہ دم ہی نکلتا ہے، اس کو سمجھاؤ کہ بھائی تیرے بچوں کو میں پال لوں گا، تو کیوں بلا میں پھنستا ہے۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
بارش

ایک روز مرزا برآمدے میں بیٹھے شراب پی رہے تھے، بارش ہو رہی تھی، کسی نے کہا۔ "بارش بہت ہوئی ہے۔"

مرزا نے جواب دیا۔

"میں تو جب جانوں کہ پانی چبوترے کے اوپر آ جائے۔"

ساتھی نے عرض کی۔ "حضرت اتنے میں تو تمام دلی ڈوب جائے گی۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
قاطع برہان

مرزا نے ایک کتاب "قاطع برہان" لکھی، اسکا جواب اکثر مصنفوں نے دیا، ان میں سے بعض کے جواب مرزا نے بھی لکھے اور ان میں زیادہ تر شوخی اور ظرافت سے کام لیا لیکن مولوی امین الدین کی کتاب "قاطع قاطع" کا جواب مرزا نے کچھ نہیں دیا کیونکہ اس میں فحش اور ناشائستہ الفاظ کثرت سے لکھے تھے۔

کسی نے کہا۔ "حضرت آپ نے اس کا کچھ جواب نہیں لکھا۔"

مرزا نے جواب دیا۔ "اگر کوئی گدھا تمھارے لات مار دے تو کیا تم بھی اس کے لات مارو گے؟"
 

محمد وارث

لائبریرین
نام کی مُہر

ایک روز بہادر شاہ ظفر اپنے چند مصاحبوں کے ساتھ باغ میں ٹہل رہے تھے، مرزا بھی ساتھ تھے۔ اس باغ کے آم سوائے بادشاہ یا بیگمات کے اور کسی کو میسر نہ آ سکتے تھے۔ مرزا بار بار آموں کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے۔

بادشاہ نے پوچھا۔ "مرزا اس قدر غور سے کیا دیکھ رہے ہو؟"

عرض کی۔ "پیر و مرشد یہ جو کسی نے کہا ہے

بر سرِ ہر دانہ بہ نوشتہ عیاں
کیں فلاں ابنِ فلاں ابنِ فلاں

میں بھی دیکھ رہا ہوں کہ کسی دانے پر میرے نام کی مہر بھی ہے۔"

بادشاہ یہ سن کر مسکرائے اور اسی روز آموں کا ایک ٹوکرا مرزا کے ہاں بھجوا دیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گدھے اور آم

مرزا صاحب کے دوستوں میں سے حکیم رضی الدین خاں کو آم نہیں بھاتے تھے، ایک دن وہ مرزا کے مکان پر برآمدے میں بیٹھے تھے، اتنے میں ایک کمہار اپنے گدھے لے کر گزرا، گلی میں آم کے چھلکے پڑے ہوئے تھے، گدھے نے انہیں سونگھا اور چھوڑ دیا، اس پر حکیم صاحب چہک کر بولے۔

"مرزا صاحب، دیکھیئے آم ایسی شے ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا۔"

مرزا نے جواب دیا۔ "بے شک گدھا آم نہیں کھاتا۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
مرزا اور آم

مرزا آموں سے کبھی سیر طبیعت نہ ہوتے تھے۔ اہلِ شہر تحفتہً بھیجتے، مرزا خود بازار سے منگواتے، باہر سے دور دور کا آم بطور سوغات آتا تھا مگر مرزا کا جی نہ بھرتا۔

ایک محفل میں مولانا فضل حق اور دیگر احباب بیٹھے آموں کی تعریف کر رہے تھے، جب سب لوگ اپنی اپنی رائے ہانک چکے تو مولانا فضل حق نے مرزا سے کہا کہ تم بھی اپنی رائے بیان کرو۔

مرزا نے کہا۔ "بھئی میرے نزدیک تو آم میں صرف دو باتیں ہونی چاہئیں، میٹھا ہو اور بہت ہو۔"

اس پر سب حاضرین کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اجرت

ایک روز میر مہدی مجروح مرزا کے پاس آئے، مرزا پلنگ پر پڑے کراہ رہے تھے۔ میر مہدی پاؤں دابنے لگے، مرزا نے کہا "بھئی تو سید زادہ ہے، مجھے کیوں گنہگار کرتا ہے۔"۔ انہوں نے نہ مانا اور کہا۔ "اگر آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیر دابنے کی اجرت دے دیجیئے گا۔" مرزا نے کہا "ہاں اس میں مضائقہ نہیں۔"

جب وہ پیر داب چکے تو انہوں نے اجرت طلب کی۔ مرزا نے کہا۔

"بھئی کیسی اجرت؟ تم نے میرے پاؤں دابے، میں نے تمھارے پیسے دابے، حساب برابر ہوا۔"
 
Top