13۔غالب کے کلام کی پیروڈی
حکومت اور فرینڈلی اپوزیشن کے نام ایک غزل
محمد خلیل الرحمٰن
انہی کو ووٹ دے کے پھر نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
‘نہ ہو جب دِ ل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو’
کسر کوئی نہ چھوڑیں گے وہ اب برباد کرنے میں
عوام اب اُن سے کیوں پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو
وفا کیسی، کہاں کی شرم، جب سب لوٹنا ٹھہرا
مرے بھولے ، بچا ہو جو وہ تیرا آستاں کیوں ہو
بنے فرینڈلی اپوزیشن تو غارت کردیا اُن کو
‘ہوئے تم دوست جن کے دشمن اُن کا آسماں کیوں ہو’
یہی گر ہے اپوزیشن تو حامی کِس کو کہتے ہیں
الیکشن سر پر آپہنچے تو یہ آہ و فغاں کیوں ہو
الیکشن جیت کر حزبِ مخالف پھر بھی کہلائیں؟
یہاں کرسی کے اور اپنے کوئی اب درمیاں کیوں ہو
وہ جب کچھ بھی نہ مانیں گے، ہم اپنی سیٹ کیوں چھوڑیں
اسمبلی سے الگ ہوکر ہمارا امتحاں کیوں ہو
عدالت کو پچھاڑا تھا خود اپنی ہی حکومت میں
کوئی اِس واقعے کا اب یہاں پر رازداں کیوں ہو
ملے ہیں جن کو کمپیئوٹر وہ پکے ووٹ ہیں اپنے
جسے کچھ بھی ملا نہ ہو وہ ہم پر مہرباں کیوں ہو
کہا تم نے کہ کیوں ہو لوُٹنے والوں پہ پابندی
‘بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو’
نکالا چاہتا ہے کام کیا نعروں سے تو غالب
ترے نعرہ لگانے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو