عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

(کچھ ٹائیپوز کی درستی کردی ہے)

مقطع پر نظرِ ثانی فرمائیے۔ تم ، وہ میں سب ہی آگئے ہیں۔ ضمیر ایک رکھیے
اب عظیم اُس کو تو میری یاد بھی آتی نہیں
جس پہ میں الزام دھرتا ہوں نہ سونے دے مجھے​
کیسا رہے گا؟
 

عظیم

محفلین
(کچھ ٹائیپوز کی درستی کردی ہے)

مقطع پر نظرِ ثانی فرمائیے۔ تم ، وہ میں سب ہی آگئے ہیں۔ ضمیر ایک رکھیے
اب عظیم اُس کو تو میری یاد بھی آتی نہیں
جس پہ میں الزام دھرتا ہوں نہ سونے دے مجھے​
کیسا رہے گا؟

اچھا ہے حضور نوازش


دشت گر ہے دل مرے پھر گل تو گلشن بھی نہیں
چھوڑ گلشن دشت ہی میں بیج بونے دے مجھے

غلطی نہیں تھی جناب
دعائیں
 

الف عین

لائبریرین
مقطع دونوں ۔صورتوں میں درست ہے۔ البتہا
دشت گر ہے دل مرے پھر گل تو گلشن بھی نہیں
چھوڑ گلشن دشت ہی میں بیج بونے دے مجھے
۔۔ابلاغ نہیں ہو رہا۔ اگر دشت ’میرا‘ دل ہو تو کچھ بہتر ہو۔ لیکن الفاظ کی شست تب بھی اچھی اور رواں نہیں۔

اُس اذیت سے تو اچھا ہے مہرباں یہ سکوں
اے مرے غم خار غم کا بھار ڈھونے دے مجھے
÷÷مہرباں کا تلفظ!! محمد یعقوب آسی سے بھی پوچھا جائے۔ میرے خیال میں تو اس کی ہ پر جزم ہونا چاہئے۔ یہاں ہ متحرک نظم ہوا ہے۔ اور ’غم خار‘ یا ‘غم خوار‘
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس اذیت سے تو اچھا ہے مہرباں یہ سکوں
اے مرے غم خار غم کا بھار ڈھونے دے مجھے
÷÷مہرباں کا تلفظ!! محمد یعقوب آسی سے بھی پوچھا جائے۔ میرے خیال میں تو اس کی ہ پر جزم ہونا چاہئے۔ یہاں ہ متحرک نظم ہوا ہے۔ اور ’غم خار‘ یا ‘غم خوار‘

آداب جناب الف عین صاحب۔
مہرباں = مِ ہْ ر + با ن (وزن: فاعِلُنمہربان (وزن: فاعلات یا فاعلان)
غم خوار درست املاء ہے۔ واوِ معدولہ لکھنے میں آئے گا۔ پڑھنے میں یہاں غم خوار (وزن: مفعول)
مزید توضیح: خار = کانٹا جب کہ خوار = خراب، ذلیل یہ دو الگ الگ لفظ ہیں۔
 

عظیم

محفلین
مقطع دونوں ۔صورتوں میں درست ہے۔ البتہا
دشت گر ہے دل مرے پھر گل تو گلشن بھی نہیں
چھوڑ گلشن دشت ہی میں بیج بونے دے مجھے
۔۔ابلاغ نہیں ہو رہا۔ اگر دشت ’میرا‘ دل ہو تو کچھ بہتر ہو۔ لیکن الفاظ کی شست تب بھی اچھی اور رواں نہیں۔

اُس اذیت سے تو اچھا ہے مہرباں یہ سکوں
اے مرے غم خار غم کا بھار ڈھونے دے مجھے
÷÷مہرباں کا تلفظ!! محمد یعقوب آسی سے بھی پوچھا جائے۔ میرے خیال میں تو اس کی ہ پر جزم ہونا چاہئے۔ یہاں ہ متحرک نظم ہوا ہے۔ اور ’غم خار‘ یا ‘غم خوار‘
آداب جناب الف عین صاحب۔
مہرباں = مِ ہْ ر + با ن (وزن: فاعِلُن)، ">مہربان (وزن: ">فاعلات یا فاعلان)
غم خوار درست املاء ہے۔ واوِ معدولہ لکھنے میں آئے گا۔ پڑھنے میں یہاں غم خوار (وزن: مفعول)
مزید توضیح: خار = کانٹا جب کہ خوار = خراب، ذلیل یہ دو الگ الگ لفظ ہیں۔


جناب الف عین اور جناب محمد یعقوب آسی صاحب
میں آپ دونوں حضرات کا تہہِ دل سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری اس کاوش پر اپنی رائے کا اظہار کیا اور یوں میری ہمت افزائی کی
اللہ سبحان و تعالی آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے
آمین
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کیا بتائیں زندگی کیسے گزاری
دیکھ لو آکر کبھی صورت ہماری

اک عجب سا وہم رہتا ہے ہمیں تب
جب نشہ اترے رہے دن بھر خماری

بے وجہ الزام دھرتے جا رہے ہو
ہم کو اک دن ہو نہ جائے بے قراری

خوش نصیبی اب ہماری بد نصیبی
بد نصیبی کی نظر ہم نے اتاری

کون سمجھائے اسے وہ ڈھونڈتا ہے
اب ہماری آنکھ میں صورت تمہاری

شیخ صاحب کر رہے ہیں جس کو سجدہ
اس خدا کو تو پسند ہے خاکساری

آہ دل پر اب حکومت کفر کی ہے
آہ لب پر ہے مگر کلمہ بھی جاری

ملک پر قربان ہونا جانتے ہیں
راہِ حق پر کب کسی نے جان واری

نغمہ ہائے گل و بلبل کا سنیں وہ
جن کی خاطر یہ غزل ہم نے سنواری

ہم عظیم اُن سے ضیا کیوں مانگتےہیں
کب تخیل پر ہے اپنے رات طاری ؟
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
مشکل پڑے کبھی جو مشکل کشا بلاو
ہاتھوں کو رب کی جانب کس کے لیئے اُٹھاو؟

انگشت اُٹھائے کوئی جس پر خدا کی خاطر
ممکن ہو وہ عقیدہ بہتر ہے بھول جاو

ہم نے تھا بس تراشہ اپنے ہنر کی خاطر
کس نے تمہیں کہا تھا بت کو خدا بناو

یارب حقیقتوں پر ظلمت نے قہر ڈھائے
باطن دکھائی دے گا ظاہر جو گر چھپاو

کہتے ہیں سچ کبھی ہم سنتے ہو بے رخی سے
کہہ دیں جو جھوٹ اک دن لازم ہے مسکراو

گزری ہے ہم پہ کیا کیا فرقت میں تیری ہمدم
فرصت کبھی ملے تو سننے ضرور آو

ہم بھی تھے بھولے بھٹکے تم سے مسافروں میں
قصے مسافتوں کہ ہم کو نہ تم سناو

دیکھو کسی نے دیکھا ہوگا نہ وہ نظارہ
دلبر تم اپنے رُخ سے پردہ نہ یوں ہٹاو

دنیا سے کب ہماری بنتی تھی جو بنے گی ؟
ہم تو چلے جہاں سے جگ سے تم ہی نبھاو

کہنا عظیم کل تک پھرتا تھا در بدر جو
در پر اسی کے جاکر ہم کو بھی تم بٹھاو

مر کر ہوئے ہیں زندہ ہم نے عظیم دیکھا
میت پہ عاشقوں کی آنسو نہ تم بہاو
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
تکنیکی طور پر تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ کوئی شعر ایسا بھی نہیں ہے جو بہت زیادہ قابل تعریف ہو!!
املا کے لحاظ سے میں دکھاؤ، جاؤ وغیرہ کو درست سمجھتا ہوں بہ نسبت دکھاو اور جاو کے۔
اس کے علاوہ ’تراشہُ وہ چیز، اسم، ہے جو تراشنے کے عمل کا حاصل ہو۔ بطور فعل ماضی ‘تراشا‘ درست ہے۔
 

عظیم

محفلین
تجھ سےہے دشمنی پر، دنیا سے دوستی ہے
مجھ کو عزیز یارب اس کی تو ہر خوشی ہے

ڈرتا ہوں سچ کہوں جو دشمن جہان ہو گا
ورنہ زباں کو میری لفظوں کی کیا کمی ہے

ہنستا ہوں سن کے باتیں یارب میں عاشقوں کی
کہتے ہیں زندگی تو مر کرہی مل رہی ہے

بھٹکا ہوں بے خودی میں اپنی بتا دے مجھ کو
تجھ تک جو لائے یارب رستہ یہ کیا وہی ہے ؟ِ

بن کر رقیب بیٹھے کل تک جو رازداں تھے
کیسی یہ سر کشی کی جگ میں ہوا چلی ہے

شہرِ حرم دکھا دے یا رب کہ اب تو میری
چشمِ دریدہ تک بھی کرنے وضو چلی ہے

کیا وہ خدائے برتر میرے بنیں گے رہبر ؟

فطرت میں جن کی پنہاں ازلوں سے رہ زنی ہے

میں نے عظیم جس سے ، دریا بہا دیئے ہیں
غیروں کے واسطے وہ ، میری ہی تشنگی ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کٹ گئی عمرِ جاوداں پل میں
آج کو جی گیا ہوں میں کل میں

ہر گھڑی وہم یہ ستاتا ہے
خون بہتا ہو آنکھ کے جل میں

تجھ کو دکھلاوں گا بھلا کیسے
دل پھنسا تیغَ یار کے بل میں

عشق نے میرے مجھ کو دکھلایا
آب ریساں کا بھی نشاں تھل میں

کیوں برسنے لگا لہو اس سے ؟
آنکھ روئے نہ میری بادل میں

نام لینا ہو گر محمد کا
عاجزی رکھ زبان کے بل میں

اس زمانےکے سب چراغوں کا
اک دھواں تیرگی کے کاجل میں

دور سے دیکھتے نہ تم رہنا
لوگ پھنستے عظیم دلدل میں
 
آخری تدوین:
Top