عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
عشق کے حوالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
درد کی مثالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
میں کہوں محبت میں جان بھی لٹا دونگا
میرے ان خیالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
عاجزی تو لازم ہے پر اَنا کے عادی ہیں
سر جھکانے والوں سے اُن کو خوف آتا ہے
پوچھ لوں کبھی اُن سے ساتھ کب تلک دینگے
میرے ان سوالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
بوجھ اپنے کاندھے پہ میں اُٹھاوں صدیوں کا
گزرے چند سالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
کیوں عظیم آئیں وہ تجھ سے ملنے اس گھر میں
اُجڑے گھر کے جالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
 

عظیم

محفلین
یہی رہا جو گناہوں کا حال کیا ہوگا
عروج ایسا ہے ظالم زوال کیا ہوگا

ہمیں تو اتنا بھی اب یاد تک نہیں رہتا
لحد میں اُترے تو پہلا سوال کیا ہوگا

وہ خود پرست کہ منکر جو خود پرستی کے
ہمیں کسی کا بھلا اب خیال کیا ہوگا

گئے دنوں کو بھی روتے ہیں آج بیٹھے ہم
یہ بھول کب کے چکے اب کہ سال کیا ہوگا

خود اپنے آپ سے ملتے ہوئے بھی شرمائیں
اب اس سے بھڑ کےبھی ہم کو ملال کیا ہوگا

زمانہ لاکھ ستائے مگر نہ روئیں ہم
کسی کو ضبط پہ ایسا کمال کیا ہوگا

عظیم جس کی محبت میں ہم جہاں بھولے
ہماری یاد میں وہ بھی نڈھال کیا ہوگا
 
یہی رہا جو گناہوں کا حال کیا ہوگا
عروج ایسا ہے ظالم زوال کیا ہوگا

ہمیں تو اتنا بھی اب یاد تک نہیں رہتا
لحد میں اُترے تو پہلا سوال کیا ہوگا

وہ خود پرست کہ منکر جو خود پرستی کے
ہمیں کسی کا بھلا اب خیال کیا ہوگا

گئے دنوں کو بھی روتے ہیں آج بیٹھے ہم
یہ بھول کب کے چکے اب کہ سال کیا ہوگا

خود اپنے آپ سے ملتے ہوئے بھی شرمائیں
اب اس سے بھڑ کےبھی ہم کو ملال کیا ہوگا

زمانہ لاکھ ستائے مگر نہ روئیں ہم
کسی کو ضبط پہ ایسا کمال کیا ہوگا

عظیم جس کی محبت میں ہم جہاں بھولے
ہماری یاد میں وہ بھی نڈھال کیا ہوگا

بہت خوبصورت غزل ہے عظیم شہزاد بھائی۔ بہت داد قبول فرمائیے۔

اور ہاں تعارف کی لڑی میں اپنا تعارف بھی پیش فرمائیے، ہم منتظر ہیں۔
 

عظیم

محفلین

عظیم

محفلین
اب نئے عزم کی بنیاد ہے ڈالی ہم نے
اک نئی راہِ عمل دل سے نکالی ہم نے

زندگی درد کی نسبت سے رواں رہتی ہے
ہر خوشی خوابِ حقیقت سے مٹا لی ہم نے

بے وجہ عالمِ تنہائی میں روتے رہنا
کوسناخود کو تو عادت ہی بنا لی ہم نے

کر کے فریاد ترے در سے بھی خالی لوٹے
اب کہ امید بتوں سے ہے لگا لی ہم نے

آئینہ ہم کو ہماری نہ دکھائے صورت
خود سے اپنی بھی یہ پہچان چھپا لی ہم نے

جانے کس کا وہ لہو آج تلک بہتا ہے
لاش مقتل سے تو کب کی ہے اُٹھا لی ہم نے

تم یہیں ہو یہ گماں ہم کو سدا رہتا ہے
تیری خوشبو سی ہے سانسوں میں بسا لی ہم نے

تیرے کوچے میں اسے آ کے جینگے ہمدم
اک گھڑی عمر سے اپنی جو چرا لی ہم نے

چاند آنگن میں نہیں گر جو اُترنے والا
تو شبِ ہجر ستاروں سے سجا لی ہم نے
 

طارق شاہ

محفلین
عظیم شہزاد بھائی ۔
آپ کی غزل بہت خوب، دلفریب اور با معنی ہے ۔ لکھتے رہیں صاحب
بہت سے دعائیں آپ کے لئے!
ایک صورت، جو آپ کے غزل پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں آئی لکھ رہا ہوں
جو ربط کے تناظر میں میرا دوستانہ خیال ہے، دیکھ لیں !
اتفاق ضروری نہیں:)
میرے تجویز کردہ چوتھے شعر کے مصرع ثانی کو یوں بھی کرسکتے ہیں کہ:
"یہ درگزر ہی رہا اب کے سال کیا ہوگا "
بہت خوش رہیں
غزلِ
عظیم شہزاد
یہی رہا جو گناہوں کا حال کیا ہوگا
اِس اِنتہا کا ہے سوچا زوال کیا ہوگا

ہمیں تو اِتنا بھی اب یاد تک نہیں رہتا
لحد میں اُترے پہ، پہلا سوال کیا ہوگا

وہ، بُت پرست رہے ہم، نہ مُنکرِ ہستی !
ہمیں کسی کا بھلا اب خیال کیا ہوگا

گئے دِنوں کو ہی روتے ہیں بیٹھے بیٹھے ہم!
ہے درگزر یہ، میاں اب کے سال کیا ہوگا

خود اپنے آپ سے مِلتے ہوئےبھی شرمائیں
اب اِس سے بڑھ کےبھی، ہم کوملال کیا ہوگا

ہزارکوششِ عالم پہ، ہم نہیں روئے!
کسی کو ضبط پہ ایسا کمال کیا ہوگا

عظیم جس کی محبّت میں تم جہاں بُھولے
تمھاری یاد میں، تم سا نڈھال کیا ہوگا
عظیم شہزاد
 

عظیم

محفلین
عظیم شہزاد بھائی ۔
آپ کی غزل بہت خوب، دلفریب اور با معنی ہے ۔ لکھتے رہیں صاحب
بہت سے دعائیں آپ کے لئے!
ایک صورت، جو آپ کے غزل پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں آئی لکھ رہا ہوں
جو ربط کے تناظر میں میرا دوستانہ خیال ہے، دیکھ لیں !
اتفاق ضروری نہیں:)
میرے تجویز کردہ چوتھے شعر کے مصرع ثانی کو یوں بھی کرسکتے ہیں کہ:
"یہ درگزر ہی رہا اب کے سال کیا ہوگا "
بہت خوش رہیں
غزلِ
عظیم شہزاد
یہی رہا جو گناہوں کا حال کیا ہوگا
اِس اِنتہا کا ہے سوچا زوال کیا ہوگا

ہمیں تو اِتنا بھی اب یاد تک نہیں رہتا
لحد میں اُترے پہ، پہلا سوال کیا ہوگا

وہ، بُت پرست رہے ہم، نہ مُنکرِ ہستی !
ہمیں کسی کا بھلا اب خیال کیا ہوگا

گئے دِنوں کو ہی روتے ہیں بیٹھے بیٹھے ہم!
ہے درگزر یہ، میاں اب کے سال کیا ہوگا

خود اپنے آپ سے مِلتے ہوئےبھی شرمائیں
اب اِس سے بڑھ کےبھی، ہم کوملال کیا ہوگا

ہزارکوششِ عالم پہ، ہم نہیں روئے!
کسی کو ضبط پہ ایسا کمال کیا ہوگا

عظیم جس کی محبّت میں تم جہاں بُھولے
تمھاری یاد میں، تم سا نڈھال کیا ہوگا
عظیم شہزاد
محترم طارق شاہ صاحب​
سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے میری اس کاوش کو اس قدر سراہا اور میری ہمت افزائی کی ۔۔۔​
جناب گستاخی معاف آپ نے ربط تو قائم کر دیا مگر میرا خیال کہیں دفن ہو گیا ۔۔​
اِس اِنتہا کا ہے سوچا زوال کیا ہوگا
میں نے تو انتہا کا سوچا ہی نہ تھا جناب گستاخی معاف ۔۔​
لحد میں اُترے پہ، پہلا سوال کیا ہوگا
مصرع عیبِ تنافر کا شکار ہو گیا ہے شاید ۔۔۔​
وہ، بُت پرست رہے ہم، نہ مُنکرِ ہستی !
خود پرستی اور بُت پرستی میں فرق ہے حضور معاف کیجیئے گا مجھے شاعری کے بارے میں علم نہ ہونے کے برابر ہے یقینا آپ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں مگر اتنا کہنا چاہونگا میں اپنے احساسات کو بیاں کرتا ہوں اور اُن میں ملاوٹ نہیں کرتا ۔۔​
گئے دِنوں کو ہی روتے ہیںبیٹھے بیٹھے ہم!
ہے درگزر یہ، میاں اب کے سال کیا ہوگا
ہزارکوششِ عالم پہ، ہم نہیں روئے!
کسی کو ضبط پہ ایسا کمال کیا ہوگا
عظیم جس کی محبّت میں تم جہاں بُھولے
تمھاری یاد میں، تم سا نڈھال کیا ہوگا
بیحد شکریہ محترم یہاں خیال وہی رہا ۔۔۔ اور ربط بھی قائم ہو گیا ۔۔​
اگر کوئی بات ناگوار گزری ہو تو معافی کا طلب گار ہوں ۔۔ اللہ سبحان و تعالی آپ کے علم میں مزید اِظافہ فرمائے آمین​
 

طارق شاہ

محفلین
عظیم شہزاد صاحب!
جواب کے لئے ممنُون ہُوں، اور آپ کے دئے جواب میں میرے لئے کسی قسم کی بھی ، کوئی ناگوارگی نہیں!
معذرت میری قبول کریں کہ آپ کو زحمتِ جواب اور وضاحت میں ڈال دیا۔

تشکّر ایک بار پھر سے !
بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں :)
 
یہی رہا جو گناہوں کا حال کیا ہوگا
عروج ایسا ہے ظالم زوال کیا ہوگا

ہمیں تو اتنا بھی اب یاد تک نہیں رہتا
لحد میں اُترے تو پہلا سوال کیا ہوگا

وہ خود پرست کہ منکر جو خود پرستی کے
ہمیں کسی کا بھلا اب خیال کیا ہوگا

گئے دنوں کو بھی روتے ہیں آج بیٹھے ہم
یہ بھول کب کے چکے اب کہ سال کیا ہوگا

خود اپنے آپ سے ملتے ہوئے بھی شرمائیں
اب اس سے بھڑ کےبھی ہم کو ملال کیا ہوگا

زمانہ لاکھ ستائے مگر نہ روئیں ہم
کسی کو ضبط پہ ایسا کمال کیا ہوگا

عظیم جس کی محبت میں ہم جہاں بھولے
ہماری یاد میں وہ بھی نڈھال کیا ہوگا

بہت ہی عمدہ خیالات پیش کیے ہیں۔
یعنی محفل کو ایک اور عظیم شاعر مل گیا۔:)
 
عشق کے حوالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
درد کی مثالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
میں کہوں محبت میں جان بھی لٹا دونگا
میرے ان خیالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
عاجزی تو لازم ہے پر اَنا کے عادی ہیں
سر جھکانے والوں سے اُن کو خوف آتا ہے
پوچھ لوں کبھی اُن سے ساتھ کب تلک دینگے
میرے ان سوالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
بوجھ اپنے کاندھے پہ میں اُٹھاوں صدیوں کا
گزرے چند سالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
کیوں عظیم آئیں وہ تجھ سے ملنے اس گھر میں
اُجڑے گھر کے جالوں سے اُن کو خوف آتا ہے

بہت ہی خوب صورت کلام ہے۔
ماشاءاللہ!
 

بھلکڑ

لائبریرین
بہت اچھا لکھتے ہیں جناب بالکہ بہت ہی اچھا لکھتے ہیں۔۔۔۔

ڈھیروں مبارکباد قبول فرمائیں۔۔۔۔۔:):):)
 

بھلکڑ

لائبریرین
عاجزی تو لازم ہے پر اَنا کے عادی ہیں
سر جھکانے والوں سے اُن کو خوف آتا ہے

واہ واہ ۔۔۔۔ واقعی محفل میں ایک اچھے شاعر کی انٹری ہوئی تعارف بھی پیش کردیں جناب عظیم شہزاد صاحب۔۔۔۔۔۔۔
 
Top