عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
تِرے غم کا بہانا لگ رہی ہے
یہ دُنیا اِک فسانہ لگ رہی ہے

ہمیں یہ بیخُودی یہ بیقراری
تِرا ہی آزمانا لگ رہی ہے

یہ ہستی خواب ہے چہ در حقیقت
تِرا لکھ کر مٹانا لگ رہی ہے

نہ جانے کیا ہے اِس دِل کی تمنا
کہ ہر خواہش فسانہ لگ رہی ہے

وہ جو محفل سے اُٹھ کر جا چُکی ہے
وہ خُوبی عاشقانہ لگ رہی ہے

طلب جس کی ہمیں تڑپائے صاحب
وہ کُچھ کُچھ ظالِمانہ لگ رہی ہے
 

عظیم

محفلین
عقل کہتی ہے واں اندھیرا ہے
دِل یہ کہتا ہے چل، سویرا ہے

مَیں یہ کہتا ہُوں وہ تمہارا ہو
تُم یہ کہتے ہو صرف تیرا ہے

میری اوقات کیا کہ گِھر جاؤں
اس تری زُلف ہی نے گھیرا ہے

آج اک آخری ہے آہ میری
آج ماتم تمام میرا ہے

پھر کوئی آس ٹوٹ جائے گی
پھر سے ناکامیوں نے گھیرا ہے

اپنی حالت پہ رحم کھاتا ہُوں
حال کُچھ یُوں خراب میرا ہے

دِل چُرا کر عظیم کا بولے
ہر کوئی دوسرا لٹیرا ہے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جب کبھی زندگی سے پیار کِیا
اپنے قاتل کا اتنظار کِیا

کیا بتائیں کہ ایک کافر کا
ہم نے اے دوست اعتبار کِیا

چاک در چاک تھا یہ سینہ تو
آج دامن بھی تار تار کِیا

سخت کافر تھا جس نے پہلی بار
مذہبِ عشق اختیار کِیا

مر گئے جن کی بے رُخی سے ہم
اُن سے شکوہ نہ ایک بار کِیا

جی نہ پائیں گے بعد مرنے کے
اُن نگاہوں نے یُوں شکار کِیا

ہم نے صاحب تمام راتوں میں
دِن گُزرنے کا انتظار کِیا
 
آخری تدوین:

ساقی۔

محفلین
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ہم نے کوئی نظم یا غزل پڑھی ہوتی ہے لیکن بھول چکے ہوتے ہیں ۔مگر لاشعور میں سے کچھ نکل کر صفحہ قرطاس پر آ جاتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری ہی تخلیق ہے ۔ شاید ایسا ہی ہوا ہو۔۔ کیوں عظیم بھیا؟
 

عظیم

محفلین
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ہم نے کوئی نظم یا غزل پڑھی ہوتی ہے لیکن بھول چکے ہوتے ہیں ۔مگر لاشعور میں سے کچھ نکل کر صفحہ قرطاس پر آ جاتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری ہی تخلیق ہے ۔ شاید ایسا ہی ہوا ہو۔۔ کیوں عظیم بھیا؟

شاید ایسا ہی ہوا ہو : )
 

عظیم

محفلین
ہو جسے عشق مر چُکا سمجھو
اور نہیں موت کی دوا ، سمجھو

میری نظروں میں آ بسا ہے اک
بُت کدوں سے کوئی خُدا سمجھو

میں بھی سمجھاؤں حال کیا اپنا
تُم بھی میرا یہ حال کیا سمجھو

دُنیا والو ! یقین رکھتے ہیں
کافِروں سے ہمیں گِرا سمجھو

چاہتوں کی جزا نہیں ملتی
جرم کرنے کی ہے سزا سمجھو

اے مرے یار تُم ہی اب میرا
اس قدر درد میں کہا سمجھو

خُود بھی سمجھو عظیم سمجھا کر
ہم سے کہتے ہو مدعا سمجھو
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
درد حد سے گُزر گیا صاحب
پُوچھتے کیا ہو، مر گیا صاحب

کیا ہُوا خاک ہو چُکا گرچہ
عشق میں نام کر گیا صاحب

لا تعلق رہا زمانے سے
اور خُود میں بکھر گیا صاحب

جانے کس کی نظر لگی اِس کو
یہ جو اتنا سنور گیا صاحب

ایک مجنوں تھا اک جنونی تھا
کیا بتائیں کدھر گیا صاحب

دیکھ لے اے نگاہِ فتنہ ساز
آج کتنا سنور گیا صاحب
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
پاس آنے دو
مسکرانے دو

دل لگایا ہے
جاں گنوانے دو

جھوٹ کہتا تھا
سچ بتانے دو

ضبط اپنا ہی
آزمانے دو

بُھول جاتے ہو
یاد آنے دو

رُوٹھ جاؤ بھی
پھر منانے دو

خاک ہو جاؤں
کر دِکھانے دو

کھو گیا ہُوں میں
ڈھونڈ لانے دو

غم کا افسانہ
کہہ سنانے دو

اپنے ہجراں میں
مر ہی جانے دو

مُجھ کو رونے کے
کُچھ بہانے دو

مر چُکا صاحب
مر بھی جانے دو
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
واہ، یہ اچھی کہی ہے بیٹا۔ بس مطع بدل دو، اور یہ شعر
خاک ہو جاؤں
کر دِکھانے دو
کیا کر دکھانا ہے، یہ واضح نہیں ہوتا۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ بھی اچھی غزل کہی ہے
یوں کہو تو
کیا ہُوا خاک ہو چُکا لیکن
عشق میں نام کر گیا صاحباور یہ شعر سمجھ میں نہیں آیا، یعنی اس کی وجہِ
جانے کس کی نظر لگی اِس کو
یہ جو اتنا سنور گیا صاحب
باقی درست ہیں۔
 

عظیم

محفلین
درد حد سے گُزر گیا صاحب
پُوچھتے کیا ہو، مر گیا صاحب

کیا ہُوا خاک ہو چُکا لیکن
عشق میں نام کر گیا صاحب

لا تعلق رہا زمانے سے
اور خُود میں بکھر گیا صاحب

ایک مجنوں تھا اک جنونی تھا
کیا بتائیں کدھر گیا صاحب

دیکھ لے اے نگاہِ فتنہ ساز
آج کتنا سنور گیا صاحب
 
Top