عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
ترے غم میں یُوں مبتلا ہو گئے
کہ ہم اہلِ لطف و عطا ہو گئے

ملے اپنے محبوب سے اس طرح
کہ ہم آج خُود سے جُدا ہو گئے

جنہیں اِس نظر سے تراشا کئے
وہی بُت ہمارے خُدا ہو گئے

مگر کیا ہوا ہم رہیں ناں رہیں
یُوں حق دوستی کے ادا ہو گئے

عظیم اپنی صورت سے آتا ہے خوف
کہ ہم کل تھے کیا آج کیا ہو گئے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
تمہارے بارے خیال کیا ہے
بتائیں کیسے کہ حال کیا ہے

جواب سُنئے جو اُن کا جانیں
کہ آخر اپنا سوال کیا ہے

یہ ہجر ہے تو خُدا ہی جانے
فراقِ یاراں ، وِصال کیا ہے

اے گردِش وقت ٹھہر پُوچھوں
مَیں تُجھ سے تیرا خیال کیا ہے

جو تیرے غم میں نصیب ہو گا
ہمیں وہ جینا محال کیا ہے

عظیم سینے میں غم ہے کیسا
یہ اپنے دِل میں ملال کیا ہے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
چاک زخمِ جگر کے سِیتے ہیں
اِس طرح ہم غریب جِیتے ہیں

میکشوں میں نہ ہم گنے جائیں
اُن سے کہئے شراب پِیتے ہیں

کیا غضب ڈھا رہے ہیں وہ ہم پر
جن سے کہتے ہیں آپ جِیتے ہیں

اپنی جانب بھی شیر لپکے تھے
ہم بھی صاحب جناب چِیتے ہیں

جو مری جان کے بنے دشمن
وہ مُجھے جان سے چہیتے ہیں

عمرِ رفتہ کے زخم تھے صاحب
جن کو بیٹھے یُوں آج سِیتے ہیں
 

عظیم

محفلین
'' علم السمائیلیز''

ایک طالب علم کی کہانی میری زبانی اور آپ کی پریشانی ;)
طالبِ علم ۔ :rolleyes:
اُستاد ۔ :notworthy:
طالبِ علم ، :confused2:
اُستاد ۔ :notworthy:
طالبِ علم ۔ :cool:
استاد ۔ :laughing:
طالبِ علم ۔ :atwitsend:
اُستاد :idontknow:
طالبِ علم ۔ :cry2:
اُستاد ۔ :thinking:
طالبِ علم ۔ :confused2:
اُستاد ۔ :notworthy:
طالبِ علم ۔ :praying:
اُستاد ۔ :dancing:
طالبِ علم ۔ :laughing:
اُستاد ۔ ;)
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کیا ہمیں فائدہ ستانے کا
ہو بھلا ہم چلے زمانے کا

ہم نئے زخم ڈھونڈتے ہیں اور
آپ کو مان ہے پُرانے کا

تنکا تنکا لہو میں ڈُوبا ہے
میری خلوت کے آشیانے کا

دِل میں رکھنے کا ذائقہ ہے اور
لطف اپنا ہے، غم سنانے کا

بھاگ نکلے عظیم دُنیا سے
گھر میں نقشہ تھا قید خانے کا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غزل

تابِ چشمِ بَراہ آزمائیں کبھی
پرْدَۂِ نِیلْگُوں کو اُٹھائیں کبھی

جاں سے جائیں، کہ جائیں جہاں سے ، پہ ہم
کُوچَۂِ دِلبراں سے نہ جائیں کبھی

اے غمِ جاوِداں ، اے غمِ آ گہی !
نغْمَۂِ زندگی گُنگُنائیں ، کبھی ؟

یہ نہیں دِل لگی ، بُھول جائیں ، تُجھے
ہوں گے کافر اگر بُھول جائیں کبھی

درد آخر بڑھا اِسقدر، کیا کہیں
سوچتے ہیں جِگر چِیر کھائیں کبھی

محفلوں میں تو جاکر ہیں ہنستے مگر
خلوتوں میں بھی آنسو بہائیں کبھی

غافلو ! حق سُنیں یا سُنیں ہم نہیں
پر کہو دینِ حق کہہ سنائیں کبھی

صاحبِ ناتواں ، صاحبِ سوختہ
ہم غزل خوان خُود کو بتائیں کبھی

محمد عظیم صاحب

بابا تخلص پر وہ جو '' ڈنڈی'' سی لگتی ہے وہ کیسے لگائی جاتی ہے ؟
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
واہ میاں، اب تو اپنے پیروں پہ کھڑے ہو گئے، شاید جلد ہی میرے سہارے کی ضرورت نہیں پڑے گی!!
مطلع تبدیل کر دو، چشم براہ کے درمیان اضافت نہیں ہوتی۔
اور ان تینوں اشعار میں بھی کچھ کمیاں ہیں:
درد آخر بڑھا اِسقدر، کیا کہیں
سوچتے ہیں جِگر چِیر کھائیں کبھی
÷÷جگر کھانے سے جگر کا درد کم ہو گا؟؟؟؟

محفلوں میں تو جاکر ہیں ہنستے مگر
خلوتوں میں بھی آنسو بہائیں کبھی
۔۔طاہر ہے یہی سب کرتے ہیں۔ خلوتوں میں آنسو بہانے کی بجائے اگر ہنسنے مسکرانے کا ذکر ہوتا تو بات بنتی۔ پہلے مصرع میں ”ہیں ہنستے‘ بھی صوتی طور پر پسند نہیں آیا۔

غافلو ! حق سُنیں یا سُنیں ہم نہیں
پر کہو دینِ حق کہہ سنائیں کبھی
دین حق کس طرح کہ سنایا جا سکتا ہے؟ سمجھ میں نہیں آیا۔
محفل کے کی بورڈ میں تخلص کیسے لگتا ہے، مجھے بھی اس کا علم نہیں۔ اردو دوست کی بورڈ میں یہ back slash اور شفٹ کی کنجی پر ہے (یعنی| پر)۔ انڈرائڈ میں کسی اردو کی بورڈ میں اعراب یا کوئی اضاقفی کیریکٹر، حتیٰ کہ وقفہ (۔) بھی نہیں دیکھا اب تک
 

عظیم

محفلین
واہ میاں، اب تو اپنے پیروں پہ کھڑے ہو گئے، شاید جلد ہی میرے سہارے کی ضرورت نہیں پڑے گی!!
مطلع تبدیل کر دو، چشم براہ کے درمیان اضافت نہیں ہوتی۔
جی بہتر بابا : )

اور ان تینوں اشعار میں بھی کچھ کمیاں ہیں:
درد آخر بڑھا اِسقدر، کیا کہیں
سوچتے ہیں جِگر چِیر کھائیں کبھی
÷÷جگر کھانے سے جگر کا درد کم ہو گا؟؟؟؟
سوچا جگر کا ہی کام تمام کردوں نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری : )

محفلوں میں تو جاکر ہیں ہنستے مگر
خلوتوں میں بھی آنسو بہائیں کبھی
۔۔طاہر ہے یہی سب کرتے ہیں۔ خلوتوں میں آنسو بہانے کی بجائے اگر ہنسنے مسکرانے کا ذکر ہوتا تو بات بنتی۔ پہلے مصرع میں ”ہیں ہنستے‘ بھی صوتی طور پر پسند نہیں آیا۔

ہیں ہنستے مجھے بھی کھٹک رہا تھا : ) مگر جلدی میں رہتا ہُوں اللہ جانے کیوں ۔۔ اور خلوتوں میں آنسو بہانے کی ایک تجویز دینے کی کوشش کی تھی شاید اس بار بھی واضح نہیں کر پایا : )


غافلو ! حق سُنیں یا سُنیں ہم نہیں
پر کہو دینِ حق کہہ سنائیں کبھی

کہہ سنانا بابا : ) مراد سمجھا دینا لیا تھا ۔۔ لفظ لفظ بتا دینا تفصیلا ۔۔


دین حق کس طرح کہ سنایا جا سکتا ہے؟ سمجھ میں نہیں آیا۔
محفل کے کی بورڈ میں تخلص کیسے لگتا ہے، مجھے بھی اس کا علم نہیں۔ اردو دوست کی بورڈ میں یہ back slash اور شفٹ کی کنجی پر ہے (یعنی| پر)۔ انڈرائڈ میں کسی اردو کی بورڈ میں اعراب یا کوئی اضاقفی کیریکٹر، حتیٰ کہ وقفہ (۔) بھی نہیں دیکھا اب تک

جزاک اللہ
 

عظیم

محفلین
تابِ اہل نظر آزمائیں کبھی
پرْدَۂِ نِیلْگُوں کو اُٹھائیں کبھی

جاں سے جائیں کہ جائیں جہاں سے ، پہ ہم
کُوچَۂِ دِلبراں سے نہ جائیں کبھی

اے غمِ جاوِداں ، اے غِم آ گہی !
نغْمَۂِ زندگی گُنگُنائیں کبھی

یہ نہیں دِل لگی ، بُھول جائیں ، تُجھے
ہوں گے کافر اگر بُھول جائیں کبھی

صاحبِ ناتواں ، صاحبِ سوختہ
ہم غزل خوان خُود کو بتائیں کبھی


بابا اب دیکھئے کسی آنچ کی کسر تو نہیں رہ گئی ؟
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
تیرے غم میں بُھلا کے رکھ دوں گا
دِل کی دُنیا جلا کے رکھ دوں گا

تیرے در پر اے میرے قاتل خُود
اپنی گردن کٹا کے رکھ دوں گا

کیا خُداؤں سے واسطہ مُجھ کو
تُجھ کو اِک بُت بنا کے رکھ دوں گا

ہاں مری لاش پر چلے آنا
اپنی میت سجا کے رکھ دوں گا

صاحب اِس شوق میں مُجھے ڈر ہے
دین و دُنیا بُھلا کے رکھ دوں گا



( بابا دیکھئے کوئی کسر تو نہیں رہ گئی ۔۔ بتائیے پھر سے کہہ لیتا ہُوں )
 

عظیم

محفلین
تیرے دامن میں پُھول بَھر دُوں مَیں
کاش اِتنا ضرور کر دُوں مَیں

اے مرے ہمسفر، شریکِ غم
تُجھ کو رسوا نہ ساتھ کردُوں مَیں

آ بھی جاؤ کہ اِس خرابے میں
کُچھ اضافہ نہ اور کردُوں میں

کب تلک چُھپ کہ آہ بهروں ظالم
آ کہ تیرے بھی کان دَھر دُوں مَیں

اُن سے کہنا عظیم کہتے ہیں
دِل نہیں چاہئے تو سَر دُوں مَیں
 
آخری تدوین:
Top