طالبان کا وزیرستان

زیک

مسافر
محترمہ کے پاکستان میں نازل ہونے سے فرق یہ پڑے گا کہ اب مشرف کی من مانیوں میں کمی آ جائے گی ۔ عوامی مفاد میں نہیں بلکہ محترمہ اور مشرف کے مفادات میں ٹکراؤ کی وجہ سے یہ صورتحال پیش آئے گی۔ تب شاید کچھ سر پھروں کو بھی تحریک ہو اس نورا کشتی کو سمجھنے کی اور عوام کو مزاحمت کے لئیے ابھارنے کی۔

یہ سیاست کا ایک اہم حصہ ہے اور حالات صحیح رکھنے کا ایک ذریعہ۔ مگر عام طور سے یہ status quo کو قائم رکھنے میں زیادہ مددگار ہوتا ہے۔
 

خرم

محفلین
خرم بھائی ، بہت شکریہ آپ کی تحریر کا اور اس قومی احساس کے لئیے میں آپ کا ممنون ہوں کہ جو آپ کی تحریر سے مترشح ہے۔
خرم ، بات یہ ہے کہ موجودہ حکومتی مشینری اور ذمہ داران میں اتنی عقلی ، سیاسی اور اخلاقی قوت نہیں ہے کہ وہ یہ مسئلہ حل کر سکیں۔ اس مسئلے کے حل کی طرف اگر ہم کو پہلا قدم بڑھانا ہے تو سب سے پہلے مشرف صاحب کو اقتدار چھوڑنا ہو گا اور فوج کو حکومت چلانے کی بجائے اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائی کی طرف لوٹنا ہو گا۔ یہ ایک بنیاد ہوگی عوامی سظح پر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کہ ہمارے اربابِ بست و کشاد اس مسئلے کو حل کرنے میں مخلص ہیں۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ مشرف صاحب کے حکومت میں براجمان رہتے ہوئے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ وہ فوج کی نمائندگی کرتے ہیں اور فوج اس قضئیے میں ایک فریق بنی ہوئی ہے۔ اگر مشرف صاحب آرمی کو تیاگ دیں اور صدر بنے رہیں تب بھی حالات کی بہتری کی امید ایک سراب ہی ثابت ہو گا۔
دوسرے یہ کہ امریکہ کو بتا دیا جائے کہ جو کچھ ہو سو ہوا۔ تم ہمارے دوست ہو اور ہم بھی تم سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے لیکن اس تعلقات کی قیمت پاکستانی عوام کی جانوں کی شکل میں ہم ادا نہیں کر سکتے۔ کوئی مطلوب ہے تو تم ہمیں بتاؤ ہم اس کو جرم ثابت ہونے پر خود سزا دیں گے ، تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ دونوں کام نہ تو مشرف کے بس کے ہیں اور نہ محترمہ کے بس کے۔ اس لئیے اس کو فی الحال ایک خواب ہی سمجھا جائے۔ عمل درآمد کوئی جمہوری حکومت ہی کر سکے گی اگر کبھی بنی تو۔
ایک ہی راستہ بچتا ہے عوامی مزاحمت کا لیکن اس کے بھی آثار تاحال دکھائی نہیں دے رہے۔ لیکن محترمہ کے پاکستان میں نازل ہونے سے فرق یہ پڑے گا کہ اب مشرف کی من مانیوں میں کمی آ جائے گی ۔ عوامی مفاد میں نہیں بلکہ محترمہ اور مشرف کے مفادات میں ٹکراؤ کی وجہ سے یہ صورتحال پیش آئے گی۔ تب شاید کچھ سر پھروں کو بھی تحریک ہو اس نورا کشتی کو سمجھنے کی اور عوام کو مزاحمت کے لئیے ابھارنے کی۔

ایک راستہ ہے شاید۔ میں اس لئے یہ تجویز دینے سے گھبراتا ہوں کہ خود تو انتہائی مطلبی بن کر امریکہ بیٹھا ہوں اور دوسروں سے توقع رکھتا ہوں۔ لیکن کسی طرح اگر کچھ لوگ جائیں ان قبائلی علاقوں میں۔ بالکل خطرناک جگہ پر نہیں، شروع والے علاقوں میں۔ وہاں کے لوگوں اور فوج کے درمیان ایک پُل کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ لوگوں‌کو بھی سمجھایا جائے اور کوشش کی جائے کہ ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھ کر بیٹھنے سے تو شاید بہتر ہی ہو۔ ایک رومانوی سا تصور ہے۔ اگر میں اپنی کمزوریوں پر قابو پا سکا تو شاید یہ کر ہی گزروں مگر فی الحال تو صرف باتیں ہی باتیں کر رہا ہوں۔
 

Dilkash

محفلین
حرم بھائی۔
میں قبائلی ہوں اور تھوڑا بہت لکھ پڑہ بھی لیتا ہوں۔
لیکن ایمانداری سے کہتا ہوں کہ وہاں جرگہ میں بیٹھ کر دو لفظ بھی نہیں بول سکتا۔
وہاں کا انپڑہ جرگہ باز کے سامنے کوئی دلیل سے نہیں بول سکتا۔انکا اتنا تجربہ ہوتا ہے ان جرگوں میں بیٹھ کر کہ اچھا خاصہ پڑہا لکھا سمجھدار ادمی کے ھاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیں۔
یہ بات نہیں کہ وہ بات نہیں سنتے ۔۔اپ کو دو منٹ کے اندر لاجواب کر دیں گے۔
حکومت ان لوگوں کو جرگہ میں نہیں بیٹھاتے۔جو ًمخلص ہیں بلکہ اپنے پالے ہوئے پٹوؤں کو بیجھتے ہیں۔اس لئے اخلاص کے ساتھ کوئی بات نہیں کرتا۔

ہمارے ہاں ایک بات مشہور ہے کہ ایم اے پاس سے ھجرہ پاس زیادہ سیانا ہوتا ہے۔ان لوگوں کے سامنے بات انتہائی مشکل ہوتی ہے۔
ہمارے جرنیل اور حکومتی پا لیٹیشن ان سے بات نہیں کر سکتے ہیں۔
 

خرم

محفلین
دلکش بھائی،
اگر نیت صاف ہو تو زبان بھی صاف ہو جاتی ہے اور دلائل بھی سمجھ میں آجاتےہیں۔ کوشش تو کرنا چاہئے نا۔ اپنی طرف سے خلوص کی بات کرنی چاہئے، باقی تو سب اللہ کا حکم ہے نا۔ دل کہتا ہے کہ ایسی کسی کوشش کے سوا بات نہ بنے گی۔ واللہ اعلم۔
 

ظفری

لائبریرین
کافی دنوں سے اس ٹاپک پر بحث و مباحثہ دیکھ رہا تھا مگر وقت کی کمی کی باعث یہاں آنا ممکن نہیں ہوسکا ۔ اب تک جتنی بھی بحث ہوئی اس کا زیادہ تر زور افغانستان کی جنگ اور پھر اس سے بعد کے واقعات کا ماخذ ہے ۔ کہ طالبان سے لیکر اب تک کے خودکش حملوں کی ایک پوری تاریخ پڑھی گئی ہے ۔ چونکہ میرا بھی تعلق اسی سرزمین سے ہے اس لیئے میں یہ حق رکھتا ہوں کہ میں ان علاقوں پر مسلط ایک جابرانہ نظام کا سرسری ذکر کروں تاکہ اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے مخلتف ردعمل کا پس منظر جاننے میں آپ صاحبان کو ذرا آسانی ہو ۔

اگر آپ قبائلی علاقوں میں بسنے والوں کی زندگی کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں‌ تو آپ دیکھیں گے کہ ہم نے انہیں عملی طور پر وار لارڈز اور سیاسی طور پر پولیٹیکل ایجینٹس کے حوالے کیا ہوا ہے ۔ اور ان کی زندگیوں پر تسلط قائم رکھنے کے لیئے اللہ کی کتاب کے بجائے انگریزوں کی دی ہوئی کتاب جسے FCR کہتے ہیں ، ان پر مسلط کی ہوئی ہے ۔ ان کی تقریباً پانچ نسلیں مٹی کے بوسیدہ مکانوں میں رہنے اور اڑھنے بچھونے کے لیئے جانوروں کی کھالیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں ۔ وہاں ایک ہی جماعت کو جانے کی اجازت ہے اور وہی وہاں سے منتخب ہو کر آتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ہم نے ان کو مکمل طور پر دیوار کیساتھ لگا ہوا ہے ۔

Frontier Crime Regulations (ایف سی آر ) کا قانون ، جو انگریزوں نے 1901 میں ایک سیاہ باب کی حیثیت سے قبائلی علاقوں میں رائج کیا تھا ۔ آج بھی یہ قانون قبائلی علاقوں میں عملاً رائج ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں پولیٹیکل ایڈمنسٹریشن کے ذریعے آج بھی ظلم و جبر کا عمل جاری ہے ۔ سنگلاخ پہاڑوں ، موسم کی سختیوں اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لیئے ترسے ہوئے ان لوگوں کو جب بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا جائے گا تو ان کا ردعمل بھی مختلف صورتوں میں سامنے آئے گا ۔ ہر برے عمل کا ردعمل یا نتیجہ بھی برا ہی برآمد ہونا ہے ۔ چاہے وہ خودکش حملوں کی صورت میں ہو یا کسی کو اغوا کرکے ذبح کرنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ اصل مسئلہ تو اس عمل کے محرکات اور اسباب ڈھونڈنا ہے نہ کہ Blam Game کی روش جاری رکھنی ہے ۔ پاکستان بنے ہوئے ساٹھ سال گذر گئے ہیں مگر یہ علاقے ملک کے دیگر حصوں کی طرح تھوڑے بہت خوشحالی کی طرف تو کیا بڑھتے ان کو تو ملک کے Mainstream Political process سے بھی دور رکھا گیا ہے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ ان علاقوں میں پہنچنے کے لیئے رسائی کتنی مشکل ہے ذرا سوچئے ان علاقوں میں رہنے والوں کی زندگیاں کس قدر سخت ہونگیں ۔ جب تک ان کو وہ حقوق حاصل نہیں ہوتےجو ملک کے دیگر حصوں کو حاصل ہیں اور جب تک ان کو ان کی سیاسی و سماجی شناخت نہیں دی جاتی ۔ تب تک ان قبائلی علاقوں میں کوئی مثبت تبدیلی ناممکن ہے ۔
 

ساجد

محفلین
کافی دنوں سے اس ٹاپک پر بحث و مباحثہ دیکھ رہا تھا مگر وقت کی کمی کی باعث یہاں آنا ممکن نہیں ہوسکا ۔ اب تک جتنی بھی بحث ہوئی اس کا زیادہ تر زور افغانستان کی جنگ اور پھر اس سے بعد کے واقعات کا ماخذ ہے ۔ کہ طالبان سے لیکر اب تک کے خودکش حملوں کی ایک پوری تاریخ پڑھی گئی ہے ۔ چونکہ میرا بھی تعلق اسی سرزمین سے ہے اس لیئے میں یہ حق رکھتا ہوں کہ میں ان علاقوں پر مسلط ایک جابرانہ نظام کا سرسری ذکر کروں تاکہ اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے مخلتف ردعمل کا پس منظر جاننے میں آپ صاحبان کو ذرا آسانی ہو ۔

اگر آپ قبائلی علاقوں میں بسنے والوں کی زندگی کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں‌ تو آپ دیکھیں گے کہ ہم نے انہیں عملی طور پر وار لارڈز اور سیاسی طور پر پولیٹیکل ایجینٹس کے حوالے کیا ہوا ہے ۔ اور ان کی زندگیوں پر تسلط قائم رکھنے کے لیئے اللہ کی کتاب کے بجائے انگریزوں کی دی ہوئی کتاب جسے FCR کہتے ہیں ، ان پر مسلط کی ہوئی ہے ۔ ان کی تقریباً پانچ نسلیں مٹی کے بوسیدہ مکانوں میں رہنے اور اڑھنے بچھونے کے لیئے جانوروں کی کھالیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں ۔ وہاں ایک ہی جماعت کو جانے کی اجازت ہے اور وہی وہاں سے منتخب ہو کر آتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ہم نے ان کو مکمل طور پر دیوار کیساتھ لگا ہوا ہے ۔

Frontier Crime Regulations (ایف سی آر ) کا قانون ، جو انگریزوں نے 1901 میں ایک سیاہ باب کی حیثیت سے قبائلی علاقوں میں رائج کیا تھا ۔ آج بھی یہ قانون قبائلی علاقوں میں عملاً رائج ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں پولیٹیکل ایڈمنسٹریشن کے ذریعے آج بھی ظلم و جبر کا عمل جاری ہے ۔ سنگلاخ پہاڑوں ، موسم کی سختیوں اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لیئے ترسے ہوئے ان لوگوں کو جب بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا جائے گا تو ان کا ردعمل بھی مختلف صورتوں میں سامنے آئے گا ۔ ہر برے عمل کا ردعمل یا نتیجہ بھی برا ہی برآمد ہونا ہے ۔ چاہے وہ خودکش حملوں کی صورت میں ہو یا کسی کو اغوا کرکے ذبح کرنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ اصل مسئلہ تو اس عمل کے محرکات اور اسباب ڈھونڈنا ہے نہ کہ Blam Game کی روش جاری رکھنی ہے ۔ پاکستان بنے ہوئے ساٹھ سال گذر گئے ہیں مگر یہ علاقے ملک کے دیگر حصوں کی طرح تھوڑے بہت خوشحالی کی طرف تو کیا بڑھتے ان کو تو ملک کے Mainstream Political process سے بھی دور رکھا گیا ہے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ ان علاقوں میں پہنچنے کے لیئے رسائی کتنی مشکل ہے ذرا سوچئے ان علاقوں میں رہنے والوں کی زندگیاں کس قدر سخت ہونگیں ۔ جب تک ان کو وہ حقوق حاصل نہیں ہوتےجو ملک کے دیگر حصوں کو حاصل ہیں اور جب تک ان کو ان کی سیاسی و سماجی شناخت نہیں دی جاتی ۔ تب تک ان قبائلی علاقوں میں کوئی مثبت تبدیلی ناممکن ہے ۔
ظفری بھائی ، یہی بات تو میں بھی بار بار دہرا رہا ہوں کہ کم از کم ہمیں ان اسباب پر غور کرنا چاہئیے جو اس مسئلے کی بنیاد ہیں۔
 
اگر ہم عوام کے کسی حصے کی ترقی روک دیں گے تو نتیجہ میں وہ لوگ مکمل طور پر پیچھے رہ جائیں گے۔ یہ ایک ٹک ٹک کرتا ٹایم بم ہوگا۔ جس نے ایک نہ ایک دن مزید فساد کھڑا کرنا ہے۔ ایسے لوگ بالآخر الگ ہوجاتے ہیں۔ معاشرے کے کسی حصے کو پیچھے رکھیں، وہ بالآخر تباہی لائے گا۔ چاہے وہ فرنٹیر ہو یا بلوچستان یا بھارت کے مسلمان۔ جو 1947 میں ہو پھر دہرایا جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب لوگوں‌کو سب کے سات ساتھ چلنے کا موقع دیا جائے۔
 

زیک

مسافر
فاروق آپ کی بات صحیح ہے مگر قبائلی علاقوں کو پیچھے رکھنے میں ذمہ‌داری کس کی ہے؟ کیا اگر آج بھی ان علاقوں کو پاکستان میں انٹگریٹ کرنے کی کوشش کی جائے تو کیا ہو گا؟
 

ساجداقبال

محفلین
فاروق آپ کی بات صحیح ہے مگر قبائلی علاقوں کو پیچھے رکھنے میں ذمہ‌داری کس کی ہے؟ کیا اگر آج بھی ان علاقوں کو پاکستان میں انٹگریٹ کرنے کی کوشش کی جائے تو کیا ہو گا؟
مسئلہ یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ کیا جا سکتا تھا، اُسوقت کیا نہیں گیا۔ اگر تھوڑا تھوڑا کر کے بھی یہ کام کر لیا جاتا تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ لیکن انہیں تو کبھی سرینگر اور کبھی کابل دشمنوں سے نمٹنے کیلیے استعمال کیا گیا۔ اب بالخصوص موجودہ حالات میں یہ کام کرنے کے نتائج جاننے کیلیے آئن سٹائن کا دماغ ضروری نہیں۔
 
زیک۔ ساجد : ایسا کیوں ہے کہ ملا مولوی آیت اللہ، اسکول بنانے کے خلاف ہیں؟ عورتوں‌کی تعلیم کے خلاف ہیں؟ ٹیلیفون ایکسچینجز ، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے خلاف ہیں؟ اور اس کی وجہ صرف ایک بتاتے ہیں کہ یہ 'شریعت' کے خلاف ہے۔ لڑکیوں کے اسکولوں کو بم سے اڑادینے کہ ذمے دار کون لوگ ہیں؟ پہلے مسجد میں جمعہ کی نماز میں کہتے ہیں‌کہ یہ اسکول بم سے اڑا دو، وہ فون ایکسچینج اڑا دو، پھر جب یہی واقعہ ہو جاتا ہے تو یہی مولوی کہتا ہے کہ ہمارا اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔

بھائی دلکش نے کہا کہ اس ک پشت پر ملک اور خان ہیں۔ میرا خاندان بھی پاکستان کے ایک پسماندہ علاقے سے ہے۔ میرا تجربہ ذرا سا مختلف ہے۔ میں‌نے ہمیشہ اپنے گاؤں کی مسجد میں ملا اور مولوی کو ہی شور مچاتے دیکھا۔ ممکن ہے دوسرے علاقوں میں یہ کام خوانین اور ملک کرتے ہوں۔ سمجھداری ان ملاؤں کی یہ ہے کہ یہ کبھی بھی یہ نہیں‌کہتے کہ یہ 'قرآن' کے خلاف ہے۔ یہ ہمیشہ کہتے ہیں‌ 'اسلام' کے خلاف ہے اور 'شریعت' کے خلاف ہے۔

میں‌نے 7 سال کی عمر میں‌سرحد کے ایک گاؤں کی مسجد کا مدرسہ چھوڑا۔ اس مسجد کا ملا 1988 تک زندہ تھا۔ جب اس کو1965 میں، یہ بتایا کہ میں گورنمنٹ کے اسکول میں پڑھتا ہوں‌تو کافی ناراض ہوا اور کہا کہ یہ گورنمنٹ‌کا اسکول 'مدرسہ' نہیں‌ہوتا، یہ 'مندا رستہ' ہوتا ہے۔ کئی سالوں بعد اس سے ملاقات ہوتی تھی۔ جب بھی مجھ سے ملتا تھا، ہر بار یہ بات ضرور کہتا تھا۔ کہ - جو مدرسے کو چھوڑ کر 'مندے رستے' پر چلتا ہے اللہ اس سے بہت ناراض‌رہتا ہے۔ مسجد کے مدرسہ کو یہ حضرت مدرسہ اور گورنمنٹ کے پیلے اسکول کو ہمیشہ 'مندا رستہ' کہتے تھے۔ مجھے یقین ہے ایسا کہنے والا یہ اکیلا نہیں‌تھا۔
 

Dilkash

محفلین
سکول اور جدید تعلیم کے خلاف تو شروع سے یر علاقے کا مولوی رہا ہے۔
دو باتیں تھیں
ایک: سکول سے پہلے ملاؤں کو لوگ اخون یا اخوان کہتے تھے اور اپنی علمیت اور چرب زبانی کی وجہ سے کافی رعب داب جھاڑتے تھے۔
یہی لوگ شائد عوام کے اندر پڑھے لکھے ہوتے تھے،لہزا جب سکول کے بابو لوگ ائے تو انکی سفید پوش علمیت کے لئے خطرے کی الارم بجنے لگی۔
دوسری بات شائد یہ کہ مسلمان بہت مار کھا چکے تھے اور انگریزوں یا غیر اقام کی کسی چیز پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔اور باہر سے ائی ہوئی نئ چیز اپنی جان و مال اورایمان کے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔
سرحد میں دو ادمیوں نے جدید تعلیم کے لئے راستے ہموار کئے۔ایک سر
صاحبزادا عبدلقیوم خان صاحب تھے جنھوں نے اسلامیہ کالج پشاور کی بنیاد 1913رکھی ،اور لوگوں نے انیہیں بے شمار پیسہ دیا۔۔اج بھی اسلامیہ کالج کی جائداد زمینوں کی شکل میں 1500 ایکیڑ سے زیادہ ہے اور خیبر بازار پشاور کے تمام عمارتیں اسلامیہ کالج کی ملکیت ہے۔

دوسرا شخص خدائی خدمتگار خان عبدلغفار خان صاحب تھے۔۔جنہوں نے ازاد مدرسہ سکولز قایم کئے۔

اس زمانے میں مولوی بچوں سے یہ ترانہ گواتے تھے۔
سبق د مدرسے وایم۔۔د پارہ د پیسے وایم۔۔پہ جنت کے بہ زائی نہ وی۔۔۔۔پہ دوزخ کے بہ غوپے وہم۔

اج الحمد اللہ سرحد کی تعلیمی شرح نسبتا بہت اچھی ہے۔۔لیکن بے روزگاری بھی ہے
 
یہ درست ہے کہ ملا بننے کے لئے ان کی کسی بھی قسم کی برابری حاصل کرنے کے لئے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ کسی ملا کے سامنے کوئی شخص قرآن کا حوالہ بھی نہیں دے سکتاتھا کہ ایسا کرنے کے لئے 'سند' لازمی تھی۔ اور سند حاصل کرنے کے لئے درکار تعلیم عام مہیا نہیں‌تھی۔ جب تک 'درست' مائنڈ سیٹ نہ ہو، یہ بندے کو گھسنے ہی نہیں دیتے تھے۔ ان کی منظقی دلیلوں‌ کی اور ان کے انداز فکر کی اور ان کی چرب زبانی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بندے کو دو منٹ‌میں مات دے دیتے ہیں بلکہ الٹا مجرم بنا دیتے ہیں، خدا کا مجرم، رسول کا مجرم، شریعت کا مجرم اور نہ جانے کیا کیا۔

مجھے یقین ہے کہ آج بھی آپ پاکستان کے چند علاقوں میں انسان کے چاند پر پہنچنے کا واقعہ بیان کریں‌ تو کفر کا فتوٰی لگنے میں‌ دیر نہیں لگے گی۔ کیا وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ مذہبی تعلیم بھی حاصل کرکے ان پسماندہ ذہنوں سے ہمیں‌نجات نہیں دلاتے؟ کیا وجہ ہے کہ آج بھی مدرسہ حفصہ میں کسی 'دوسری شخصیت ' کو منتظم بنانے پر استقبال جوتیوں‌ سے ہوتا ہے؟ یہ وہ انسٹی ٹیوشن ہے جو مناسب توجہ کا طلب گار ہے۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
فرمان نبوی

نبی الملحمہ( جنگوں کانبی) صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
[ " اسلحہ مومن کا زیور ہے " (الحدیث)
میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میرے وہ بھائی جو کلمہ گو ہونے کا دعوی کرتے ہیں انہیں طالبان کے اسلحے سے کیوں خار ہے ۔ بد قسمتی سے انہیں کفار کے اسلحے پر کبھی اعتراض کرنے کی توفیق نہیں ہوئی بلکہ یہ لوگ دوسروں کو بھی کفار کی نئی مسلح ایجادات سے ڈراتے رہتے ہیں۔ بزدل تو ہیں ہی دوسروں کو بھی بزدل بنانے کے جرم عظیم کے مرتکب ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی سب کو راہ ہدایت نصیب فرمائے۔ (آمین )
 

خرم

محفلین
محمد عظیم بھائی اسلحہ تو واقعی مؤمن کا زیور ہے۔ میرے پاس تو یہاں امریکہ میں بھی ہے اور نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے تو حکم فرمایا کہ اپنے بچوں کو شمشیر زنی (آج کے لحاظ سے غالباً بندوق چلانا)، گھڑ سواری اور تیراکی سکھاؤ۔ ویسے بھی جتنے شوٹنگ کلبز یہاں امریکہ میں ہیں ہمارے پاکستان میں تو شاید ایک صدی بعد بھی نہ ہوں۔ خیر بات مقطعے میں جا پڑی اصل اعتراض‌اسلحہ پر نہیں ہے، رکھئے جتنا جی چاہے رکھئے اور اس کی مشق کیجئے لیکن انسانوں پر نہیں۔ آپ کا اسلحہ مسلمانوں کی حکومت کے حکم پر استعمال ہوگا تو فائدہ ہے اور اگر اس کے خلاف ہوگا تو پھر آپ کا اسلحہ بھی کفار کا اسلحہ ہی ہے۔ طالبان کا اسلحہ بھی اسی لئے کفار کا ہی اسلحہ ہے کہ صرف امت میں انتشار و قتل و غارت اور بدامنی پھیلانے کے کام آتا ہے۔ وگرنہ جو لطف اور سرور بندوق، توپ و ٹینک و جہاز کے چلنے کی آواز میں ہے وہ رباب و بربط و ستار میں کہاں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
نبی الملحمہ( جنگوں کانبی) صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
[ " اسلحہ مومن کا زیور ہے " (الحدیث)
میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میرے وہ بھائی جو کلمہ گو ہونے کا دعوی کرتے ہیں انہیں طالبان کے اسلحے سے کیوں خار ہے ۔ بد قسمتی سے انہیں کفار کے اسلحے پر کبھی اعتراض کرنے کی توفیق نہیں ہوئی بلکہ یہ لوگ دوسروں کو بھی کفار کی نئی مسلح ایجادات سے ڈراتے رہتے ہیں۔ بزدل تو ہیں ہی دوسروں کو بھی بزدل بنانے کے جرم عظیم کے مرتکب ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی سب کو راہ ہدایت نصیب فرمائے۔ (آمین )

اور لوگوں کو ذبح کرکے ان کے کٹے ہوئے سروں کی نمائش کرنے کے بارے میں کونسا فرمان نبوی موجود ہے؟
 

Dilkash

محفلین
محمد عظیم بھائی اسلحہ تو واقعی مؤمن کا زیور ہے۔ میرے پاس تو یہاں امریکہ میں بھی ہے اور نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے تو حکم فرمایا کہ اپنے بچوں کو شمشیر زنی (آج کے لحاظ سے غالباً بندوق چلانا)، گھڑ سواری اور تیراکی سکھاؤ۔ ویسے بھی جتنے شوٹنگ کلبز یہاں امریکہ میں ہیں ہمارے پاکستان میں تو شاید ایک صدی بعد بھی نہ ہوں۔ خیر بات مقطعے میں جا پڑی اصل اعتراض‌اسلحہ پر نہیں ہے، رکھئے جتنا جی چاہے رکھئے اور اس کی مشق کیجئے لیکن انسانوں پر نہیں۔ آپ کا اسلحہ مسلمانوں کی حکومت کے حکم پر استعمال ہوگا تو فائدہ ہے اور اگر اس کے خلاف ہوگا تو پھر آپ کا اسلحہ بھی کفار کا اسلحہ ہی ہے۔ طالبان کا اسلحہ بھی اسی لئے کفار کا ہی اسلحہ ہے کہ صرف امت میں انتشار و قتل و غارت اور بدامنی پھیلانے کے کام آتا ہے۔ وگرنہ جو لطف اور سرور بندوق، توپ و ٹینک و جہاز کے چلنے کی آواز میں ہے وہ رباب و بربط و ستار میں کہاں۔

بجا فرمایا۔۔مگر ساتھ ساتھ حکومت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے کہ جہاں اگر وہ اپنے شہریوں کی حفاظت نہ کرسکے تو انکے اوپر دشمنوں کی طرح گن شپ ہیلی کاپٹروں اور فائٹر جہازوں کی بمباری بھی نہ کریں۔
اور جو لوگ سر کاٹ کر لئے پھرتے ہیں حکومت ان کی بیخ کنی کریں۔۔۔۔شر پسندی کے نام پر بے گناہ اور نہتے شہریوں پر مظالم بند کریں۔

اور ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھ لیں اگر حکمران عوامی امنگوں پر پورا نہیں اترتا اور ریاست کے لئے سیکورٹی رسک بن جائے تو انکو فورا کرسی چھوڑنا چاہیئے۔

اور جو چند مفاد پرست ٹولہ اپنی مفادات کی خاطر یزیدیت کی طرفداری کرتا ہے اسکا سماجی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے۔
 

خرم

محفلین
بجا فرمایا۔۔مگر ساتھ ساتھ حکومت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے کہ جہاں اگر وہ اپنے شہریوں کی حفاظت نہ کرسکے تو انکے اوپر دشمنوں کی طرح گن شپ ہیلی کاپٹروں اور فائٹر جہازوں کی بمباری بھی نہ کریں۔
اور جو لوگ سر کاٹ کر لئے پھرتے ہیں حکومت ان کی بیخ کنی کریں۔۔۔۔شر پسندی کے نام پر بے گناہ اور نہتے شہریوں پر مظالم بند کریں۔

اور ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھ لیں اگر حکمران عوامی امنگوں پر پورا نہیں اترتا اور ریاست کے لئے سیکورٹی رسک بن جائے تو انکو فورا کرسی چھوڑنا چاہیئے۔

اور جو چند مفاد پرست ٹولہ اپنی مفادات کی خاطر یزیدیت کی طرفداری کرتا ہے اسکا سماجی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے۔

فیروز بھائی ان پر تو دو آراء ہو ہی نہیں سکتیں۔ لیکن یہ منزل ایک کٹھن جدوجہد کے بعد ہی حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اگر اقبال ناامید نہیں تو ہم بھی نہیں الحمد للہ۔ وقت تو انشاء اللہ آئے گا اور وہ جو فیض نے کہا ہے نا کہ "لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے" تو انشاء اللہ ہم بھی دیکھیں گے وطنِ عزیز میں قانون و آئین کی پاسداری و سربلندی۔
 
Top