شمار کا خمار۔۔۔ محسن حجازی

شمشاد

لائبریرین
صاحب آپ اقوام متحدہ کا تو ذکر ہی نہ کریں۔ وہ تو کٹھ پتلی ہے امریکہ کی۔ آج تک سینکڑوں قرار دادیں کشمیر کے متعلق اقوام متحدہ میں منظور ہو چکی ہیں، وہاں تو امریکہ کچھ نہیں کرتا اور نہ ہی یہ متحدہ کرتی ہے۔ فلسطین کے متعلق بھی یہی حال ہے۔
 
ستمبر11 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ طالبان حکومت اسامہ بن لادن کو امريکی حکومت کے حوالے کر دے تا کہ اسے انصاف کے کٹہرے ميں لايا جا سکے
امریکی حکومت ہی کیوں ؟ 2001 کے نام نہاد حادثے کے بعد یہ کام اقوام متحدہ یا کسی تیسرے غیر متعلقہ ملک کے ذریعے بھی تو ہو سکتا تھا۔ امریکا کا نظام انصاف بش انتظامیہ کی وجہ سے بالخصوص بہت متاثر ہو چکا ہے ابھی حال ہی ایک رپورٹ آئی ہے کس کی رو سے ابو غریب جیل کے بدنام واقعے میں صرف مقامی فوجی ہی نہیں بلکہ وزیر دفاع رمز فیلڈ جیسے عہدے دار تک شام تھے اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ایسے میں بن لادن کو اقوام متحدہ یا کسی اور ملک کے تو سپرد کیا جا سکتا تھا امریکا کے نہیں۔
يں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ طالبان کی جانب سے يہ دليل صرف رائے عامہ کی حد تک اور حاليہ برسوں میں استعمال کی گئ ہے کہ وہ اسامہ بن لادن کو ثبوت مل جانے کے بعد کسی ملک کے حوالے کرنے کے ليے تيار تھے۔ حقیقت يہ ہے کہ 911 کے واقعے سے قبل بھی اقوام متحدہ کی ايک مشترکہ قرارداد ريکارڈ پر موجود ہے جس ميں طالبان سے القائدہ کی حمايت ترک کرنے اور اسامہ بن لادن کو حکام کے حوالے کرنے کا واضح مطالبہ موجود تھا اس کے باوجود طالبان عالمی برداری کے اس مشترکہ مطالبے کو مسلسل نظرانداز کر کے القائدہ کو دنيا بھر ميں اپنی کاروائياں کرنے کے ليے تحفظ فراہم کرتے رہے۔
9/11 سے ماقبل کے واقعات کو تو چھوڑئیے کیوں کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب طالبان افغانستان کے 95 فیصد حصے پر قابض تھے تو کیا اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے ان کو تسلیم کر لیا تھا اگر نہیں تو پھر امریکا یا اقوام متحدہ کس طرح بن لادن کی حوالگی کا معاملہ طالبان سے کر سکتے تھے تاہم اس کے باوجود 9/11 کے واقعہ کی اہمیت کے پیش نظر طالبان نے جو بن لادن کو کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنے کا جو عندیہ دیا تھا وہ بلکل درست تھا ان کی کشادہ دل پر مبنی تھا اور آُ پ یہ کیسے کہ سکتے ہیں کہ یہ بات صرف حالیہ برسوں میں رائے عامہ کو دیکھتے ہوئے کہی گئی ہے جناب یہ بات آن دی ریکارڈ موجود ہے اور اس کو جٹھلایا نہیں جا سکتا ، کہ طالبان نے اسوقت بن لادن کو کسی تیسرے ملک حوالے کر کہ انصاف کے مطابق اس پر مقدمہ چلانے کی بات کی تھی جو کسی طرح امریکا میں ممکن نہ تھا۔
نوٹ : حال ہی میں ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے کہ انو غریب جیل کے واقعے میں بش انتظامیہ کا ایک سینئر عہدے دار وزیر دفاع رمز فیلڈ بھی ملوث تھا

امریکہ میں سینٹ کی ایک کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ عراق میں ابو غریب جیل اور خلیج گوانتانامو میں امریکی جیل میں ہونے والی زیادتیوں کی ذمہ داری سابق وزیر دفاع ڈانلڈ رمزفیلڈ اور دیگر حکام پر بھی عائد ہوتی ہے۔
ابو غریب جیل میں عراقی قیدیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تصاویر چار سال قبل منظر عام پر آئی تھیں۔

امریکی سینیٹ میں فوجی امور سے متعلق کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ اعلیٰ حکام نے اپنی ذمہ داری نچلے درجے کے فوجیوں پر ڈال دی تھی۔ ابو غریب جیل میں ہونے والی زیادتیوں کے مقدمے میں گیارہ فوجیوں کو مجرم قرار دیا جا چکا ہے۔

مزید

( میری بار بار توجہ دلانے کے باوجود فواد نے اپنی روش نہیں بدلی ہے وہ پورے معاملے پر بات کرنے سے گریزاں ہیں اور صرف وہ نکات جس پر وہ کچھ آئیں بائیں شائیں کر سکتے ہیں ان پر اپنا پٹا ہوا راگ الاپ رہے ہیں چنانچہ اگر فواد آئندہ بھی اس روش پر قائم رہے تو شاید اس تھریڈ پر ان سے یہ آخری مکالمہ ہو(
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

صاحب آپ اقوام متحدہ کا تو ذکر ہی نہ کریں۔ وہ تو کٹھ پتلی ہے امریکہ کی۔ آج تک سینکڑوں قرار دادیں کشمیر کے متعلق اقوام متحدہ میں منظور ہو چکی ہیں، وہاں تو امریکہ کچھ نہیں کرتا اور نہ ہی یہ متحدہ کرتی ہے۔ فلسطین کے متعلق بھی یہی حال ہے۔


اس وقت اقوام متحدہ ميں قريب 1500 کے لگ بھگ قرارداديں موجود ہیں جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک ميں جاری تنازعات سے ہے۔ يہ غير منطقی سوچ ہے کہ ان تمام ممالک ميں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے ليے فوجیں بيجھی جانی چاہيے۔ يہ طريقہ کار تو اقوام متحدہ کے قيام کے بنيادی فلسفے کی ہی نفی کر ديتا ہے جس کے مطابق دنيا کے مختلف ممالک کے درميان تنازعات کے حل کے ليے سفارتی کوششوں کو زيادہ موثر بنانے پر زور ديا گيا ہے۔

يہ بات قابل توجہ ہے کہ اسامہ بن لادن اور القائدہ کے خلاف قرارداد 1998 ميں منظور کی جا چکی تھی۔ اسی طرح صدام حکومت کے خلاف 1990 کی جنگ کے بعد کئ قراردادیں موجود تھيں جن پر عمل درآمد نہيں ہو رہا تھا۔ ليکن اس کے باوجود ان قراردادوں پر عمل درآمد کے ليے فوج کا استعمال نہيں کيا گيا۔ ليکن 911 کے واقعات کے بعد امريکی حکومت اور عالمی برادری پر يہ بات واضح ہو چکی تھی کہ افغانستان ميں القائدہ کے ٹھکانوں کے خاتمے کے ليے فوج کا استعمال ناگزير ہو چکا ہے۔

ميں پھر اس بات کا اعادہ کروں گا کہ عراق اور افغانستان ميں فوج کے استعمال کا فيصلہ صرف اس وقت کيا گيا جب کئ مہينوں اور سالوں کی بحث، معاہدوں اور مذاکرات ميں مکمل ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہيں کرايا جا سکا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ہانس بلکس جو کہ اس ٹیم کی سربراہی کر رہے تھے نے بعد میں متعدد بار یہ کہا کہ عراق پر امریکی حملہ بلا جواز تھا۔


چونکہ آپ نے ہانس بلکس کا حوالہ ديا ہے اس ليے يہ ضروری ہے کہ ان حقائق کا جائزہ ليا جائے جو انھوں نے بذات خود اپنی سرکاری رپورٹ ميں عراقی کے زمينی حقائق کے حوالے سے بيان کيے تھے۔

فروری 14 2003 کو ہانس بلکس نے واضح طور پر عراق کی حکومت کی جانب سے تمام تر يقين دہانيوں کے باوجود عدم تعاون کی حقيقت کو بيان کيا تھا۔ اس وقت ان کی جانب سے پيش کی جانے والی رپورٹ سے ايک اقتتباس

"ميں نے اپنی پچھلی ملاقاتوں کے جوالے سے يہ واضح کيا تھا کہ سال 1999 ميں اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی دو دساويزات سی – 1999/94 اور سی 1999/356 ميں اٹھائے جانے والے بہت سے ايشوز ابھی تک وضاحت طلب ہيں۔ اب تک عراق حکومت کو ان ايشوز کے حوالے سے مکمل آگاہی ہونی چاہيے تھی۔ مثال کے طور پر ان ايشوز ميں نرو ايجنٹ وی ايکس اور لانگ رينج ميزائل سرفہرست ہيں اور يہ ايسے سنجيدہ ايشوز ہيں جن کو نظرانداز کرنے کی اجازت عراقی حکومت کو نہيں دی جا سکتی۔ عراقی حکومت کی جانب سے پچھلے سال 7 دسمبر کو دی جانے والی رپورٹ ميں ان سوالات کے واضح جوابات دينے کا موقع ضائع کر ديا گيا ہے۔ اس وقت عراق حکومت کی جانب سے ہميں سب سے بڑا مسلہ اسی حوالے سے ہے۔ ثبوت کی فراہمی کی ذمہ داری اقوام متحدہ کے انسپکٹرز پر نہيں بلکہ عراقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ عراقی حکومت کو ان اہم ايشوز کو مسلسل نظرانداز کرنے کی بجائے مکمل وضاحت فراہم کرنا ہوگی۔"

اس اقتتباس سے يہ واضح ہے کہ صدام حکومت کی جانب سے مسلسل عدم تعاون کی روش اختيار کی جا رہی تھی۔

اس کے بعد مارچ 2 2003 کو عراق پر حملے سے محض چند روز قبل اس موقع پر جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے عراق حکومت کو دی جانے والی آخری مہلت بھی ختم ہو چکی تھی تو ہانس بلکس نے اقوام متحدہ کو ايک اور رپورٹ پيش کی۔ اس رپورٹ ميں سے ايک اقتتباس

"ان حالات کے پس منظر ميں سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کیا عراق کی حکومت نے اقوام متحدہ کی سال 2002 میں منظور کی جانے والی قرارداد 1441 کے پيراگراف 9 کی پيروی کرتے ہوئے يو – اين – ايم – او- وی – آئ –سی سے فوری اور غير مشروط تعاون کيا ہے يا نہيں۔ اگر مجھ سے اس سوال کا جواب طلب کيا جائے تو ميرا جواب يہ ہو گا اقوام متحدہ کی نئ قرارداد کی منظوری کے چار ماہ گزر جانے کے بعد بھی عراقی حکومت کی جانب سے تعاون نہ ہی فوری ہے اور نہ ہی يہ ان تمام ايشوز سے متعلقہ ہے جن کی وضاحت درکار ہے"۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 
چونکہ آپ نے ہانس بلکس کا حوالہ ديا ہے اس ليے يہ ضروری ہے کہ ان حقائق کا جائزہ ليا جائے جو انھوں نے بذات خود اپنی سرکاری رپورٹ ميں عراقی کے زمينی حقائق کے حوالے سے بيان کيے تھے۔

فواد ویسے کیا آپ بتائیں گئے کہ صدام کس چیز میں عدم تعاون کی راہ اپنائے ہوئے تھا اور کون کون سے تباہی کے ہتھیار اس کے پاس سے براًمد ہو گئے درحقیقت عراق پر حملہ آپ لوگوں کی وہ غلیظ تریں حماقت ہے جس کا خمیازہ انشاء اللہ آپ کو آپ کے ملک امریکا کو بھگتنا پڑے گا۔ عنقریب یہ تباہی آپ کے اپنے ملک تک رسائی کرے گی اور پھر ہم اس کا تماشا دیکھیں گئے۔
(بش کو حال ہی میں جو جوتا مارا گیا ہے میرے خیال یہ جوتا پورے امریکا کے منہ پر مارا گیا ہے اور اس سے ہی عراقی عوام کے جذبات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے)

ہانس بلکس کے بیانات بی بی سی کی اردو سائیٹ پر موجود ہیں اور ساتھ ہی انگلش میں ویب پر ان کی تمام رپورٹس موجود ہیں اور ان کی اس تمام مسئلے پر کتاب بھی چھپ چکی ہے ۔اپنے ان بیانات میں وہ امریکی رویہ پر براہمی کا اظہار معتدد بار کر چکے ہیں۔

اور فواد آپ کی اس تھریڈ سے آُپ کا یہ بیان میری نظر میں مجروح ہو گیا ہے لگتا ہے کہ آپ کے ذاتی مفادات حقائق سے کہیں بالاتر ہیں۔کیوں کہ اپنی اس تھریڈ میں آپ نے حقائق کو جس طرح پائمال کیا ہے وہ افسوسناک ہے۔
آپ کی اطلاع کے ليے عرض ہے کہ يو- ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں کام کرنے کے ليے جو تنخواہ مجھے ملتی ہے وہ اس سے کہيں کم ہے جو مجھے امريکہ ميں کسی نجی کمپنی ميں کام کرنے کے عوض ملتی اور ميرے پاس اس کے مواقع موجود تھے ليکن ميں سمجھتا ہوں کہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم ميں کام کر کے مجھے اس بات کا موقع مل رہا ہے کہ ميں دوسرے فريق یعنی امريکہ کا نقطہ نظر بھی جان سکوں اور اپنے ہم وطنوں کو اس سے آگاہ کر سکوں۔
آئیے فواد کے دونوں حوالوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
فواد نے پہلا حوالہ یہ دیا تھا

ميں نے اپنی پچھلی ملاقاتوں کے جوالے سے يہ واضح کيا تھا کہ سال 1999 ميں اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی دو دساويزات سی – 1999/94 اور سی 1999/356 ميں اٹھائے جانے والے بہت سے ايشوز ابھی تک وضاحت طلب ہيں۔ اب تک عراق حکومت کو ان ايشوز کے حوالے سے مکمل آگاہی ہونی چاہيے تھی۔ مثال کے طور پر ان ايشوز ميں نرو ايجنٹ وی ايکس اور لانگ رينج ميزائل سرفہرست ہيں اور يہ ايسے سنجيدہ ايشوز ہيں جن کو نظرانداز کرنے کی اجازت عراقی حکومت کو نہيں دی جا سکتی۔ عراقی حکومت کی جانب سے پچھلے سال 7 دسمبر کو دی جانے والی رپورٹ ميں ان سوالات کے واضح جوابات دينے کا موقع ضائع کر ديا گيا ہے۔ اس وقت عراق حکومت کی جانب سے ہميں سب سے بڑا مسلہ اسی حوالے سے ہے۔ ثبوت کی فراہمی کی ذمہ داری اقوام متحدہ کے انسپکٹرز پر نہيں بلکہ عراقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ عراقی حکومت کو ان اہم ايشوز کو مسلسل نظرانداز کرنے کی بجائے مکمل وضاحت فراہم کرنا ہوگی۔"

جو لوگ اس معاملہ میں دلچسپی لے رہے ان سے میں گذارش کروں گا کہ وہ یہ پوری رپورٹ پڑھیں جس سے ہانس بلکس کے پورے موقف اور اس پوری فضا کا اندازہ ہو سکے گا جس کی بابت یہ رپورٹ تھی۔
فواد اس چیز کو بلکس نے بعد ازاں پیش کی جانے والی اپنی رپورٹ میں کلیئر کر دیا تھا۔
7مارچ 2003 میں جو ہانس بلکس کی رپورٹ اقوام متحدہ میں پیش ہوئی اس میں اس معاملے کی بابت ہانس نے یہ کہا تھا


Until today, 34 Al Samoud 2 missiles, including four training missiles, two combat warheads, one launcher and five engines, have been destroyed under UNMOVIC's supervision. Work is continuing to identify and inventory the parts and equipment associated with the Al Samoud 2 program.

Two reconstituted casting chambers used in the production of solid propellant missiles have been destroyed, and the remnants melted or encased in concrete.

The legality of the Al Fatah missile is still under review, pending further investigation and measurement of various parameters of that missile.

More papers on anthrax, VX and missiles have recently been provided. Many have been found to restate what Iraq already has declared, and some will require further study and discussion.

There is a significant Iraqi effort under way to clarify a major source of uncertainty as to the quantities of biological and chemical weapons which were unilaterally destroyed in 1991. A part of this effort concerns a disposal site, which was deemed too dangerous for full investigation in the past. It is now being re-excavated.

To date, Iraq has unearthed eight complete bombs, comprising two liquid-filled intact R-400 bombs and six other complete bombs. Bomb fragments are also found. Samples have been taken.

The investigation of the destruction site could, in the best case, allow the determination of the number of bombs destroyed at that site. It should be followed by serious and credible effort to determine the separate issue of how many R-400-type bombs were produced.

In this, as in other matters, the inspection work is moving on and may yield results.

Iraq proposed an investigation using advanced technology to quantify the amount of unilaterally destroyed anthrax dumped at a site. However, even if the use of advanced technology could quantify the amount of anthrax said to be dumped at the site, the results will still be open to interpretation. Defining the quantity of anthrax destroyed must of course be followed by efforts to establish what quantity was actually produced.

With respect to VX, Iraq has recently suggested a similar method to quantify VX precursors stated to have been unilaterally destroyed in the summer of 1991.

Iraq has also recently informed us that following the adoption of the presidential decree prohibiting private individuals and mixed companies from engaging in work relating to weapons of mass destruction, further legislation on the subject is to be enacted
.

اب بتائیے فواد عراق کا یہ تعاون تھا یا نہیں ؟ مزے کی بات یہ ہے کہ فواد نے اپنا دوسرا حوالہ اسی رپورٹ یعنی 7 مارچ 2007 کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے ایک اقتباس کی شکل میں دیا ہے لیکن جو حصہ میں نے نقل کیا ہے جو کہ ان کے پہلے اقتباس کا جواب تھا اس کو وہ نظر انداز کر گئے ہیں اس سے ہی ان کی دیانت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

دوسرا حوالہ جو فواد نے پیس کیا ہے وہ یہ ہے

"ان حالات کے پس منظر ميں سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ کیا عراق کی حکومت نے اقوام متحدہ کی سال 2002 میں منظور کی جانے والی قرارداد 1441 کے پيراگراف 9 کی پيروی کرتے ہوئے يو – اين – ايم – او- وی – آئ –سی سے فوری اور غير مشروط تعاون کيا ہے يا نہيں۔ اگر مجھ سے اس سوال کا جواب طلب کيا جائے تو ميرا جواب يہ ہو گا اقوام متحدہ کی نئ قرارداد کی منظوری کے چار ماہ گزر جانے کے بعد بھی عراقی حکومت کی جانب سے تعاون نہ ہی فوری ہے اور نہ ہی يہ ان تمام ايشوز سے متعلقہ ہے جن کی وضاحت درکار ہے"۔

اس رپورٹ کا لنک حاضر ہے اور سب لوگوں سے درخواست ہے کہ بتائیے کہ یہ الفاظ جو فواد نے پیش کیے ہیں وہ اس رپورٹ کے کس حصہ کا ایماندارنہ ترجمہ ہیں؟

http://www.cnn.com/2003/US/03/07/sprj.irq.un.transcript.blix/index.html

یعنی خیانت کاری کی حد ہو گئی ذرا آپ لوگ بھی ان حضرت کی حرکت ملاحظہ کیجئے یہ ہیں‌وہ جملے جن کا خلاصہ کوٹیشن مارک کے اندر فواد نے دیا ہے ،جس کا مطلب ہوتا ہے کہ فواد پورا حقیقی ترجمہ پیش کرہے ہیں‌،لیکن انہوں نے درحقیقت کئی پیراگراف پر مبنی بیان کو توڑ موڑ کر اپنے الفاظ میں پیش کر دیا ہے۔

.
Against this background, the question is now asked whether Iraq has cooperated, "immediately, unconditionally and actively," with UNMOVIC, as is required under Paragraph 9 of Resolution 1441. The answers can be seen from the factor descriptions that I have provided.

However, if more direct answers are desired, I would say the following: The Iraqi side has tried on occasion to attach conditions, as it did regarding helicopters and U-2 planes. It has not, however, so far persisted in this or other conditions for the exercise of any of our inspection rights. If it did, we would report it.

It is obvious that while the numerous initiatives which are now taken by the Iraqi side with a view to resolving some longstanding, open disarmament issues can be seen as active or even proactive, these initiatives three to four months into the new resolution cannot be said to constitute immediate cooperation. Nor do they necessarily cover all areas of relevance. They are, nevertheless, welcome. And UNMOVIC is responding to them in the hope of solving presently unresolved disarmament issues.
نیز اس سے پہلے اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا
One can hardly avoid the impression that after a period of somewhat reluctant cooperation, there's been an acceleration of initiatives from the Iraqi side since the end of January. This is welcome. But the value of these measures must be soberly judged by how many question marks they actually succeed in straightening out.

This is not yet clear
اوپر کے اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عراق کا رویہ پہلے سے بہتر تھا اور وہ اپنے تعاون کو بڑھا رہے تھے جس کو ہانس خوش آمدید سے تعبیر کر رہے ہیں ۔نیز اس پیرا سے اوپر ہانس بلکس نے متعدد ایسے شواہد پیش کیے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ عراق تعاون کی راہ اپنائے ہوئے تھا ۔گو کہ ابھی اس معاملے پر ہانس کچھ تحفظات کا اظہار کر تے ہیں تاہم اسی رپورٹ کے آخر میں وہ اپنے اس کام کو انجام دینے کے لیے مزید وقت مانگتے ہیں جو بقول ان کے کچھ ماہ پر محیظ ہو سکتا تھا تو کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ عراقی معائنہ کاروں کو ان کا مطلوبہ وقت مہیا کر دیا جاتا ناکہ کہ عراق پر حملہ ہی کر دیا جاتا اور پھر اس بات کے ساتھ بلکس کا ایک اور بیا ن بھی دیکھئے

اقوامِ متحدہ کے ہتھیاروں کی معائنہ ٹیم کے سابق سربراہ ہانس بلکس نے پھر کہا ہے کہ عراق کے خلاف جنگ امریکہ اور برطانیہ کی بلا جواز مسلح کارروائی تھی۔
عراق پر یلغار کا پہلا سال مکمل ہونے سے کچھ قبل شائع ہونے والی اپنی کتاب میں ہانس بلکس لکھتے ہیں کہ عراق کے خلاف کارروائی سے نہ صرف دو حکومتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے بلکہ اس سے اقوامِ متحدہ کے اختیار پر بھی ضرب لگی ہے۔
جب ہانس بلکس کو عراق میں کچھ نہ ملا تو امریکہ اور برطانیہ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے کہ ثبوت کا نہ ملنا خود ثبوت ہے کہ عراق میں کچھ نہیں ملے گا۔

اپنی کتاب میں ہانس بلکس لکھتے ہیں کہ اکتوبر دو ہزار دو میں جوہری توانائی کے عالمی ادارے کے سربراہ البرادعی اور خود انہیں امریکی نائب صدر ڈک چینی کے ساتھ ایک ملاقات کا اتفاق ہوا۔

اس میٹنگ میں ڈک چینی نے کہا ’اگر معائنہ کاروں کے کام کا کوئی فوری نتیجہ نہیں نکلتا تویہ نہیں ہو سکتا کہ ہتھیاروں کی تلاش کا سلسلہ چلتا رہے۔‘

امریکی نائب صدر نے یہ بھی کہا: ’امریکہ عراق کو غیر مسلح کرنے پر تیار ہے خواہ اس کے لئے معائنہ کاروں کی عزت کم ہو جائے۔‘

ہانس بلکس کہتے ہیں کہ ڈک چینی کی اس بات سے وہ یہ سمجھ گئے کہ اگر ’ہمیں جلد ہتھیار نہ ملے تو امریکہ یہ اعلان کردے گا کہ معائنہ کاروں کی کوشش فضول ہے اور دیگر ذرائع استعمال کرکے عراق کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/news/story/2004/03/040310_hans_blix_rza.shtml

آخر میں اس آخری رپورٹ کا آخری دو پیرےجس میں ہانس بلکس مزید وقت کی درخواست کرتے ہیں جو ان کو نہیں دیا گیا

How much time would it take to resolve the key remaining disarmament tasks? While cooperation can -- cooperation can and is to be immediate, disarmament, and at any rate verification of it, cannot be instant. Even with a proactive Iraqi attitude induced by continued outside pressure, it will still take some time to verify sites and items, analyze documents, interview relevant persons and draw conclusions. It will not take years, nor weeks, but months.

Neither governments nor inspectors would want disarmament inspection to go on forever. However, it must be remembered that in accordance with the governing resolutions, a sustained inspection and monitoring system is to remain in place after verified disarmament to give confidence and to strike an alarm if signs were seen of the revival of any proscribed weapons programs.

Thank you, Mr. President.

http://www.cnn.com/2003/US/03/07/sprj.irq.un.transcript.blix/index.html
 
بارہ لاکھ عراقیوں کے قاتل پر جوتوں کی بارش,,,,ثروت جمال اصمعی

عراق میں سچ مچ جوتے کھانے والے صدر بش نے حال ہی میں اس مظلوم ملک کے خلاف فوجی کارروائی پر اظہار افسوس فرمایا ہے جس کے نتیجے میں بارہ لاکھ انسان قتل ہوئے اور پچاس لاکھ اپنے شہر یا ملک سے ہجرت کرجانے پر مجبور ہوگئے۔ ”ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا“․․․ مگر یہ مصرع اس موقع کے لیے مناسب نہیں کیونکہ یہ پشیمانی بھی صرف سیاسی ہے۔ جارج بش اپنے نام کے ساتھ سابق صدر کا لاحقہ لگنے سے پہلے اپنے چہرے کی سیاہی کچھ ہلکی کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مگر یہ سیاہی ان کے نامہ اعمال کا حصہ بن چکی ہے اور حشر کے میدان تک ان کے لیے اس سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں۔وائٹ ہاوٴس چھوڑنے سے چند روز پہلے اے بی سی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے عراق پر حملے کو اپنے دور صدارت کا سب سے افسوسناک واقعہ قرار دیا ہے جو ان کے بقول غلط انٹلیجنس کے باعث رونما ہوا۔ اپنے گناہوں کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے انہوں نے یہ باور کرانے کی بھی کوشش کی کہ عراق کے خلاف کارروائی کا فیصلہ تنہا ان کا یا ان کی حکومت کا نہیں تھا بلکہ عالمی لیڈروں اور امریکی پارلیمنٹ کے ارکان سمیت ان کی انتظامیہ سے باہر کے بھی بہت سے لوگوں کا اصرار تھا کہ ایسا کیا جائے۔لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر مارچ 2003ء میں انہیں یقین ہوتا کہ صدام کے پاس مہلک ہتھیار نہیں ہیں تو کیا تب بھی وہ عراق پر حملے کا حکم دیتے؟تو وہ جواب گول کرگئے جس سے ان کی بدنیتی ظاہر ہے۔
بہر حال صدارت چھوڑنے سے پہلے انہوں نے دنیا کو یہ فریب دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ سب انٹلیجنس کی غلطی سے ہوگیا ۔ دنیا میں انصاف ہوتا تو ان کا یہ موقف عالمی برداری بلا تاخیر مسترد کردیتی۔ ناقابل تردید شواہد ہیں کہ عراق پر حملے سے پہلے پوری طرح واضح ہوچکا تھا کہ وہاں کوئی مہلک ہتھیار نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کار ھینس بلکس اور محمد البرادعی مسلسل یہی دہائیاں دے رہے تھے۔ھینس بلکس نے اپنی کتاب ”ڈس آرمنگ عراق“ میں اس بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ لہٰذا صدر بش کا یہ کہنا کہ عراق پر حملہ انٹلیجنس کی غلطی سے ہوا ہرگز درست نہیں ہے۔تاہم اس طرح انہوں نے عراق کے خلاف امریکی جارحیت کے سراسر بے جواز ہونے کا اعتراف ضرور کرلیا ہے۔ لہٰذا انہیں اقراری مجرم قرار دے کر اس اعتراف کے منطقی تقاضوں کی تکمیل کے لیے پیش رفت عدل کا تقاضا ہے۔ اصولی طور پر تو سب سے پہلے اسلامی ملکوں کی تنظیم کو صدر بش کے اس اقرار کے بعد ان سے باز پرس کرنی چاہیے تھی مگر یہ تنظیم اس قابل ہوتی تو مسلمان اس مظلومیت کی حالت میں کیوں ہوتے۔اس لیے کم از کم مسلمان تجزیہ کاروں، دانشوروں ، اہل قلم اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ لوگوں کو اس معاملے کو اٹھانا چاہیے۔ مغربی دنیا اور خود امریکا میں صدربش سے اس بارے میں سوالات کیے جارہے ہیں ، چنانچہ کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان تکلف سے کام لیں۔ سان فرانسسکو کرانیکل نے اپنے 14 دسمبر کو اداریے میں عراق پر حملے کو انٹلیجنس کی غلطی قرار دینے کے بیان پر کڑی گرفت کی ہے۔اخبار لکھتا ہے:
” صدر کی جانب سے عذر لنگ کی بنیاد پر جنگ کی ذمہ داری سے خود کو الگ کرنے کی کوشش صاف طور پر اشتعال انگیز ہے۔ بش اور ان کے نائب صدر ڈک چینی’ بہت سے لوگوں‘ کی بھیڑ میں محض دو افراد نہیں تھے جنہیں صدام حسین کے مہلک ہتھیاروں سے پریشانی تھی۔یہ وہ لوگ تھے جو عراق کے بارے میں جنون کی آگ کو اس وقت ہوا دے رہے تھے جب اس قوم کے اہم ترین حلیفوں میں سے کئی صدام حسین کے ہتھیاروں اور جنگی صلاحیت کے حوالے سے امریکی دعووں پر برملا شکوک و شبہات کا اظہار کررہے تھے۔ بش انتظامیہ اس وقت خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی تھی جس کی ایک مثال کنڈولیزا رائس کا 2003 ء کا وہ بیان ہے جس میں انہوں کہا تھا کہ مکمل یقین حاصل کرنے کے لیے ہم دھواں اگلتی بندوق کے کھمبیوں کی فصل بن جانے کا انتظار نہیں کرسکتے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے معائنہ کار عراق سے خالی ہاتھ لوٹ رہے تھے۔“اخبار مزید لکھتا ہے کہ” 2003ء کے اسٹیٹ آف یونین خطاب میں بش نے دعویٰ کیا تھا کہ صدام حسین بڑی مقدار میں یورینیم حاصل کرنے کی کوشش کرچکے ہیں اگرچہ اس دعوے کی صداقت پر خود امریکی محکمہ خارجہ میں سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے۔“
ان واقعاتی حقائق کی موجودگی میں صدر بش کا یہ کہنا کہ عراق کی جنگ غلط انٹلیجنس معلومات کا نتیجہ تھی جس پر انہیں افسوس ہے، دنیا کو مزید دھوکا دینے کی ایک ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ان کی یہ معذرت افغانستان اور عراق میں ان کی جارحیت کے سبب بے گناہ لوگوں کے قتل عام کے جرم کو ہلکا نہیں کرسکتی۔ چنانچہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی جانب سے سوڈان کے صدر عمر حسن البشیر کی گرفتاری کے احکام کے اجراء پر امریکا کے سابق نائب وزیر خزانہ اور ممتاز دانشور پال کریگ رابرٹس نے لکھا ہے کہ ” عراق اور افغانستان میں انسانیت کے خلاف بش اور بلیر کے جرائم کے مقابلے میں دارفور کی اندوہناک صورت حال بہت کمتر دکھائی دیتی ہے۔کم از کم مرنے اور بے گھر ہونے والے لوگوں کی حد تک۔ دارفور میں ہلاکتوں کا زیادہ سے زیادہ تخمینہ چار لاکھ کا ہے جبکہ یہ تعداد عراق پر بش کے حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا ایک تہائی ہے۔مزید یہ کہ سوڈان کا تنازع اس کا داخلی معاملہ ہے جبکہ بش نے دو بیرونی ملکوں پر ناجائز اور غیرقانونی طور پر فوج کشی کی جوکہ نورمبرگ اسٹینڈرڈ کی رو سے جنگی جرم ہے۔بش کے لیے جنگی جرائم کے ارتکاب کو ممکن بنانے میں برطانیہ، اسپین، کنیڈا اور آسٹریلیا کی سیاسی قیادت نے تعاون کیا۔جنگی جرائم کے ارتکاب کے خواہشمند اتحاد کے تمام رکن ملکوں کے قائدین قانون کی عدالت سے سزا پانے کے مستحق ہیں۔ مگر عظیم مہذب مغرب جنگی جرائم کا ارتکاب بھلا کب کرتا ہے۔ جنگی جرائم کے الزامات تو ان لوگوں پر لگائے جاتے ہیں جنہیں بدنام کرنے کی پرفریب مہم مغربی میڈیا چلاتا ہے۔“ دنیا کی کوئی عدالت اپنا فرض پورا کرے یا نہ کرے ،وقت بہرحال نہایت بے رحم منصف ہے۔ وقت کی عدالت نے عراق اور افغانستان میں لاکھوں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے انسانیت کے مجرموں کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ پوری دنیا نے اتوار کی رات عراق پر بے جواز فوج کشی کے مجرم پر عراق ہی میں جوتے برسائے جانے کی صورت میں دیکھا۔ آنے والا وقت یقینا مزید عبرتناک مناظر سامنے لائے گا۔فاعتبروا یا اولی الابصار۔

http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=322129
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ہانس بلکس کے بیانات بی بی سی کی اردو سائیٹ پر موجود ہیں اور ساتھ ہی انگلش میں ویب پر ان کی تمام رپورٹس موجود ہیں اور ان کی اس تمام مسئلے پر کتاب بھی چھپ چکی ہے ۔اپنے ان بیانات میں وہ امریکی رویہ پر براہمی کا اظہار معتدد بار کر چکے ہیں۔

اور فواد آپ کی اس تھریڈ سے آُپ کا یہ بیان میری نظر میں مجروح ہو گیا ہے لگتا ہے کہ آپ کے ذاتی مفادات حقائق سے کہیں بالاتر ہیں۔کیوں کہ اپنی اس تھریڈ میں آپ نے حقائق کو جس طرح پائمال کیا ہے وہ افسوسناک ہے۔


فروری 14 2003 کو ہانس بلکس نے جو رپورٹ دی تھی اس کا مکمل متن اس ويب لنک پر موجود ہے۔

http://www.un.org/Depts/unmovic/blix14Febasdel.htm

اسی طرح مارچ 7 2003 کو دی جانے والی رپورٹ اس ويب لنک پر موجود ہے۔

http://www.un.org/Depts/unmovic/SC7asdelivered.htm

آپ نے بالکل درست کہا ہے کہ ميں نے دانستہ اس رپورٹ کے مخصوص حصوں کا ذکر کيا ہے۔ ميرا مقصد رپورٹ کے ان نقاط کی طرف آپ کی توجہ دلانا تھا جو سال 2003 ميں عراق کے ضمن ميں فيصلہ سازی کے عمل ميں موضوع بحث تھے۔ يہ بات توجہ طلب ہے کہ اپنی مخالفانہ رائے اور سفارشات کے برعکس ہانس بلکس اس بات سے بحرحال متفق تھے کہ صدام حسين اقوام متحدہ سے تعاون نہيں کر رہے تھے۔ اس بات سے کوئ انکار نہيں ہے کہ ہانس بلکس عراق ميں فوجی کاروائ کے مخالف تھے۔ ميں نے اپنی پوسٹ ميں کہيں بھی اس کے برعکس دعوی نہيں کيا۔ اس ايشو پر ان کی رائے سے سب واقف ہيں اور اس کے کئ حوالے آپ نے اپنی پوسٹ ميں ديے ہیں۔ ميں نےصرف ان کی رپورٹ ميں بيان کی گئ تفتيش اور اس تناطر کا ذکر کيا ہے جو عراق کے حوالے سے فيصلہ سازی کے عمل کا حصہ تھے۔ اس کا کوئ تعلق ان کی رائے اور سفارشات سے نہيں ہے۔

جہاں تک ہانس بلکس کی جانب سے صدام حکومت کو مزيد مہلت ديے جانے کا سوال ہے تو اس ضمن ميں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ صدام حکومت کی جانب سے دانستہ اس مسلئے کو التوا کرنے کے ليے دوہرا کھيل کھيلا جا رہا تھا تا کہ عراق پر عالمی برادری کی جانب سے لگائ جانے والی پابندياں ہٹائ جا سکيں۔

دسمبر 16 1998 کو اس وقت کے امريکی صدر بل کلنٹن نے امريکی قوم سے اپنے خطاب ميں کہا تھا کہ صدام حکومت کو اقوام متحدہ سے تعاون کے ليے دی جانے والی 6 ہفتے کی مہلت ختم ہو چکی ہے ليکن ابھی تک ان کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہيں کيا جا رہا۔ سال 1998 ميں اقوام متحدہ کے سپيشل کميشن کے سربراہ رچرڈ بٹلر نے بھی اپنی رپورٹ ميں صدام کی جانب سے دانستہ التوا کی اسی حکمت عملی کا ذکر کيا تھا جس کو ہانس بلکس نے پانچ سال کے بعد رپورٹ کيا تھا۔ ان حقائق کے باوجود ہانس بلکس کا نقطہ نظر يہ تھا کہ صدام حکومت کو مزيد وقت ديا جانا چاہيے۔

http://www.cnn.com/US/9812/16/clinton.iraq.speech/

صدام حسين کو مزيد وقت ديے جانے کے حوالے سے ميں يہ بھی وضاحت کر دوں کہ ہانس بلکس کی رپورٹ فروری 14 2003 کو منظر عام پر آئ تھی ليکن صدر بش اور برطانوی وزير اعظم کی جانب سے فروری 1 2003 کو 6 ہفتے کی مزيد مہلت دينے کا اعلان کيا جا چکا تھا۔

http://www.guardian.co.uk/world/2003/feb/01/iraq.politics


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 
آپ نے بالکل درست کہا ہے کہ ميں نے دانستہ اس رپورٹ کے مخصوص حصوں کا ذکر کيا ہے

میں نے صرف اسی طرف توجہ نہیں دلائی بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ آُپ نے دانستہ ہانس بلکس کے بیان کو توڑ موڑ کر پیش کیا ہے جس کی وضاحت ابھی بھی آُپ نے نہیں فرمائی۔

ہانس بلکس عراق ميں فوجی کاروائ کے مخالف تھے
جہاں تک ہانس بلکس کی جانب سے صدام حکومت کو مزيد مہلت ديے جانے کا سوال ہے تو اس ضمن ميں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ صدام حکومت کی جانب سے دانستہ اس مسلئے کو التوا کرنے کے ليے دوہرا کھيل کھيلا جا رہا تھا تا کہ عراق پر عالمی برادری کی جانب سے لگائ جانے والی پابندياں ہٹائ جا سکيں۔دسمبر 16 1998 کو اس وقت کے امريکی صدر بل کلنٹن نے امريکی قوم سے اپنے خطاب ميں کہا تھا کہ صدام حکومت کو اقوام متحدہ سے تعاون کے ليے دی جانے والی 6 ہفتے کی مہلت ختم ہو چکی ہے ليکن ابھی تک ان کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہيں کيا جا رہا۔ سال 1998 ميں اقوام متحدہ کے سپيشل کميشن کے سربراہ رچرڈ بٹلر نے بھی اپنی رپورٹ ميں صدام کی جانب سے دانستہ التوا کی اسی حکمت عملی کا ذکر کيا تھا جس کو ہانس بلکس نے پانچ سال کے بعد رپورٹ کيا تھا۔
اس بات کا فیصلہ اقوام متحدہ نے کرنا تھا آپ ہوتے کوں ہیں تنہا یہ فیصلہ کرنے والے کہ صدام کیا درست اور کیا غلط کر رہا تھا؟ اور پھر بات 2003 کی ہو رہی ہے جب ہانس بلکس کی رپورٹ کے مطابق عراق نے تعاون شروع کر دیا تھا 1998 کی نہیں جب یہ تعاون ختم کر دیا گیا تھا تو بھلا بتائیے آپ کی اس دلیل میں کتنا دم ہے؟ یعنی آپ بات 2003 کی کرتے ہیں کہ صدام معاملات کو طول دے رہا تھا اور دلیل 98 کی پیش کرتے ہیں کہ کلنٹن نے یہ کہااور رچرڈ نے وہ کہا اور ہانس نے کب اس حکمت عملی کا ذکر اپنی رپورٹ میں کیا؟ کیا ہانک رہے ہیں‌آپ ۔
بک رہا ہوں‌جنوں میں کیا کیا کچھ

صدام حسين کو مزيد وقت ديے جانے کے حوالے سے ميں يہ بھی وضاحت کر دوں کہ ہانس بلکس کی رپورٹ فروری 14 2003 کو منظر عام پر آئ تھی ليکن صدر بش اور برطانوی وزير اعظم کی جانب سے فروری 1 2003 کو 6 ہفتے کی مزيد مہلت دينے کا اعلان کيا جا چکا تھا
۔

اس پر بھی آُ پ فرماتے ہیں کہ امریکا کی تھانیدارانہ ذہنیت نہیں ہے۔ جناب فواد صاحب ذرا وضاحت فرمائیے کہ اس قسم کی حتمی تاریخیں‌دینے کا اختیار بش جیسے درندوں اور بلئیر جیسے پالتوں کو دیا کس نے؟ جب معاملہ اقوام متحدہ کے سپرد تھا اس کے معانہ کار وہاں مصروف با عمل تھےاور وہ وہاں حملہ نہیں چاہتے تھے جس کا اعتراف آپ نے ابھی خود کیا ہے تو یہ بش اور بلئیر اور اس کے ساتھ چند اور گندے ملکوں کے پاس حملہ کی اتھارٹی آئی کہاں‌سے؟ یہ ہے میرا وہ سوال جس کا جواب دینے سے آپ کترا رہے ہیں۔پھر ایک بات اور بش نے یہ بھی کہا تھا
But Mr Bush did not reject the idea of going back to the UN security council for a second resolution, saying: "I was the guy that went to the UN in the first place
یہ بات گارڈین کی اسی رپورٹ میں ہے جس کا حوالہ آُ نے اوپر دیا ہے تو کیوں نہیں بش اقوام متحدہ گیا کیوں اس نے وہاں سے منظوری نہیں‌لی؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس پر بھی آُ پ فرماتے ہیں کہ امریکا کی تھانیدارانہ ذہنیت نہیں ہے۔ جناب فواد صاحب ذرا وضاحت فرمائیے کہ اس قسم کی حتمی تاریخیں‌دینے کا اختیار بش جیسے درندوں اور بلئیر جیسے پالتوں کو دیا کس نے؟


اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 678 ميں يہ واضح ہے کہ ممبر ممالک کو يہ اختيار حاصل ہے کہ تمام وسائل کو بروکار لا کر اس ضمن ميں ماضی اور مستقبل کی تمام قراردادوں پر عمل درآمد کو يقينی بنايا جائے۔

http://www.fas.org/news/un/iraq/sres/sres0678.htm

اس قرارداد کے مطابق "کويت کی حکومت کی مدد کرنے والے تمام ممبر ارکان کو يہ اختيار ہے کہ وہ (1) اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 660 اور دیگر قراردادوں پر عمل درآمد اور کويت پر عراقی قبضے کو ختم کروانے اور عراقی افواج کی واپسی کو يقينی بنوانے کے ليے تمام اختيارات کو استعمال کرنے کے مجاز ہيں۔ (2) خطے ميں ديرپا سيکورٹی اور امن کے قيام کو يقينی بنايا جائے"۔

يہ کوئ پوشيدہ حقيقت نہيں ہے کہ امريکہ عراق کے مسلئے کے حوالے سے ممبر ممالک کی جانب سے مہيا کيے جانے والے فوجی اور معاشی وسائل میں سرفہرست تھا۔ ليکن يہ بھی ياد رہے کہ دنيا کے بہت سے ديگر ممالک بھی اس اتحاد ميں شريک تھے۔ حقيقت يہ ہے کہ 90 کی دہائ ميں امريکہ پر کافی عرصے تک يہ تنقيد کی جاتی رہی کہ امريکہ صدام حکومت کے خلاف زيادہ موثر کاروائ نہيں کر رہا۔

امريکی حکومت کو "عالمی تھانيدار" کا رول ادا کرنے کی خواہش ہے اور نہ ہی اس کی کبھی کوشش کی گئ ہے۔ ايسی بہت سی مثاليں موجود ہيں جہاں يا تو ديگر ممالک نے معاملات کے تصفيے کے ليے راہنمائ کی ہے يا امريکہ نے دوست اور اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر اہم عالمی مسائل کے حل کے ليے اپنا کردار ادا کيا ہے۔ اس حوالے سے ميں بالکنز کی مثال دوں گا جہاں کشيدگی کے خاتمے کے ليے ابتدا ميں يورپی ممالک نے رول ادا کيا تھا۔ مگر صورت حال ميں مزيد ابتری کے بعد امريکہ کو مداخلت کی دعوت دی گئ۔ اسی طرح رووانڈا ميں جب صورت حال خراب ہونا شروع ہوئ تو امريکہ پر بروقت مداخلت نہ کرنے پر کڑی تنقيد کی گئ۔

يہاں تک کہ کچھ تجزيہ نگار اب بھی امريکہ پر يہ الزام لگاتے ہيں کہ 1989 ميں سويت افواج کی شکست کے بعد امريکہ نے افغانستان ميں اپنا موثر رول ادا نہيں کيا تھا۔

اس ميں کچھ شک نہيں کہ امريکہ معاشی اور فوجی وسائل کے حوالے سے اس وقت دنيا ميں سرفہرست ہے اور اسی وجہ سے عالمی برادری ميں يہ تاثر پايا جاتا ہے کہ امريکہ کو مختلف عالمی مسائل اور تنازعات کے حل کے ليے نہ صرف اپنے وسائل مہيا کرنے چاہيے بلکہ اپنا موثر رول بھی ادا کرنا چاہيے۔ ليکن اس حقيقت کے باوجود يہ دعوی حقيقت کے منافی ہے کہ امريکہ دانستہ عالمی برادری کی مرضی کے برخلاف محض اپنے عالمی اثرورسوخ ميں توسيع کے ليے دوردراز ممالک پر حملہ کر ديتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

چونکہ بحث کا محور عراق جنگ کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر مرکوز ہے اس ليے اسی تناظر ميں اقوام متحدہ کی حاليہ قرارداد کا ذکر بھی ہونا چاہيے جس ميں عراق کی موجودہ صورت حال پر روشنی ڈالی گئ ہے۔

دسمبر 22، 2008 کو اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل ميں قرارداد نمبر 1859 اور اس کے الفاظ اہميت کے حامل ہيں جن کی روشنی ميں زمينی حقائق کو بہتر انداز ميں پرکھا جا سکتا ہے۔

اس قرارداد ميں سے چند منتخب حصے پيش ہيں

"سيکورٹی کونسل جمہوری بنيادوں پر منتخب عراقی کی آئينی اور قومی اتحاد پر مبنی حکومت کی سياسی، معاشی اور دفاعی استحکام کے ضمن ميں کی جانے والی کاوشوں کا خير مقدم کرتی ہے اور اس ضمن ميں پرامن اور کل جماعتی صوبائ انتخابات کے انعقاد کی حوصلہ افزائ کرتی ہے۔ عراق سے متعلقہ ماضی کی تمام قرارداديں واپس ليتے ہوئے عراق کی خودمختاری، آزادی اور علاقائ تقدس کی حمايت کرتی ہے۔ عراق ميں جاری ترقی کے عمل خاص طور پر دفاع اور استحکام کے ضمن ميں عراق کی سيکورٹی فورسز اور فوج کی مضبوطی کے عمل کو تسليم کرتی ہے۔ اس امر کو تسليم کرتے ہوئے کہ عراق ميں جاری مثبت تبديلی کے سبب موجودہ صورت حال ميں عراق اس سے بہت مختلف ہے جو سال 1990 ميں قرارداد نمبر 661 کی منظوری کے وقت تھا۔ عراق کی عالمی سطح پر اس ساکھ کی بحالی کی اہميت کو بھی تسليم کيا جاتا ہے جو سال 1990 ميں قرارداد نمبر 661 کی منظوری سے قبل تھی"۔

اقوام متحدہ کی اس قرارداد کی روشنی ميں عراق کی موجودہ صورت حال کا موازنہ صدام حسين کے دور حکومت سے کريں جب کئ دہائيوں تک بے گناہ شہريوں کی ہلاکت روز کا معمول تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

شمشاد

لائبریرین
اقوام متحدہ کا تو ذکر ہی مت کیا کریں۔ وہ چھوٹے ملکوں کے لیے ہوا ہو سکتی ہے لیکن امریکہ، بریطانیہ، روس، فرانس کی وہ داشتہ ہے۔ یہ ممالک جسطرح چاہتے ہیں اسے نچاتے ہیں۔
 

باسم

محفلین
اچھی طرح بینڈ بجادیا اب تقدس کی حمایت اورساکھ کی بحالی جیسے فریب کا خیال آتا ہے
فواد صاحب اتنی عرصے تک غیر حاضری کی کوئی خاص وجہ؟
 

ساجد

محفلین
فواد صاحب ، کیا آپ کسی عرب ملک خاص طور پر عراق میں کچھ عرصہ گزار چکے ہیں؟؟؟ یا صرف امریکی پروپیگنڈہ ہی آپ کی معلومات کا ذریعہ ہے؟ کیا اقوامِ متحدہ یا امریکہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایک مخصوص قسم کے سیاسی نظام کو ہی سندِ قبولیت دے؟؟؟ کیا جمہوریت کے نفاذ کے نام پر کسی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں کوئی گنجائش ہے؟؟؟ کیا امریکی فوج کی اس ملک میں نا جائز دخل اندازی سے وہاں جمہوریت آ گئی ہے اور اگر امریکی پٹھو حکومت کو جمہوری مان بھی لیا جائے تو کیا اب ہر قسم کی قتل و غارت رک گئی ہے؟یا پھر یہ صدام کے وقت سے کئی گنا زیادہ ہو گئی ہے؟؟؟ کیا عراق کا انفرا سٹرکچر، تعلیمی ادارے ، لائبریریاں اور دیگر سماجی مراکز نیست و نابود نہیں کر دئیے گئے؟؟؟ اس تباہی کو کوئی عقلمند تہذیب کی ترقی کہے گا یا بر بریت؟؟؟ اگر عراقی اب چین کی زندگی گزار رہے ہیں تو بش کی عزت افزائی ایک تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے صحافی کے ہاتھوں جوتوں کے ذریعے کیوں ہوئی؟؟؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ نوشتہ دیوار کسے کہتے ہیں؟؟؟ جی ہاں محترم اسی کو کہتے ہیں جو کچھ بش کے ساتھ ہوا۔
اب یہ مت کہئیے گا کہ میں موضوع سے ہٹ رہا ہوں ۔ گزارش کا مقصد یہ ہے کہ اس چیز کی وضاحت ہو جائے جس کو بنیاد بنا کر امریکی پالیسیاں دوہرے معیار پر چلائی جاتی ہیں۔ براہِ کرم سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یا امریکی حکومت کے بیانات پر اکتفا نہ کیجئیے ان سے باہر نکلئیے اور ان سوالوں کا جواب تلاش کیجئیے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

فواد صاحب ، کیا آپ کسی عرب ملک خاص طور پر عراق میں کچھ عرصہ گزار چکے ہیں؟؟؟ یا صرف امریکی پروپیگنڈہ ہی آپ کی معلومات کا ذریعہ ہے؟


ميرے ليے يہ امر خاصہ دلچسپ ہے کہ آپ کے نزديک ميں ايک جانب دار امريکی پروپيگنڈہ سے متاثر ہوں جسے مسلم يہ عرب معاشروں سے زيادہ شناساہی نہيں ہے۔

آپ کے سوال کا جواب يہ ہے کہ ميں نے زندگی کے بے شمار سال عرب ممالک ميں گزارے ہيں اور اب بھی ميں کئ مسلم ممالک کے دورے کرتا رہتا ہوں۔ اسی تھريڈ پر کسی دوست نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ميری غير حاضری کے حوالے سے سوال کيا تھا۔ ميں پاکستان کے دورے پر تھا اور صوبہ سرحد کے کچھ علاقوں سميت ميں نے کئ شہروں ميں وقت گزارا۔

ميں مسلم ممالک خاص طور پر پاکستان کے عوام کے امريکہ کے حوالے سے بالخصوص اور مغرب کے بارے ميں بالعموم غم وغصے، خيالات و نظريات، تحفظات اور سوچ سے بخوبی واقف ہوں۔

پاکستان ميں قيام کے دوران ميں نے ايک اور چيز بھی خاص طور پر نوٹ کی جس کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ پاکستان ميں ايک رائے جس پر عمومی طور پر اتفاق پايا جاتا ہے وہ يہ ہے کہ پاکستان ميں ميڈيا کی ترقی کے سبب عوام پہلے کے مقابلے ميں زيادہ باشعور اور با علم ہيں۔ مگر حقيقت يہ ہے کہ عوام کی سوچ کی تشکيل ميں اہم کردار ادا کرنے والے 50 سے زائد ٹی وی چينلز، 600 سے زيادہ اخبارات اور قريب 500 سے زائد رسائل کا ايک سرسری جائزہ ليں تو عمومی طور پر آپ کو "دوسرے فريق" کا نقطہ نظر نہيں ملے گا۔ اس حقيقت کے باوجود ہر شخص امريکہ پر ايک جانب دار ميڈیا پروپيگنڈہ کا الزام لگاتا ہے۔

دلچسپ بات يہ ہے کہ پاکستانی ميڈيا ميں امريکہ پر تنقيد کے ليے کسی بيان، دستاويزی فلم يا حالات حاضرہ کے حوالے سے جو مواد استعمال کيا جاتا ہے وہ عام طور پر اسی "جانب دار اور يک طرفہ" امريکی ميڈيا ہی سے حاصل کيا جاتا ہے۔

اس کے مقابلے ميں آپ کو امريکی ميڈيا سے ايسی بے شمار مثاليں دے سکتا ہوں جہاں امريکی حکومت پر بے دريخ تنقيد کی جاتی ہے۔ محض چند ہفتے قبل ميں نے شکاگو کے ايک ريڈيو پروگرام ميں مشہور پاکستانی تجزيہ نگار زيد حامدکی گفتگو سنی جو آزادی کے ساتھ امريکی کے "نيو ورلڈ آرڈر" کے حوالے سے "سازشوں" کا ذکر رہے تھے۔

کيا آپ پاکستانی ميڈيا پر امريکہ کی خارجہ پاليسی کی حمايت يا اس کے دفاع کا تصور کر سکتے ہيں؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اگر امریکی پٹھو حکومت کو جمہوری مان بھی لیا جائے تو کیا اب ہر قسم کی قتل و غارت رک گئی ہے؟یا پھر یہ صدام کے وقت سے کئی گنا زیادہ ہو گئی ہے؟؟؟ کیا عراق کا انفرا سٹرکچر، تعلیمی ادارے ، لائبریریاں اور دیگر سماجی مراکز نیست و نابود نہیں کر دئیے گئے؟؟؟


ميں آپ کو ايسے بہت سے اعداد وشمار دے سکتا ہوں جن کے ذريعے آپ عراق کی موجودہ صورت حال اور صدام کے دور حکومت کا تقابلی جائزہ لے سکتے ہيں ليکن ميرے خيال ميں اس ضمن ميں عراق کے عوام کے منتخب نمايندے کی رائے پڑھ لينا زيادہ مناسب ہے۔

دسمبر 7 2008 کو عراق کے وزير اعظم نے اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کے صدر کو ايک خط لکھا تھا جس ميں انھوں نے اس رائے کا اظہار کيا۔

"عراق کی حکومت اور عوام کی جانب سے ميں ان تمام ممالک کی حکومتوں کا شکريہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کے اہم کردار اور کوششوں کے سبب عراق کو استحکام اور محفوظ بنانے کے عمل ميں مدد ملی ہے۔ ميں براہراست ان افواج کا بھی شکريہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے عراق ميں اپنی زمينی، بحری اور فضائ موجودگی کے دوران خدمات انجام ديں۔ يہ امر قابل ذکر ہے کہ عراق پچھلے دور حکومت کے دوران برسا برس تک تنہا رہنے کے بعد معيشت کے استحکام کے ليےعالمی برادری کے ساتھ شراکت داری کے نئے روابط قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے"۔

اس بات کا دعوی کوئ نہيں کر سکتا کہ عراق کی صورت حال "بہترين" ہے اور حکومتی خدوخال کے حوالے سے تمام مسائل حل ہو گئے ہيں۔ يہ بھی ياد رہے کہ عراقی معاشرہ اس وقت بھی ان انتہا پسند تنظيموں سے مسلسل نبردآزما ہے جو کسی جمہوری نظام پريقين نہيں رکھتيں۔ لیکن بہرحال ايک جمہوری نظام کی بنياد رکھ دی گئ ہے۔

اگر آپ عراق کے ماضی کے سياسی عمل کا جائزہ ليں تو يہاں پر انتخابی عمل اسلحہ بردار دہشت گردوں کے ذريعے انجام پاتا تھا۔ اس ضمن ميں ان نام نہاد انتخابات کا ذکر کروں گا جب صدام حسين نے اپنے آپ کو 99 فيصد ووٹوں سے کامياب قرار ديا تھا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

براہِ کرم سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یا امریکی حکومت کے بیانات پر اکتفا نہ کیجئیے ان سے باہر نکلئیے اور ان سوالوں کا جواب تلاش کیجئیے۔


آپ نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ ميں اہم امريکی حکومتی اہلکاروں اور سفارت کاروں کے بيانات کے ذريعے سوالات کے جوابات دينے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ يہ بيانات امريکہ کی خارجہ پاليسی کے ايجنڈا اور مقاصد کی عکاسی کرتے ہيں۔ امريکی سفارتی اہلکار اور عہديدار اپنی سرکاری حيثيت ميں ديے گئے بيانات اور الفاظ کے ليے مکمل ذمہ دار ہوتے ہيں۔

ميں اس امر سے بخوبی واقف ہوں کہ پاکستان ميں حکومتی عہديداروں اور مختلف حکومتی اداروں کی طرف سے جاری کردہ بيانات اور سرکاری ٹی وی پر خبروں اور رپورٹوں پر عام طور پر بھروسہ نہيں کيا جاتا۔

پاليسی بيانات کے حوالے سے عام طور پر شکوک و شبہات اور تحفظات پائے جاتے ہيں۔ امريکہ ميں پاليسی بيانات کے حوالے سے تنقيد اور تحفظات کا عنصر موجود ہوتا ہے ليکن اس کے ساتھ ساتھ ہر عہديدار اس امر سے بھی واقف ہوتا ہے کہ احتساب کا عمل موجود ہے اور غلط بيانات کے نتيجے ميں ان کے خلاف کاروائ کی جا سکتی ہے۔ جب وائٹ ہاؤس يا اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی جانب سے کسی معاملے پر کوئ بيان جاری کيا جاتا ہے تو وہ اس معاملے پر براہراست امريکی حکومت کے موقف کی ترجمانی کرتا ہے۔

اس تناظر ميں ان بيانات کو نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 

اظفر

محفلین
فواد صاحب اکستان مین بھی کافی مسائل ہیں اپنے " نیک " دوستوں سے کہیں نا یہاں بھی " پیار" برسائیں تاکہ ہماری گناہ گار آںکھیں‌ بھی کھلی دنیاوں کو دیکھ سکیں

حد ہو گئ یار ۔ عراق میں رزانہ درجنوں مسلمان مر رہے ہیں‌ اور ا ن "جدید زہن کے مسلمان" بھائی کو وہاں بہتری نظرآرہی ہے۔
براے مہربانی دوسری آنکھ بھی کھولیں ایک آنکھ سے ایکرخ ہی نظر آے گا آپ کو۔
آپ نے اپنا منہ کو کراے پر چڑھا رکھا ہے کیا۔ اللہ جانے یہ آپ کی اعلی کم عقلی ہے یا کم علمی کہ آپ جو عراق میں جمہوریت نظر آرہی ہے۔
کبھی امریکہ اور عراق کی جمہوریت کے نظام میں فرق دیکھنے کی کوشش کریں تو آپ میں شیشہ دیکھنے کی ہمت ختم ہوجاے گی ۔

گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں‌ گھر تو آخر اپنا ہے
 
اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 678 ميں يہ واضح ہے کہ ممبر ممالک کو يہ اختيار حاصل ہے کہ تمام وسائل کو بروکار لا کر اس ضمن ميں ماضی اور مستقبل کی تمام قراردادوں پر عمل درآمد کو يقينی بنايا جائے۔

http://www.fas.org/news/un/iraq/sres/sres0678.htm

اس قرارداد کے مطابق "کويت کی حکومت کی مدد کرنے والے تمام ممبر ارکان کو يہ اختيار ہے کہ وہ (1) اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 660 اور دیگر قراردادوں پر عمل درآمد اور کويت پر عراقی قبضے کو ختم کروانے اور عراقی افواج کی واپسی کو يقينی بنوانے کے ليے تمام اختيارات کو استعمال کرنے کے مجاز ہيں۔ (2) خطے ميں ديرپا سيکورٹی اور امن کے قيام کو يقينی بنايا جائے"۔

يہ کوئ پوشيدہ حقيقت نہيں ہے کہ امريکہ عراق کے مسلئے کے حوالے سے ممبر ممالک کی جانب سے مہيا کيے جانے والے فوجی اور معاشی وسائل میں سرفہرست تھا۔ ليکن يہ بھی ياد رہے کہ دنيا کے بہت سے ديگر ممالک بھی اس اتحاد ميں شريک تھے۔ حقيقت يہ ہے کہ 90 کی دہائ ميں امريکہ پر کافی عرصے تک يہ تنقيد کی جاتی رہی کہ امريکہ صدام حکومت کے خلاف زيادہ موثر کاروائ نہيں کر رہا۔

امريکی حکومت کو "عالمی تھانيدار" کا رول ادا کرنے کی خواہش ہے اور نہ ہی اس کی کبھی کوشش کی گئ ہے۔ ايسی بہت سی مثاليں موجود ہيں جہاں يا تو ديگر ممالک نے معاملات کے تصفيے کے ليے راہنمائ کی ہے يا امريکہ نے دوست اور اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر اہم عالمی مسائل کے حل کے ليے اپنا کردار ادا کيا ہے۔ اس حوالے سے ميں بالکنز کی مثال دوں گا جہاں کشيدگی کے خاتمے کے ليے ابتدا ميں يورپی ممالک نے رول ادا کيا تھا۔ مگر صورت حال ميں مزيد ابتری کے بعد امريکہ کو مداخلت کی دعوت دی گئ۔ اسی طرح رووانڈا ميں جب صورت حال خراب ہونا شروع ہوئ تو امريکہ پر بروقت مداخلت نہ کرنے پر کڑی تنقيد کی گئ۔

يہاں تک کہ کچھ تجزيہ نگار اب بھی امريکہ پر يہ الزام لگاتے ہيں کہ 1989 ميں سويت افواج کی شکست کے بعد امريکہ نے افغانستان ميں اپنا موثر رول ادا نہيں کيا تھا۔

اس ميں کچھ شک نہيں کہ امريکہ معاشی اور فوجی وسائل کے حوالے سے اس وقت دنيا ميں سرفہرست ہے اور اسی وجہ سے عالمی برادری ميں يہ تاثر پايا جاتا ہے کہ امريکہ کو مختلف عالمی مسائل اور تنازعات کے حل کے ليے نہ صرف اپنے وسائل مہيا کرنے چاہيے بلکہ اپنا موثر رول بھی ادا کرنا چاہيے۔ ليکن اس حقيقت کے باوجود يہ دعوی حقيقت کے منافی ہے کہ امريکہ دانستہ عالمی برادری کی مرضی کے برخلاف محض اپنے عالمی اثرورسوخ ميں توسيع کے ليے دوردراز ممالک پر حملہ کر ديتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov

فواد آپ کی یہ پوسٹ پڑھ کر بے اختیار غالب کا یہ شعر یاد آ گیا
خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
بار بار آپ بنیادی باتوں سے کنی کترا کر رٹی رٹائی فضول باتیں کر کہ محض تضیع اوقات کر رہے ہیں میرا بھی اور اس فورم کے دیگر ممبران کا بھی۔
میری پچھلی باتوں کا آُپ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ حوالے دینے کے سلسلے میں بھی آپ بدترین خیانت کے مرتکب ہو چکے ہیں اس بات کی بھی آپ نے کوئی صفائی نہیں دی مزے کی بات یہ ہے کہ آُپ 2003 کے امریکی حملے کے جواز کے لیے مسلسل 1990، 1991 کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے دے رہے ہیں حالانکہ وہ معاملہ تو کب کا ختم ہو چکا تھا میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ 2003 میں جب اقوام متحدہ اور پوری دنیا کی اکثریت عراق پر امریکی حملے کے خلاف تھی تو کیوں امریکا نے عراق پر حملہ کیا؟ اس بات کا آپ نے کوئی جواب ابھی تک نہیں دیا ہے اور مسلسل آئیں بائین شائیں کر رہے ہیں۔ براہ مہربانی جب تک اس بات کا کوئی ٹھیک جواب آپ سے نہ بن پائے مزید فضول پوسٹوں سے گریز فرمائیے کہ اسی میں سب کے وقت کی بچت ہے
 
Top