شمار کا خمار۔۔۔ محسن حجازی

قیصرانی

لائبریرین
فواد، کیا آپ کچھ اعداد و شمار اس بارے دے سکتے ہیں کہ:

صدام کے تیس سالہ دور میں کتنے افراد مارے گئے
امریکہ کے عراق جنگ شروع کرنے سے لے کر اب تک کتنے افراد مارے گئے
 

طالوت

محفلین
آفرین ہے فواد ! خدا کی قسم آپ جیسے لوگوں کی پاکستان میں ضرورت ہے ورنہ ہمارے یہاں تو ہر چوتھا بندہ اپنے ملک کی پالیسیوں کی مٹی پلید کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔
امریکہ فوجیوں نے گواہیاں دیں ، ثبوت فراہم کیئے !!!! ماشاءاللہ !
حضور غلطی سے وہ تصویریں پریس کے ہتھے چڑھ گئیں تھیں اور امریکہ کی مجبوری بن گئی تھی یہ سب کرنا ۔۔۔ اور سزائیں ؟ ہنسی آتی ہے سزائیں سن کر۔۔۔۔۔۔
ایک چودہ سالہ بچی کا ریپ کر کے اسے اور اس کے خاندان کو قتل کرنے پر چند سال کی سزا ۔۔۔ شرم تو آتی ہو گی اس انصاف پر یا امریکی ایوانوں میں سبھی بے شرم بیٹھے ہیں ؟ ؟ ایمل کاسی نے صرف قتل کیے تھے اس کی سزا اور ان سزاوں کا تقابل کیجیئے گا (خصوصاامریکہ میں ریپ کی سزا) کبھی اور پھر اپنے ضمیر سے پوچھیئے گا کہ انصاف کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ آپ کی مزید وضاحتوں کی ضرورت نہیں اسلیئے باقی ماندہ وقت کسی اور "مفید" کام میں صرف کیجیئے گا ۔۔۔۔۔۔
وسلام
 
کسی بھی عراقی شہری کی ہلاکت يقينی طور پر قابل مذمت ہے۔ ليکن يہ حقیقت ہے کہ عراق ميں زيادہ تر شہريوں کی ہلاکت دہشت گرد تنظيموں کی کاروائيوں کا نتيجہ ہے جو دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ بنا رہے ہيں۔ کار بم دھماکوں اور اغوا برائے تاوان ميں ملوث يہ لوگ صرف اور صرف اپنی مرضی کا نظام نافذ کرنے ميں دلچسپی رکھتے ہيں۔

ایران عراق جنگ ، الانفال کی تحريک يا 1991 ميں ہزاروں کی تعداد ميں عراقی شيعہ برادری کا قتل عام اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر صدام کا دور حکومت مزيد طويل ہوتا تو بے گناہ انسانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔

ساری باتیں ایک طرف ذرا غور فرمائیے امریکی تھانیدارانہ ذہنیت پر۔ امریکی صدر ہو یا ان جیسے ڈیلی ویجرز سب ایک ہی انداز سے سوچتے ہیں۔ کوئی ان امریکی فرعونوں سے پوچھے کہ تمہیں یہ حق دیا کس نے کہ ساری دنیا میں دندناتے پھرو اور اپنی غلیظ مفادات کو اپنے انصاف کا نام دو۔ یعنی حد ہے اقوام متحدہ اس امریکی حملے کے خلاف تھی بعض بڑے یورپی مملک اس کے خلاف پوری دنیا میں لاکھوں عوام امریکا کے خلاف جلوس نکال رہے تھے مگر اس وحشی مذہبی جنونی بش نے پھر بھی عراق پر حملہ کردیا۔
اگر صدام کو اس کے اپنے عوام پھانسی دے دیتے تو یہ ان کا حق تھا مگر سیاہ رو اور سیادہ دل امریکیوں کو یہ حق ہر گز حاصل نہیں‌ کہ اپنے نام نہاد انصاف کو پوری دنیا میں نافذ کرتے پھریں۔
اور پھر غور کیجئے آخر عراق ہی کیوں‌؟ کیا اسرائیل معصوم عوام کا خون نہیں بہا رہا کیا مسٹر فواد فرام ویجیٹیبل آوٹ فوکس ٹیم یہ بتانا پسند کریں گئے کہ وہ کب اسرائیل پر حملہ کر رہے ہیں تاکہ معصوم عوام کا خون بہنا بن ہو جائے اور کیا اس سلسلے میں وہ کوئی اعداد و شمار پیش کریں گئے۔ Totally nonsense بات کی ہے فواد آپ نے Totally nonsense۔
اپنی نگاہ انصاف ہی اگر آپ کے نزدیک واحد پیمانہ ہے پر چیز پر من پسند حکم لگانے کے لیے تو پھر تو اسامہ اور القاعدہ برحق ہوئے وہ بھی اپنی نگاہ میں درست کام ہی انجام دے رہے ہیں‌ جو کچھ آپ لوگ کر رہے ہیں اس لحاظ سے تو کئی ورلڈ ٹریڈ سینٹر اس کی قیمت بنتے ہیں‌ فواد۔

اور جن دہشت پسند تنظیموں‌کی آپ بات کرتے ہہیں وہ کیا آسمان سے اتریں ہیں‌ وہ بھی تو عراق پر آپ کے حملے کی پیداوار ہیں اور جناب آپ کے جگر میں اتنا درد کیوں‌ ہے عراقیوں کا، کیوں آپ اب بھی عراق اور افغانستان سے انخلا نہیں کر لیتے کیا تیر مار لیا آپ نے اس جنگ میں ؟ بہتر ہے کہ اپنے وطن کو لوٹ جائیے وہاں‌ اس کی حفاظت کے بہتر انتظامات کیجئے دنیا اس کی منتظر ہے اور دنیا آپ کی اس نام نہاد جنگ اور آپ کے دیگر ممالک میں وجود کے بنا زیادہ محفوظ ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
کیا مسٹر فواد فرام ویجیٹیبل آوٹ فوکس ٹیم یہ بتانا پسند کریں گئے کہ وہ کب اسرائیل پر حملہ کر رہے ہیں

لو کرلو گل کیسی باتاں کارتے ہیں آپ بھی حسن بھائی آپ بھی ۔ ۔ ۔ ۔:blush: کیا آپکی نظروں سے اسرائیلی وڈیرے کا بیان نہیں گزرا کہ اوبامے نے اسرائیل کے تحفظ کی سب سے پہلے تجدید کی ہے ۔ ۔ ۔ اورکیوں نہ دیں اسرائیل کے تحفظ کی ضمانت آخر ناجائز اولاد کا اتنا تو حق بنتا ہے کہ ان کے نو منتخب ابا جان سب سے پہلے ان کے تحفظ کے عہد کی تجدید کریں
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

طالبان کی تخلیق اور افغانستان پر ان کی گرفت قایم کرانا پاکستان کی تاریخ میں بین الاقوامی معاملات میں کچھ بہترین کوششوں (مووز) میں سے ایک اور کامیاب ترین کوشش تھی۔

میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہر ملک کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ہمسايہ ممالک کے ساتھ اس نوعيت کے تعلقات استوار کرے جو اس کے بہترين ملکی مفادات سے ہم آہنگ ہوں۔ امريکہ اس ضمن ميں پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہترين تعلقات کے ليے ہميشہ حمايت کرتا رہا ہے۔ طالبان حکومت کے ضمن ميں امريکی حکومت کے تحفظات کا محور ان کے مذہبی اور سياسی عقائد نہیں بلکہ ان کی جانب سے دہشت گردی کی براہراست حمايت اور بنيادی انسانی حقوق کی فراہمی کے ضمن ميں ان کی واضح ناکامی تھی۔

ميں نے اس فورم پر جن دستاويزات کے لنکس ديے ہيں ان سے يہ واضح ہے کہ امريکی حکام کی طرف سے پاکستانی حکام کو طالبان کی جانب سے مسلح دہشت گرد گروپوں کی پشت پناہی کے نتيجے ميں اس خطے ميں بالخصوص اور دنيا بھر ميں بالعموم دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے مسلسل آگاہ کيا گيا۔ قریب 30 سے زائد رپورٹوں ميں جس امر پر سب سے زيادہ زور ديا گيا اس کی بنياد حکومت پاکستان اور طالبان حکومت کے مابين تعلقات کی نوعيت نہيں بلکہ دہشت گردی کے ضمن میں ممکنہ خطرات اور خدشات تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

حضور روس کو افغان وار میں پھنسانے والا کون تھا؟

آپ يہ دعوی کر رہے ہیں کہ امريکی حکومت اتنی بااثر، طاقتور اور عيار تھی کہ روس کو افغانستان ميں سازش کے ذريعےجنگ ميں دھکيل ديا گيا تا کہ ايک دوردراز ملک ميں اپنے پرانے دشمن کو شکست دی جا سکے۔ ليکن پھر اس رائے کا بھی اظہار کيا جاتا ہے کہ امريکہ افغانستان ميں طالبان کی حکومت کے قيام کے فيصلے کے مخالف تھا۔ ليکن حقيقت تو يہی ہے کہ طالبان 1995 سے 2001 تک طالبان افغانستان ميں برسراقدار رہے۔ يہ کيسے ممکن ہے کہ انتہائ طاقتور اور با اثر امريکہ جس نے اپنی عياری اور چالاکی سے روس جيسی سپر پاور کو ايک جنگ ميں ملوث کر ديا، وہ ايک مسلح گروہ کو اپنی مرضی کے خلاف افغانستان ميں حکومت کی تشکيل سے نہيں روک سکے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اب آج آپ نے مجھے جواب کے قابل سمجھ ہی لیا ہے تو یہ بھی بتاتے جائیے کہ "فلسطین" پر امریکی پالیسی کو امریکہ کسطرح بیان کرتا ہے ؟ چونکہ آپ اندر کے آدمی ہیں تو آپ کی فراہم کردہ معلومات میرے لیئے مستند ہوں گی
وسلام

مسلہ فلسطين – امريکی موقف

اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکی حکومت اور امريکی عوام اسرائيل کو اپنا دوست سمجھتے ہيں۔ اس حوالے سے ميں ايک وضاحت کر دوں کہ امريکہ ميں يہودی تنظيميں اور مختلف گروپ نظام کے اندر رہتے ہوئے امريکی حکومت کے پاليسی ميکرز اور قانون کے ماہرين کو اپنے موقف سے آگاہ کرتے ہيں اور انہيں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہيں۔ ليکن يہ کسی خفيہ سازشی عمل کا حصہ نہيں ہے۔ يہ آزادی تمام سماجی اور مذہبی تنظيميوں کو يکساں حاصل ہے۔ يہی امريکی جمہوری نظام کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اور يہ کوئ ڈھکی چھپی بات نہيں ہے۔ پاکستانی میڈيا ميں اسی بات کو "یہودی لابی کی سازشيں" جيسے ليبل لگا کر ايک دوسرے انداز ميں پيش کيا جاتا ہے۔ يہ مفروضہ امريکی نظام سے ناواقف لوگوں ميں خاصہ مقبول ہے۔ 300 ملين کی آبادی والے ملک ميں کسی ايک گروہ کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ ہر فيصلے پر اثرانداز ہو – سياسی توازن کو برقرار رکھنے کے ليے اس امر کو يقينی بنايا جاتا ہے۔اہم بات يہ ہے کہ جن فورمز کو يہودی تنظيميں استعمال کرتی ہيں وہ عرب کے مسلمانوں سميت سب کو ميسر ہيں۔ يہ وہ نقطہ ہے جس پر بعض عرب ليڈر اور حماس جيسی تنظيميں اپنا رول ادا کرنے ميں ناکام رہی ہيں۔ ليکن ميں آپ کو بتاتا چلوں کہ پچھلے کچھ عرصے سے اس صورت حال ميں تبديلی آ رہی ہے۔ امريکہ ميں بہت سی ایسی مسلم اور عرب تنظيميں منظر عام پر آئ ہيں جو فلسطين کے مسلئے کے حل کے ليے يہودی تنظيموں کی طرح اپنا رول ادا کر رہی ہيں۔ اور اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہيں۔

موجودہ امريکی صدر بش وہ پہلے امريکی صدر ہيں جنھوں نے ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام اور1967 سے جاری اسرائيلی تسلط کے خاتمے کے موقف کو سرکاری سطح پر تسليم کر کے اسے امريکی خارجہ پاليسی کا حصہ بنايا ہے اور اس حوالے سے عملی کوششيں بھی شروع کر دی ہيں۔ ان کوششوں کو امريکی سياسی منظرنامے پر عمومی طور پر يکساں حمايت حاصل ہے۔

حال ہی ميں امريکی شہر ايناپوليس ميں ہونے والی کانفرنس جس ميں بے شمار عرب رہنماؤں نے شرکت کی، اس سلسلے کی ايک اہم کاميابی ہے۔ اس کانفرنس کا انعقاد ايک سال کی انتھک سفارتی کوششوں کے نتيجے ميں عمل ميں آيا۔ اسی طرح دسمبر 2007 ميں ہونے والی پيرس کانفرنس بھی ايک اہم سنگ ميل تھا جس ميں فلسطينی رياست کے قيام کےعمل کے ليے 7 بلين ڈالرز کی امداد جمع کی گئ جو کہ فلسطينی ليڈرشپ کی جانب سے کی جانے والی امداد کی درخواست سے کہيں زيادہ تھی۔ حاليہ دنوں ميں اس سلسلے ميں مزيد کانفرنسز بھی ہوئ ہيں۔امريکی حکومت يہ واضح کر چکی ہےکہ وہ ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا خواب سچ ہوتا ديکھنا چاہتی ہے۔

ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام کے ليے موجودہ امريکی حکومت کی کوششيں ايک مسلمہ حقيقت ہے- حال ہی ميں امريکی کوششوں سے کوسوو ميں ايک مسلم حکومت کا قيام اس بات کا ثبوت ہے کہ يہ خواب حقيقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ ليکن اس کے ليے ضروری ہے کہ دونوں فريقين ايناپولس کانفرنس سے شروع ہونے والے بات چيت کے عمل کو جاری رکھيں اور ماضی کی غلطياں نہ دہرائيں جب امن کے بہت سے حقيقی مواقع پر تشدد کاروائيوں کے سبب ضائع ہو گئے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

باسم

محفلین
آپ يہ دعوی کر رہے ہیں کہ امريکی حکومت اتنی بااثر، طاقتور اور عيار تھی کہ روس کو افغانستان ميں سازش کے ذريعےجنگ ميں دھکيل ديا گيا تا کہ ايک دوردراز ملک ميں اپنے پرانے دشمن کو شکست دی جا سکے۔ ليکن پھر اس رائے کا بھی اظہار کيا جاتا ہے کہ امريکہ افغانستان ميں طالبان کی حکومت کے قيام کے فيصلے کے مخالف تھا۔ ليکن حقيقت تو يہی ہے کہ طالبان 1995 سے 2001 تک طالبان افغانستان ميں برسراقدار رہے۔ يہ کيسے ممکن ہے کہ انتہائ طاقتور اور با اثر امريکہ جس نے اپنی عياری اور چالاکی سے روس جيسی سپر پاور کو ايک جنگ ميں ملوث کر ديا، وہ ايک مسلح گروہ کو اپنی مرضی کے خلاف افغانستان ميں حکومت کی تشکيل سے نہيں روک سکے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
اپنے اثر ، طاقت ، عیاری، چالاکی سے "مسلح گروہ"کو حکومت سے ہٹا تو دیا اور اس کی جگہ "اپنے بندے" کو حکومت میں لے آئے
اور جب یہ عیاری، چالاکی ناکام ہوگئ تو لگے سعودی عرب کی منتیں کرنے
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اور جب یہ عیاری، چالاکی ناکام ہوگئ تو لگے سعودی عرب کی منتیں کرنے

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ طالبان کے حوالے سے کوئ پاليسی تبديل نہيں کی گئ ہے۔ ڈيفنس سيکرٹری رابرٹ گيٹس کا بيان محض اس بات کی توثيق تھا کہ جو مسلح گروپ دہشت گردی کو ترک کر کے امن معاہدوں کا حصہ بننا چاہتے ہيں اور قانونی طريقے سے سياسی دائرے ميں شامل ہونا چاہتے ہيں انھيں اس کا پورا موقع ديا جائے گا۔

آپ نے "منتیں کرنے" کی جو مثال دی ہے وہ ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتی ہے مگر حقيقی دنيا ميں اس کا اطلاق نہيں ہوتا۔

دنيا کا ہر ملک خارجہ پاليسی بناتے وقت اپنے بہترين مفادات کو سامنے رکھتا ہے۔ ليکن ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکہ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے کہ صرف وہی پاليسياں کامياب اور ديرپا ثابت ہوتی ہيں جو باہمی اور وسيع تر بنيادوں پر استوار کی گئ ہوں۔ اس ميں اس وقت کے زمينی حقائق بھی ديکھے جاتے ہيں اور مختلف ممالک سے تعلقات اور اس کے دوررس اثرات اور نتائج پر بھی نظر رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ يہ حقيقت بھی پيش نظر رکھی جانی چاہيے کہ ہر نئ حکومت کی پاليسی پچھلی حکومت سے الگ ہوتی ہے اور زمينی حقائق کی بنياد پر ان پاليسيوں ميں تبديلی بھی آتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر 70 کی دہائ ميں پاکستان پيپلز پارٹی اور خود بھٹو صاحب امريکہ سے اچھے تعلقات کو پاکستان کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے۔ ليکن 80 اور 90 کی دہاہی میں پاکستان پيپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کی اپنی بيٹی امريکہ سے اچھے تعلقات کی اہميت پر زور ديتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ پاکستان اور بھارت کے درميان تعلقات کی تاريخ ديکھيں تو ايسے ادوار بھی گزرے ہيں جب دونوں ممالک کے درميان جنگوں ميں ہزاروں فوجی مارے گئے اور پھر ايسی خارجہ پاليسياں بھی بنيں کہ دونوں ممالک کے درميان دوستی اور امن کی بنياد پر ٹرينيں اور بسيں بھی چليں۔

حقيقت يہ ہے کہ عالمی سياست کے تيزی سے بدلتے حالات کے تناظر ميں دنيا کا کوئ ملک يہ دعوی نہيں کر سکتا کہ اس کی خارجہ پاليسی ہميشہ يکساں رہے گی اور اس ميں تبديلی کی گنجائش نہيں ہے۔

کسی بھی حکومت کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ ايسی خارجہ پاليسی بنائے جو سب کو مطمئن بھی کر سکے اور حقيقت کا تدارک کرتے ہوئے سو فيصد صحيح بھی ثابت ہو۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

Ukashah

محفلین
موجودہ امريکی صدر بش وہ پہلے امريکی صدر ہيں جنھوں نے ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام اور1967 سے جاری اسرائيلی تسلط کے خاتمے کے موقف کو سرکاری سطح پر تسليم کر کے اسے امريکی خارجہ پاليسی کا حصہ بنايا ہے اور اس حوالے سے عملی کوششيں بھی شروع کر دی ہيں۔ ان کوششوں کو امريکی سياسی منظرنامے پر عمومی طور پر يکساں حمايت حاصل ہے۔
جب بھی امریکی وزیر خارجہ اسرائیل کا دورا کرتی ہیں فورا ہی اسرائیل "غزہ " پر حملہ کر کے بتا دیتا ہے کہ دوستی کتنی مضبوط ہے ۔ اب یہ نہ کہنا کہ ایسا نہیں ہوتا ۔
باسم
اور جب یہ عیاری، چالاکی ناکام ہوگئ تو لگے سعودی عرب کی منتیں کرنے
بلکل صحیح ۔ اس لیے کہ موسم سرما شروع ہونے کو ہے دوسرا امریکہ میں بھی کچھ حالات اچھے نہیں ۔ اس لیے مستقبل میں پھر کوئی بہانہ بنا کر پھر کاروائی شروع ہو جائے گی ۔
ًًَ
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

فواد صاحب کی ہمت کو واقع سلام کرنے کو جی چاہتا .............بس اپنا طنبورہ بجائے جاتے ہیں....جو بات ہضم نہ ہو کسی کی اس کے خلاف کسی بھی ویب کا لنک پوسٹ کر دیتے ہٰن.............حضرت اس طرح تو ہم بھی امریکیوں کے خلاف ویب لنکز کے پہاڑ کھڑے کر سکتے ہیں کہ جنہیں دیکھ آپ ایک مرتبہ ایسے :eek: ہو جائیں گے..........لیکن مانے گے آپ پھر بھی نہیں.........(


آپ نے ايک اہم ايشو کی طرف اشارہ کيا ہے۔ ذاتی طور پر ميرے ليے يہ بہت سہل ہے کہ فورمز پر کيے جانے والے تمام سوالات کے جواب حکومتی دستاويز يا سرکاری بيانات کے ذريعے دوں، ليکن سوال يہ ہے کہ کيا اردو فورمز پر دوست احباب ان حقائق کو تسليم کريں گے خاص طور پر جبکہ عمومی تاثر يہ ہے کہ ہر ايشو کو "امريکی پراپيگنڈہ" يا "امريکی سازش" قرار ديا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ ميں سرکاری دستاويزات اور امريکی حکومتی عہديداروں کے بيانات کے علاوہ بعض اوقات مختلف نجی اور غير جانب دار تنظيموں کے ويب لنکس بھی اپنی پوسٹس ميں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہوں تا کہ ايک متوازن تجزيہ کیا جا سکے۔

ليکن انٹرنيٹ پر موجود بے شمار "سازشی مواد" کے مقابلے ميں جو ويب لنکس ميں پيش کرتا ہوں اس ميں ايک واضح فرق ہے۔

مثال کے طور پر جب 911 کے حوالے سے فورمز پر دوست مجھ سے بے شمار ويڈیوز، کتابوں اور آرٹيکل کے حوالہ جات دے کر سوال کرتے ہيں تو ميرے ليے يہ بہت سہل ہے کہ ميں ان کو اس حکومتی کميشن کی رپورٹ کا حوالہ دوں جس ميں 911 کے حوالے سے قريب تمام سوالات کے جواب تحقيق کی روشنی ميں ديے گئے ہيں۔ ليکن ايسا کرنے کی صورت ميں بحث کا محور اصل موضوع سے ہٹ کر حکومتی کميشن کی شا‏ئع کردہ رپورٹ کی جانب دار يا غير جانب دار حیثيت بن جاتا ہے۔ اسی ليے 911 کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ميری يہ کوشش رہی ہے کہ ان اداروں اور افراد کی تحقيق کی روشنی ميں جواب دوں جن کا امريکی حکومت سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ ليکن ميں کسی بھی ادارے يا فرد کی ماہرانہ رائے کا حوالہ دينے سے پہلے متعلقہ شعبے کے حوالے سے ان کی وابستگی اور علمی کوائف کا حوالہ بھی ديتا ہوں۔ کيا 911 کے حوالے سے جن لوگوں کی ويڈيوز کو "ثبوت" کے طور پر پيش کيا جاتا ہے، ان کی علمی قابليت اور متعلقہ شعبے کے حوالے سے انکی مہارت کے بارے ميں بھی کوئ حوالہ ديا جاتا ہے؟

کجھ معاملات ايسے ہوتے ہيں جن کی وضاحت کے ليے سرکاری دستاويز ہی بہترين طريقہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ ہفتے قبل ايک پاکستانی اخبار نے يہ خبر شائع کی تھی کہ امريکی حکومت نے يہ تسليم کر ليا ہے کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کا بيٹا امريکی تحويل ميں ہے۔ اس خبر کی بنياد ايک خط تھا جو امريکی اٹارنی جرنل کی جانب سے ڈاکٹر عافيہ صدیقی کے گھر والوں کو بيجھا گيا تھا۔ اس خبر کے حوالے سے جواب دينے کے ليے ميں کسی اہم سرکاری اہلکار کا بيان يا کسی اخبار ميں شائع کردہ ترديدی بيان بھی استعمال کر سکتا تھا ليکن ميرے نزديک بہترين طريقہ يہی تھا کہ اس خط کی کاپی حاصل کر کے اس خبر کے حوالے سے بات کی جائے جس کے متن سے يہ حقيقت واضح تھی کہ اخبار کا دعوی بالکل بے بنياد تھا۔

اسی طرح جب ميں نے فورم پر يہ بات کہی تھی کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کو جولائ 17 کو افغانستان ميں گرفتار کيا گيا تھا تو ميں يہ بات سرکاری دستاويز سے ثابت کر سکتا تھا ليکن ميں نے تين مختلف خبر رساں ايجنسيوں کے حوالے ديے جنھوں نے اسی تاريخ کو اس واقعے کو رپورٹ کيا تھا۔

اہم نقطہ يہ ہے کہ ميں انٹرنيٹ پر موجود مواد کو بے بنياد الزامات، سازشوں اور افواہوں کی تشہير کے ليے نہيں استعمال کرتا بلکہ مخصوص شعبوں سے وابستہ افراد کی تحقيق اور علم کی روشنی ميں دی جانے والی رائے کو ان حقائق کے حوالے سے پيش کرتا ہوں جن کی تصديق سرکاری ذرائع اور دستاويزات سے بھی کی جا سکتی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کیوں آپ اب بھی عراق اور افغانستان سے انخلا نہیں کر لیتے کیا

جہاں تک آپ کا يہ کہنا ہے کہ امريکی افواج کو عراق سے فوری طور پر نکل جانا چاہيےتو اس حوالے سے يہ بتا دوں کہ امريکی حکام بھی يہی چاہتے ہيں کہ جلد از جلد فوجيوں کو واپس بلايا جائے ليکن آپ کچھ زمينی حقائق نظرانداز کر رہے ہيں۔

اس وقت امريکی افواج عراق ميں منتخب عراقی حکومت کے ايما پر موجود ہيں اور عراقی افواج کی فوجی تربيت کے ذريعے اس بات کو يقينی بنا رہی ہيں کہ عراق سے امريکی افواج کے انخلا کے بعد سيکيورٹی کے حوالے سے پيدا ہونے والے خلا کو پر کيا جا سکے۔ بہت سے فوجی ماہرين نے اس خدشے کا اظہار کيا ہے کہ اگر امريکی افواج کو فوری طور پر عراق سے واپس بلا ليا گيا تو پر تشدد کاروائيوں پر قابو پانا ممکن نہيں رہے گا اور خطے ميں امن کا قيام محض ايک خواب بن کر رہ جائے گا۔

اب تک عراق ميں 4 ہزارامريکی فوجی ہلاک ہو چکے ہيں۔ امريکہ عراق سے جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے ليکن اس کے ليے ضروری ہے کہ عراقی حکومت اس قابل ہو جائے کہ امريکی افواج کے انخلا سے پيدا ہونے والے سيکيورٹی کے خلا کو پورا کر سکے بصورت ديگر وہاں پر متحرک انتہا پسند تنظيميں جوکہ اس وقت بھی روزانہ عام عراقيوں کو قتل کر رہی ہيں، مزيد مضبوط ہو جائيں گی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

آبی ٹوکول

محفلین
اس وقت امريکی افواج عراق ميں منتخب عراقی حکومت کے ايما پر موجود ہيں

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
ایک تو مجھے اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آتی کہ آخر امریکیوں کو ساری دنیا میں دوسروں کا ایماء کیوں اس قدر عزیر تر ہے کہ جدھر کسی کا ایماء دیکھا جھٹ سے ادھر کا رخ کیا ۔ ۔۔ کیا امریکیوں کا اپنا کوئی ایماء نہیں ۔ ۔ ؟ یا پھر اگر ہے تو اتنا بھیانک ہے ہمیشہ اس کو دوسروں کہ ایماء کی آڑ میں رکھتے ہیں
 

جوش

محفلین
ایک تو مجھے اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آتی کہ آخر امریکیوں کو ساری دنیا میں دوسروں کا ایماء کیوں اس قدر عزیر تر ہے کہ جدھر کسی کا ایماء دیکھا جھٹ سے ادھر کا رخ کیا ۔ ۔۔ کیا امریکیوں کا اپنا کوئی ایماء نہیں ۔ ۔ ؟ یا پھر اگر ہے تو اتنا بھیانک ہے ہمیشہ اس کو دوسروں کہ ایماء کی آڑ میں رکھتے ہیں

امریکی ذھنیت ایک کاو بواے زھنیت ہے، جو کہ صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔
 

طالوت

محفلین
کاؤ بوائے ذہنیت کو طاقت کی زبان سے سمجھانا بھی ممکن نہیں ۔۔ اسلیے آپ نے دیکھا ہو گا (فلموں میں) کہ اکثر کاؤ بوائے جان دے دیتے ہیں مگر اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹتے ۔۔۔
وسلام
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ایک تو مجھے اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آتی کہ آخر امریکیوں کو ساری دنیا میں دوسروں کا ایماء کیوں اس قدر عزیر تر ہے


ميں آپ کی توجہ عراقی کابينہ کے ايک حاليہ فيصلے کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں جس ميں امريکی افواج کو سال 2011 کے آخر تک عراق ميں رہنے کی سفارش کی گئ ہے۔

http://www.cnn.com/2008/WORLD/meast/11/17/iraq.security/index.html

يہ سفارش ايک خودمختار حکومت ميں عوام کے منتخب کردہ نمايندوں کی جانب سے کی گئ ہے جو عراق ميں سيکورٹی کے حوالے سے درپيش چيلنجز اور زمينی حقائق کو اچھی طرح سے سمجھتے ہيں۔

اردو فورمز پر ايک مفروضہ جو ميں اکثر پڑھتا ہوں وہ يہ ہے کہ امريکہ 80 کی دہائ ميں افغانستان ميں جنگ کے بعد القائدہ اور طالبان جيسے "عفريت" کی تخليق کا سبب بنا کيونکہ جنگ ميں روس کی شکست کے بعد امريکہ نے علاقے کی تعمير وترقی اور سيکورٹی کی بحالی کے ليے کوئ کردار ادا نہيں کيا۔ اس بات سے قطعی نظر کہ يہ مفروضہ کس حد تک درست ہے، يہ منطق عراق کی موجودہ صورت حال کے ضمن ميں يکسر نظرانداز کر دی جاتی ہے اور ساری بحث کا محور يہی نقطہ ہوتا ہے کہ اگر امريکہ عراق سے اپنی افواج فوری طور پر واپس بلوا لے تو سارے علاقے ميں امن کا قيام يقينی ہو جائے گا۔

يہ ايک حقیقت ہے کہ عراق ميں اس وقت جو دہشت گرد گروہ متحرک ہيں ان کی کاروائيوں کا محور امريکی افواج نہيں بلکہ عراقی عوام ہيں جس کا واحد مقصد دہشت اور بربريت کے ذريعے اپنے سياسی اثرورسوخ ميں اضافہ کرنا ہے۔ امريکی افواج کے فوری انخلا کے نتيجے ميں عراق حکومت کے محدود دفاعی وسائل کے سبب اگر يہ دہشت گرد گروہ اپنی کاروائيوں کا دائرہ کار بڑھانے ميں کامياب ہو جاتے ہيں تو اس کے کيا نتائج نکليں گے؟ جب معاشرے کا ايک گروہ تشدد کے ذريعے اکثريت پر اپنے مخصوص نظام کے نفاظ کے ليے اثر ورسوخ بڑھائے گا تو دفاعی طور پر ايک کمزور حکومت اور ايک نوزائيدہ جمہوری نظام پر اس کے کيا اثرات مرتب ہوں گے؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 
فواد میں آپ کی توجہ ان بہت سارے شواہد میں سے صرف دو پر دلانا چاہوں گا جس سے عراق وار میں صدر بش کی نا اہلی بددیانتی اور گھٹا پن ظاہر ہوتا ہے ان میں سے پہلا لنک سی آئی اے کے سابق سربراہ جارج ٹنٹ اور دوسرا سابق امریکی نائب صدر الگور کے بیانات اور اقتباسات پر مبنی ہے یہ دونوں انتہائی سینئر امریکی عہدے دار رپ چکے ہیں امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں سرکاری موقف بیان کریں گئے۔
http://www.msnbc.msn.com/id/18351287/
http://www.ontheissues.org/Archive/Speech_on_Iraq_Al_Gore.htm
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

فواد میں آپ کی توجہ ان بہت سارے شواہد میں سے صرف دو پر دلانا چاہوں گا جس سے عراق وار میں صدر بش کی نا اہلی بددیانتی اور گھٹا پن ظاہر ہوتا ہے ان میں سے پہلا لنک سی آئی اے کے سابق سربراہ جارج ٹنٹ اور دوسرا سابق امریکی نائب صدر الگور کے بیانات اور اقتباسات پر مبنی ہے یہ دونوں انتہائی سینئر امریکی عہدے دار رپ چکے ہیں امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں سرکاری موقف بیان کریں گئے۔
http://www.msnbc.msn.com/id/18351287/
http://www.ontheissues.org/Archive/Speech_on_Iraq_Al_Gore.htm


کچھ لوگوں کے ليے شايد يہ بات حيرت کا باعث ہو گی مگر يہ بات ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں بتا رہا ہوں کہ امريکی حکومتی حلقے خود کو "عالمی تھانيدار" نہيں سمجھتے اور ديگر امور کی طرح خارجہ پاليسی پر بھی ہر سطح پر بحث اور نقطہ چينی کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس بحث کے دوران شديد اختلافات بھی سامنے آتے ہيں اورمتضاد رائے دہی کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ ليکن اہم بات يہ ہے کہ تمام تر فيصلے جمہوری نظام کے تحت اکثريت کی حمايت کے ساتھ کيے جاتے ہيں۔ آپ نے سابقہ اہم حکومتی اہلکاروں کے بيانات کے حوالے سے جن ويب لنکس کا ذکر کيا ہے، وہ کوئ غير معمولی يا غير روايتی امر نہيں ہے۔ امريکہ کی ہر حکومت ميں ايسے بہت سے عہديدار موجود ہوتے ہيں جو حکومت کے دوران اور اس کے بعد بھی بہت سی پاليسيوں اور فيصلوں سے اختلاف رکھتے ہيں۔ ان اختلافات کا ذکر وہ مختلف فورمز، اخباری آرٹيکلز يا کتابی شکل ميں عوام کے سامنے پيش کرتے رہتے ہيں۔ ليکن سب سے اہم بات يہ ہے کہ يہ عہديدار بحرحال مجموعی طور پر حکومتی سسٹم پر يقين رکھتے ہيں اسی ليے وہ حکومتی مشينری کا حصہ بن کر اپنا کردار ادا کرتے ہيں۔ يہ درست ہے کہ وہ بعض فيصلوں کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہيں ليکن يہ امريکی حکومت کے جمہوری نظام کی روايات کے عين مطابق ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 
کچھ لوگوں کے ليے شايد يہ بات حيرت کا باعث ہو گی مگر يہ بات ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں بتا رہا ہوں کہ امريکی حکومتی حلقے خود کو "عالمی تھانيدار" نہيں سمجھتے اور ديگر امور کی طرح خارجہ پاليسی پر بھی ہر سطح پر بحث اور نقطہ چينی کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس بحث کے دوران شديد اختلافات بھی سامنے آتے ہيں اورمتضاد رائے دہی کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ ليکن اہم بات يہ ہے کہ تمام تر فيصلے جمہوری نظام کے تحت اکثريت کی حمايت کے ساتھ کيے جاتے ہيں۔ آپ نے سابقہ اہم حکومتی اہلکاروں کے بيانات کے حوالے سے جن ويب لنکس کا ذکر کيا ہے، وہ کوئ غير معمولی يا غير روايتی امر نہيں ہے۔ امريکہ کی ہر حکومت ميں ايسے بہت سے عہديدار موجود ہوتے ہيں جو حکومت کے دوران اور اس کے بعد بھی بہت سی پاليسيوں اور فيصلوں سے اختلاف رکھتے ہيں۔ ان اختلافات کا ذکر وہ مختلف فورمز، اخباری آرٹيکلز يا کتابی شکل ميں عوام کے سامنے پيش کرتے رہتے ہيں۔ ليکن سب سے اہم بات يہ ہے کہ يہ عہديدار بحرحال مجموعی طور پر حکومتی سسٹم پر يقين رکھتے ہيں اسی ليے وہ حکومتی مشينری کا حصہ بن کر اپنا کردار ادا کرتے ہيں۔ يہ درست ہے کہ وہ بعض فيصلوں کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہيں ليکن يہ امريکی حکومت کے جمہوری نظام کی روايات کے عين مطابق ہے۔
اس وقت دنیا جس رخ اور نہج پر جارہی ہے اس کو سمجھنے کے لیے اب کسی تفسیر اور تشریح کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ یہ بحث کہ اس صور حال کے ذمہ دار القاعدہ ہے طالبان ہیں یا امریکا بہت حد تک غیر ضروری یا مجھے کہنے دیجئے باکل بے کار ہو چکی ہے۔ بات اب محض میڈیا وار سے کہیں آگے کی ہے یہ اب ممکن نہیں رہا جو کچھ عراق ، افغانستان اور پاکستان میں‌ایک بڑی تباہی کی صورت میں ہو رہا ہے اس کو میڈیا کے پر پیگنڈے ، خریدے ہوئے مبصرین ، ڈیجیٹل آوٹ ریچ ٹیم، انٹرینیٹ، مقامی کرپٹ سیاستدانوں کے ذریے چھپایا، بدلا، یا مسخ کیا جا سکے۔ دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی حقائق کا ادراک کر ہی ہے اور باوجود اس کے کہ دنیا کی ایک بڑی قوت کی ساری مشنری اپنےکرتوتوں کو اپنی اخلاقی بالا دستی اور حق و صداقت پر مبنی قرار دے رہی ہے۔

اوپر جو پوسٹ میں کی تھی اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ میں کوئی بڑا انکشاف آپ کے سامنے کر رہا ہوں اور یہ کہ آپ ان چیزوں سے بے خبر ہیں یا یہ کہ جارج اور الگور وغیرہ آپ کہ اس سسٹم سے الگ ہٹ کر کوئی بہت مخالف چیز ہیں بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کتنے درست ، قانونی اور ار اس دنیا کے امن و امان ، سلامتی بہتری اور بقا کے لیے کتنے ضروری تھے اب یہاں دو باتیں ہیں پہلی بات یہ کہ حملے مضبوط شواہد کے بعدان لوگوں کے خلاف کیے گئےجو اس دنیا کے امن و امان کے لیے خطرہ تھے یہ حملے ان کے خلاف ایک کاروائی تھی اور ان حملوں سے ہماری یہ دنیا پہلے سے زیادہ بہتر ہوئی ، محفوظ ہوئی اور یہاں امن و امان قائم ہوا معصوم لوگوں کی جان و مال محفوظ ہوئے دوسری بات اس کے باکل بر خلاف ہے اور یہ بات کچھ یوں ہے کہ یہ حملے جلد بازی میں حقائق کے برخلاف، کچھ خاص وجوہا ت کے تحت ایک بڑی قوت کے ایک جلد باز ، متعصب سربراہ اور اس کی انتظامیہ کی مرضی کا شاخسانہ تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہو گئے یہ حملے دنیا کے رہنے والوں کی ایک بڑی تعدا کی مرضی کے بغیر کئے گئے خصوصا عراق افغانستان اور پاکستان ان حمولں کے نتیجے میں جہنم بن گئے ان ممالک کے رہنے والوں پر عرصہ حیات تنگ ہو گیا معصوم لوگوں کی ایک بڑی تعداد ماری گئی اور ہر طرف انارکی پھیل گئی۔

ایک بات اور یہ دو لنک میں نے آپ کو دئے تھے اس میں الگور اور ٹنیٹ نے محض بش پر تنقید نہیں کی کی بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ حملے غیر ضروری تھے اور صدر بش کو ہر گز یہ حملے نہیں کرنے چاہیے تھے ۔ ٹنیٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ سی آئی اے نے بش کو بتا یا تا تھا کہ ان حملوں کے نتیجے میں نہ صرف عراق کی حالت خراب ہو گی بلکہ دنیا میں امریکہ کے خلاف تشدد کو مزید ہوا ملے گی
in September 2002, The Cia Contributed A Section To A Briefing Book For Policy-makers. It Included A Cia Paper Outlining Plans For Dealing With The “negative Consequences” Of Invading Iraq.

The Paper Laid Out A Series Of Worst-case Scenarios

Anarchy And The Territorial Breakup Of Iraq.
Region-threatening Instability In Key Arab States.
A Surge Of Global Terrorism Against U.s. Interests Fueled By Militant Islamism.
Disruption Of Major Oil Supplies And Severe Strains On The Atlantic Alliance.
Later, In January 2003, Two Months Before The War, The Cia Produced Another Paper With Detailed Warnings That, In Hindsight, Were Eerily Accurate.

It Forecast Violent Conflict Among Domestic Groups And Formation Of An Alliance Of Former Members Of Saddam’s Regime Who Would Be Able To Fight A Deadly Guerrilla War. It Predicted That Islamist Extremists Would Gain Traction Among The Population. And It Warned That Anti-u.s. Sentiment Would Fuel Militants’ Popularity And Deadliness
.
اب چاہے آپ کتنے ہی اپنے ملک کے سسٹم کی تعریف کریں اپنی جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹیں آپ کی مرضی ہے مگر بات آپ کے ملک کی نہیں ہے بلکہ امریکی انتظامیہ نے ایک بڑی رائے عامہ کے خلاف یہ حمے کیے اور انہیں کسی طرح جائز قرا نہیں دیا جا سکتا یہ آپ اپنے ملک کی قسمت کا فیصلہ نہیں کر رہے کہ اس طرح کی مخالف رائے کو آپ محض ایک جمہوری ڈبیٹ قرا دے دیں نہیں بلکہ دوسرے ممالک کے عوام کی جانوں‌کا فیصلہ کر رہے تھے آپ کے اپے اہم اہلکار ہی نہیں بلکہ ایک دنیا آپ کی مخالفت کر رہی تھی ایسے میں آپ کیسے ان حملوں کو درست قرار دے سکتے ہیں؟

اب ان حمنلوں کے خلاف نہ صرف پوری دنیا ہی نہیں بلکہ امریکی سی آئی اے بھی تھی پھر بھی بش اور اس کے حامی یہ حملے کرتے ہیں سابق ناب صرد الگور ہی نہیں بلکہ اوباما بھی عراق سے فوجوں کے انخلا کی بات کر رہا ہے کیونکہ وہ بھی عراق وار کو درست نہیں سمجھ رہا اب آپ بتائیے کیا صدر بش نے امریکا کو عالمی تھانیدار نہیں بنا دیا کہ ساری دنیا اقوام متحدہ کے برخلاف وہ یہ جنگیں لڑ رہا ہے دنیا کو مصیبت میں ڈال رہا ہے؟
امریکا نے جو نفرت اور جنگ کا جو بیچ اکیسویں صدی کے آغاز میں‌ بویا ہے اب یہی ایک تن آور درخت بنے گا اسی بیچ سے ایسی امر بیلیں پھوٹے گیں جو امریکی خوشحالی امن و سلامتی اور عالمی تھانیداری کا خاتمہ کر دیں گئی۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امریکی انتظامیہ نے ایک بڑی رائے عامہ کے خلاف یہ حمے کیے اور انہیں کسی طرح جائز قرا نہیں دیا جا سکتا


امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک جنگ کی خواہش نہيں رکھتا۔ اس انتہائ نقطے پر پہنچنے سے پہلے تمام ممکنہ متبادل سياسی اور سفارتی امکانات اور آپشنز کو استعمال کيا جاتا ہے۔ ان تمام کوششوں ميں ناکامی کے بعد ہی اجتماعی سطح پر جنگ کا فيصلہ کيا جاتا ہے۔ يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ حالات چاہے جيسے بھی ہوں، جنگ کی ايک بھاری سياسی قيمت بھی ہوتی ہے جو برسراقتدار حکومت کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ معاشی مشکلات اور بے گناہ افراد کی ہلاکت بھی جنگ کی ايسی حقيقتيں ہيں جن سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔

يہ تمام عوامل اس بحث اور حکمت عملی کا حصہ ہوتے ہیں جن پر جنگ کے حتمی فيصلے سے قبل سب کو اعتماد ميں لیا جاتا ہے۔ ليکن اس سارے عمل کے باوجود ملک اور قوم کے دفاع کو درپيش واضح خطرات کو نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔ جب کچھ تجزيہ نگار 911 کے بعد امريکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو غير منطقی اور انتہائ جذباتی ردعمل قرار ديتے ہيں تو وہ ان حقائق اور خطرات کو نظرانداز کر ديتے ہيں جن کا سامنا امريکی حکومت کو اس حادثے کے فوری بعد تھا۔ اس وقت حقائق کچھ يوں تھے۔

القائدہ کی جانب سے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کے اعلان کے بعد قريب 10 سال کے عرصے ميں دنيا بھر ميں امريکی املاک پر حملے کرنے کے بعد يہ تنظيم اتنی فعال اور منظم ہو چکی تھی کہ امريکہ کے اہم شہروں سميت اس کے عسکری مرکز پينٹاگان پر براہراست حملہ کيا گيا۔

اس واقعے کے بعد امريکہ سميت دنيا کے کئ ممالک ميں القائدہ کی جانب سے مزيد ايسی ہی کاروائياں کرنے کی يقين دہانی بھی ريکارڈ پر موجود ہے۔

حکومت پاکستان کے ذريعے امريکہ نے طالبان کے ساتھ 2 ماہ تک مذاکرات کيے جن کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور افغانستان ميں اس تنظيم کو تحفظ فراہم نہ کرانے کی يقين دہانی حاصل کرنا تھا۔ ليکن طالبان نے ان مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر ديا۔

ان حالات ميں امريکہ کے سامنے کيا متبادل راستہ باقی رہ گيا تھا؟

آپ يقينی طور پر امريکی حکومت سے يہ توقع نہيں رکھ سکتے کہ وہ ملکی سلامتی کے اہم ترين فوجی فيصلے رائے عامہ کے رجحانات اور مقبوليت کے گراف کی بنياد پر کرے۔

جب آپ 911 کے بعد امريکہ کی پاليسی کے بارے ميں رائے کا اظہار کرتے ہیں تو يہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہيے کہ اگر اس واقعے کے بعد بھی القائدہ کے خلاف کاروائ نہ کی جاتی تو اس کے کيا نتائج نکلتے۔ اگر القائدہ کی دو تہائ سے زائد ہلاک اور گرفتار ہونے والی قيادت آج بھی سرگرم عمل ہوتی تو اس تنظيم کی کاروائيوں ميں مزيد اضافہ ہوتا اور القائدہ کا يہ پيغام دہشت گردی کی صفوں ميں شامل ہونے والے نوجوانوں کے ليے مزيد حوصلہ افزائ اور تقويت کا سبب بنتا کہ دنيا کی سب سے بڑی فوجی طاقت رکھنے والے ملک اور اس کی حکومت کو بھی دہشت گردی کے ذريعے سياسی دباؤ ميں لا کر اپنے مطالبات اور مطلوبہ مقاصد حاصل کيے جا سکتے ہیں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 
Top