طارق شاہ
محفلین
وہ خوابِ دل نشیں مِرے ، جو مُنتشر ہُوئے
حسرت میں ڈھل کے پھر سے تِرے مُنتظر ہُوئے
راہِ خیال و فکر میں جو ساتھ ساتھ تھے
کب راہِ زندگی میں مِرے ہم سفر ہُوئے
دل کے مُعاملے وہ دِلوں تک ہی کب رہے
برکت سے رازداں کی سبھی مُشتہر ہوئے
بڑھ کر بلآخر ایک سے غم قافلہ بنا
رنج والم تھے جتنے سبھی ہمسفر ہُوئے
پُوچھو نہ تیرے ہجرمیں کاٹے ہیں کیسے سب !
کوہِ گراں سے مجھ پہ وہ شام وسحر ہُوئے
اپنے ہیں، دل میں پیار بھی رکھتے ضرورہیں
نالے مِرے اب ان پہ مگر بے اثر ہُوئے
جائیں سُنانے کِس کو اب اشعار ہم خلش
ناپَید اب نظر سے سب اہل نظر ہُوئے
شفیق خلش
حسرت میں ڈھل کے پھر سے تِرے مُنتظر ہُوئے
راہِ خیال و فکر میں جو ساتھ ساتھ تھے
کب راہِ زندگی میں مِرے ہم سفر ہُوئے
دل کے مُعاملے وہ دِلوں تک ہی کب رہے
برکت سے رازداں کی سبھی مُشتہر ہوئے
بڑھ کر بلآخر ایک سے غم قافلہ بنا
رنج والم تھے جتنے سبھی ہمسفر ہُوئے
پُوچھو نہ تیرے ہجرمیں کاٹے ہیں کیسے سب !
کوہِ گراں سے مجھ پہ وہ شام وسحر ہُوئے
اپنے ہیں، دل میں پیار بھی رکھتے ضرورہیں
نالے مِرے اب ان پہ مگر بے اثر ہُوئے
جائیں سُنانے کِس کو اب اشعار ہم خلش
ناپَید اب نظر سے سب اہل نظر ہُوئے
شفیق خلش
آخری تدوین: